سورج گرہن جس نے دو عشروں سے جاری جنگ کو ختم کرا دیا
اسپیشل فیچر
یہ اس دور کا قصہ ہے جب لوگ دیگر بہت سارے مظاہر قدرت کے ساتھ سورج، چاند اور ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ سورج ان کا پسندیدہ اور ہر د لعزیز دیوتایوں تھا کہ اس کا ساتھ پجاریوں کے ساتھ دن کے زیادہ وقت رہتا تھا۔ سورج کی بحیثیت دیوتا ایک عرصہ تک پوجا دنیا کے بیشتر حصوں میں کی جاتی رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب نجوم بطور علم لوگوں کی زندگیوں میں داخل ہو چکا تھا۔ بعد میں نجوم ترقی کرتے کرتے ''علم ہئیت‘‘ میں بدل گیا۔ اس زمانے میں بابل اور مصر کے لوگ علم ہئیت کے ماہر تصور ہوتے تھے۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ علم ہئیت کا آغاز غالباً تاریک راتوں کے سفر کے دوران اس وقت شروع ہوا جب انسان کو سمتوں کے تعین کی ضرورت پیش آئی ہو گی۔غالباً سب سے پہلے انسان کے مشاہدے میں یہ آیا کہ آسمان پر کچھ ستارے ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ ایک ہی سمت کا تعین کرتے ہیں جبکہ ان کی مدد سے دوسری سمتوں کا تعین با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اس علم ہئیت کو ترقی معبدوں کے پروہتوں سے ملی۔ چونکہ پروہت ، دیوتائوں کے نائب اور ترجمان ہوا کرتے تھے اس لئے اس دور میں پروہتوں کی بات دیوتا کی بات تصور ہوتی تھی۔
پروہتوں نے بلند و بالا معبدوں کے چبوتروں پر بیٹھ کر سینکڑوں سالوں تک ستاروں کا مشاہدہ کیا اور انکا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تو یہیں سے زائچوں کی شروعات ہوئی۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ستاروں کی گردش پر اپنی توجہ مبذول کئے رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ستاروں کی گردش بلا سبب نہیں ہو سکتی۔ یہ تاریک راتوں میں قدرت کی طرف سے مسافروں کے رہنما ہیں۔ اس کے بعد ان پروہتوں نے باقاعدہ طور پر سورج اور چاند گرہن بارے پیش گوئیاں کرنا شروع کیں۔یہ سورج، چاند، ستاروں کی کسی بھی خلاف معمول حرکت کو اپنی پیش گوئیوں سے جوڑ کر اپنی دھاک بٹھا دیا کرتے تھے۔
تاریخ میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس نے باقاعدہ طور پر سورج گرہن کے راز تک علم ہئیت کے ذریعے رسائی حاصل کی اور سب سے پہلے سورج گرہن کی باقاعدہ پیش گوئی کرنے والا یہ دنیا کا پہلا شخص تھا ، جسے تاریخ ''تھیلیز‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
تھیلیز کو دنیا کا پہلا فلسفی بھی کہا جاتا ہے۔ تھیلیز 625 قبل مسیح یونانی نوآبادیاتی خطے آئیونیا کے شہر مائیلیٹس میں پیدا ہوا اور 546 قبل مسیح یہیں پر اس کا انتقال ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کی قدیم ترین اور عظیم مصر تہذیب اندرونی اور بیرونی خلفشاریوں کی وجہ سے اپنی بقا کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔مورخین کہتے ہیں '' یہی وہ دور تھا جب علم کی شمعیں ایشیا ء سے مغرب کی جانب منتقل ہو رہی تھیں‘‘۔
ریاست آئیونیا کے چونکہ مصر اور بابل سے خوشگوار تعلقات تھے جس کی وجہ سے جوانی ہی میں تھیلیز کو متعدد بار بابل کی طرف سفر کے مواقع ملے۔ علم کی پیاس چونکہ اس کی نس نس میں رچی بسی تھی اس لئے اس نے دنیا کے قدیم ترین علمی مرکز مصر سے علم نجوم ، علم جیومیٹری ، ریاضی اور علم ہئیت بارے انتہائی لگن سے بہت کچھ سیکھا۔ مصر کی تہذیب چونکہ اپنے دور کی عظیم اور شاندار تہذیب تھی بالخصوص اہرام مصر نے ایک عرصے تک دنیا بھر کو حیرت زدہ کئے رکھا۔
تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے کہ جب تھیلیز نے پہلی مرتبہ اہرام مصر دیکھے اس وقت ان کو تعمیر ہوئے لگ بھگ دو ہزار سال بیت چکے تھے لیکن اہرام مصر بارے جہاں اور بہت سارے راز ابھی پوشیدہ تھے وہیں ان کی صحیح اونچائی بھی اس وقت تک ایک راز تھا۔ تاریخی کتابوں سے تھیلیز کا یہ واقع منقول ہے کہ مصر میں قیام کے دوران اس کے علم کا بڑا شہرہ تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ اہل مصر نے تھیلیز سے دریافت کیا کہ بتاو اہرام مصر کی اونچائی کتنی ہے؟۔ تھیلیز نے ایک لمحہ کیلئے سوچا اور کہا یہ بھی کوئی مشکل کام ہے۔اس نے ایک چھڑی منگوائی اور اسے اہرام کے قریب ہی ایک کھلے میدان میں زمین پر گاڑھ دیا۔ چنانچہ جب اس چھڑی کا سایہ اس کی اصل لمبائی کے برابر ہواتو اس نے کہا اس سائے کو ناپو یہی اس کی اصل لمبائی اور اونچائی ہو گی ۔
یوں تو تھیلیز کی زندگی علم ہئیت، ریاضی اور جیومیٹری کے مشاہدات اور تجربات سے بھری پڑی ہے لیکن اس کا سب سے منفرد اور شاندار واقعہ 28 مئی 585 قبل مسیح کا وہ محیرالعقول واقعہ ہے جس کے بارے تھیلیز نے بہت دن پہلے اپنے حساب کتاب کے ذریعے یہ بتا دیا تھا کہ اس دن سورج گرہن ہو گا۔یہ وہ زمانہ تھا جب عام لوگوں میں سورج گرہن کا تصور نہیں تھا۔
یہ اس دن کا قصہ ہے جب اپنے زمانے کی دو جنگجو ریاستی قوتیں ''لیڈیا‘‘ اور ''میڈیا‘‘ (جن کا موجودہ محل وقوع آج کے دور میں ایران اور ترکی کے علاقوں میں تھا) گزشتہ دو دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف خون کی ہولی کھیلتی آرہی تھیں۔ ویسے تو گزشتہ کئی سالوں سے جاری یہ جنگ دونوں اطراف کے ہزاروں جوانوں کو موت کی ابدی نیند سلا چکی تھی۔ لیکن اب پچھلے ایک ماہ سے اس کی شدت میں یہ اضافہ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے اس قدر شدت اختیار کر گیا تھا کہ خون آشام تلواریں واپس نیام میں جانے کیلئے تیار نہ تھیں۔
پھر یکایک غصے اور انتقام سے بپھرے سپاہیوں نے آسمان کو ایک دم رنگ بدلتے دیکھا۔متحارب گروہوں نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں یہ منظر کبھی نہ دیکھا تھا جب آسمان پر نمودار ہونے والی ''عفریت‘‘نے رفتہ رفتہ سورج ''دیوتا‘‘کو نگلنا شروع کیا اور آن کی آن میں یہ عفریت سورج دیوتا کو نگل چکی تھی۔ برسر پیکار گروہوں کو دن میں ستارے نظر آنے لگے۔ متحارب گروہوں نے اپنے سورج دیوتا کا یہ حال دیکھا تو تلواریں تیر کمان، نیزے پھینک کر مناجات پڑھنے لگے۔ کچھ سجدے میں گر گئے۔ رفتہ رفتہ سورج کو اس عفریت سے رہائی ملی اور ایک دفعہ پھر سورج کی کرنوں نے زمین کو روشن کرنا شروع کیا تو سجدے میں گرے لوگوں نے سمجھا کہ شاید ان کی عبادت قبول ہو گئی ہے۔اب دونوں گرہوں کے دل بدل چکے تھے اور اپنے کئے کی معافی مانگ رہے تھے۔ بار بار گڑ گڑا رہے تھے کہ ان کی خونریزی کی وجہ سے ان کے دیوتا سورج کو یہ سزا ملی ہے۔کہتے ہیں اس کے بعد یہ دونوں گروہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اور یوں ایک سورج گرہن نے دو عشروں سے جاری ایک جنگ کو چند لمحوں کے اندر بغیر کسی پیشگی شرائط کے بند کرا دیا۔یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے متعلق اپنے دور کے عظیم یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس نے 430قبل مسیح میں اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ '''' لیڈیا اور میڈیا کی سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہوئی تھی جو کئی سالوں تک جاری رہی۔ایک دن جاری جنگ کے دوران اچانک دن، رات میں بدل گیا۔ دونوں متحارب گروہ خوف میں مبتلا ہوئے اور چند لمحے پہلے کے دشمنوں نے جنگ روک کر ایک دوسرے کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھادیا‘‘۔
امریکہ کی ٹینیسی یونیورسٹی کے پروفیسر مارک لٹ کہتے ہیں کہ دو ہزار سال سے زیادہ پہلے ایک جنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک سورج گرہن کی وجہ سے اس جنگ کا نتیجہ بدل گیا تھا۔
ہزاروں سال بعد ناسا کے سائنس دانوں نے نہ صرف اس سورج گرہن کے واقعہ کی تاریخ پر مہر تصدیق ثبت کر دی بلکہ اس حقیقت کا بھی اقرار کیا کہ ایشیاء کوچک کے ان علاقوں پر جہاں یہ لڑائی لڑی جارہی تھی یہ ایک مکمل سورج گرہن تھا۔اور ہزارہا سال پہلے صحیح پیش گوئی کرنے والا فلاسفر تھیلیز تھا۔یاد رہے کہ تھیلیز نے اس واقعہ سے بہت پہلے یہ پیش گوئی کی تھی کہ (ہمارے مروجہ کیلنڈر کے مطابق) 28 مئی 585 قبل مسیح کوچک کے علاقوں میں ایک مکمل سورج گرہن نظر آئے گا۔