صحابہ کرام ؓ کی نمازیں کیسی تھیں ؟
اسپیشل فیچر
حضرت عمرؓ ایک بار نماز پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے’’ بلاشک وشبہ تیرے رب کا عذاب واقع ہوکر رہے گا۔ اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں‘‘تو اس قدر روئے کہ روتے روتے آنکھیں ورم کر آئیںصحابہ کرامؓ فیضان رسالت سے براہ راست فیض یاب تھے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے دین کے احکام واوامر کی تعلیم وتربیت پائی تھی اور حضورؐکے اسوۂ حسنہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ نماز کی حقیقت واہمیت کیا ہے اور نماز کے لیے خشوع وخضوع اور حضور قلب کس قدر ضروری ہے ؟ان چیزوں کا مشاہدہ صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺ کے عمل میں کیا تھا، اس لیے صحابہ کرامؓ کی نماز آنحضرت ﷺکی نماز کا پرتو اور عکس تھی۔ خشوع و خضوع کسے کہتے ہیں اور اس کی عملی صورت کیا ہوتی ہے، اسے صحابہ کرامؓ اور خاصان خدا کی نماز اور عبادت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت عمرؓ رات بھر جاگ کر بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھتے۔آپؓ نماز میں ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر یا خدا کی عظمت وجلالت کابیان ہوتا اور ان چیزوں سے آپؓ اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی۔ حضرت عبداللہ بن سداد بیان کرتے ہیں کہ میں پچھلی صف میں ہوتا تھا پھر بھی حضرت عمر ؓآیت: انما اشکوبثی وحزنی الیٰ اللہ:(میں اپنی مصیبت اور اپنے رنج کا دکھڑا اللہ ہی کے آگے روتا ہوں )پڑھتے اور اس زور سے روتے کہ میں ان کے رونے کی آواز سنتا۔ نماز میں حضرت عمر ؓ کی گریہ و زاری کا واقعہ کچھ شاذنہ تھا۔ اکثر ان پر یہ حالت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ چنانچہ حضرت امام حسن ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ایک بار نماز پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے’’ بلاشک وشبہ تیرے رب کا عذاب واقع ہوکر رہے گا۔ اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں‘‘ (طور (8,7:52:27: تو اس قدر روئے کہ روتے روتے آنکھیں ورم کر آئیں۔ ایک نماز میں آپؓ نے یہ آیت پڑھی۔ ’’جب گناہ گار لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے دوزخ کی ایک تنگ جگہ میں ڈال دیئے جائیں گے تو موت موت پکاریں گے۔‘‘( الفرقان (13:25:18: یہ آیت پڑھ کر آپؓ پر ایسا خوف وخشوع طاری ہوا اور آپؓ کی حالت اتنی غیر ہوئی کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ آپؓ پر اس طرح کی آیتوں کا ایسا ہی اثر ہوا کرتا ہے تو سمجھتے کہ آپؓ واصل بحق ہوگئے۔ ایک بار فجر کی نماز میں سورۂ یوسف شروع کی، جب اس آیت پر پہنچے:’’یوسف کی جدائی میں یعقوب کی آنکھیں روتے روتے سفید پڑ گئیں اور وہ جی ہی جی میں گھٹنے لگے‘‘( یوسف (84:12:13: تو زار زار رونے لگے۔ یہاں تک کہ قرأت جاری رکھنا دشوار ہوگیا۔ مجبور ہوکر رکوع میں چلے گئے۔ صائب بن یزید اپنے باپ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ قحط کا زمانہ تھا۔ میں نے آدھی رات کو دیکھا۔ حضرت عمر ؓمسجد میں نمازپڑھ رہے تھے، اور دعا میں بار بار کہہ رہے تھے۔ ’’اے اللہ ہم لوگوں کو قحط سے ہلاک نہ کر، اس بلاکو ہم سے دور کردے‘‘۔ (کنزالعمال) حضرت انس ؓ جب رکوع سے کھڑے ہوتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ لوگ سمجھتے کہ وہ بھول گئے اور دوسجدوں کے درمیان بھی اتنی ہی دیر لگاتے کہ لوگوں کو یہی خیال گزرتا۔ (بخاری)حضرت علی ؓ کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت علیؓ فجر کی نماز پڑھا کر دائیں جانب رخ کرکے بیٹھ گئے ۔ آپؓ کے چہرے سے رنج وغم کا اثر ظاہر ہورہا تھا۔ طلوع آفتاب تک آپؓ اسی طرح بیٹھے رہے۔ اس کے بعد بڑے تاثر کے ساتھ اپنا ہاتھ پلٹ کر فرمایا:’’ خدا کی قسم! میں نے آنحضرت ؐ کے صحابہؓ کو دیکھا ہے۔ آج ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا، ان کی صبح اس حال میں ہوتی کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، چہرے غبار آلود اور زرد ہوتے، وہ ساری رات اللہ کے حضور سجدے میں پڑے ہوتے، کھڑے کھڑے قرآن مجید پڑھتے ہوتے، کھڑے کھڑے تھک جاتے تو کبھی ایک پائوں پرکھڑے ہو کر سہارا دے لیتے اور کبھی دوسرے پائوں پر وہ خدا کا ذکر کرتے تو (کیف واثر سے) اس طرح جھومتے جیسے ہوا میں درخت حرکت کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے ان کی آنکھوں سے اتنے آنسو بہتے کہ ان کے کپڑے تر ہوجاتے تھے۔ ایک اب کے لوگ ہیں کہ غفلت میں رات گزار دیتے ہیں‘‘۔ (احیاء العلوم )نماز کا وقت آتا تو حضرت علی ؓ کے چہرے کا رنگ متغیرہوجاتا۔ ایک بار ان سے دریافت کیا گیا کہ آپؓ کا یہ کیا حال ہے ؟فرمایا کہ یہ اس بار کے اٹھانے کا وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور پہاڑ پر پیش کیا تو ان سب نے اس بار کے اٹھانے سے ڈر کر انکار کردیا ۔(احیاء العلوم )حضرت امام حسن ؓ وضو کرتے تو آپؓ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا، کسی نے پوچھا ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ آپؓ نے فرمایا : ایک بڑے جبار بادشاہ کی پیشی میں کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے۔ پھر وضو کرکے مسجد میں تشریف لے جاتے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر کہتے کہ :’’اے اللہ تیرا بندہ تیری ڈیوڑھی پر حاضر ہے۔ اے بھلائی کرنے والے خدا! تیرا بداعمال بندہ تیرے حضور آیا ہے، تو نے حکم دیا ہے کہ ہم میں جو اچھا ہے بروں سے درگزر کرے۔ پس تو اچھا خدا ہے اور میں تیرا بداعمال بندہ ہوں۔ اے کرم کرنے والے! میری برائیوں سے ان خوبیوں کے طفیل جن کا تو مالک ہے درگزر فرما ‘‘۔ اس دعا کے بعد مسجد میں داخل ہوتے۔ حضرت امام حسنؓ کے اوقات کا اکثر حصہ عبادت میں بسر ہوتا تھا، ایک دفعہ حضرت امیر معاویہؓ نے ایک شخص سے حضرت امام حسنؓ کی عبادت کی کیفیت دریافت کی اس نے بتایا کہ فجر کی نماز کے بعد سے طلوع آفتاب تک مصلے پر بیٹھے رہتے ہیں۔ پھر ٹیک لگاکر بیٹھ جاتے ہیں اور آنے جانے والوں سے ملتے ہیں، دن چڑھے چاشت پڑھ کر امہات المومنینؓ کے پاس سلام کرنے کو جاتے ہیں۔ پھر گھر ہوکر مسجد چلے جاتے ہیں۔ ٭٭٭