بلدیاتی اداروں کی فعال حیثیت سے سیاست کمزور نہیں ہو گی
(تجزیہ:سلمان غنی) جمہوری ملکوں اور معاشروں میں بلدیاتی اور مقامی سسٹم کو جمہوریت کی مضبوطی اور اس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور یہی وہ ادارے ہوتے ہیں جو اپنے کردار کے باعث شہری و دیہی ترقی اور خصوصاً شہری و دیہی علاقوں کے عوام کے سلگتے ایشوز خصوصاً صحت، صفائی، تعلیم، انصاف و دیگر شعبہ جات میں ڈیلیور کرتے نظر آتے ہیں لیکن ہمارا جمہوری المیہ یہ رہا ہے۔۔۔
پاکستان میں بدقسمتی سے مقامی حکومتوں کا مقدمہ ہمیشہ سے کمزور رہا ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں ،پنجاب میں انتخابات نہیں ہوئے، کے پی کے میں انتخابات ہوئے مگر اس کے فنڈز جاری نہیں ہوئے اوراس طرح کا سلسلہ بلوچستان اور سندھ میں ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں تو بلدیاتی اور مقامی حکومتوں کے سسٹم کی اہمیت کا ادراک کرتی اور برسر اقتدار آنے کی صورت میں ان کے انتخابات کرانے اور انہیں با اختیار بنانے کا عزم ظاہر کرتی نظر آتی ہیں مگر حکومت میں آنے کے بعد نہ صرف یہ کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں دکھائی دیتی ہیں بلکہ ان کے وجود کو ہی ہضم کرنے کو تیار نہیں ہوتیں ۔ اب پنجاب اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے لوکل گورنمنٹ نے بل منظور کیا ہے جس میں انتخابات میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کیلئے ضلعی انتظامیہ الیکشن کمیشن کو مدد فراہم کرے گی ۔بلدیاتی ادارے براہ راست محکمہ بلدیات یامتعلقہ ڈی سی سے بجٹ حاصل کرینگے جبکہ عام تبادلے محکمہ بلدیات کی منظوری سے ہوں گے اس حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ نئے مجوزہ بل سے بلدیاتی ادارے کی انسانی خود مختاری میں واضح کمی آئے گی اور اس میں منتخب اراکین میں بیورو کریسی کے تابع فرمان رہیں گے کیا بل کی پنجاب اسمبلی منظوری دے دے گی یہ دیکھنا ہوگا لیکن اصل اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے گریزاں نظر آتی ہیں وہ اس حوالہ سے آئینی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔جہاں تک بلدیاتی اور مقامی سسٹم کی آئینی حیثیت کا سوال ہے تو آئین پاکستان بلدیاتی سسٹم کی سیاسی مالی اور انتظامی خود مختاری کی بات کرتا ہے او ران کے انتخابات کو لازم قرار دیتا ہے دنیا بھر میں جہاں جمہوریت کامیابی سے جاری ہے تو وہاں اس سسٹم میں بنیادی حیثیت انہی اداروں کی ہے وہ عوامی سطح پر ڈیلیور کرتے نظر آتے ہیں جہاں تک کہ اہم شہروں کی پولیس بھی ضلعی حکومتوں کے تابع ہے بھارت کے اندر بلدیاتی انتخابات کو آئینی حیثیت حاصل ہے اور وہ چار سال بعد انتخابات کرانے کے پابند ہیں ہمارے ہاں اداروں کو تو آئینی حیثیت حاصل ہے لیکن ان اداروں پر انتخابات کو آئین میں پابند نہیں کیا گیا لہٰذا آج کی بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان اداروں کے انتخابات ہونے چاہئیں ، اداروں کی بیورو کریسی کی چھتری سے آزاد کرتے ہوئے ان کی مضبوط فعال حیثیت قائم ہونی چاہئے اور ترقیاتی عمل کو ان اداروں کے ذریعہ بروئے کار لایا جائے آج جمہوری سسٹم میں صرف تقریباً بارہ سو کے قریب اراکین اسمبلی کو کردار دیا گیا ہے اگر اس سسٹم میں بلدیات کے ذریعہ ستر ہزار بلدیاتی اراکین بھی شامل ہوں گے تو یہ سسٹم اور مضبوط ہوگا ان اداروں کی فعال حیثیت سے سیاست کمزور نہیں مضبوط ہو گی اور بلدیاتی انتخابات سے ڈرنا نہیں چاہیے یہ انتخابات کرانے چاہئیں لیکن افسوس یہ کہ یہ حکومت بلدیاتی اداروں کی اہمیت کی حیثیت کا اعتراف تو کرتی لیکن ان کی مضبوطی ان کیلئے اختیارات او ران کے انتخابات کرانے میں سنجیدگی ظاہر نہیں کرتی۔ پنجاب میں نہ پی ٹی آئی حکومت نے انتخابات کرائے اور نہ مسلم لیگ نے اور اب کہا جا رہا ہے کہ دسمبر میں کرائے جا سکتے ہیں لیکن یہ عملاً ممکن نظر نہیں آ رہے ۔ماہرین مصر ہیں کہ اگر بلدیاتی اور مقامی سسٹم موجود ہو اور ڈیلیور کرتا نظر آئے تو پھر نئے صوبوں اور چھوٹے صوبوں کی بات نہیں ہوگی آج اگر چھوٹے اور نئے صوبوں کی بات کی جا رہی ہے تو اس کی وجہ گورننس کا یقینی نہ بننا ہے اور دنیا بھر میں گورننس کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے صوبوں کو مزید چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ صوبوں کی سطح پر عوام کو درپیش مسائل و مشکلات کا حل ہو اور گورننس یقینی بنے اور ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومتوں اور سیاسی قوتوں نے بلدیاتی انتخابات نہ کرائے اور بلدیاتی سسٹم کو فعال نہ کیا تو آنے والے حالات میں ملک کے اندر چھوٹے اور نئے صوبے بنانا پڑیں گے مقصد نظم و نسق مضبوط بنا کر اور انداز میں چلانا ہوگا۔