پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ : حکومت کو احساس نہ اپوزیشن کو
(تجزیہ: سلمان غنی) پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اثر صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کا براہِ راست اثر عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔ زراعت سمیت مختلف شعبہ جات بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو، اپوزیشن ہمیشہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو عوام دشمن اقدام قرار دے کر حکومت پر دباؤ ڈالتی ہے ۔ایک وقت تھا جب حکومتیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو عالمی مارکیٹ کے نرخوں میں اضافے کا جواز بنا کر معقول حد تک بڑھاتیں۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے ۔ لہٰذا یہ تجزیہ ضروری ہے کہ کیا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا کوئی معقول جواز موجود ہے ؟ ۔جہاں تک حالیہ اضافے کا تعلق ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو اب اس بات کا بھی احساس نہیں رہا کہ قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی پر کیا اثرات ہوں گے ۔ اس اضافے کے نتیجے میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھیں گے ۔ اگرچہ یہ اثرات ہر طبقے پر یکساں نہیں ہوتے ، مگر عوام کی وہ اکثریت جو موٹر سائیکل، رکشہ یا ذاتی گاڑی استعمال کرتی ہے ، ان کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر ہو گئی ہے ۔آج ملک میں ایسی حکومت ہے جو معاشی ترقی کے دعوے کر رہی ہے ، اور کہا جا رہا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے ۔ اگر زمینی حقائق دیکھے جائیں تو حقیقت یہ ہے کہ ملک مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے ۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی اور چولہا جلانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے ۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم پر عائد ٹیکسوں نے عوام کو جکڑ لیا ہے ، قیمتوں میں اضافہ ، ایک نیا مہنگائی کا طوفان لے کر آتا ہے ، جو غریبوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوامی مسائل پر کوئی آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔
جو قیادت منتخب حکومت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ، اس کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ زمینی حقائق سے یکسر نابلد ہے ۔ عوام کی قوتِ خرید ختم ہو چکی ہے ، لیکن وہ احتجاج اس لیے نہیں کر پاتے کہ ان میں اب ردعمل کی سکت باقی نہیں رہی۔کچھ ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکمران یہ سب اس سوچ کے تحت کر رہے ہیں کہ شاید انہیں دوبارہ عوام کے پاس جانا ہی نہ پڑے ۔ انہیں نہ عوام کا احساس ہے ، نہ ہی سیاسی دباؤ کی پرواہ ۔ وہ صرف حکومت چلانے اور اپنی مراعات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن پر حکومت کرنی ہے ، ان کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہر دور میں اپوزیشن عام آدمی کی آواز بن کر حکومت پر دباؤ ڈالتی رہی ہے ۔ اس سے عوام کو امید رہتی تھی کہ اقتدار کی تبدیلی سے شاید ریلیف ملے ۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ نہ حکومت عوام کا درد محسوس کر رہی ہے ، نہ اپوزیشن۔ وہ بھی صرف اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے ۔ پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مہنگائی اور حکومت کے عوام دشمن اقدامات نے عوام، سیاستدانوں اور حکمرانوں کے درمیان خلیج پیدا کر دی ہے ۔ نہ عوام کو حکمرانوں سے کوئی توقع ہے ، نہ حکمران سمجھتے ہیں کہ انہیں عوام کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔