قرطاجنہ خوبصورت قدیم شہر

اسپیشل فیچر
شمالی افریقہ میں خلیج تیونس کے کنارے ایک تکونی جزیرہ نما واقع ہے۔ اس پر قدیم زمانے میں فونیقی قوم نے ایک خوبصورت شہر تعمیر کیا تھا۔ اس کا نام قرطاجنہ (Carthage) تھا۔ یہ شہر ترقی کر کے ایک شہری ریاست بن گیا تھا۔ قرطاجنہ کے ابتدائی آبادکار جو فونیقی شہر صور (Tyre) سے تعلق رکھتے تھے، پہلے پہل بارہویں صدی قبل مسیح میں یہاں پہنچے تھے۔ ان کا مقصد ایک نوآبادی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اسباب تجارت کے لیے ایک منڈی تلاش کرنا بھی تھا۔
تعمیر روم کے افسانے کی طرح قرطاجنہ کی تعمیر بھی افسانوی طور پر 814 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ اس افسانوی روایت کے مطابق صور کی شہزادی ڈیڈو (Dido) جب اپنے بھائی شاہ پگمالیون (صور کی تاریخ میں اس نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے) کے مظالم سے بھاگ کر شمالی افریقہ پہنچی تو اس نے خلیج تیونس کے کنارے اس مقام پر ایک شہر کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے ایک کھال کے برابر جگہ حاصل کی، پھر شہزادی نے چالاکی سے کھال کو باریک اور پتلی پٹیوں میں کاٹنے کا حکم دیا۔ بعدازاں ان باریک پٹیوں کی مدد سے ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا۔ اسی رقبے پر قرطاجنہ کی تعمیر ہوئی۔
قرطاجنہ شہر کے عین درمیان میں ایک چٹان پر ایک قلعہ تھا جو بیرصہ (Byrsa) کہلاتا تھا۔ اسی قلعے کے اردگرد قرطاجنہ کا پورا شہر آباد تھا۔ یہ شہر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم دنیا کا ایک اہم شہر بن گیا اور روم کے ہمسر کے طور پر ابھرا۔ رومی اس شہر کے باشندوں کو پیونی (Poeni) کہتے تھے، جو فونیقی (Phoenician)کی ایک بدلی ہوئی شکل تھی۔ اسی لفظ کی وجہ سے بعدازاں روم اور قرطاجنہ کے درمیان تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح میں لڑی جانے والی جنگیں پیونک جنگیں کہلاتی ہیں۔
قرطاجنہ کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی مذکورہ تاریخ غالباً خود قرطاجنی باشندوں نے اپنی مبالغہ آرائی سے قائم کی تھی۔ جدید آثار قدیمہ کی تحقیق کی روشنی میں جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ اس تاریخ سے موافقت نہیں رکھتے۔ اثریاتی کھدائیوں سے کوئی چیز ایسی دستیاب نہیں ہوئی جس کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح کے آخر سے پہلے کے زمانہ سے بنتا ہو۔
قرطاجنہ کے بارے میں سب سے قدیم حوالہ ہمیں 509 قبل مسیح میں ملتا ہے، جب روم اور قرطاجنہ میں تجارتی مراعات کے بارے میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں اہل قرطاجنہ نے سسلی فتح کرنے کی ناکام کوشش کی جس کی وجہ سے اہل روم سے مخاصمت کا آغاز ہوا۔ بعد میں سسلی ہی پر اہل قرطاجنہ کی یورشوں سے پیونک یا قرطاجنی جنگیں پیش آئیں۔ ان کے آخر میں 146 قبل مسیح میں رومی جنرل سیپیوایفرایکٹس اصغر نے قرطاجنہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور شہر کو جلا کر مسمار کرایا۔
122 قبل مسیح میں رومی سینیٹ نے دو رومی امیروں گایوس گریکس (Gaius Gracchus) اور مارکوس فلویس فلیکس کو قرطاجنہ کے کھنڈرات پر ایک رومی نوآبادی قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی لیکن کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ اس کے بعد جولیس سیزر نے روم کے ایسے شہریوں کو یہاں آباد کیا جن کے پاس زمینیں نہ تھیں۔
29 قبل مسیح میں شہنشاہ آگسٹس نے افریقہ میں رومی مقبوضات کے انتظامی امور کے لیے قرطاجنہ کا انتخاب کیا۔ اس کا آباد کردہ قرطاجنہ (Colonia Julia Carthago) کہلاتا تھا۔ جلد ہی یہ قرطاجنہ سکندریہ اور دوسرے کئی رومی نوآبادیاتی شہروں سے زیادہ ترقی کر گیا اور ان کا ہم پلہ قرار پایا۔ اگرچہ کسی بھی رومی شہنشاہ نے یہاں قیام نہیں کیا مگر بیشتر رومی شہنشاہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے بعد روم کی سلطنت کے زوال تک قرطاجنہ کی تاریخ پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ البتہ دوسری صدی عیسوی کے آخر تک یہاں عیسائیت اتنی پھل پھول چکی تھی کہ یہاں کی کلیسائی شخصیات میں فادر ترتولین (Father Tertullian) اور سینٹ سائپرین کے نام نمایاں ہیں۔
439ء میں ونڈال حکمران گائیسرک بغیر کسی مزاحمت کے فاتحانہ طور پر قرطاجنہ میں داخل ہو گیا اور یہاں ونڈال سلطنت قائم ہو گئی، جو تقریباً سو سال تک قائم رہی۔ گیلمیر یہاں کا آخری ونڈال حکمران تھا۔ اسے 533ء میں بازنطینی جنرل بیلیساریوس (Belisarius) نے شکست دی۔ 705ء تک یہاں بازنطینی حکومت قائم رہی اور اس سال اس تاریخی شہر کو مسلم عربوں نے فتح کیا جس کے بعد اس کے ایک قریبی شہر تیونس کو عروج حاصل ہوا اور یہ شہر گہناتا چلا گیا۔
رومی قرطاجنہ بھی قدیم شہر کی طرح بالآخر تباہ ہو گیا مگر اس کے آثار اب تک موجود ہیں۔ ان آثاروں میں رومی آبراہ اور کئی قلعوں کے آثار نمایاں ہیں۔ سابقہ قلعہ بیرصہ کے مقام پر رومی عہد میں جو پیٹر اور مزوا دیوی کا مندر تعمیر ہوا، اس کے علاوہ یہاں ایک غلام گردش بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اس غلام گردش کے آثار سے رومی عہد کی سنگ تراشی کے بہترین نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ قرطاجنہ کے بازنطینی عہد میں یہاں کئی خوبصورت کلیسا بھی تعمیر ہوئے تھے، مگر اب ان کے آثار مفقود ہیں۔