افغان طالبان کے پاکستان بارے عزائم اچھے نظر نہیں آ رہے
پاکستان فیصلہ کر چکا معاشی ترقی کیلئے دہشتگردی کے سانپ کا سر کچلنا ضروری
(تجزیہ:سلمان غنی)
افغان طالبان کے روئیے اور طرزِ عمل سے ایسا تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ ان کے پاکستان کے بارے میں عزائم خوشگوار نوعیت کے نہیں، گزشتہ روز سرحدی علاقوں خصوصاً ضلع چمن اور کرم سیکٹرمیں ہونے والی جھڑپوں نے صورتحال کی سنگینی واضح کر دی۔ حملہ آوروں کو پاکستانی سکیورٹی فورسز نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ متعدد چوکیوں اور عسکری اثاثوں کو تباہ کر کے اُنہیں بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ اطلاعات کے مطابق ہزارہ فورسز نے حملہ آوروں کے کئی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور 50 سے زائد حملہ آور ہلاک ہوئے ۔یہ واقعہ ایک طویل مدتی مسئلے کی علامت ہے جس کی جڑیں افغان علاقے میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور ان کی پاکستان کیخلاف کارروائیوں میں ہیں۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن باہمی تعلقات کے قائل ہیں، مگر جب کسی ملک کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو تو دفاعی رد عمل ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ سفارتی سطح پر کئی بار شواہد فراہم کئے گئے اور مذاکرات کی کوششیں بھی ہوئیں، تاہم جب بارہا یقین دہانیوں کے باوجود سرحدی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو ریاست کو اپنی سلامتی کو تحفظ دینے کیلئے سخت اقدامات کرنا پڑے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ حالیہ جھڑپوں میں افغان سر زمین سے کئے گئے حملے نے پاک افغان دوستی کے روایتی بیانیے کو جھنجھوڑ دیا۔
بعض اطلاعات کے مطابق دشمنی کا پیغام دینے کے طور پر دوستانہ گیٹ یا دیگر سرحدی تنصیبات بھی نشانہ بنیں۔ یہ اشارہ ہے کہ کچھ خارجی یا داخلی عناصر افغان سر زمین کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے ایسی کشیدگی کی کیا وجہ ہے ؟ ،کیا وہ دہشت گردوں کے ساتھ یکجاہوچکے ہیں یا کسی تزویراتی مصلحت کی وجہ سے دشمنانہ مؤقف اختیار کر رہے ہیں؟ ،اگر کابل واقعی پاکستان کے ساتھ امن چاہتا تو ان غیر قانونی عناصر کے خلاف کارروائی یقینی بناتا۔ اس کا برعکس ہونا افغانستان کے داخلی توازن اور بیرونی مداخلتوں کی جانب اشارہ کرتا ہے ، خاص طور پر جب خطے میں دیگر قوتیں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ معاشی ترقی اور استحکام کیلئے دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ ملک کی ترقیاتی منصوبہ بندی، سرمایہ کاری اور عوامی فلاح و بہبود دہشت گردی کے اژدھے کی کٹائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اِسی بنیاد پر ریاست نے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے جو کہ دفاعی، سکیورٹی اور خارجہ سیاسی فیصلوں میں اس کی سمت متعین کرتی ہے ۔یہ امر بھی اہم ہے کہ پاک فوج کی حالیہ کارروائیوں نے دفاعی عزم اور پیشہ ورانہ صلاحیت کا ثبوت دیا۔ مئی کے واقعات کے بعد دفاعی قوت کا مؤثر مظاہرہ علاقائی توازن کو بھی متاثر کر چکا ہے ، جس کے اثرات کابل سمیت خطے کے دیگر دارالحکومت بھی محسوس کر رہے ہیں۔
اگر افغان قیادت اپنی بین الاقوامی ساکھ اور داخلی استحکام برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے دہشت گردی سے پوری طرح لاتعلقی اختیار کرنی ہو گی اور پاکستان کے ساتھ تعمیری رابطوں میں سنجیدگی دکھانی ہو گی۔دونوں ملکوں کے درمیان جاری تناؤ کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ عارضی سیز فائر اور مذاکرات کی اپیلیں سامنے آئی ہیں، اگر یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں تو مسائل کا حل محاذآرائی کی بجائے مکالمے سے ممکن ہو سکے گا۔ مگر شکوک و شبہات دور کرنے کیلئے عملی اقدامات ضروری ہیں،افغان سرزمین پر کسی بھی طرح کے دہشت گرد ٹھکانے برداشت نہیں کئے جائیں، ثبوت کی بنیاد پر کارروائی اور اعتماد سازی کے پروگرام بروئے کار لائے جائیں اور تزویراتی سطح پر دونوں جانب سے باہمی مفاد کی بنیاد پر اقتصادی و تجارتی روابط کو فروغ دیا جائے ۔خلاصہ یہ کہ پاک افغانستان تعلقات ایک نازک موڑ پر ہیں، اگر کابل نے اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے مزید فعال اقدامات پر مجبور ہوگا۔ علاقائی استحکام، تجارت اور عوامی بہبود کے مفادات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ دونوں فریق تحمل، دانش مندی اور سنجیدہ سفارتی مکالمے کے ذریعے صورتِ حال کو بحران سے نکالنے کی کوشش کریں ورنہ خطے کی سلامتی اور معاشی ترقی دونوں شدید خطرے میں آ سکتی ہیں۔