اجرتوں میں10پنشن میں7فیصد اضافہ:تنخواہ داروں کیلئے ٹیکس ریلیف،پٹرول،دودھ،سولر پینلز مہنگے،ادویات،درآمدی مشروبات سستے
اسلام آباد (رپورٹنگ ٹیم )قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2025-26ء کا 17 ہزار 573 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔
ایف بی آر کے ٹیکس محصولات کا حجم 14 ہزار 131 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے مقرر کئے جانے کی تجویز ہے ، تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کرتے ہوئے اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الائونس دینے کی تجویز ہے ۔ اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد، افراط زر کی شرح 7.5 فیصد اور بجٹ خسارہ 3.9 فیصد متوقع ہے ،قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 5 بجے طلب کیا گیا تھا، تاہم تقریباً آدھے گھنٹے تاخیر سے اجلاس شروع ہوا، وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے ۔قومی اسمبلی بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر نے بات کی اجازت کا مطالبہ کیا، اجازت نہ ملنے پر احتجاج شروع کر دیا، اپوزیشن نے ایوان میں شور شرابہ، ڈیسک بجا کر نعرے لگا کر احتجاج کیا، اپوزیشن اراکین نے ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑ دیں، اجلاس کے اختتام تک اپوزیشن اراکین نے مسلسل احتجاج، شور شرابہ جاری رکھا، مسلم لیگ ن کے اراکین نے وزیراعظم کے گرد حصار بنا دیا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا مالی سال 2025-26کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے ۔ افراط زر کی اوسط شرح 7.5 فیصد متوقع ہے ۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہوگا، ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ چودہ ہزار ایک سو اکتیس (14,131) ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال سے 18.7 فیصد زیادہ ہے ۔
وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ آٹھ ہزار دو سو چھ (8,206) ارب روپے ہوگا۔ وفاقی نان ٹیکس ریونیوکا ہدف پانچ ہزار ایک سو سینتالیس (5.147) ارب روپے مقرر کیا گیا ہے ، وفاقی حکومت کی خالص آمدنی گیارہ ہزار بہتر (11072) ارب روپے ہو گی۔وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ سترہ ہزار پانچ سو تہتر (17.573) ارب روپے ہے ، جس میں سے آٹھ ہزار دو سو سات (8,207) ارب روپے سودکی ادائیگی کے لیے مختص ہوں گے ۔ وفاقی حکومت کے جاریہ اخراجات کا تخمینہ سولہ ہزار دو سو چھیاسی (16,286) ارب روپے ہے ،وفاقی حکومت کے سرکاری ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار (1,000) ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ ملکی دفاع حکومت کی اہم ترین ترجیح ہے اور اس قومی فرض کے لیے دو ہزار پانچ سو پچاس (2,550) ارب روپے فراہم کیے جائیں گے ۔ سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے نو سو اکہتر (971) ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار پچپن (1,055) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار ایک سو چھیاسی (1,186) ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے ،گرانٹس کی مد میں ایک ہزار نو سو اٹھائیس (1,928) ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں جو بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بے ضم شدہ اضلاع وغیرہ کے لیے ہیں۔ جاریہ اخراجات سے آزاد جموں وکشمیر کے لیے 140 ارب روپے ، گلگت بلتستان کے لیے 80 ارب روپے ، خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 80 ارب روپے اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت پاکستان زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہے ،شعبہ کی ترقی کے لیے مستعدی کے ساتھ کئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں سرسبز پاکستان اقدام شامل ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے طریقوں اور قابل کاشت زمین کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ دیگر اہم اقدامات میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے ، پیداوار کے فرق کو پورا کرنے ، فصلوں میں تنوع لانے اور کسانوں کی منڈیوں تک رسائی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ حکومت کی جانب سے صلاحیت سازی، جینیٹک امپرومنٹ اورپوسٹ ہارویسٹ پرتوجہ دی جاری ہے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ چین میں 1,000 زرعی گریجوئیٹس کی صلاحیت سازی کے لیے وزیر اعظم کے اقدام کے تحت مختلف صوبوں اور خطوں سے نوجوان پاکستانی زرعی گریجویٹس کو ایک مکمل فنڈڈ تربیتی پروگرام کے تحت چین بھیجا جا رہا ہے ۔
اس پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں 300 زرعی گریجوائیس کا بیچ جا چکا ہے اور مزید 300 زرعی گریجویٹس اس مہینے کے آخر تک چین پہنچ جائیں گے جہاں انہیں جدیدہنر اور بین الاقوامی آگاہی ملے گی اور ان کی صلاحیتوں کو زرعی شعبے کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تربیتی پروگراموں کے علاوہ مالی سال 2025ـ26 میں، کپاس اور لائیوسٹاک کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ، دس جاری سکیموں کو جاری رکھنے اور پانچ نئے منصوبے شروع کرنے کیلئے 4 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ سب سے اہم شعبوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہی شعبہ تربیت یافتہ انسانی وسائل فراہم کرتا ہے جو عمومی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے علاوہ ملکی صنعت کی برآمدات میں اضافہ کے لیے بھی اہم ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کی مد میں ایچ ای سی کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان میں 38.5 ارب روپے جاری منصوبوں کے لیے ہیں۔ ان وسائل سے جاری سکیموں کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم کی سکیم کے تحت جسمانی مسائل سے دو چار نوجوانوں کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے الیکٹرک وہیل چیئرز، خصوصی لیپ ٹاپس اور آڈیو ویژول ایڈز فراہم کی جائیں گی۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ علم پرمبنی اقتصادی نمو کو فروغ دیتے ہوئے اختراع، مسابقت اور انسانی وسائل کی ترقی کو بڑھانا ہے ۔ یہ تمام مقاصد اڑان پاکستان اور نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان کے ای۔ پاکستان کے بنیادی عناصرمیں شامل ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی کے لیے مالی سال 26ـ2025 میں 31 جاری اسکیموں کے لیے 4.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پی وی ماڈیولز کے لیے پاک۔ کوریا ٹیسٹنگ فسیلٹی کے قیام، سیمی کنڈکٹر چپ ڈیزائن فیسلیٹیشن سینٹر کی اپ گریڈیشن اور پرنٹڈڈ سرکٹ بورڈ کے لیے بائیوٹیک ڈیراویڈ بائیوپراڈکٹ ہاوسز کے قیام جیسی اہم جاری سکیموں کو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔وزیرخزانہ نے کہاکہ تعلیم قومی ترقی کا سنگ بنیاد ہے اور حکومت آئین اوراڑان پاکستان پاکستان ایجوکیشن فریم ورک کے مطابق معیاری تعلیمی نظام کے قیام کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم میں مصمم ہے ۔ ملک کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ، جن میں 26 ملین سکول سے باہر بچے ، تعلیم تک رسائی، مساوات، گورننس اور تعلیمی معیار جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنا انتہائی اہم ہے اور اس سال کے حکومتی اقدامات ان گیپکو پُر کرنے کی ایک جامع حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔وزیرخزانہ نے کہاکہ وزیر اعظم کی ہدایت پر پسما دہ علاقوں کے ہونہار طلباء کے لیے دا نش سکولوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔
گیارہ نئے دانش سکولوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس میں تین آزاد جموں و کشمیر میں، تین گلگت بلتستا ن، چار بلوچستان اور ایک اسلام آباد میں وفاقی پی ایس ڈی پی 26ـ2025 کے تحت قائم کر ے کے لیے کل 9.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے کم وسائل رکھنے والے والے طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے دا نش یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کا اعلان کیا ہے ، جو دا نش سکول منصوبہ کا تسلسل ہے ۔ یہ یونیورسٹی دور دراز اور پسما ندہ علاقوں کے طلبہ کو خصوصاً ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، انجینئرنگ، تعلیم، صحت اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں بین الاقوامی معیار کی بلا معاوضہ اعلیٰ تعلیم فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم پر مرکوز اضافی منصوبوں میں میں ارلی چائلڈ ہوڈایجوکیشن کے مراکز، کمپیوٹر لیبز اورنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایکسی لینس کا قیام شامل ہے ۔ ان کا مقصد تعلیم تک رسائی کو بہتربنانا، بچوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح کو کم کر نا، اور مجموعی تعلیمی معیار کو بڑھا ناہے ۔ ان کاوشوں کے لیے وفاقی پی ایس ڈی پی میں مجموعی طور پر 18.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔سندھ میں 2022 کے سیلاب سے متاثرہ موجودہ سکولوں کی تعمیر / تعمیر نو کے لیے وزیر اعظم کے پروگرام کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں ففٹی ففٹی کی بنیادپر وفاقی حکومت کی مسلسل حمایت کی عکاسی ہورہی ہے ، اس کے تحت 1.800 اسکول یونٹس کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
مزید برآں وزیر اعظم یوتھ سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 4.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت 161,500 نوجوانوں کو کوسکلزٹریننگ فراہم کی جائے گی، جس میں 56,000 کو آئی ٹی، 64,000 کو صنعتی شعبہ جات اور 49,000 کو روایتی شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ ان میں سے 2,500 نوجوانوں کا تعلق فاٹا کے ضم شدہ اضلاع سے ہوگا۔ شہری سندھ کے علاقوں میں آٹھ نئے آئی ٹی تربیتی مراکز قائم کیے جائیں گے تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آئی ٹی گریجوئیٹس کے روزگارکے مواقع کو بہتربنایا جاسکے ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں وسائل کی گنجائش کو سامنے رکھ کر وفاقی حکومت کو متوازن علاقائی ترقی کو یقینی بنانے اور ترقیاتی خلاء کو دور کرنے کے لیے آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں، وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈ ی پی میں کل 164 ارب روپے مختص کیے ہیں، جن میں سے آزادکشمیر کے لیے 48 ارب روپے ، گلگت بلتستان کے لیے 48 ارب روپے اور خیبر پختو نخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 68 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگراموں اور مختلف انفرادی منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ وفاقی حکومت آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور کے پی کے ضم شدہ اضلاع کے لیے سالانہ ترقیاتی پلان کی تشکیل کے لیے بلاک ایلوکیشن فراہم کرتی ہے ۔
وفاقی حکومت نے آزاد جموں وکشمیر کے اے ڈی پی کے لیے 32 ارب روپے ، گلگت بلتستان 22 ارب روپے اور ضم شدہ اضلاع اور سابق دس سالہ فاٹاپلان کے لیے 65 ارب روپے فراہم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کے طور پر 5 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکیج کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ یہ فنڈز مالی سال 26-2025 کے دوران متعلقہ حکومتوں کی طرف سے شناخت کئے جانیوالے ترجیحی اقدامات / منصوبوں پر استعمال کیے جائیں گے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ مالی سال 26-2025 میں گورننس سیکٹر کے لیے 11.0 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ 30 جون 2024 کو ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب صرف 8.8 فیصد تھا۔ موجودہ حکومت کی کوششوں سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ، اس مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گیا ہے اور توقع ہے کہ جون 2025 کے آخر تک یہ مزید بڑھ کر 10.4 فیصد ہو جائے گا۔ وفاقی نان ٹیکس محصولات بھی گزشتہ سال کے 0.8 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر جی ڈی پی کا 12 فیصد ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر، وفاقی محصولات اب جی ڈی پی کا 11.6 فیصد ہیں اور اگر ہم صوبوں کے 0.7 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو شامل کریں تو رواں مالی سال کے اختتام تک قومی ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 12.3 فیصد ہو جائے گا۔
ایف بی آر کے ٹیکسوں میں ایک سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں 1.6 فیصد تک کا اضافہ نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بے مثال ہے بلکہ حالیہ تاریخ میں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی بہت کم دیکھا گیا ہے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ انکم ٹیکس میں سب سے پہلے ہم اس جگہ ریلیف دے رہے ہیں جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، وزیر اعظم کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پرٹیکسوں کے بوجھ کو کم سے کم کیا جائے ۔ اس حوالے سے تنخواہ دار لوگوں کے لیے آمدنی کے تمام سلیبس میں انکم ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں کمی کی تجویز ہے ۔ یہ ریلیف نہ صرف ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنائے گا بلکہ متوسط آمدنی والوں پر عائد ٹیکس کے بوجھ کو کم کرکے ،افراط زر اور ٹیک ہوم تنخواہ کے درمیان توازن کو یقینی بنائے گا۔ چھ لاکھ روپے سے بارہ لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 5 فیصدسے کم کر کے صرف 2.5 فیصد کر دی گئی ہے ۔ بارہ لاکھ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس کی رقم کو 30,000 سے کم کر کے 6,000 کر دینے کی تجویز ہے ۔ جو لوگ 22 لاکھ روپے تک تنخواہ لیتے ہیں ان کے لئے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ اسی طرح زیادہ تنخواہیں حاصل کرنے والوں کے لئے بھی ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز دی جارہی ہے ۔ بائیس لاکھ روپے سے بتیس لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔
یہ اقدام ٹیکسوں کو منصفانہ بنانے اور ٹیکس ادا کرنے والے تنخواہ دار افراد پر بوجھ کو کم کرنے کے حکومتی عزم کا آئینہ دار ہے ۔ حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ ملک کی بہترین پیشہ ور افرادی قوت کو اس خطے میں سب سے زیادہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ انتہائی باصلاحیت افراد ملک سے باہر منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ملک سے برین ڈرین کو روکنے کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سر چارج میں 1 فیصد کمی کی تجویز ہے ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر پر عائد ٹیکسوں کی شرح بلند سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ اس وقت کارپوریشنوں پر عائد ٹیکس کی شرح پورے خطے میں سب سے زیادہ ہے ۔ حکومت کے پختہ عزم کے تحت ہدف پرمبنی ریلیف مہیا کرنے اور ایک متوازن اور معاشی ترقی کے لئے موزوں کارپوریٹ ٹیکس رجیم متعارف کرانے کے لیے یہ تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ بیس کروڑ روپے سے پچاس کروڑ روپے تک سالانہ آمدنی حاصل کرنے والی کارپوریشنز کے لئے ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد کی کمی تجویز کی جارہی ہے ۔ یہ رعایت کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کے حکومتی ارادے کی عکاسی کرتی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ حکومت ٹیکس کے نظام میں مساوات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات متعارف کرا رہی ہے ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں کمانے والے لوگ اپنی تنخواہ اور کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں وہاں غیر فعال طریقے سے کمانے والے اور قرض پر منافع حاصل کرنے والے نسبتا کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے مساوات کو یقینی بنانے کے لیے انکم انٹرسٹ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ تاہم چھوٹے پیمانے پر بچت کرنے والے اور اس آمدنی پر انحصار کرنے والوں پر اس شرح کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ یہ شرح قومی بچت کی سکیموں پر عائد نہیں ہو گی۔ آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس کی تیزی سے ترقی کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا ہے جس سے دستاویزی کاروبار کرنے والے ری ٹیلرز کو نقصان ہو رہا ہے ای کامرس پلیٹ فارمز اور کورئیر سروس مہیا کرنے والے ، Digital طور پر منگوائی جانے والی اشیا اور خدمات پہنچانے پر ٹیکس کاٹیں گے ۔ اس اقدام سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت محصولات میں اپنا حصہ شامل کرے ۔ آن لائن مارکیٹ پلیس، کورئیر سروس اور ادائیگی میں معاونت کرنے والے اداروں پر لازم ہو گا کہ وہ ہرماہ اپنا ٹرانزیکشن ڈیٹا ور وصول کیے جانے والے ٹیکس کی رپورٹ جمع کرائیں۔ میوچل فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کی تجویز ہے ۔
اگر چہ حصص پر حاصل ہونے والے منافع کی شرح 15 فیصد رہے گی تاہم قرض کی بنیاد پر ہونے والی آمدنی پر اب 25 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تاکہ حصص کی مارکیٹ میں میوچل فنڈز میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے ۔ کاروباری برادری کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ لوگوں پر ان کے ذرائع آمدنی کے بجائے صرف آمدنی کی بنیاد پر ٹیکس عائد کیا جائے ۔ اس لئے صوبائی حکومتیں بھی زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس کی شرح پر ٹیکس وصول کر رہی ہیں اسی طرح سے 70 سال سے کم عمر وہ پنشنرز جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن وصول کر رہے ہیں ان کی ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن کی آمدنی پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے تاکہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کی جا سکے ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کم اور درمیانی پنشن وصول کرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ کیش لیس معیشت کو فروغ دینے کے لیے یہ ٹیکس اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز ہے تا کہ غیر دستاویزی نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کی جا سکے ۔
جہاں کوئی ٹیکس دہندہ کسی ایک سیل انووائس پر دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم نقد وصول کرے تو اس فروخت پر ہونے والے اخراجات کے 50 فیصد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سلسلے میں اگلے مالی سال کے دوران مزید اقدامات لیے جائیں گے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ انکم ٹیکس میں بے قاعدگیوں کے خاتمے کیلئے ضروری اصلاحات کی جا رہی ہیں، تجارتی جائیدادوں سے ہونے والی کرایہ کی آمدنی اب فیئر مارکیٹ ویلیو کے چار فیصد کی معیاری شرح کی بنیاد پر تسلیم کی جائے گی۔ اپیلوں کا طریقہ کار بھی معقول بنایا جا رہا ہے ۔ ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کیلئے انکم ٹیکس کے ساتویں شیڈول کو بہتر بنانے کی تجویز ہے ۔ توقع ہے کہ ان تبدیلیوں سے ٹیکس کا نظام منصفانہ اور مساویانہ ہو سکے گا۔ آن لائن ٹرانزیکشن اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے کی جانے والی ادائیگیوں کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے ۔ ٹیکس چوری کے خاتمے کیلئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک نیا کلاسفیکشن سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں فائلر اور نان فائلرز کا فرق ختم کیا جا سکے ، جو لوگ اپنے گوشوارے اور اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کروائیں گے صرف وہی بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے ۔
شیڈول بینکوں اور ایف بی آر کے درمیان بینکاری اور ٹیکس کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کیلئے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں، ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے اور اس کے نفاذ کو بہتر بنانے کیلئے بیرونی آڈیٹرز کی خدمات حاصل کر سکے ۔ سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولرز پینلز کے درمیان مسابقت میں برابری کو یقینی بنانے کیلئے سولر پینل کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کئے جانے کی تجویز ہے ۔ پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرنے والی اور ہائی بائیرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لانے کیلئے 18 فیصد ٹیکس سے کم شرح والی گاڑیوں پر بھی 18 فیصد عمومی سیلز ٹیکس عائد کئے جانے کی تجویز ہے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نئے ضم شدہ اضلاع کو 7 سالوں سے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ سے نجات کیلئے آئندہ پانچ سالوں کے دوران مرحلہ وار سیلز ٹیکس نافذ کئے جانے کی تجویز ہے جس کا آغاز آئندہ مالی سال کیلئے 10 فیصد کی کم شرح سے کیا جائے گا۔ زرعی شعبہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق اس سال کھاد اور کیڑے مار ادویات پر مزید ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس چوری روکنے کیلئے سخت اقدامات متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کیخلاف سخت سزائوں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے ، جن میں بینک اکائونٹ منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل کرنا اور سامان ضبط کرنا شامل ہے ۔
ان تمام اقدامات کو یقینی بنانے کیلئے تمام متعلقہ قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ویب سائٹ اور سافٹ ویئر اپیلیکیشنز کے ذریعے آرڈر کی گئی اشیاء فروخت جا رہی ہیں جن ممالک کے ساتھ دو طرفہ ٹیکس معاہدہ نہیں ہے ان غیر ملکی ونڈرز پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے ۔ اس صورتحال کے پیش نظر ٹیکس کے معاملات پر عالمی معاہدے کی فوری ضرورت ہے ، ڈیجیٹل پریزننس پروسیڈٹیکس ایکٹ 2025ء کے تحت تمام ادارے بشمول بینک، مالیاتی ادارے ،لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اور دیگر ادائیگی کے ذرائع اس بات کے پابند ہونگے کہ وہ پاکستان میں باہر سے اشیاء اور خدمات فراہم کرنے والے غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر پانچ فیصد ٹیکس وصول کریں۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہے ۔ کسٹمز اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اشیاء کی آمد سے قبل ہی کلیئرنس کو فروغ دینے ، بندرگاہوں پر کلیئرنس میں لگنے والے وقت اور مقدمات میں کمی لانے کیلئے قانونی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نہ صرف طریقہ کار کی اصلاحات کر رہے ہیں بلکہ اپنے ریاستی معاشی معاہدوں کی بنیادوں کی بھی ازسرنو تشکیل کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسا مضبوط ڈیجیٹل طور پر مربوط اور نفاذ پر مبنی ٹیکس نظام مرتب کر رہے ہیں جو قانون کی پاسداری کو فروغ دے ، ٹیکس چوری کے راستے بند کرے اور ہماری اقتصادی خود مختاری کو یقینی بنائے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات آسان نہیں بلکہ نہایت ضروری ہیں۔ ہم ایک ایسے ٹیکس نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو منصفانہ، شفاف اور پاکستان کے عوام کیلئے قابل اعتماد ہوں ہم اپنے اس مقصد میں نہایت واضح اور پرامن ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ فوسل فیول کے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی اور موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی پروگرام کیلئے مالی وسائل مہیا کرنے کیلئے یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ مالی سال 2025-26ء کیلئے پیٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کی جائے جو مالی سال 2026-27ء میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فرنس آئل پر پیٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبہ پر ناقابل برداشت گردشی قرضوں کا بوجھ ہے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 2 ہزار 393 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس گردشی قرضے پر KIBOR کے علاوہ دو فیصد سے 5.4 فیصد تک مالیاتی چارجز عائد ہوتے ہیں اور مالی سال 2025ء میں اس کی متوقع لاگت 454 ارب روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ وفاقی حکومت کا ارادہ ہے کہ موجودہ مہنگے قرضوں کی ری فنانسنگ، سستے اور شریعت کے مطابق بینک فنانسنگ کے ذریعے کی جائے ۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نیپرا ایکٹ میں ترمیم تجویز کی جا رہی ہے جس سے وفاقی حکومت کو ڈی ایس ایس پر 10 فیصد سرچارج ادا کرنے کی پابندی کو کیس ٹو کیس بنیاد پر مخصوص مدت اور مقصد کیلئے بڑھانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2 اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے حکومت پاکستان نے نئی انرجی وہیکل پالیسی تیار کی ہے تاکہ ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے ۔
بجٹ میں ریلیف اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومت نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف اقدامات کا فیصلہ کیا ہے ۔ گریڈ ایک سے 22 کے تمام ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز ہے ، معذور ملازمین کیلئے خصوصی کنوینس الائونس کو 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار ماہانہ کیا جا رہا ہے ، آئین پاکستان میں مساوی حقوق سے متعلق دی گئی شق پر عملدرآمد کرتے ہوئے تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کیا جا رہا ہے اہل ملازمین کو 30 فیصد کی شرح سے ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس دینے کی تجویز ہے ۔ وزیر خزانہ نے وزیراعظم، نائب وزیراعظم، کابینہ، حکومتی اتحادی جماعتوں اور دونوں ایوانوں کے اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مسلسل تعاون، رہنمائی اور اعتماد نے ہمیں قومی ترقی کے اس مشکل مگر ضروری سفر پر گامزن رکھا۔ خزانہ ڈویژن اور اس کے ذیلی اداروں، پلاننگ ڈویژن، وزارت قانون اور دیگر اداروں کا بھی بجٹ تیاری میں کلیدی کردار پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ محض ایک مالیاتی دستاویز نہیں بلکہ ہماری قومی ترجیحات، اجتماعی وژن اور عوام سے کئے گئے وعدوں کا آئینہ دار ہے ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں جس طرح دشمن کی جارحیت کیخلاف ہم نے یکجہتی، جرات اور قومی عزم کا مظاہرہ کیا وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے ، اسی جذبے کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے معاشی استحکام، اصلاحات اور پائیدار ترقی کی راہ اپنائی ہے ، آج پاکستان ایک نیا سفر شروع کر رہا ہے جو ہر فرد، ہر طبقے اور ہر خطے کو ترقی کے ثمرات پہنچانے کا عزم رکھتا ہے ۔ انہوں نے قومی مفاد میں مشکل فیصلوں میں حکومت کا بھرپور ساتھ دینے پر اتحادی جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ رویہ ہے جو قوموں کو مضبوط بناتا ہے اور یہی وہ اتحاد ہے جو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی منزل تک لے جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی اصلاحات صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ قومی ہم آہنگی، اتفاق رائے اور مسلسل محنت کا تقاضا کرتی ہیں۔ انہوں نے ایوان اور خاص طور پر حزب اختلاف سے گزارش کی کہ وہ اس قومی مقصد میں ہمارا ساتھ دیں اور آئیں ہم سب ملکر پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں ایک ایسا مستقبل جو شفافیت، شمولیت اور پائیدار ترقی پر استوار ہو۔ انہوں نے بجٹ تقریر کا اختتام اس دعا کے ساتھ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے اور پاکستان کو ترقی، امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے ۔
اسلام آباد (مدثرعلی رانا)قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش فنانس بل کے تحت نئے مالی سال کیلئے ٹیکسز میں اضافے سے پٹرول، بجلی ، سولر پینل ، ڈیجیٹل مصنوعات و سروسز ، چھوٹی گاڑیاں مہنگی جبکہ ادویات ،درآمدی مشروبات سستے ہوگئے ۔ایف بی آر کو آئندہ مالی سال تقریباً 680 ارب روپے نئے ٹیکس اقدامات اور انفورسمنٹ سے اکٹھے کرنا ہونگے ۔ ذرائع کے مطابق 290 ارب کے نئے ٹیکس اقدامات کیے جائیں گے ، 390 ارب انفورسمنٹ اقدامات کے ذریعے اکٹھے کیے جائیں گے ، انفورسمنٹ اقدامات سے مراد وہ ٹیکسز ہیں جو ٹیکس چوری یا ٹیکس ادائیگیاں کم ہونے سے وصول نہیں ہو رہے تھے ، نئے ٹیکس اقدمات میں 850 سی سی تک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا اس سے پہلے یہ شرح 12.5 فیصد تک محدود تھی، ای کامرس کا پلیٹ فارم استعمال کرنے پر اشیا پر ٹیکس لگے گا ای کامرس کیلئے بینکنگ، فنانشل انسٹیٹیوشن، ایکسچینج کمپنیاں اور پیمنٹ گیٹ وے ذریعے ٹرانزکشنز کرنے پر ٹیکس عائد کیا گیا ای کامرس پر 2 فیصد تک ودہولڈنگ ٹیکس بھی عائد کر دیا گیا ای کامرس پر کاروبار کرنے والوں کو ماہانہ ٹرانزیکشنز ڈیٹااور ٹیکس رپورٹ دینا ہو گی ڈیجیٹل سروسز اور اشیا کے ڈیجیٹل آرڈر پر ڈیجیٹل ٹرانزکشن لیوی عائد کر دی گئی بینک یا کوریئر ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹس کے طور پر مقرر کیے جائیں گے۔
سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، سابقہ فاٹا/پاٹا کیلئے سپلائی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا فاٹا/پاٹا کیلئے درآمدات، درآمدی مشینری، پلانٹ پر سیلز ٹیکس لگے گا، مالی سال 2027 میں بڑھ کر 12 فیصد، مالی سال 2028 میں بڑھ کر 14 فیصد اور مالی سال 2029 میں بڑھ کر 16 فیصد ہو جائے گا، یہ تمام نئے ٹیکسز ہوں گے جس سے 290 ارب تک اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا، نان ٹیکس آمدنی اسکے علاوہ ہے جس میں گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے بینکوں سے قرض لیکر گردشی قرضہ کلیئر کرنے پر سرچارج اور پٹرولیم مصنوعات پر اضافی لیوی عائد کی جائے گی پٹرولیم مصنوعات پر لیوی آئندہ مالی سال 2.5 روپے فی لٹر اور مالی سال 2027 کے دوران بڑھ کر دوگنی یعنی 5 روپے فی لٹر ہو جائے گی،کینولا تیل ، دودھ ،دہی ،گوشت مرغی، انڈے ،پنکھے ،فرنیچر،صحت کی سہولیات مہنگی کردی گئیں اور دودھ پروسیسنگ پلانٹس، مویشی و پولٹری شیڈز، اور جانوروں کی فیڈ مشینری پر 2 فیصد اضافی ٹیکس عائد کردیا گیا ۔بجٹ میں ڈیری کی مشینری اور پنکھوں پر 3 فیصد ٹیکس تجویز ، کینولا، سرنج، آگ بجھانے والے آلات اور جم کے سامان پر بھی 3 سے 5 فیصد ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے ۔ رواں مالی سالی ایف بی آر کو تقریباً 11 سو 70 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال کا خدشہ ہے اور ایف بی آر 12 ہزار 970 ارب کے اوریجنل ہدف کی بجائے 11 ہزار 8 سو ارب تک ٹیکس اکٹھا کر سکے گا آئندہ مالی سال کیلئے 14 ہزار 131 ارب کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا ہے اب ایف بی آر کو اس لحاظ سے 23 سو 31 ارب اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہو گا ایف بی آر کا نظرثانی شدہ ہدف 12 ہزار 334 ارب مقرر ہے جس میں بھی 534 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال متوقع ہے ۔
دوسری جانب آئندہ مالی سال کیلئے ایل ای ڈی بلب کے خام مال کی امپورٹ پر ڈیوٹی صفر کردی گئی، سٹیل کے خام مال پر ڈیوٹی 15سے کم کر کے 10 فیصد، ٹیکسٹائل خام مال پر ڈیوٹی صفر کردی گئی، انڈسٹریل سلائی مشین ڈیوٹی صفر کردی گئی مقامی گاڑیوں کے انجن کی امپورٹ پر ڈیوٹی 5 فیصد کم کر دی گئی،مقامی گاڑیوں کے خام مال اور سی کے ڈی پر ڈیوٹی 20 کی بجائے 15 فیصد ہو گی ،ریڈیو براڈ کاسٹ ٹرانسمیٹرز پر ڈیوٹی 20 سے کم کر کے 15 فیصد، ٹی وی براڈکاسٹ ٹرانسمیٹر پر ڈیوٹی 20 کی بجائے 15 فیصدکر دی گئی، وائرلیس مائیکروفون پر کسٹم ڈیوٹی 20سے کم کر کے 15 فیصدکر دی گئی، انرجی سیور بلب پر ڈیوٹی 10 سے کم کر کے 5 فیصدکر دی گئی، فارماسیوٹیکل کے خام مال پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں 5 فیصد کمی کی گئی ، ڈائگناسٹک کٹ پر ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5 فیصدکر دی گئی، تیل اور گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کے مشینری اور پلانٹ پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ،پٹرولیم کمپنیوں کی مشینری، پلانٹ اور خصوصی گاڑیوں پر ٹیکس 15 کی بجائے 10 فیصد ہو گا، فارماسیوٹیکل کے 381 قسم کے خام مال پر ڈیوٹی صفر کردی گئی، صنعتوں کے پیکیجنگ کے خام مال پر ڈیوٹی 10 سے کم کر کے 5 فیصدکر دی گئی، امپورٹڈ چاکلیٹ، ٹافیوں، کینڈیز، بسکٹ، درآمدی جیلی، مارملیڈ، امپورٹڈ پنیر، مکھن، شہد، مشروبات پر دو سے 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی گئی ہے ۔درآمدی ملک کریم، فلیورڈ ملک، امپورٹڈ کیچ اپ، مایونیز، آئس کریم، امپورٹڈ وٹامن واٹر، امپورٹڈ برانڈڈ آٹا، میدہ اور سوجی کی قیمتوں میں بھی کمی ہو گی۔ میک اپ کے سامان کی کٹ، ہیئر سٹائلنگ پروڈکٹس، فیس واش، فیشل کریم، آئی لائنر، لوشن، کریم، پرفیوم، باڈی سپرے شامل ہیں۔