ماتحت فورسز کو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار نہیں :آئینی عدالت

ماتحت  فورسز  کو  سپریم  کورٹ  کے  فیصلوں  پر  نظرثانی  کا  اختیار  نہیں :آئینی  عدالت

نظرِ ثانی آئین کی خلاف ورزی :زمین اصلاحات کیس کا تحریری فیصلہ،چیئرمین فیڈرل لینڈ کمیشن کا حکم کالعدم قرار وقف املاک بورڈ اور صوبائی حکومت کا زمین تنازع آئینی نہیں :وفاقی عدالت، اراضی کیس کا ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم

 اسلام آباد (کورٹ رپورٹر ،اے پی پی )وفاقی آئینی عدالت نے زمین اصلاحات سے متعلق طویل عرصے سے زیرِ التوا مقدمے میں واضح طور پر قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی اور واجب التعمیل ہوتا ہے اور کوئی بھی ماتحت فورم یا انتظامی اتھارٹی برسوں بعد اس پر نظرِ ثانی کا اختیار نہیں رکھتی۔ عدالت کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کو دوبارہ کھولنا آئینِ پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے ۔رپورٹنگ کے لیے منظور شدہ تحریری تفصیلی فیصلے کے مطابق یہ فیصلہ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس روزی خان بارِچ پر مشتمل بینچ نے سی پی ایل اے نمبر 962 تا 964/2023 میں سنایا، جو لاہور ہائی کورٹ کے 24 نومبر 2022 کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔عدالت کے مطابق درخواست گزار ریاض حسین کے والد کرام علی کو 1977 میں زرعی اصلاحات کے تحت ڈیکلیئرنٹ قرار دیا گیا تھا، جن کی ملکیت 12,691 پروڈیوس انڈیکس یونٹس مقرر کی گئی جبکہ 4,819 یونٹس اضافی زمین قرار دے کر سرکاری تحویل میں لے لی گئی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف تمام قانونی فورمز سے رجوع کے باوجود 6 دسمبر 1986 کو سپریم کورٹ نے معاملہ حتمی طور پر طے کر دیا تھا۔

وفاقی آئینی عدالت نے قرار دیا کہ اس کے باوجود 24 سال بعد چیئرمین فیڈرل لینڈ کمیشن کے سامنے دائر کی گئی نظرِ ثانی آئین کے آرٹیکل 189 کے منافی ہے اور دائرہ اختیار سے تجاوز کے باعث ایسا حکم ابتدا ہی سے کالعدم تصور ہوگا۔ عدالت نے res judicata کے اصول کی توثیق کرتے ہوئے درخواستیں بے بنیاد قرار دے کر خارج کر دیں۔ دریں اثناوفاقی آئینی عدالتِ نے قرار دیا ہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ اور کسی صوبائی حکومت کے محکمے کے درمیان زمین سے متعلق تنازع دو حکومتوں کے درمیان آئینی تنازع نہیں بنتا، لہٰذا ایسے معاملے میں لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار برقرار رہتا ہے ۔ یہ فیصلہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد کریم خان آغا پر مشتمل بنچ نے 9 دسمبر 2025 کو سنایا، جس کا تحریری تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے ۔یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے 17 اپریل 2024 کے حکم کے خلاف دائر کیا گیا تھا، عدالت کے مطابق لاہور میں واقع 56 کنال 15 مرلہ اراضی تاریخی طور پر ہندو برادری کے شمشان گھاٹ کے طور پر استعمال ہوتی رہی، جسے بعد ازاں 1989 میں محکمہ تعلیم، حکومتِ پنجاب کے نام منتقل کیا گیا، جس کے بعد فریقین کے درمیان تنازع پیدا ہوا۔ عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمہ دوبارہ سماعت کے لیے واپس بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ تین ماہ کے اندر قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں