کیا پاکستانی فلمی صنعت کو دوسرا حسن طارق مل سکتا ہے؟ انہوں نے ناقابلِ فراموش فلموںکی ہدایات دیں

 کیا پاکستانی فلمی صنعت کو دوسرا حسن طارق مل سکتا ہے؟ انہوں نے ناقابلِ فراموش فلموںکی ہدایات دیں

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

پاکستانی فلمی صنعت کے عظیم ترین ہدایتکاروں کا نام لیا جائے تو حسن طارق کا نام نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔حسن طارق نے 44فلموں میں ہدایت کاری کے فرائض سرانجام دیئے۔1959ء میں ’’نیند‘‘سے شروع ہونے والا یہ سفر 1982کی فلم ’’سنگدل‘‘پر ختم ہوا۔ پہلی فلم بھی سپر ہٹ اور آخری بھی۔حسن طارق کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کمال کے تجربات کیے اور یہ تجربے کامیاب رہے۔ان کی کامیاب فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں ’’نیند،بنجارن، شکوہ،پھنّے خان، کنیز،سوال،دیور بھابھی،بہن بھائی،شمع پروانہ، انجمن، تہذیب، امرائو جان ادا،بہشت،ثریا بھوپالی اور سنگدل‘‘ شامل ہیں۔وہ ایک ذہین ہدایت کار تھے جوہر آرٹسٹ سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینا جانتے تھے۔ یہ انہی کا کام تھا کہ انہوں نے ’’نیند‘‘ میں اسلم پرویز کو وِلن کا کردار دیاجو اُس وقت کے کامیاب ترین ہیرو تھے۔ اور پھر اسلم پرویز نے یہ کردار انتہائی احسن طریقے سے ادا کیا۔اِسی طرح ’’سوال‘‘ میں اعجاز کو منفی کردار دیا اور پھر ان سے بہت شاندار کام کروایا۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ رسک لینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔’’دیور بھابھی‘‘ میں اسد جعفری کو ولن کا کردار دیا۔اِسی طرح ’’بہن بھائی‘‘میں کمال کو مزاحیہ کردار دیا جس سے اُن کی ایک الگ ہی شناخت بن گئی۔’’شمع پروانہ‘‘میں انہوں نے مجیب عالم کو گائیکی کا موقع دیا اور پورے ملک میں ان کے نام کا ڈنکا بج گیا۔1962میں ریلیز ہونے والی فلم’’بنجارن‘‘ بھی ان کی ایک شاندار فلم تھی۔اِسے اس وقت کی بولڈ فلم کہا گیا تھا۔ اِس میں نیلو نے اپنی دلکش ادائوں سے فلم بینوں کو مسحور کر دیا تھا۔ بنجارن سے مسعود رانا اور آئرن پروین کو بھی پلے بیک سنگرز کی حیثیت سے شہرت ملی۔حسن طارق نے 1963میں ایک اور تجربہ کیا۔27سالہ صبیحہ خانم کو ’’کنیز‘‘میں ’’ینگ ٹو اولڈ‘‘کردار دے دیا۔ اور اُن سے ایسا کام کروایا۔ کہ شائقین فلم عش عش کر اُٹھّے’’بہشت‘‘ ہمارے معاشرے کے ایک اہم کردار ’’ظالم ساس‘‘پر بنائی گئی۔ یہ ایک انتہائی سبق آموز فلم تھی۔’’انجمن،تہذیب اور امرائو جان ادا‘‘حسن طارق کی کامیاب ترین فلموں میں سے تھیں اور اِن سب فلموں میں رانی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔’’انجمن اور امرائو جان ادا‘‘ میں رانی نے جس عمدگی سے طوائف کا کردار ادا کیا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔یہ حسن طارق کی اعلیٰ ہدایت کاری کا کمال تھا کہ بھارت میں بننے والی فلم ’’امرائو جان‘‘ کی ہیروئن ریکھا نے بھی رانی کی اداکاری کی بے حد تعریف کی۔ حسن طارق نے اپنی فلموں میں اسلم پرویز،محمد علی،وحید مراد، شاہد، رانی، علائوالدین اورآغا طالش جیسے اداکاروں کو کاسٹ کیا اور ان سب سے ان کے فنی مرتبے کے مطابق کام لیا۔حسن طارق کی پنجابی فلم ’’پھنّے خان‘‘ نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔اس فلم میں انہوں نے علائوالدین سے جس انوکھے انداز میں کام لیا وہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ میڈم نورجہاں نے بھی انتہائی خوبصورت گیت گا کر اِس فلم کی بے مثال کامیابی میں اپنا حصّہ ڈالا۔حسن طارق کی ایک فلم ’’اِک گناہ اور سہی‘‘نے تاشقند کے فلمی میلے میں خوب دھوم مچائی۔اِس فلم میں حسن طارق نے ایک اور تجربہ کیا۔صبیحہ خانم کو وہ کردار دیا جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ ’’بہارو پھول برسائو‘‘ ہدایت کار ایم صادق نے شروع کی تھی۔ وہ بھارت سے آئے تھے لیکن ان کی اچانک وفات کے بعد باقی فلم کی ہدایت کاری کے فرائض حسن طارق نے سرانجام دیے۔اب ذرا ان کی آخری فلم ’’سنگدل‘‘ کی بات ہو جائے۔’’سنگدل‘‘ 1982میں ریلیز ہوئی تھی اور اس میں ندیم اور بابرہ شریف نے اعلیٰ پائے کی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اِس فلم کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اِس میں نازیہ حسن کے نغمات شامل کئے گئے۔ ویسے تو یہ نغمات فلم کی ریلیز سے پہلے ہی ہٹ ہو چکے تھے لیکن اِس فلم میں ان کی پکچرائزیشن اتنی اعلیٰ تھی کہ فلم بین واہ واہ کر اٹّھے۔ یہ کریڈٹ حسن طارق کو ہی جاتا ہے۔حسن طارق موسیقی کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فلموں کی موسیقی بہت اعلیٰ درجے کی ہوتی تھی۔ ان کی اکثر فلموں میں ماسٹر عنایت حسین، رشید عطرے اورنثار بزمی نے موسیقی دی۔ ان کی فلموں کے گیت بھی سپر ہٹ ثابت ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلے نگہت سلطانہ اور پھر ایمی مینوالا سے شادی کی۔اِس کے بعد انہوں نے رانی کو اپنی شریکِ حیات بنایا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب حسن طارق ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کی کچھ فلمیں فلاپ ہو گئی تھیں۔ جن میں ’’پیاسا‘‘،لیلیٰ مجنوں‘‘شامل ہیں۔ ’’پیاسا‘‘بڑی معیاری فلم تھی لیکن فلم بینوں نے اُسے کامیابی کی سند عطا نہیں کی جس کا حسن طارق کو بہت قلق تھا۔یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستانی فلمی صنعت میں 44فلموں کی ہدایت کاری کے فرائض سرانجام دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ انہوں نے بہت زیادہ کام کیا اور بہت عمدہ کام کیا۔ کیا ہماری فلمی صنعت میں آج حسن طارق کے پائے کا کوئی اور ہدایت کار موجود ہے؟اسکا جواب یقینا نفی میں ہے۔ لیکن مقامِ رنج ہے کہ آج ہماری فلمی صنعت حسن طارق جیسے ہدایت کار کو بھی فراموش کر چکی ہے۔ جنہوں نے عوام کو بڑی تعداد میں معیاری فلمیں دیں۔ویسے تو پاکستانی فلمی صنعت کو انور کمال پاشا،نذر الاسلام،ریاض شاہد،خلیل قیصر،اور حسن عسکری جیسے ہدایت کار بھی میسّر آئے لیکن حسن طارق کی شناخت سب سے الگ ہے۔ ہدایت کاری کا جو اسلوب انہوں نے متعارف کرایا تھا اس کا کوئی متبادل نہیں۔24اپریل 1982ء کو یہ بے بدل ہدایت کار اس جہانِ رنگ و بُو سے رخصت ہو گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
گرین لینڈ کی برف اگر پگھل گئی تو؟

گرین لینڈ کی برف اگر پگھل گئی تو؟

کچھ عرصہ سے سائنس دانوں نے شدت سے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کر رکھا ہے کہ اس کرۂ ارض پر گلوبل وارمنگ کے سبب زمینی درجۂ حرارت جس رفتار سے مسلسل بڑھ رہا ہے اگر کسی مرحلے پر 22 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ جس کے 85 فیصد حصے کو برف نے ڈھانپ رکھا ہے پورے کا پورا پگھل گیا تو دنیا کا نقشہ کیسا ہو گا؟ قدرتی طور پر سائنس دانوں کی اس منطق بارے انسان یہ سوچتا ہے کہ آخر ایسے وہ کونسے حالات ہیں جو سائنس دانوں کو اس خدشے کا اظہار کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟۔گلوبل وارمنگ کے سبب بڑھتے درجۂ حرارت نے جہاں پوری دنیا کے نظام کو متاثر کر کے رکھ دیا ہے وہیں 85 فیصد برف سے ڈھکے ملک، گرین لینڈ کیلئے بھی اسے خطرے کی گھنٹی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گرین لینڈ کا 85 فیصد حصہ برف اور باقی 15 فیصد حصہ پہاڑیوں اور میدانوں پر مشتمل ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کو عالمی سطح پر شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ سائنس دان ایک عرصہ سے اس خطے کی بدلتی موسمی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے لیکن یہ صورت حال اس وقت عالمی سائنس دانوں کیلئے زیادہ تشویش کا باعث بنی جب انہوں نے گرین لینڈ کی برف کو معمول سے ہٹ کر تیزی سے پگھلتے ہوئے پایا۔ اس موقع پر سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ 2003ء اور 2010ء کے درمیان گرین لینڈ میں برف پگھلنے کی رفتار بیسویں صدی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ نوٹ کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گرین لینڈ کی برف ہر ایک گھنٹے میں تقریباً تین کروڑ ٹن پگھل رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک اور رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، گرین لینڈ کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں کیونکہ یہاں کا درجہ حرارت باقی دنیا کی نسبت چار گنا زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سائنس دان کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران گرین لینڈ کے سمندر کی برف کی مقدار متواتر کم ہو رہی ہے جس کی واحد وجہ یہاں کا درجہ حرارت ہے جس کے سبب یہاں کے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ''ورلڈ میٹرولوجسٹ آرگنائزیشن‘‘ نے تو 2015ء ہی میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرین لینڈ میں برف پگھلنے کے باعث پچھلے گیارہ سالوں کے دوران سطح سمندر میں 25سے 30 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک خدشے کا اظہار معروف بین الاقوامی جریدے ''کلائمٹ چینج‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی ان الفاظ میں کیا گیا ہے ''گرین لینڈ کی تمام برف پگھلنے سے دنیا کے سمندروں کی سطح کم سے کم 30 انچ تک اونچی ہو جائے گی۔جس سے نہ صرف ساحلی علاقے زیر آب آ جائیں گے بلکہ سمندروں میں جہاز رانی بھی مشکل ہو جائے گی۔ دوسری طرف برف اور پانی کا توازن قائم نہ رہ سکنے کی بدولت موسموں کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا جو بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔گلیشیئرز کے علوم کے ایک ماہر سائنس دان ولیم کولون کے بقول ''گلوبل وارمنگ کے سبب تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کے تناظر کی روشنی میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ رواں صدی کے آخر یا اگلی صدی کے وسط تک ممکنہ حد تک گرین لینڈ کی تمام برف پگھل چکی ہو گی۔ ولیم کولون اپنے قیاس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت موسموں کی کیفیت یا شدت کیسی ہو گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ آج کے دور میں ہمارا واسطہ جن شدید طوفانوں اور سیلابوں سے پڑتا ہے، پچھلے پچاس سالوں میں ان کی شدت اس قدر شدید نہیں ہوا کرتی تھی ‘‘۔ سائنس دان گلیشئرز پگھلنے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلیشیئرز کا حدت سے پگھلنا ایک قدرتی عمل ہے ، پھر جب برف باری شروع ہوتی ہے تو انہی پگھلے ہوئے حصوں پر دوبارہ برف جم جاتی ہے جس سے ایک توازن برقرار رہتا ہے۔ لیکن وہ حصے جو گلیشیئرز سے الگ ہو کر ٹوٹ پھوٹ کرگرتے رہتے ہیں وہ دوبارہ گلیشیئرز کا حصہ نہیں بنتے بلکہ وہ پانی کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ لیکن اب اس فطری عمل میں انسانی سرگرمیوں نے اس نظام کو غیر متوازن اور غیر محفوظ بنا ڈالا ہے۔ فوسل فیول کے بڑھتے استعمال اور کاربن گیسوں کے اندھا دھند اخراج میں بے جا اضافے نے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو جس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اس سے گرین لینڈ سمیت دنیا بھر کی پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیئرز پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں۔ یوں قطب شمالی کا بہت بڑا حصہ برف کے پگھلنے کے باعث ایک سمندر کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ ایک جانب گرین لینڈ کی برف پانی میں ڈھلتی جارہی ہے تو دوسری جانب دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کی نظریں یہاں کی برف کے نیچے دبے قدرتی خزانوں پر ہیں۔ شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گرین لینڈ کی برف کے نیچے تیل ، گیس اور معدنیات کے بہت بڑے خزانے دفن ہیں، جن میں سونا، یورینیم، لوہا ، ایلومینیم، پلاٹینم ، تانبا اور قیمتی پتھر دفن ہیں۔جیسے جیسے قطب شمالی میں برف پگھل رہی ہے اور ممکنہ بحری راستے بن رہے ہیں اس خطے میں امریکہ ، روس اور چین کی بڑھتی دلچسپیاں جہاں ایک طرف دفاعی نقطہ نظر سے اہم ہیں وہیں یقیناً گرین لینڈ کی تہوں میں پوشیدہ معدنیات کے خزانے بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے ؟ آخر میں گرین لینڈ کا مختصر سا تاریخی اور جغرافیائی تعارف۔ جغرافیائی صورتحال شمالی بحیرہ اوقیانوس اور بحر قطب شمالی کے درمیان واقع جزیرہ گرین لینڈ بنیادی طور پر 1953ء تک ڈنمارک کی ایک کالونی تھا جسے بعدازاں 1979ء میں ڈنمارک کے زیر انتظام نیم خود مختار جزیرے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ گرین لینڈ کا نام سکینڈے نیویا کے آباد کاروں نے متعارف کرایا تھا۔ 2009ء سے یہاں کا زیادہ تر انتظام یہاں کی مقامی حکومت کے پاس ہے جبکہ اس کی خارجہ پالیسی، مالیاتی امور اور دفاعی امور کے فیصلے اب بھی ڈنمارک حکومت کے زیر انتظام طے پاتے ہیں۔ تاہم اس کی معیشت کا دارومدار ڈنمارک پر ہی ہے۔ گرین لینڈ، دنیا کے سب سے بڑے جزیرے کا اعزاز بھی رکھتا ہے جو بڑے بڑے گلیشیئرز پر مشتمل ہے جبکہ برف کی یہ دیو ہیکل پرتیں پانچ ہزار سے دس ہزار فٹ موٹی ہیں۔لگ بھگ 22 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے باوجود اس کی آبادی صرف 57ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس جزیرے کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کا تقریباً 85 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔ گرین لینڈ کا دارالحکومت نووک ہے۔ گرین لینڈ جغرافیائی طور پر ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی نسبت نیویارک کے زیادہ قریب ہے۔  

 جنگ عظیم اوّل لاکیٹائو اور گوئز کی لڑائیاں

جنگ عظیم اوّل لاکیٹائو اور گوئز کی لڑائیاں

مولٹک کی 27اگست کی جاری شدہ ہدایات کے مطابق پیش قدمی کرتے ہوئے جرمنی کی دوسری آرمی کو فرانس کی پانچویں آرمی سے خاصی مزاحمت کا سامنا تھا۔ گو کہ فرانس کی پانچویں آرمی پسپا ہو رہی تھی کہ پسپائی کی متوقع رفتار نہ تھی اور مزاحمت بھی انتہائی شدید تھی۔ دوسری طرف جرمنی کی پہلی آرمی جنرل کلاک کی قیادت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند برطانوی افواج کو تیزی سے پسپا کئے جا رہی تھی۔لاکیٹائو کی لڑائیجرمن پہلی آرمی کا جنرل کلاک برطانوی افواج کو مغربی پہلو سے کمزور کرتے ہوئے انہیں ایک دائرے میں لینا چاہتا تھا اور مسلسل حملے کرتے ہوئے برطانوی دوسرے کور کو اپنے بیس سے علیحدہ کرنے کیلئے جدوجہد کر رہا تھا۔ دوسرے کور کے تھکے ہارے فوجی تین دن اور تین رات سے مسلسل حالت جنگ میں تھے اور جرمنی کی کوہ شکن افواج کے پے درپے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے چلے جا رہے تھے۔ تیسرے روز دوسرے کور کی مدد کیلئے پہلے کور کو بھیجا گیا۔ یہ کور اب تک جنگ کی شدت سے محفوظ اور تازہ دم تھا۔ یہ لاکیٹائو کے مقام پر دوسرے کور سے ملا جہاں جرمن افواج بہت نزدیک تھیں۔دوسرے کور کے جنرل سمتھ ڈورن نے اپنی فوج کے مکمل طور پر تھکے ہونے کی بنا پر فیصلہ کیا کہ وہ فوری طور پر پسپا ہو جائے اور اس کی جگہ پہلے کور کی تازہ دم افواج لے لیں۔ لیکن جرمن پہلی آرمی کے ہر اوّل دستے پیش قدمی کرتے ہوئے دوسرے کور سے مزاحم ہو گئے۔ دوسری طرف پہلے کور کے جنرل ہیگ نے بھی اپنی افواج کو پسپا ہوتے ہوئے اپنے قدم جمانے کی ہدایت کی۔ اس طرح دوسرے کور کا دائیاںپہلو دشمن کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور دوسرے کور کو مشرق اور شمال ہر دو طرف سے دشمن کی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔مقدمۃ الجیش( مرکزی فوج) مضبوط ہونے کے باوجود دوسرا کور اپنے دائیں پہلو اور سامنے سے دشمن کے نرغے میں آ گیا اور ہتھیار ڈال دیئے۔ اس صورتحال سے دوسرے کور کا بائیاں پہلو اور مرکز مکمل طور پر جرمنی افواج کے نرغے میں آ گئے اور برطانوی افواج کو شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔اس سے پہلے کہ دوسرا کور مکمل طور پر تباہ برباد ہو جاتا برطانوی توپ خانے نے جنوب مغربی جانب سے جرمن افواج پر حملہ کرکے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی اور دوسرے کور کے بچے کھچے سپاہیوں کو مکمل طور پر پسپائی کا موقعہ مل گیا۔دوسری طرف فرانس کی پانچویں آرمی جرمنی کی دوسری آرمی کو روکنے کیلئے سردھڑکی بازی لگا رہی تھی۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جرمنی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی افواج کی رفتار کو آہستہ کیا جائے۔ اس طرح فرانس کی پانچویں آرمی قربانیوں کے عظیم سلسلے کے باوجود دشمن کی فرتار کو بہت حد تک سست کرنے میں کامیاب رہی تھی جبکہ اس کا نقصان 20فیصد رہا تھا۔اسی دوران جنرل جوفر کو برطانوی حکام کی جانب سے مدد کی اپیل کی گئی۔ اسے بتایا گیا کہ برطانوی افواج کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور وہ مکمل طور پر تباہی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ انہیں تباہی سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ فرانس کی افواج ان کی مدد کو آئیں اور جرمنی کی افواج کو اپنی طرف متوجہ کرکے برطانوی افواج کو سنبھلنے کا موقع دیں۔اس اطلاع پر جنرل جوفر نے پانچویں آرمی کو ہدایت کی کہ وہ جنوب کی جانب سے جرمن پہلی آرمی کے پہلو پر حملہ آور ہوں تاکہ پہلی آرمی کی توجہ سامنے موجود برطانوی افواج سے ہٹ جائے۔ جنرل چارلس کی پانچویں آرمی پہلے ہی اپنے سے دوگنا طاقتور اور لیس دشمن کی دوسری آرمی کی پیش قدمی روکنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ اب نئے احکامات کی روشنی میں اسے جنوب کی طرف پیش قدمی کرنے پر اپنے دائیں پہلو کو جنرل پولو کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتا لہٰذا اس نے اپنی آرمی کے دو کور جنوب کی جانب پیش قدمی کرنے کیلئے روانہ کئے۔ ایک کور جنرل بولو کے مقابلے کیلئے جبکہ ایک کور کو بطور محافظ فوج رہنے دیا۔فرانس کی افواج کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ برطانوی افواج سے آپریشن کے دوران معاونت کریں جبکہ برطانوی افواج شمال کی جانب تھوڑی سی پیش قدمی کرکے آنے والے دو کوروں کو اپنے قدم جمانے کا موقع دیں۔ لیکن برطانوی افواج نے فرانس کی تجویز مسترد کر دی۔ اس طرح پہلے سے تنائو کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا اور فرانسیسی افواج جو اپنی جانب سے برطانوی افواج کی مدد کیلئے آئی تھیں سخت بدّل ہوئیں۔29اگست کو جنرل بوُلو کی دوسری آرمی نے شمال کی جانب سے حملہ کردیا۔ جنرل چارلس کی پانچویں آرمی کا مغربی جانب سے کیا گیا حملہ بھی ناکام ہو چکا تھا۔ کیونکہ شمال کی جانب دو کور ہٹ جانے کے باعث مرکزی کورکا کمانڈر دائیں طرف سے مکمل طور پر دشمن کے نرغے میں آ چکا تھا اور دن کے پیچھے پہر پسپا ہوتے ہوئے دریائے اوئز کے دوسری طرف جا کر قدم جائے۔پانچویں آرمی کے بالکل سامنے شمال کی سمت ایک بہت بڑی جنگ ہوئی۔ یہاں جرمنی کے دوکور فرانس کی افواج کو بری طرح دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ فرانس کی جانب سے محفوظ فوج کا پہلا کور بطور کمک پانچویں آرمی کی مدد کو آیا۔ اس کمک سے فرانس کی افواج کے اُکھڑے ہوئے قدم جم گئے اور تھوڑی ہی دیر میں فرانس کی جانب سے جوابی حملہ کیا گیا اور جرمنی افواج کو اندھیرا ہونے تک پیچھے دھکیل دیا گیا۔گو کہ جنگ سے جنرل جوفر کے متوقع نتائج 100فیصد حاصل نہ ہوئے تھے۔ تاہم وہ بہت حد تک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ ایک بڑی وجہ جرمنی کی پہلی آرمی کی جنوب مغرب کی جانب پیش قدمی بھی تھی جو اسے اس محاذ سے کسی قدر دور کر رہی تھی۔اس مختصر کامیابی نے فرانس کی افواج کے حوصلے بلند کردیئے۔ حالانکہ پانچویں آرمی کا جنوب کی جانب حملہ بری طرح ناکام ہو گیا تھا مگر شمال سے جرمنی کے بڑھتے ہوئے قدم روک لئے گئے تھے۔ جنرل چارلس نے ہیڈ کوارٹر سے اپنے کوروں کی واپسی کے احکامات لے لئے تھے اور بڑی تیزی سے اپنی آرمی کو مجتمع کرتے ہوئے از سر نو صف آراء کر لیا تھا۔ جنرل بوُلو کی آرمی دشمن کی جانب سے ہونے والی شدید مزاحمت سے سخت خائف تھی اور ڈیڑھ دن تک برطانوی افواج اور ان کے ساتھ فرانس کی افواج کو بلا روک ٹوک پسپا ہونے میں کوئی مزاحمت نہ کر سکی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بوسنیا کا اعلان آزادی1992ء میں بوسنیا نے آج کے دن اعلان آزادی کیا اور اور یکم مارچ کو بوسنیا میں یوم تاسیس منایا جاتا ہے۔بوسنیا یورپ میں موجود وہ ملک ہے جو پہلے یوگوسلاویہ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ یورپ کے جنوب میں واقع ہے۔ بوسنیا کی تین اطراف سے کروشیا کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ بوسنیا کے پاس صرف 26 کلومیٹر کی سمندری پٹی ہے۔ اس لئے کسی بھی جنگ کی صورت میں آسانی سے بوسنیا کا محاصرہ کیا جا سکتا ہے۔ مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ چارلی چیپلن کی نعش چوری 1978 ء میں مشہور مزاحیہ اداکار چارلی چیپلن کی نعش سوئٹزر لینڈ میں موجود ایک قبرستان سے چرا لی گئی۔ چارلی چپلن کا انتقال 25 دسمبر 1977ء کو ہوا تھا۔ چارلی چیپلن کی نعش کو کچھ افراد کے گروہ نے تاوان کیلئے چرایا تھا ۔ نعش قبرستان سے چرا تو لی گئی لیکن اس کا کچھ خاص فائدہ نہ ہو سکا ۔کچھ ہفتے بعد چارلی چیپلن کی نعش جنیوا جھیل کی تہہ میں سے ملی اور اسے دوبارہ قبرستان میں دفنا دیا گیا۔دنیا کا پہلا نیشنل پارک1872ء میں دنیا کے پہلے نیشنل پارک کا افتتاح کیا گیا۔ اس پارک کا نام ''ییلو سٹون‘‘ تھا۔ یہ پارک امریکہ کی ریاستوں ایڈاہو، مونٹانا اور ویومنگ میں واقع ہے۔ اس نیشنل پارک کا رقبہ 9ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ یہ رقبے میں اتنا بڑا ہے کہ اس میںدنیا کے نصف گرم پانی کے چشموں کی تعداد بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس پارک میں 290سے زیادہ آبشاریں موجود ہیں۔یہاں مچھلیوں، پرندوں ، ممالیہ اور رینگنے والے جانوروں کی سیکڑوں اقسام بھی موجود ہیں۔'' صفر امتیازی دن‘‘''صفر امتیازی دن‘‘ (Zero Discrimination Day) ہر سال یکم مارچ کو اقوام متحدہ (UN) اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک میں قانون حکمرانی اور برابری کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن سب سے پہلے یکم مارچ 2014ء کو منایا گیا تھا ۔در اصل اس دن کا آغاز ''یو این ایڈز‘‘ کی طر ف سے ایچ آئی وی /ایڈزکے مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔اس کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک میں اس دن کو مختلف شعبوں میں امتیازی سلوک کے خلاف منایا جانے لگا جس میں عورتوں کے حقوق اور لسانی تفریق وغیرہ بھی شامل ہیں۔ 

ذہنی صحت: خاموشی توڑنے کا وقت

ذہنی صحت: خاموشی توڑنے کا وقت

کسی بھی معاشرے کے صحت مندہونے کا اندازہ صرف اس کی معاشی ترقی یا جسمانی صحت سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ذہنی صحت جو انسانی وجود کا بنیادی جزو ہے، اکثر نظرانداز کی جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں روزمرہ کی زندگی کے چیلنجز، معاشی دباؤ اور سماجی مسائل کا ایک انبار ہے، ذہنی صحت کے بحران کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی بیماریوں کو جنون یا دماغی کمزوری سمجھ لیا جاتا ہے اور اس پر بات کرنا معیوب قرار پاتا ہے۔ لیکن وقت آ گیا ہے کہ ہم اس خاموشی کو توڑیں اور ذہنی صحت کو قومی ترجیح بنائیں۔ صورتِ حال، اعدادوشمار اور حقائق عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پاکستان میں 24 فیصدآبادی کسی نہ کسی ذہنی عارضے کا شکار ہے۔ یہ تعداد تقریباً 5 کروڑ افراد بنتی ہے۔ تاہم ذہنی بیماریوں کی سکریننگ اور علاج کیلئے مختص وسائل بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں فی ایک لاکھ آبادی صرف 0.19 نفسیاتی ماہرین ہیں، جو مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں سب سے کم تعداد میں سے ایک ہے، اور پوری دنیا میں بھی۔اکتوبر 2023ء میں اسلام آباد میں ہونے والی ماہرین کی ایک کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں صرف 900 تربیت یافتہ اور مستند ماہرین نفسیات موجود ہیں جبکہ یہاں ہر تیسرے شخص کو ہلکی یا درمیانے درجے کے ڈپریشن کا سامنا ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت کا سالانہ بجٹ کا صرف 1 فیصد ذہنی صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ان اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسے بحران کے کنارے پر کھڑے ہیں جسے نظرانداز کرنے کی قیمت ہم اپنی تخلیقی صلاحیتوں، تعلیم اور سماجی تعلقات کی صورت میں چکا رہے ہیں۔ مسئلہ کہاں ہے؟ پاکستانی معاشرے میں ذہنی صحت کو اکثر ''پاگل پن‘‘کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ڈپریشن، انگزائٹی، یا PTSD یعنی (Post-traumatic stress disorder) جیسے مسائل پر بات کرنے والوں کو ڈرامہ باز یا توجہ کا طالب قرار دے دیا جاتا ہے۔ خواتین کیلئے یہ صورتحال اور بھی سنگین ہے۔ مثال کے طور پر شادی کے بعد ڈپریشن کا شکار ہونے والی خواتین کو ناشکرا کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان کی بھی من مانی تعبیریں کی جاتی ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ نظر انداز کی جانے والی ذہنی بیماریوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مذہبی اور ثقافتی عقائد بھی اس سکوت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ذہنی مسائل کو اکثر جنوں کا سایہ یا کسی کی بدعا کا نتیجہ قرار دے کر روحانی علاج کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دعا ذہنی سکون کا ذریعہ ہے لیکن پیشہ ورانہ طبی علاج کی ضرورت اپنی جگہ پر ہے۔ ذہنی صحت کے مسائل پر خاموشی صرف فرد تک محدود نہیں رہتی،اس کے معاشرتی و معاشی اثرات بھی گہرے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈپریشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی کارکردگی میں کمی ملک کی مجموعی پیداوار (GDP) کو سالانہ 2سے3 فیصدتک نقصان پہنچاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ذہنی دباؤ کے باعث تعلیمی معیار گر رہا ہے جبکہ گھریلو تشدد اور خاندانی تعلقات کی خرابی کی ایک بڑی وجہ بھی ذہنی عدم استحکام ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا، خصوصاً نوجوان نسل اس سکوت کو توڑنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ بعض این جی اوزنے بھی مفت کاؤنسلنگ سروسز اور ہیلپ لائنز متعارف کروائی ہیں۔ ادبی حلقوں میں بھی ذہنی صحت پر بات چیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر مشہور مصنفہ عمیرہ احمد کے ناولز میں ڈپریشن اور تنہائی جیسے موضوعات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ 2020 ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے ''مینٹل ہیلتھ ایکٹ‘‘ منظور کیا تھا جس کا مقصد ذہنی بیماریوں کے شکار افراد کے حقوق کا تحفظ اور علاج کو عام کرنا ہے۔ تاہم اس قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ذہنی صحت کے وارڈز اکثر قید خانوں سے مشابہت رکھتے ہیں جہاں مریضوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجٹ میں اضافہ کیا جائے، تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا جائے، اور عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ بات چیت کا آغاز: خاندان اور دوستوں کے ساتھ کھل کر بات کریں۔ جملے جیسے ''تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘ کی بجائے ''میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں‘‘ کہیں۔ تعلیم کو فروغ دیں: سکولوں اور کالجوں میں ذہنی صحت کے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنائیں۔ بچوں کو سکھایا جائے کہ جذبات کا اظہار کرنا کمزوری نہیں۔ پیشہ ورانہ مدد لیں: جسمانی بیماری کی طرح ذہنی عارضے بھی علاج کے متقاضی ہیں۔ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ سماجی دباؤ کو کم کریں: خواتین کو کریئر کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کیلئے بھی مواقع دیں۔ نوجوانوں پر کامیابی کے غیر حقیقی معیارات نہ تھوپیں۔ دنیا بھر میں ذہنی صحت کے حوالے سے ہونے والی ترقی سے سبق لیتے ہوئے پاکستان بھی اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ نے ''ٹاکنگ تھراپی‘‘ کو قومی صحت کی خدمات (NHS) میں شامل کر کے خودکشی کی شرح میں 20 فیصدکمی کی ہے۔ ذہنی صحت پر خاموشی توڑنا صرف ایک آپشن ہی نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ہمیں اپنے گھروں، سکولوں، اور دفتروں میں ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنی ہو گی۔ یاد رکھیں ایک صحت مند معاشرہ تب ہی بن سکتا ہے جب یہاں ہر فرد کو ذہنی سکون میسر ہو۔  

گولڈن گیٹ برج فن تعمیر کا بے مثل شاہکار

گولڈن گیٹ برج فن تعمیر کا بے مثل شاہکار

امریکہ کے ساحلی شہر سان فرانسسکو کا نام سنتے ہی نظروں میں گولڈن گیٹ برج کا عظیم الشان پل آتا ہے، جسے اکثر ہالی وڈ کی فلموں کے مناظر میں بہت خوبصورتی سے دکھایا جاتا ہے۔ گولڈن گیٹ برج 20ویں صدی کے حیرت انگیز تعمیراتی کارناموں میں سے ایک ہے۔ایک اعشاریہ دو میل لمبا یہ پل سان فرانسسکو کو میرین کائونٹی سے ملاتا ہے۔ امریکہ میں عظیم کساد بازاری کے دور میں تعمیر ہونے والے اس پل کو دنیا کا سب سے طویل سسپنشن( معلق) برج ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔27مئی 1937ء کو جب یہ پل پایہ تکمیل کو پہنچا تو اس منصوبے پر تنقید اور احتجاج کا طویل سلسلہ بند ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اتنے بڑے منصوبے پر کثیر ملکی سرمایہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ کچھ نے کہا کہ دنیا کی محفوظ ترین قدرتی بندرگاہ کو اس پل کی تعمیر سے نقصان پہنچے گا۔ یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا اور بالآخر اس کی تکمیل پر یہ تمام آوازیں اس عظیم انسانی کارنامے کو دیکھ کر دب گئیں۔1937ء میں اس پل کی تکمیل سے قبل تک اس کی تعمیر کو ناممکن تصور کیا جاتا رہا کیونکہ یہاں کے موسم میں مسلسل دھند رہتی ہے، 60میل فی گھنٹہ کی فرتار سے ہوائیں چلتی رہتی ہیں اور یہاں سمندر کی موجیں بہت طاقتور ہیں لیکن ان تمام قدرتی مشکلات کے باوجود تقریباً ساڑھے چار سال کی مدت میں اسے تعمیر کر لیا گیا۔ اس پر 35ملین ڈالر لاگت آئی اور گیارہ افراد اس کی تعمیر کے دوران ہلاک ہوئے۔ آج بھی اس پل کا بڑا حصہ گہری دھند میں لپٹا رہتا ہے۔ جب سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں تو یہ پل انہیں برداشت کرنے کیلئے 27فٹ تک جھول جاتا ہے۔پل کے ساتھ جو دو کیبلز لگی ہوئی ہیں ان میں 80ہزار میل لمبی سٹیل وائر ہے جسے زمین کے ایکویڑ کے گرد تین دفعہ لپیٹا جا سکتا ہے۔ طوفانی لہروں میں پل کو مضبوط بنانے کیلئے جتنا کنکریٹ استعمال کیا گیا ہے اس سے نیویارک اور سان فرانسسکو کے درمیان 5فٹ چوڑی سائیڈوال تیار کی جا سکتی تھی۔27مئی 1937ء کو اس پل کا افتتاح دو لاکھ سے زائد افراد نے اس پر چلتے ہوئے کیا۔ اگلے روز سرکاری طور پر اس پل کا نام گولڈن گیٹ برج رکھ کر ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔اس پل کی تعمیر کیلئے کوششوں کا آغاز 1928ء میں ہوا۔ جنوبی کیلی فورنیا کی چھ کائونیٹوں نے اس کیلئے کوششوں میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان ریاستوں نے گولڈن گیٹ برج اینڈ ہائی وے ڈسٹرکٹ کے نام سے ایک ادارہ بنایا۔1930ء میں یہاں کے ووٹروں نے 35ملین ڈالر کے بانڈ جاری کرنے کی منظوری دی تاکہ اس پل کی تعمیر کیلئے وسائل مہیا کئے جا سکیں۔ پل کا ڈیزائن انجینئر جوزف بائرمین اسٹراس نے اپنے دیگر معاونین کی مدد سے تیار کیا۔اس پل پر عملی کام کا آغاز 5جنوری 1933ء کو ہوا اور اسے ساڑھے چار سال کے عرصے میں مکمل کر لیا گیا۔ اس کی تعمیر کا سب سے مشکل مرحلہ جنوبی ٹاور کی تیاری تھا جس کے دوران کارکنوں کو بس اوقات رسیوں پر لٹک کر اور اپنی جان پر کھیل کر کام کرنا پڑا تاکہ کنکریٹ کے اس مضبوط ٹاور پر پل کھڑا ہو سکے۔ پل کی تعمیر کے دوران سب سے بڑا حادثہ 17فروری 1937ء کو اس وقت پیش آیا جب پورا ایک پلیٹ فارم جس پر انجینئرز کام کر رہے تھے ٹوٹ کر حفاظتی جال توڑتا ہوا نیچے جا گرا، جس میں 10افراد فوراً ہلاک ہو گئے۔ برج کے ایک ٹاور سے دوسرے ٹاور کا وزن 95 ملین ٹن ہے۔ یہ ٹاور 746 فٹ بلند ہیں۔ دو ٹاوروں کے درمیان کا فاصلہ جو کیبلز کو اٹھائے رکھتے ہیں۔ 4200 فٹ ہے۔ یہ کیبلز پل کے فرش کو سہارا دیتی ہے۔گولڈن گیٹ برج دنیا بھر میں امریکہ کی مستند پہچان رکھتا ہے۔ جسے شروع دن سے ہی انٹرنیشنل اورنج سے پینٹ کیا گیا ہے جو عام رنگ کی بجائے خصوصی طور پر سرخ اور نارنجی رنگ ملا کر تیار کیاگیا ہے۔ اس رنگ کی بنیادی وجہ یہاں کا موسم ہے۔ گہرے کہر میں پل اور گاڑیوں کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ رنگ کیا گیا اس پر اوسطاً ایک لاکھ 25 ہزار کاریں روزانہ گزرتی ہیں جبکہ ساتھ میں بنے ہوئے فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کیلئے یہ ایک حسین نظارہ پیش کرتا ہے۔ سان فرانسسکو میں سیاحوں کے لئے یہ جگہ بہت کشش رکھتی ہے۔ اس جگہ کو کئی فلموں میں انتہائی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے جس سے اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بھارتی دراندازی26فروری2019ء کو بھارت نے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت پر حملہ کرتے ہوئے دراندازی کی اور رات کے اندھیرے میں بالاکوٹ کے ایک مقام پر اپنے ہی جہاز کا ''پے لوڈ‘‘ پھینک کر فرار ہو گیا۔ بھارت نے دنیا بھر میں شور مچایا کہ ہم نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کی ہے۔ پاکستان نے دنیا کو اس من گھڑت سرجیکل سٹرائیک کی حقیقت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بھارت نے ہمارے چند درختوں کو نقصان پہنچایا ہے۔27فروری 2019ء کو پاکستان نے دن کے اجالے میں بھارت کو سرپرائز دیتے ہوئے جوابی کارروائی کی اور ان کے دو جہاز مار گرائے۔ بھارتی ائیر فورس کا ایک پائلٹ گرفتار بھی کیاگیا جسے جذبہ خیرسگالی کے تحت بھارت کو واپس کر دیا گیا۔ دنیا کاپہلا ویب براؤزر1991ء میں ٹم برنرز لی نے پہلا ویب براؤزر متعارف کرایا۔ ویب براؤزر ایسا سوفٹ ویئر ہوتا ہے جو انٹرنیٹ پر موجود تصاویر اور دیگر معلومات آپ تک پہنچاتا ہے۔ جو بھی معلومات انٹرنیٹ یا کسی بھی لوکل ایریا نیٹ ورک پر موجود ہوتی ہیں وہ براؤزر انٹرنیٹ سے ڈی کوڈ کرتے ہوئے آپ تک پہنچاتا ہے۔ جدید دور میںبراؤزر کی سب سے کامیاب مثال ہمیں گوگل کروم کی صورت میں نظر آتی ہے۔سلطنت عثمانیہ کا زوال26 فروری 1925ء کو جنگ کریمیا کے بعد عثمانی سلطنت کا زوال شروع ہو ا۔ اسی زوال سے الجھتے ہوئے سلطنت نے قرضوں کی ادائیگی بند کر دی۔ قرضوں کے محصولات کی ادائیگی کیلئے سلطنت عثمانیہ نے تین بینکوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس کا نام '' رجی‘‘ رکھا گیا۔محصولات اکٹھے کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کمیٹی کو سونپی گئی۔ قیام جمہورت کے بعد اس کمیٹی کو ختم کر دیا گیا ۔لزبن میں خوفناک زلزلہ26فروری1531ء کو لزبن جو اس وقت پرتگالی سلطنت کے زیر انتظام تھا میں صبح5بجے کے قریب ایک خوفناک زلزلہ آیا۔زلزلے کی شدت کے متعلق وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کے نتیجے میں آنے والے سونامی کی وجہ سے 30ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس ہولناک زلزلے کو یورپی تاریخ کے بدترین زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔زلزے کے بعد کافی دن تک آفٹر شاکس بھی محسوس کئے جاتے رہے، آفٹر شاکس کی شدت نے کئی دن تک لوگوں کو خوف میں مبتلا کئے رکھا۔ جنوبی افریقی ٹیم کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی 1992ء میں جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم نے 21 سال بعد بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی۔ 1970ء میں جنوبی افریقہ کو نسلی امتیاز کی پالیسیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ سے معطل کر دیا گیا تھا۔اس پابندی کے دوران، جنوبی افریقی ٹیم کو کسی بھی ٹیسٹ، ون ڈے یا دیگر بین الاقوامی کرکٹ میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔1991 میں، جب جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کی پالیسیوں میں نرمی آنا شروع ہوئی اور نیلسن منڈیلا کی رہائی کے بعد سیاسی منظرنامہ بدلا، تو آئی سی سی نے جنوبی افریقہ پر سے پابندی ہٹا دی۔