پی ٹی آئی کیلئے بڑا مسئلہ حکومت یا ریاست نہیں عمران نے بنا رکھا

پی ٹی آئی کیلئے بڑا مسئلہ حکومت یا ریاست نہیں عمران نے بنا رکھا

ضد سے ڈیڈلاک کیسے ٹوٹے گا، آگے چلنا ہے تو حل بات چیت سے نکلے گا

(تجزیہ سلمان غنی)

 کوٹ لکھپت جیل کے مکینوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سے مفاہمت اور مذاکرات کے لئے زور کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لئے پر امن حل چاہتے ہیں اور وہ اس حوالہ سے محمود اچکزئی اور علامہ ناصر عباس پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں کہ وسیع تر مشاورت ہی مفاہمت کا دروازہ ہے لہذا ہماری لیڈر شپ اس پر قوم کی رہنمائی کرے ۔بڑا سوال یہ ہے کہ کوٹ لکھپت جیل کے اسیر مفاہمت  اور مذاکرات کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں مگر اڈیالہ جیل کا باسی اپنی ضد پر اٹکا کھڑا ہے ، تو پھر معاملہ کیسے چلے گا، ڈیڈلاک کیسے ٹوٹے گا ،کسی ریلیف اور رہائی کے امکانات کیسے روشن ہوں گے ۔ ویسے تو عملی صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی پر صعوبتوں اور مشکلات کا عمل ختم ہوتا نظر نہیں آرہا ۔جن رہنمائوں نے مذاکرات اور مفاہمت کی بات کی ہے ان پر بھی عتاب کم نہیں ہو رہا ۔ نو مئی کے واقعات پر انہیں مزید دس دس سال کی سزائیں ملی ہیں اور انکے مستقبل قریب میں رہائی کے امکانات نظر نہیں آ رہے ۔سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں ایسی صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ سیاسی لوگ سیاسی طرز عمل اپناکر کوئی نہ کوئی سیاسی راستہ بنا لیتے تھے اور سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے لئے سافٹ کارنر کا مظاہرہ کرتی تھیں ،مگر پہلی مرتبہ ڈیڈلاک ٹوٹتا نظر نہیں آ رہا بلکہ ہر آنے والا دن پی ٹی آئی کیلئے کڑا بنتا جا رہا ہے ۔ سزاؤں کا عمل رکے نہیں رک پا رہا اور اس میں بنیادی بات نو مئی کے واقعات ہیں ۔ریاست اس پر اس لئے کمپرومائز کے لئے تیار نظر نہیں آتی کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔

ویسے بھی اگر گہرائی سے پی ٹی آئی کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تواس وقت جماعت کے لئے بڑا مسئلہ حکومت یا ریاست نے نہیں خود بانی پی ٹی آئی نے بنا رکھا ہے ، وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کرتے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ریاستی اداروں کی قیادت کو بھی ٹارگٹ کرتے ہیں۔ سکیورٹی ادارے سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں مگر اپنی لیڈر شپ کی توہین برداشت نہیں کرتے اور چین آف کمانڈ کا احترام ان کی پیشہ ورانہ تربیت کا حصہ ہوتا ہے ۔مگر بانی یہ سمجھتے رہے کہ وہ سیاسی طاقت کو بروئے کار لاکر ریاست پر اثر انداز ہوں گے تاہم وہ بھول گئے کہ حکومتیں دباؤ میں آجاتی ہیں ریاستیں نہیں،ریاستی ادارے اس حوالہ سے لچک نہیں دکھاتے ۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کے لئے ریلیف میں اصل رکاوٹ خود بانی پی ٹی آئی ہیں اور وہ کوٹ لکھپت سے اپنے ساتھیوں کی بھی سننے کو تیار نہیں مگر وہ دوسری بار مکتوب کے ذریعہ انکی توجہ مبذول کرا چکے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے جو شخص اپنی جماعت کے سینئر افراد کی سننے کو تیار نہیں وہ اور کسی کی کیا سنے گا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب والے مکتوب میں بانی سے زیادہ توقعات محمود اچکزئی، آغا ناصر عباس اور دیگر متحرک ساتھیوں سے قائم کی ہیں، مگر ابھی تک تو محمود اچکزئی اور ناصر عباس بھی کوئی پیش رفت نہیں کر سکے ۔ حقائق یہی ہیں کہ پی ٹی آئی کا احتجاج اور مزاحمتی بخار تو اتر چکا ہے مگر جماعت میں فرسٹریشن نمایاں طور پر محسوس ہو رہی ہے ۔

اچھا ہوتا کہ پی ٹی آئی سیاسی قوتوں سے رابطے بحال کرتی ،وزیر اعظم شہباز شریف کی پیشکش قبول کرتی تو معاملات آگے کی طرف چل سکتے تھے مگر پارٹی لیڈر شپ کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل نے پی ٹی آئی کو دفاعی محاذ پر لا کھڑا کیا ہے اور اب احتجاج میدان سے زیادہ بیانوں میں نظر آتا ہے اور حکومت بھی اس کا نوٹس نہیں لے رہی ۔دوسری جانب عدالتوں سے سزاؤں کا عمل جاری ہے جس سے مایوسی جماعت میں بڑھ رہی ہے اور ان کے لئے سیاسی راستہ نکل نہیں پا رہا ۔ماہرین یہ سمجھتے ہیں سیاسی راستے اور ریلیف کا انحصار بانی پی ٹی آئی کے طرز عمل پر ہے اور وہ اپنی جماعت کا ہی امتحان لینے پر تلے نظر آرہے ہیں۔ اگر وہ سیاسی طرز عمل اپنائیں تو ان کے لئے راستے کھل سکتے ہیں ۔ سیاست راستے بنانے ، آگے چلنے کا نام ہے نہ کہ ڈیڈلاک پیدا کرنے کا۔محمود اچکزئی اور راجہ ناصر کی کوششیں اس لئے نہیں کارگر بن رہیں کہ ان کی خود پی ٹی آئی والے بھی نہیں سنتے اور حکومت بھی ان سے بات چیت کے لئے تیار نہیں ۔لہذا گیند پی ٹی آئی کے کورٹ میں ہے ، فیصلہ انہیں کرنا ہے جیلوں میں بند رہنا ہے یا آگے چلنا ہے ۔ اور اگر آگے چلنا ہے تو حل بات چیت سے نکلے گا احتجاج سے نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں