کیا پاکستانی فلمی صنعت کو دوسرا حسن طارق مل سکتا ہے؟ انہوں نے ناقابلِ فراموش فلموںکی ہدایات دیں
پاکستانی فلمی صنعت کے عظیم ترین ہدایتکاروں کا نام لیا جائے تو حسن طارق کا نام نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔حسن طارق نے 44فلموں میں ہدایت کاری کے فرائض سرانجام دیئے۔1959ء میں ’’نیند‘‘سے شروع ہونے والا یہ سفر 1982کی فلم ’’سنگدل‘‘پر ختم ہوا۔ پہلی فلم بھی سپر ہٹ اور آخری بھی۔حسن طارق کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کمال کے تجربات کیے اور یہ تجربے کامیاب رہے۔ان کی کامیاب فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں ’’نیند،بنجارن، شکوہ،پھنّے خان، کنیز،سوال،دیور بھابھی،بہن بھائی،شمع پروانہ، انجمن، تہذیب، امرائو جان ادا،بہشت،ثریا بھوپالی اور سنگدل‘‘ شامل ہیں۔وہ ایک ذہین ہدایت کار تھے جوہر آرٹسٹ سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینا جانتے تھے۔ یہ انہی کا کام تھا کہ انہوں نے ’’نیند‘‘ میں اسلم پرویز کو وِلن کا کردار دیاجو اُس وقت کے کامیاب ترین ہیرو تھے۔ اور پھر اسلم پرویز نے یہ کردار انتہائی احسن طریقے سے ادا کیا۔اِسی طرح ’’سوال‘‘ میں اعجاز کو منفی کردار دیا اور پھر ان سے بہت شاندار کام کروایا۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ رسک لینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔’’دیور بھابھی‘‘ میں اسد جعفری کو ولن کا کردار دیا۔اِسی طرح ’’بہن بھائی‘‘میں کمال کو مزاحیہ کردار دیا جس سے اُن کی ایک الگ ہی شناخت بن گئی۔’’شمع پروانہ‘‘میں انہوں نے مجیب عالم کو گائیکی کا موقع دیا اور پورے ملک میں ان کے نام کا ڈنکا بج گیا۔1962میں ریلیز ہونے والی فلم’’بنجارن‘‘ بھی ان کی ایک شاندار فلم تھی۔اِسے اس وقت کی بولڈ فلم کہا گیا تھا۔ اِس میں نیلو نے اپنی دلکش ادائوں سے فلم بینوں کو مسحور کر دیا تھا۔ بنجارن سے مسعود رانا اور آئرن پروین کو بھی پلے بیک سنگرز کی حیثیت سے شہرت ملی۔حسن طارق نے 1963میں ایک اور تجربہ کیا۔27سالہ صبیحہ خانم کو ’’کنیز‘‘میں ’’ینگ ٹو اولڈ‘‘کردار دے دیا۔ اور اُن سے ایسا کام کروایا۔ کہ شائقین فلم عش عش کر اُٹھّے’’بہشت‘‘ ہمارے معاشرے کے ایک اہم کردار ’’ظالم ساس‘‘پر بنائی گئی۔ یہ ایک انتہائی سبق آموز فلم تھی۔’’انجمن،تہذیب اور امرائو جان ادا‘‘حسن طارق کی کامیاب ترین فلموں میں سے تھیں اور اِن سب فلموں میں رانی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔’’انجمن اور امرائو جان ادا‘‘ میں رانی نے جس عمدگی سے طوائف کا کردار ادا کیا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔یہ حسن طارق کی اعلیٰ ہدایت کاری کا کمال تھا کہ بھارت میں بننے والی فلم ’’امرائو جان‘‘ کی ہیروئن ریکھا نے بھی رانی کی اداکاری کی بے حد تعریف کی۔ حسن طارق نے اپنی فلموں میں اسلم پرویز،محمد علی،وحید مراد، شاہد، رانی، علائوالدین اورآغا طالش جیسے اداکاروں کو کاسٹ کیا اور ان سب سے ان کے فنی مرتبے کے مطابق کام لیا۔حسن طارق کی پنجابی فلم ’’پھنّے خان‘‘ نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔اس فلم میں انہوں نے علائوالدین سے جس انوکھے انداز میں کام لیا وہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ میڈم نورجہاں نے بھی انتہائی خوبصورت گیت گا کر اِس فلم کی بے مثال کامیابی میں اپنا حصّہ ڈالا۔حسن طارق کی ایک فلم ’’اِک گناہ اور سہی‘‘نے تاشقند کے فلمی میلے میں خوب دھوم مچائی۔اِس فلم میں حسن طارق نے ایک اور تجربہ کیا۔صبیحہ خانم کو وہ کردار دیا جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ ’’بہارو پھول برسائو‘‘ ہدایت کار ایم صادق نے شروع کی تھی۔ وہ بھارت سے آئے تھے لیکن ان کی اچانک وفات کے بعد باقی فلم کی ہدایت کاری کے فرائض حسن طارق نے سرانجام دیے۔اب ذرا ان کی آخری فلم ’’سنگدل‘‘ کی بات ہو جائے۔’’سنگدل‘‘ 1982میں ریلیز ہوئی تھی اور اس میں ندیم اور بابرہ شریف نے اعلیٰ پائے کی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اِس فلم کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اِس میں نازیہ حسن کے نغمات شامل کئے گئے۔ ویسے تو یہ نغمات فلم کی ریلیز سے پہلے ہی ہٹ ہو چکے تھے لیکن اِس فلم میں ان کی پکچرائزیشن اتنی اعلیٰ تھی کہ فلم بین واہ واہ کر اٹّھے۔ یہ کریڈٹ حسن طارق کو ہی جاتا ہے۔حسن طارق موسیقی کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فلموں کی موسیقی بہت اعلیٰ درجے کی ہوتی تھی۔ ان کی اکثر فلموں میں ماسٹر عنایت حسین، رشید عطرے اورنثار بزمی نے موسیقی دی۔ ان کی فلموں کے گیت بھی سپر ہٹ ثابت ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلے نگہت سلطانہ اور پھر ایمی مینوالا سے شادی کی۔اِس کے بعد انہوں نے رانی کو اپنی شریکِ حیات بنایا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب حسن طارق ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کی کچھ فلمیں فلاپ ہو گئی تھیں۔ جن میں ’’پیاسا‘‘،لیلیٰ مجنوں‘‘شامل ہیں۔ ’’پیاسا‘‘بڑی معیاری فلم تھی لیکن فلم بینوں نے اُسے کامیابی کی سند عطا نہیں کی جس کا حسن طارق کو بہت قلق تھا۔یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستانی فلمی صنعت میں 44فلموں کی ہدایت کاری کے فرائض سرانجام دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ انہوں نے بہت زیادہ کام کیا اور بہت عمدہ کام کیا۔ کیا ہماری فلمی صنعت میں آج حسن طارق کے پائے کا کوئی اور ہدایت کار موجود ہے؟اسکا جواب یقینا نفی میں ہے۔ لیکن مقامِ رنج ہے کہ آج ہماری فلمی صنعت حسن طارق جیسے ہدایت کار کو بھی فراموش کر چکی ہے۔ جنہوں نے عوام کو بڑی تعداد میں معیاری فلمیں دیں۔ویسے تو پاکستانی فلمی صنعت کو انور کمال پاشا،نذر الاسلام،ریاض شاہد،خلیل قیصر،اور حسن عسکری جیسے ہدایت کار بھی میسّر آئے لیکن حسن طارق کی شناخت سب سے الگ ہے۔ ہدایت کاری کا جو اسلوب انہوں نے متعارف کرایا تھا اس کا کوئی متبادل نہیں۔24اپریل 1982ء کو یہ بے بدل ہدایت کار اس جہانِ رنگ و بُو سے رخصت ہو گیا۔