آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


انسولین سے علاج کی شروعات
15اپریل1923ء کو انسولین کو ذیابیطس کے مریضوں کیلئے بطور دوا استعمال کرنے کی منظوری دی گئی۔ 1923ء سے کئی سال قبل اس کی تیاری پر کام شروع ہوچکا تھا۔ متعدد تجرباتی مراحل عبور کرنے کے بعد ماہرین نے اسے انسانوں پر استعمال کے لئے محفوظ قرار دیا جس کے بعد انسولین کو عام عوام کیلئے مارکیٹ میں فراہم کر دیا گیا۔انسولین دراصل ایک پیپٹائڈ ہارمون ہے جو لبلے کے ''بیٹا‘‘ (Beta)خلیوں کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے جو انسان میںINSجین کے ذریعے انکوڈ ہوتا ہے۔
برطانیہ نے ایٹمی دھماکہ کیا
دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے خلاف ایٹم بم کے استعمال نے دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کی ایک تباہ کن ریس کا آغاز کردیا۔دنیا کے بیشتر ممالک ایٹمی ہتھیاروں کو اپنی بقاء کا ضامن قرار دینے لگے۔اسی سلسلے میں برطانیہ نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا آغاز کیا اور 15اپریل 1957ء میں ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کرنے کے بعد برطانیہ ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن گیا۔برطانیہ کے ایٹمی دھماکے نے مشرقی ممالک میں بھی یہ فکر پیدا کر دی کہ ایٹمی ہتھیار دفاع کا اہم حصہ ہے۔
ٹائی ٹینک ڈوبا
ٹائی ٹینک 15 اپریل 1912ء کی صبح شمالی بحر اوقیانوس میں ڈوبا، یہ جہاز ساؤتھمپٹن سے نیو یارک سٹی کیلئے سفر کر رہا تھا۔ٹائی ٹینک کو اس وقت سب سے بڑاسمندری جہاز ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ایک اندازے کے مطابق حادثے کے قبل ٹائی ٹینک میں تقریباًدو ہزار224افراد سوار تھے۔اپنے سفر کے دوران جہاز ایک برف کے پہار سے ٹکرایا اور دو گھنٹے چالیس منٹ بعد وہ ڈوب گیا۔اس حادثے کے نتیجے میں 1500سے زائد افراد ہلاک ہوئے ،اسے سمندری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ سمجھا جاتا ہے۔
75ہزار افراد پر مشتمل ملیشیا
15 اپریل، 1861 ء کو امریکی خانہ جنگی کے آغاز پر امریکی صدر ابراہم لنکن نے فورٹ سمٹر پر بمباری اور ہتھیار ڈالنے کے بعد تین ماہ کیلئے 75ہزارافراد پر مشتمل ملیشیا کو طلب کیا۔ کچھ جنوبی ریاستوں نے پڑوسی ڈیپ ساؤتھ غلام ریاستوں جن میں جنوبی کیرولائنا، مسیسیپی، فلوریڈا، الاباما، جارجیا، لوزیانا اور ٹیکساس شامل تھیں کے خلاف فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ورجینیا، آرکنساس، نارتھ کیرولائنا اور ٹینیسی کے بالائی جنوبی علاقوں میں زیادہ تر ریاستوں نے بھی امریکہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور کنفیڈریٹ ریاستوں میں شامل ہو گئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
برطانیہ کی خوبصورت مساجد

برطانیہ کی خوبصورت مساجد

برطانیہ نہ صرف ایک ترقی یافتہ اور کثیر الثقافتی ملک ہے۔یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار آزادی کے ساتھ اپنی عبادات انجام دیتے ہیں۔ ان میں مسلم کمیونٹی کی تعداد بھی خاصی بڑی ہے، جنہوں نے برطانیہ بھر میں کئی شاندار اور خوبصورت مساجد تعمیر کی ہیں۔ یہ مساجد نہ صرف عبادت گاہیں ہیں بلکہ اسلامی ثقافت، فن تعمیر اور بین المذاہب ہم آہنگی کی خوبصورت علامت بھی ہیں۔مرکزی مسجد، ایڈنبرااس مسجد کو کنگ فہد مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد یہاں کے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا اسلامی مرکز بھی ہے۔ یہ مسجد سکاٹ لینڈ میں ایڈنبرا اور نیشنل میوزیم کے قریب واقع ہے۔ اس کا سنگ بنیاد1992ء میں رکھا گیا اور چھ سال میں یہ مسجد پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس کا افتتاح31جولائی1998ء بمطابق 1419ھ کو سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے صاحبزادے پرنس عبدالعزیز بن فہد نے کیا۔ مسجد کا ڈیزائن ایک ماہر تعمیرات باسل الباقی نے تیار کیا۔ اس کی تعمیر پر 15ملین سعودی ریال(3.5ملین پائونڈ) خرچ ہوئے۔ اس میں 90فیصد رقم شاہ فہد نے بطور عطیہ دی۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 1100 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر کی بالکونی میں دو سو خواتین بھی نماز پڑھ سکتی ہیں۔ مسجد کے دو گنبد اور ایک مینار ہے۔ مرکزی ہال میں بہت قیمتی اور عالیشان قالین بچھایا گیا ہے اور گنبد کے نیچے ہال میں ایک شاندار فانوس لٹک رہا ہے۔ دوران تعمیر شاہ فہد کے صاحبزادے شہزادہ عبدالعزیز اس منصوبے کے سرپرست تھے۔ اس مسجد کی تعمیر سے قبل یہاں کوئی مسجد موجود نہ تھی اور روز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر یہاں پر ایک مسجد کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اس طرح مقامی سٹی کونسل کے تعاون سے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اس اسلامی مرکز میں ایک لائبریری لیکچر ہال اور طلبہ کیلئے کلاس روم بھی بنائے گئے ہیں۔مرکزی مسجد برمنگھم (یوکے)برمنگھم کی مرکزی مسجد ایک اسلامک سنٹر بھی ہے۔ پورے یورپ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس مسجد میں 6ہزار افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ عیدین کے موقع پر جب مسجد کے سامنے اور اطراف میں بھی صفیں بچھائی جاتی ہیں تو نمازیوں کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے لئے علیحدہ جگہ مخصوص ہے جبکہ مرکزی ہال میں 2500افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں مسجد کی زمین کے حصول کے بعد جب اس کی تعمیر کے لئے فنڈ کا مسئلہ درپیش آیا تو مسجد کے ٹرسٹی، بزنس کمیونٹی سے ملے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل تھے جب کافی فنڈ اکٹھا ہو گیا تو مسجد کی تعمیر شروع کر دی گئی اور 1969ء میں یہ مکمل ہو گئی۔1986ء میں مسلمانوں کو لائوڈ سپیکر میں اذان کی اجازت کا مسئلہ پیش آیا تو ارد گرد مقیم غیر مسلموں نے احتجاج کیا کہ ہمارے آرام میں خلل پڑے گا، لہٰذا معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ جج نے مسلم کمیونٹی سے وضاحت طلب کی تو مسلمانوں نے یہ جواز پیش کیا کہ جب ہمارے ارد گردان کے کلیسائوں کی گھنٹیاں بجتی ہیں تو انہیں اجازت ہے، اسی بنیاد پر جج نے مسلمانوں کو بھی مسجدوں کے لائوڈ سپیکر میں اذان دینے کی اجازت دی اور یوں یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔ اس مسجد کا ایک مینار اور ایک بڑا گنبد ہے۔ گنبد کے اوپر ستارہ ہلال کا نشان بنا ہوا ہے۔ مینار کی چوٹی کے اوپر ایک چھوٹے سنہری گنبد کا 1981ء میں اضافہ کیا گیا۔ مسجد کے داخلی دروازے کی پیشانی پر جلی حروف میں کلمہ طیبہ نہایت خوبصورت انداز میں تحریر ہے۔ راقم کے عزیز دوست مولانا عبیدالرحمن ضیاء ہر دوسرے تیسرے سال وہاں برمنگھم کے مسلمانوں کی دعوت پر تشریف لے جاتے ہیں اور مرکزی مسجد میں لوگ مولانا کی پرترنم اور دلوں میں اترنے والی تقریروں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔برطانیہ کی مساجد نہ صرف عبادت کے لیے اہم مراکز ہیں بلکہ یہ اسلامی فن تعمیر، سماجی خدمات، اور بین المذاہب رواداری کی خوبصورت مثالیں بھی ہیں۔ ان مساجد کا حسن، ان کی سرگرمیاں اور ان کا مقامی کمیونٹی سے تعلق برطانوی معاشرے میں مسلمانوں کے مثبت کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

عظیم مسلم سائنسدان:ابو الوفا محمد بن احمد بوزجانی

عظیم مسلم سائنسدان:ابو الوفا محمد بن احمد بوزجانی

ابوالوفامحمد بن احمد بوزجانی کا شمار بھی عظیم مسلمان سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ آپ علم ریاضی میں منتظم منبع کا آسان حل معلوم کرنے والے ایک ماہر ریاضی دان، سورج کی کشش پر تحقیق کرنے والے عظیم سائنسدان ہیں۔ آپ نے سورج کی کشش سے چاند پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اسے دریافت کیا جسے چاند کا گھٹنا بڑھنا کہتے ہیں۔ آپ نے زاویوں کے جیوب معلوم کرنے کا ایک نیا کلیہ بھی دریافت کیا تھا۔ابوالوفامحمد بن احمد بوزجانی کا وطن بوزجان (نیشاپور) ہے جہاں آپ کی ولادت 940ء میں ہوئی اور آپ نے 1011ء میں 71سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔محمد بن احمد بوزجانی کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ماموں سے حاصل کی، علم کے فطری شوق نے انہیں اور آگے بڑھایا اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 960ء میں وہ بغداد چلے گئے، یہاں نصاب کے مطابق اعلیٰ تعلیم ختم کی اور پھر مطالعہ اور تحقیق میں مصروف ہوگئے۔ بوزجانی کو علم ریاضی اور علم ہیئت دونوں سے کمال دلچسپی تھی۔ اپنے شوق سے انہوں نے اپنی علمی استعداد میں کافی اضافہ کیا اور ایک اچھے سائنسدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ بویہ خاندان کا حکمراں عضدالدولہ بڑا علم دوست تھا، اس کی قدر شناسی اور حوصلہ افزائی کے باعث احمد بوزجانی دنیاوی تفکرات سے آزاد ہو کر اپنے علمی مشاغل میں ہمہ تن مصروف رہے۔علمی خدمات اور کارنامےابوالوفاء بوزجانی بڑے عالی دماغ انسان تھے، ان کا شمار اس دور کے عظیم ریاضی دانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے الجبرا اور جیومیٹری (علم ہندسہ) میں مزید تحقیقات کیں اور بہت سے ایسے نئے نئے مسائل اور قاعدے دریافت کئے جو اس سے پیشتر معلوم نہیں تھے۔علم ہندسہ یعنی جومیٹری میں دائرے کے اندر مختلف اضلاع کی منتظم کثیر الاضلاع بنانے کے مسائل قدیم زمانے سے ریاضی دانوں میں مقبول و مشہور تھے۔ ان کثیر الاضلاع میں سے چھ اضلاع کی شکلیں، آٹھ ضلعوں کی شکلیں، پانچ ضلعوں کی شکلیں اور دس ضلعوں کی شکلیں تو بنائی جا سکتی ہیں اور رائج ہیں۔سات ضلعوں کی شکل جس کو علم ریاضی میں منتظم مسبّع کہتے ہیں جیومیٹری کے ماہرین کی جملہ کوششوں کے باوجود دائرے کے اندر ایک منتظم مسبّع بنانے کا مسئلہ ناقابل حل سمجھا جاتا تھا۔ابوالوفا زبوزجانی کی ذہانت نے نہ صرف اس مسئلہ کا حل دریافت کر لیا بلکہ جتنا یہ مسئلہ پیچیدہ اور مشکل سمجھا جاتا تھا، اسی قدر اس کا حل صاف اور سادہ بنا دیا۔ سورج کی کشش کا اثربوزجانی علم ہیئت کے بھی ماہر تھے اس علم میں انہوں نے چند خاص دریافتیں کیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہے اور چاند گردش کرتا ہے۔اس نظریے کے تحت انہوں نے یہ قابل قدر دریافت کی کہ زمین کے گرد چاند کی گردش میں سورج کی کشش کے اثر سے خلل پڑ جاتا ہے، اور اس وجہ سے دونوں اطراف میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈگری پندرہ منٹ کا فرق ہو جاتا ہے، اسے علم ہیئت کی اصطلاح میں یعنی چاند کا گھٹنا بڑھنا کہتے ہیں۔ اس اختلال قمر کے بارے میں بوزجانی نے دنیا میں پہلی بار اپنا یہ نازک نظریہ پیش کیا۔ یہ ان کی اہم دریافت تھی۔ اس نظریے کی تصدیق سولہویں صدی میں مشہور ہیئت داں اہل مغرب کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو صاحب علم اور ذہین و فہیم نہیں سمجھتے، یہ ان کی کوتاہ بینی ہے، چنانچہ اس اہم نظریہ کی دریافت کا سہرا اپنی اسی کوتاہ بینی کے سبب وہ ٹائی کو برا ہی کے سر باندھتے ہیں اور یہ قطعی غلط ہے۔ آج سے چھ سو سال قبل ابوالوفاء بوزجانی اس نظریے کو پوری تفصیل کے ساتھ ثبوت اور دلائل کے ساتھ بیان کر چکا تھا۔ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے زاویوں کے جیب معلوم کرنے کا ایک نیا کلیہ دریافت کیا، اور اس کی مدد سے ایک درجے سے لے کر 9درجے کے تمام زاویوں کے جیوب کی صحیح صحیح قیمتیں آٹھ درجے اعشاریہ تک نکالیں، اس سے پہلے ان کی قیمتیں اتنے درجے اعشاریہ تک نہیں نکالی جا سکتی تھیں۔ یہ بھی ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ابوزجانی بظاہر ایک غیر معروف لیکن باکمال ریاضی داں اور علم ہیئت کا ماہر تھا، انہوں نے اپنی علمی اور فنی استعداد اور قابلیت سے کئی نازک اور اہم دریافتیں کیں اور اپنے تحقیقی نتائج دنیا کے سامنے پیش کرکے اہل علم اور دانشوروں کو حیرت میں ڈال دیا۔

حکایت سعدیؒ:کوتوال کا بیٹا

حکایت سعدیؒ:کوتوال کا بیٹا

کہتے ہیں ہیں بادشاہ اغلمش نے ایک بار کوتوال کے بیٹے کو دیکھا تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مترادف، اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا۔ یہ نیک فطرت نوجوان دانا بادشاہ کی توقعات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ وفا شعاری اور دیانت داری و شرافت میں اپنی مثال آپ تھا۔ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جاتا وہ اسے بہ حسن و خوبی انجام دیتا تھا۔اس کی قابلیت اور شرافت کے باعث جہاں بادشاہ کی نظروں میں اس کی قدر منزلت زیادہ ہوتی چلی جا رہی تھی وہاں حاسدوں کی پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر انھوں نے صلاح مشورہ کر کے نوجوان کے سر ایک تہمت دھری اور بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حضور جس شخص کو ہر لحاظ سے قابل اعتبار خیال فرماتے ہیں وہ حد درجہ بد فطرت اور بدخواہ ہے۔اگرچہ حاسدوں نے یہ سازش بہت خوبی سے تیار کی تھی اور انھیں یقین تھا کہ بادشاہ نوجوان کو قتل کروا دے گا لیکن دانا بادشاہ نے یہ بات محسوس کر لی کہ قصور نوجوان کا نہیں بلکہ حاسدوں کا ہے۔ چنانچہ اس نے جوان کو بلایا اور اس سے پوچھا، کیا وجہ ہے کہ لوگ تمہارے متعلق ایسی خراب رائے رکھتے ہیں۔ نوجوان نے جواب دیا، اس کا باعث اس کے سواکچھ نہیں کہ حضور اس خاکسار پر نوازش فرماتے ہیں۔ بس یہی بات ان کے لیے باعث حسد ہے۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ درس دیا ہے کہ انسان میں اگر واقعی کوئی صلاحیت ہو تو وہ قدر دانی سے محروم نہیں رہتا ۔دوسری بات یہ کہ اگر خوش بختی سے کسی کو عروج حاصل ہو تو اسے بد خواہوں اور حاسدوں کی طرف سے لاپروا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ تیسری بات یہ کہ اگر کسی کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ اس نے یہ جرائم کیے ہیں تو تحقیق کیے بغیر رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔

آج کا دن

آج کا دن

یونان پر قبضہ1941ء میں آج کے دن یونان پر اس وقت قبضہ شروع ہوا جب نازی جرمنی نے اپنے اتحادی اٹلی کی مدد کیلئے سلطنتِ یونان پر حملہ کیا۔ جون 1941ء تک تمام یونان پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ قبضہ جرمنی اور اس کے اتحادی بلغاریہ کو اکتوبر 1944ء میں اتحادیوں کی جانب سے دباؤ پر دستبردار ہونے تک جاری رہا۔ '' اپالو 16‘‘ کی چاند سے زمین پر واپسی 27 اپریل 1972ء کو امریکہ کی طرف سے خلا میں بھیجا جانے والا خلائی جہاز'' اپالو 16‘‘ چاند سے واپس زمین پر اترا۔ ''اپالو 16‘‘ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اپالو خلائی پروگرام کا دسویں مشن تھا، جو ''ناسا‘‘ کے زیر انتظام تھا، اور چاند پر اترنے والا یہ پانچواں اور اختتامی مشن تھا۔ اس مشن کے دوران خلاء بازوں نے 71گھنٹے چاند پر گزارے اس دوران انہوں نے 20 گھنٹے 14 منٹ پر مشتمل تین بار چاند پر چہل قدمی بھی کی۔شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان معاہدہ27 اپریل 2018 کو شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن کے درمیان کوریا کے امن، خوشحالی اور دوبارہ اتحاد کیلئے پانمونجوم اعلامیہ پر کوریائی سربراہی اجلاس جوائنٹ سکیورٹی ایریا میں پیس ہاؤس کی جانب سے دستخط کئے گئے۔ اعلامیے کے مطابق شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی حکومتوں نے کوریائی جنگ اور کوریائی تنازعے کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کیلئے تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔یہ اعلامیہ 6 ستمبر 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ولو جزیرہ کی تباہی 27 اپریل 1978ء کو ولو آئی لینڈ، ویسٹ ورجینیا میں پلیزنٹس پاور اسٹیشن پر زیر تعمیر کولنگ ٹاور گر کر تباہ ہو گیا۔اس خوفناک حادثے میں تعمیراتی سائٹ پرموجود 51 کارکن جان بحق ہوئے۔ اسے امریکی تاریخ کا سب سے مہلک تعمیراتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔1970 کی دہائی کے دوران، دریائے اوہائیو کے کنارے وادی میں کوئلے سے چلنے والے بہت سے پاور پلانٹس بنائے جا رہے تھے۔ الیگینی پاور سسٹم ولو آئی لینڈ پر ایک اور بڑا پلانٹ بنا رہا تھا، جس میں دو الیکٹرک جنریٹر موجود تھے ۔ڈنیپروپیٹروسک دھماکے27اپریل 2012ء میں یوکرین میں ڈنیپرو پیٹروسک کے چار ٹرام سٹیشنز پر دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بم دھماکے دو گھنٹے کے اندر ہوئے۔ چار گھریلو ساختہ بم چار ٹرام اسٹیشنوں کے قریب کوڑے دان میں رکھے گئے تھے۔ پہلا بم اس وقت پھٹا جب ٹرام مسافروں کو لینے کیلئے سست ہو رہی تھی۔ دوسرا بم 30 منٹ بعد پھٹا۔ تیسرا بم دوسرے کے فوراً بعد پھٹا۔ چوتھے دھماکے کے بعد ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔

ماحولیاتی تبدیلی کی اصل قیمت

ماحولیاتی تبدیلی کی اصل قیمت

111 کمپنیوں کی وجہ سے دنیا کو 28 کھرب ڈالر کا نقصانحال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ایک رپورٹ نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف 111کمپنیاں عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے 28 کھرب ڈالر کے نقصان کی ذمہ دار ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ایک مالی نقصان کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ یہ انسانی بقا، قدرتی وسائل اور زمین کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان بھی بن چکے ہیں۔نیو ہیمپشائر کی ڈارٹماؤتھ کالج کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ صرف 111 کمپنیوں نے دنیا کو 1990ء کی دہائی کے اوائل سے اب تک ماحولیاتی نقصان کی صورت میں 28 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔اس فہرست میں سب سے اوپر سعودی آئل کمپنی ''سعودی آرامکو‘‘ہے، جو شدید گرمی میں اضافے کی وجہ سے عالمی معیشت کو 2.05 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔دیگر ذمہ داروں میں روسی توانائی کمپنی ''گیزپروم‘‘ (تقریباً 2 کھرب ڈالر کا نقصان)، اور امریکی تیل و گیس کی بڑی کمپنی ''شیورون‘‘ (1.98 کھرب ڈالر کا نقصان) شامل ہیں۔دیگر کمپنیوں میں جو ٹاپ 10 میں شامل ہیں، ان میں فوسل فیول استعمال کرنے والی کمپنیاں ''ایکسون موبل‘‘، ''بی پی (برٹش پیٹرولیم)‘‘، ''شل‘‘، ''نیشنل ایرانی آئل کمپنی‘‘، ''پی میکس‘‘، ''کول انڈیا‘‘ اور ''برٹش کول کارپوریشن‘‘ شامل ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ کمپنیاں ماحول دشمن ایندھن کی پیداوار اور استعمال میں حد سے زیادہ سرگرم نہ ہوتیں تو آج کا ''ماحولیاتی بحران‘‘ اس شدت کا نہ ہوتا۔اس تحقیق کے مصنف اور ڈارٹماؤتھ کالج کے ماحولیاتی محقق جسٹن مینکن کا کہنا ہے: ''ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ماحولیاتی ذمہ داری کے سائنسی شواہد مکمل ہو چکے ہیں، اب وقت ہے کہ ان کمپنیوں کو ان کے کردار کے لیے قانونی اور مالی طور پر جوابدہ ٹھہرایا جائے‘‘۔رپورٹ کے اہم نکاتیہ رپورٹ بین الاقوامی ماحولیاتی محققین کے ایک گروپ نے جاری کی، جنہوں نے 1988ء سے 2023ء تک کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ تحقیق کے مطابق، جن کمپنیوں نے سب سے زیادہ فوسل فیولز (کوئلہ، تیل، گیس) جلائے، وہ دنیا بھر میں ہونے والے درجہ حرارت میں اضافے، شدید موسم، خشک سالی، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا بڑا سبب بنیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے اخراجات صرف ماحول تک محدود نہیں بلکہ عالمی معیشت، زراعت، صحت اور انسانی ہجرت جیسے شعبوں پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔مالی نقصان کی تفصیل28 کھرب ڈالر کا نقصان براہِ راست اور بالواسطہ اخراجات پر مشتمل ہے، جن میں شامل ہیں:٭...زراعت میں پیداوار کی کمی٭...صحت کے مسائل اور اموات٭...آفات سے متاثرہ علاقوں کی بحالی٭...بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والا نقصان٭...انسانی ہجرت اور اس سے جڑے مسائلذمہ دار کمپنیاں کون سی ہیں؟ان 111 کمپنیوں میں زیادہ تر فوسل فیول کی پیداوار اور فروخت سے منسلک بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں۔ جن میں کچھ سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ ان اداروں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں بھاری منافع کمایا لیکن ماحول کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔اثرات عالمی سطح پرماحولیاتی تبدیلی کا اثر دنیا کے ہر خطے میں محسوس کیا جا رہا ہے، مگر ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی انفراسٹرکچر کہ وہ ان ماحولیاتی تباہیوں سے نمٹ سکیں۔ان کمپنیوں نے دہائیوں تک اربوں ڈالر منافع کمایا، مگر ماحول کو نقصان پہنچانے والے اثرات کی نہ تو روک تھام کی گئی اور نہ ہی ان کے لیے کوئی ذمہ داری قبول کی گئی۔ ان کے اخراجات نے نہ صرف زمین کا درجہ حرارت بڑھایا بلکہ دنیا بھر میں شدید موسم، طوفان، سیلاب، خشک سالی، فصلوں کی تباہی، اور انسانوں کی ہجرت جیسے مسائل کو جنم دیا۔ممکنہ حل اور سفارشاتکاربن اخراج پر ٹیکس: ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں پر سخت مالی پابندیاں عائد کی جائیں۔قانونی اقدامات: عالمی عدالتوں میں ان کمپنیوں کے خلاف مقدمات دائر کیے جائیں۔صاف توانائی کی طرف منتقلی: حکومتیں اور کمپنیاں متبادل توانائی ذرائع جیسے شمسی اور ہوائی توانائی کی جانب بڑھیں۔عوامی شعور کی بیداری: لوگوں کو روزمرہ زندگی میں ماحول دوست فیصلے کرنے کی ترغیب دی جائے۔ماحولیاتی انصاف: ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں تاکہ وہ ماحولیاتی آفات کا مقابلہ کر سکیں۔یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے ماحولیاتی سائنسدان مائیکل مان، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، کا کہنا ہے کہ ''ابھی بہت سے ماحولیاتی عوامل ایسے ہیں جنہیں شامل نہیں کیا گیا،کالاہان اور مینکن کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار غالباً ان نقصانات کا بہت کم اندازہ ہیں، جو ان کمپنیوں نے واقعی پہنچائے ہیں‘‘۔یہ رپورٹ نہ صرف ان کمپنیوں کی بے احتیاطی کا آئینہ ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل کی نسلیں ایک ایسے سیارے پر زندہ رہنے پر مجبور ہوں گی جو حد سے زیادہ گرم، خشک اور غیر محفوظ ہوگا۔ ماحولیاتی تحفظ اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کا سوال بن چکا ہے۔ 

ایتھوپیا۔۔۔۔ خشک سالی سے خوش حالی تک

ایتھوپیا۔۔۔۔ خشک سالی سے خوش حالی تک

ایتھوپیا اپنے قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ حاصل کر رہا ہےایک ہزار سال قبل مسیح خطہ عرب کے دو قبیلے '' جشات‘‘ اور '' اقغران‘‘ ہجرت کر کے بحیرہ احمر کو عبور کر کے موجودہ ایتھوپیا کے صوبے اریٹیریا میں آن آباد ہوئے۔مقامی افراد کے ساتھ ان کے اختلاط سے ایک نئی قوم وجود میں آئی جسے '' حبشان‘‘ کہا جانے لگا۔بعد ازاں عرب اس تمام علاقے کو جو اب ایتھوپیا کی شناخت سے جانا جاتا ہے ، '' حبشہ‘‘ کہنے لگ گئے۔ایتھوپیا ، جسے گئے وقتوں میں '' حبشہ‘‘ کہا جاتا تھا افریقہ کا ایک قدیم ترین ملک ہے۔ تیرہ کروڑ آبادی والا یہ ملک آبادی کے لحاظ سے نائجیریا کے بعد دوسرا بڑا افریقی ملک ہے۔ ایتھوپیا بارے ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین کا خیال ہے کہ یہ قدیم ترین انسانوں کی سرزمین ہے۔افتار نامی اس کے ایک قدیم علاقے سے ماہرین کو کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جس سے اس قیاس کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ممکنہ طور پر یہ وہ مقام ہو سکتا ہے جہاں سے انسانی ابتداء کا آغاز ہوا تھا۔1974 میں اس خطے سے لوسی نامی ایک ڈھانچہ دریافت ہوا تھا جو 32 لاکھ سال پرانا ڈھانچہ بتایا جاتا ہے اور اسے اب تک دریافت ہونے والے قدیم انسانی ڈھانچوں میں سب سے قدیم ڈھانچہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایتھوپیا دلچسپ اور عجیب و غریب ثقافت کا حامل ایک ایسا ملک ہے جس کی قدیم روایات اور رسم و رواج کو یہاں کے قبائل نے ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔جس میں سب سے نمایاں یہاں کا مقامی کیلنڈر ہے جو سال کے 12 کی بجائے 13 ماہ پر مشتمل ہے ، 13 ویں مہینے کو یہ '' پیگوم‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مہینہ پانچ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اگر لیپ کا سال ہوتو پھر یہ ماہ چھ دن کا ہو جاتا ہے۔اس مہینے کی اختراع کا بنیادی نظریہ موسموں کی مطابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تفویض کیا گیا ہے جبکہ اس مہینے کا تعلق بنیادی طور پر فصلوں کی کٹائی اور قدیم مذہبی تہواروں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ مہینہ یہاں کے ثقافتی رنگ کو نمایاں کرتا ہے جس کا انہیں سال بھر شدت سے انتظار رہتا ہے۔چونکہ ایتھوپیئن کی اکثریت کا تعلق (آرتھو ڈوکس)عیسائیت سے ہے اس لئے یہ اپنے عقیدے کے مطابق سال میں کم از کم دوسو روزے رکھتے ہیں۔باقی روایات کی طرح ان کے روزوں کا روائتی تصور بھی مختلف ہے جس میں جانوروں کی مصنوعات جس میں گوشت ، انڈے اور دودھ وغیرہ شامل ہیں، سے ہی صرف پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ جدید ایتھوپیا کا نام ذہن میں آتے ہی جانے کیوں ایسے لگتاہے جیسے اس ملک میں چار سو بھوک اور افلاس کا راج ہو گا، قحط اور بدحالی نے پنجے گاڑھے ہوئے ہوں گے ، اور گلی گلی موت رقص کرتی نظر آتی ہو گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چار عشرے قبل ایتھوپیا کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا تھا۔ اس ملک کی بدحالی کی یہ حالت تھی کہ ملک میں ذرائع آمدورفت اور ذرائع نقل و حمل کا نظام نہ ہونے برابر تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ایتھوپیا کی 90 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی تھی۔خشک سالی کے باعث ملک میں ہر سال 40 سے 45 فیصد بچے خوراک کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔ 1984 میں ایتھوپیا میں پھیلے قحط سے دس لاکھ افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے ، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔یہی حال وبائی امراض کا تھا جس سے ہر سال کثیر تعداد میں ہلاکتیں معمول بن چکا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ ملک کی 90فیصد آبادی کو صحت کی بنیادی سہولتوں تک عدم رسائی تھی۔ تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایتھوپیا ایک طویل عرصہ سے اپنے پڑوسی قبائل سے الجھتا آ رہا تھا۔ ایک عرصہ تک یہ صومالیہ سے چھیڑ خانیاں کرتا رہا ، پھر اریٹیریا سے اس نے جنگ چھیڑ دی، نتیجتاً دونوں ملکوں کے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے، اریٹیریا نے ایتھوپیا سے آزادی حاصل کی اور اس کی واحد بندرگاہ بھی اس سے چھین لی جس سے یہ '' لینڈ لاک‘‘ ہو گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں اس ملک میں سوچ ، سمجھ اور شعور کا کچھ ایسا انقلاب آیا جس نے رفتہ رفتہ ایتھوپیا کی حالت ہی بدل ڈالی۔پڑوس کے ملکوں سے چھیڑچھاڑ بند کرکے ان کے ساتھ امن اور تجارت کے معاہدے ہونے لگے اور ملک کو حقیقی جمہوری مملکت بنانے کی راہ کا تعین کیا گیا۔2005ء میں ایتھوپیا کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے اور یہاں پہلی بار جمہوریت کی داغ بیل پڑی۔ حقیقی جمہوریت پھولتی پھلتی گئی اور ماضی کا ایک قحط زدہ ملک دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا ہو گیا بلکہ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے دنیا کو اس لئے بھی حیرت زدہ کرتا گیا کہ بغیر کسی سمندری بندر گاہ کے اس کی معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ اس کی کامیاب معیشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے چند سال پہلے تک دنیا میں صرف پانچ ممالک ایسے تھے جن کی شرح نمو دس فیصد سے زائد تھی، ان میں قطر ترکمانستان، آذربائیجان، چین کے ساتھ ساتھ ایتھوپیا بھی شامل تھا ۔ایتھوپیا شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اپنے قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ حاصل کر رہا ہے۔ معدنیات سے لے کر دریاؤں تک سے یہ کثیر زرمبادلہ کما رہا ہے۔ اپنے دریائوں سے یہ کثیر تعداد میں بجلی بنا کر اپنے پڑوسی ملکوں کو درآمد کر رہا ہے جو اس کے کل جی ڈی پی کا چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ایتھوپیا نے انہونی کو ہونی میں یوں بدلا کہ ہتھیار پکڑے عوام سے بندوق لے کر ان کے ہاتھ میں قلم تھما دیا۔ اپنے سالانہ بجٹ کا 25 فیصد تعلیم اور صرف تعلیم کے لئے وقف کردیا ، کئی عشروں تک اپنے پڑوسیوں سے برسرپیکار رہنے والے ایتھوپیا نے سمجھ لیا کہ ترقی صرف امن میں ہی پنہاں ہے۔اس نے صدیوں پرانے دشمنوں کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا۔اپنے قدیمی دشمن اریٹیریا کو صلح کا پیغام بھجوایا۔صومالیہ سے سرحدی تنازعات کو ختم کرنے کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ خطے میں اس کی امن پسند پالیسیوں، پڑوسیوں کے ساتھ برسوں پرانے تنازعات پر امن طور پر حل کرنے، دشمنی کو دوستی میں بدلنے اور 2002ء میں بین الاقوامی باؤنڈری کمیشن کی ثالثی کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرنے پر ایتھوپیا کے وزیر اعظم ایبی احمد کو 2019ء میں امن کے نوبیل سے نوازا گیا تھا۔