یادرفتگاں:امتیاز علی تاج جنہوں نے اردو ڈرامہ نگاری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا
اسپیشل فیچر
''انار کلی‘‘ اور ''چچا چھکن ‘‘دو ایسے کردار ہیں جن سے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دیگر زبانوں اور معاشروں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی واقف ہیں۔ یہ دونوں ایسے ناقابل فراموش کردار ہیں جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان دو اہم کردار کے خالق سید امتیاز علی تاج ہیں۔
سید امتیاز علی تاج اردو ادب کے ممتاز ڈرامہ نگار اور نثر نگار تھے، جنہوں نے اردو ڈرامے کو نئی جہتیں عطا کیں۔سید امتیاز علی 13اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد سید ممتاز علی، دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے ،جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف اور اردو اشاعت کے بانیوں میں سے تھے۔ ان کی والدہ محمدی بیگم بھی مضمون نگار تھیں۔ان کی اہلیہ، حجاب امتیاز علی خود ایک معروف اردو ناول نگار اور شاعرہ تھیں، اور 1936ء میں ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون پائلٹ بنیں۔ ان کی بیٹی یاسمین طاہر اور داماد نعیم طاہر بھی فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہیںجبکہ پوتے فرحان طاہر اور علی طاہر نے بھی فنون لطیفہ میں نام کمایا۔
امتیاز علی تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل سکول سے میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اْنھیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈرامہ سے دلچسپی تھی ،دراصل یہ ان کا خاندانی ورثہ تھا۔تاج کالج کے ذہین ترین طالب علم تھے۔ اپنے کالج کی ثقافتی و ادبی سرگرمیوں میں متحرک اور فعال رہتے تھے۔ ڈرامہ اور مشاعرہ سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ تاج ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے 17سال کی عمر میں 'شمع اور پروانہ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا۔تاج ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ ''کہکشاں‘‘ نکالنا شروع کردیا۔ اُن کوڈرامہ نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔وہ گورنمنٹ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔
امتیاز علی تاج کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی ذہانت کے ثبوت دیئے، ریڈیو فیچر لکھے، فلمیں لکھیں، ڈرامے لکھے مگر سب سے زیادہ شہرت انہیں ڈرامہ ''انارکلی‘‘ سے ملی۔یہ ان کا شاہکار ڈرامہ تھا، جو نصابوں میں شامل کیا گیا۔ جس پر بے شمار فلمیں بنیں آج بھی جب انارکلی کا ذکر آتا ہے تو امتیاز علی تاج کی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔ اس ڈرامہ میں جس طرح منظر نگاری،کردار نگاری اور مکالمے ہیں اس کی داد سبھی نے دی ہے۔ یہ ڈرامہ آج مختلف جامعات میں تحقیق کا موضوع بنا ہوا ہے۔اُن کا تحریر کردہ ڈرامہ ''انارکلی‘‘ جدید اُردو ڈرامہ نگاری کی تاریخ میں نقش ِاوّل اور سنگ ِمیل تصور کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امتیاز علی تاج نے ڈرامہ ''انار کلی‘‘ صرف بائیس برس کی عمر میں لکھا،جو اردو ڈراموں میں اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔انھوں نے اُردو ڈرامہ نگاری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔
ان کے لکھے ہوئے مشہور ڈراموں میں ''ستارہ، ورجینیا، دلھن، قسمت، روشن آرا،شاہ جہاں، چچا چھکن اور قرطبہ کا قاضی کے نام سرفہرست ہیں۔ تاج نے بہت سے انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا اور یہاں کے ماحول کے مطابق انہیں ڈھالا۔ ''قرطبہ کا قاضی‘‘ انگریز ڈراما نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور ''خوشی‘‘ پیٹرویبر فرانسیسی ڈراما نگار سے لیاگیا ہے۔
''چچا چھکن‘‘امتیاز علی تاج کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ناول''محاصرہ غرناطہ‘‘ اور'' ہیبت ناک افسانے ‘‘بھی مشہور ہیں۔ تاج آخری عمر میں مجلس ترقی ادب، لاہور سے وابستہ رہے۔ اُن کی زیر نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیں۔
امتیاز علی تاج کے ڈراموں کے علاوہ فلموں بھی دلچسپی لی۔ کہانیاں، منظرنے اورمکالمے لکھے۔فلمیں بھی بنائیں۔ ان کی فلم کمپنی کا نام 'تاج پروڈکشن لمیٹڈ ‘تھا۔
اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ِپاکستان نے انھیں ''ستارہ امتیاز‘‘ اور ''تمغہ برائے حسن ِکارکردگی‘‘ سے نوازا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں 2001ء میں پاکستان پوسٹ نے ان کے اعزاز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ 19 اپریل 1970 کو امتیاز علی تاج کو دو نقاب پوشوں نے ان کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ ان کی اہلیہ حجاب امتیاز علی اس حملے میں شدید زخمی ہوئیں۔