برطانیہ نہ صرف ایک ترقی یافتہ اور کثیر الثقافتی ملک ہے۔یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار آزادی کے ساتھ اپنی عبادات انجام دیتے ہیں۔ ان میں مسلم کمیونٹی کی تعداد بھی خاصی بڑی ہے، جنہوں نے برطانیہ بھر میں کئی شاندار اور خوبصورت مساجد تعمیر کی ہیں۔ یہ مساجد نہ صرف عبادت گاہیں ہیں بلکہ اسلامی ثقافت، فن تعمیر اور بین المذاہب ہم آہنگی کی خوبصورت علامت بھی ہیں۔مرکزی مسجد، ایڈنبرااس مسجد کو کنگ فہد مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد یہاں کے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا اسلامی مرکز بھی ہے۔ یہ مسجد سکاٹ لینڈ میں ایڈنبرا اور نیشنل میوزیم کے قریب واقع ہے۔ اس کا سنگ بنیاد1992ء میں رکھا گیا اور چھ سال میں یہ مسجد پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس کا افتتاح31جولائی1998ء بمطابق 1419ھ کو سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے صاحبزادے پرنس عبدالعزیز بن فہد نے کیا۔ مسجد کا ڈیزائن ایک ماہر تعمیرات باسل الباقی نے تیار کیا۔ اس کی تعمیر پر 15ملین سعودی ریال(3.5ملین پائونڈ) خرچ ہوئے۔ اس میں 90فیصد رقم شاہ فہد نے بطور عطیہ دی۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 1100 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر کی بالکونی میں دو سو خواتین بھی نماز پڑھ سکتی ہیں۔ مسجد کے دو گنبد اور ایک مینار ہے۔ مرکزی ہال میں بہت قیمتی اور عالیشان قالین بچھایا گیا ہے اور گنبد کے نیچے ہال میں ایک شاندار فانوس لٹک رہا ہے۔ دوران تعمیر شاہ فہد کے صاحبزادے شہزادہ عبدالعزیز اس منصوبے کے سرپرست تھے۔ اس مسجد کی تعمیر سے قبل یہاں کوئی مسجد موجود نہ تھی اور روز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر یہاں پر ایک مسجد کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اس طرح مقامی سٹی کونسل کے تعاون سے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اس اسلامی مرکز میں ایک لائبریری لیکچر ہال اور طلبہ کیلئے کلاس روم بھی بنائے گئے ہیں۔مرکزی مسجد برمنگھم (یوکے)برمنگھم کی مرکزی مسجد ایک اسلامک سنٹر بھی ہے۔ پورے یورپ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس مسجد میں 6ہزار افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ عیدین کے موقع پر جب مسجد کے سامنے اور اطراف میں بھی صفیں بچھائی جاتی ہیں تو نمازیوں کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے لئے علیحدہ جگہ مخصوص ہے جبکہ مرکزی ہال میں 2500افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں مسجد کی زمین کے حصول کے بعد جب اس کی تعمیر کے لئے فنڈ کا مسئلہ درپیش آیا تو مسجد کے ٹرسٹی، بزنس کمیونٹی سے ملے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل تھے جب کافی فنڈ اکٹھا ہو گیا تو مسجد کی تعمیر شروع کر دی گئی اور 1969ء میں یہ مکمل ہو گئی۔1986ء میں مسلمانوں کو لائوڈ سپیکر میں اذان کی اجازت کا مسئلہ پیش آیا تو ارد گرد مقیم غیر مسلموں نے احتجاج کیا کہ ہمارے آرام میں خلل پڑے گا، لہٰذا معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ جج نے مسلم کمیونٹی سے وضاحت طلب کی تو مسلمانوں نے یہ جواز پیش کیا کہ جب ہمارے ارد گردان کے کلیسائوں کی گھنٹیاں بجتی ہیں تو انہیں اجازت ہے، اسی بنیاد پر جج نے مسلمانوں کو بھی مسجدوں کے لائوڈ سپیکر میں اذان دینے کی اجازت دی اور یوں یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔ اس مسجد کا ایک مینار اور ایک بڑا گنبد ہے۔ گنبد کے اوپر ستارہ ہلال کا نشان بنا ہوا ہے۔ مینار کی چوٹی کے اوپر ایک چھوٹے سنہری گنبد کا 1981ء میں اضافہ کیا گیا۔ مسجد کے داخلی دروازے کی پیشانی پر جلی حروف میں کلمہ طیبہ نہایت خوبصورت انداز میں تحریر ہے۔ راقم کے عزیز دوست مولانا عبیدالرحمن ضیاء ہر دوسرے تیسرے سال وہاں برمنگھم کے مسلمانوں کی دعوت پر تشریف لے جاتے ہیں اور مرکزی مسجد میں لوگ مولانا کی پرترنم اور دلوں میں اترنے والی تقریروں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔برطانیہ کی مساجد نہ صرف عبادت کے لیے اہم مراکز ہیں بلکہ یہ اسلامی فن تعمیر، سماجی خدمات، اور بین المذاہب رواداری کی خوبصورت مثالیں بھی ہیں۔ ان مساجد کا حسن، ان کی سرگرمیاں اور ان کا مقامی کمیونٹی سے تعلق برطانوی معاشرے میں مسلمانوں کے مثبت کردار کو اجاگر کرتا ہے۔