ناہید نیازی…50 ء اور60 ء کی دہائی کی منفرد گلوکارہ

اسپیشل فیچر
خواجہ خورشید انور نے انہیںدریافت کیا، انہوں نے یادگار گیت گائے*****ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت میں کچھ ایسی اداکارائیں بھی تھیں جو جتنی حسین تھیں اتنی ہی اچھی اداکارائیں بھی تھیں۔ ان میں مدھوبالا، وحیدہ رحمان، زیبا اور رانی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح نورجہاں اور ثریا بھی بہت حسین تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ گلوکاری کی دنیا میں بھی ان کا طوطی بولتا تھا۔پاکستان کی فلمی صنعت میں 50ء اور 60ء کی دہائی میں ایک گلوکارہ ایسی آئی جو نہ صرف حسن کا مجسمہ تھی بلکہ اس کی گلوکاری بھی سب سے الگ تھی۔ اس گلوکارہ کا نام ہے ناہید نیازی۔ اپنے دور میں نہ صرف ان کے حسن و جمال کے چرچے عام تھے بلکہ ان کی آواز کو ہوا کا تازہ جھونکا بھی کہا جاتا تھا۔ ناہید نیازی کی گلوکارہ بننے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔ بے بدل موسیقار خواجہ خورشید انور ’’زہر عشق‘‘ کی موسیقی دے رہے تھے ۔وہ ’’زہر عشق‘‘ کے تمام نغمات میڈم نور جہاں سے گنوانا چاہتے تھے لیکن میڈم نور جہاں تیار نہیں تھیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میڈم نور جہاں اس وقت بھی گلوکاری کے ساتھ اداکاری بھی کر رہی تھیں۔ یعنی وہ اس وقت بھی (Singer-cum-actress) تھیں۔ نور جہاں ’’زہر عشق‘‘ میں وہ کردار ادا کرنے کی آرزو مند تھیں جو مسرت نذیر کو دیا گیا تھا۔ خواجہ خورشید انور نے نورجہاں کو اپنی فلم کے نغمات کی گائیکی کیلئے آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ مایوس ہو کر انہوں نے ’’زہر عشق‘‘ کے ایک گیت ’’موہے پیا ملن کو جانے دے‘‘ کیلئے اقبال بانو کا انتخاب کیا۔ گیت ریکارڈ ہوگیا لیکن خواجہ صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ دراصل خواجہ صاحب میڈم نور جہاں کے علاوہ اور کسی گلوکارہ کی گائیکی سے مطمئن نہیں تھے۔ خواجہ صاحب نے بھارتی گلوکارہ گیتادت سے رابطہ کیا کیونکہ وہ گیتا دت کی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے۔ بھارت میں گیتا دت نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں فلم ’’نشانہ‘‘ اور ’’نیلم پری‘‘ کیلئے کئی گیت گائے تھے۔ گیتا دت نے ’’زہر عشق‘‘ کے نغمات گانے کی حامی بھرلی۔ اس پر پاکستانی فلمی صنعت میں شور مچ گیا۔ خواجہ صاحب پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ پاکستانی گلوکارائوں کو ترجیح دیں۔ ان حالات میں خواجہ صاحب نے ایک نئی آواز متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے دوست سجاد انور نیازی کی بیٹی ناہید نیازی کی تربیت شروع کردی۔ اور یوں ناہید نیازی (اصل نام شاہدہ نیازی) پلے بیک سنگر بن گئیں اور فلمی صنعت کو ایک خوبصورت اور منفرد آواز مل گئی ۔ اسے اتفاق کہئے یا کچھ اور کہ ناہید نیازی اور گیتا دت کے گانے کا اسلوب خاصی حد تک ایک جیسا تھا۔’’زہر عشق‘‘ کا گیت ’’موہے پیاملن کو جانے دے‘‘ ناہید نیازی نے گایا اور اتنا اعلیٰ گایا کہ وہ ان کی شناخت بن گیا۔ موسیقی اور گلوکاری کے اسرارو رموز سمجھنے والے ابھی تک اس نغمے کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ ان کے بعد خواجہ صاحب کی فلم ’’جھومر‘‘ کے گیتوں نے ناہید نیازی کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ ’’جھومر‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ نغمہ کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔’’چلی رے چلی رے چلی رے‘‘ بڑی آس لگاکے چلی رے‘‘ اس کے علاوہ ان کے مندرجہ ذیل گیت بھی بہت مشہور ہوئے۔-1 رقص میں ہے سارا جہاں (فلم ایاز)-2 چاہے بولو یا نہ بولو (گھونگھٹ)اس کے بعد انہوں نے اپنے شوہر مصلح الدین (موسیقار) کے ساتھ اپنی ٹیم بنالی اور دونوں نے کئی اعلیٰ گیت تخلیق کیے۔ ان دونوں کی کاوشیں ثمر آور ثابت ہوئیں اور ان کے گیتوں کو زبردست پذیرائی ملی۔ مندرجہ ذیل گیت ملاحظہ کریں۔-1 جاگ، تقدیر کو جگا لوں گی (آدمی)-2 میرا کہا کبھی مان لو (آدمی)-3 رات سلونی آئی (احمد رشدی کے ساتھ) (زمانہ کیا کہے گا)-4سمجھ نہ آئے دل کو کہاں (دال میں کالا)-5 رات چلی ہے جھوم کے (احمد رشدی کے ساتھ)(جوش)ناہید نیازی اور مصلح الدین نے بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ ناہید نیازی کے بارے میں یہ تسلیم کرلیا گیا کہ ان کی آواز سب سے جدا ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ناہید نیازی کے شوہر مصلح الدین مرحوم بنگالی تھے۔1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان میں یہ افواہ پھیل گئی کہ بنگالی شوہر اپنی پاکستانی بیویوں کو چھوڑ دیں گے۔ یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ ناہید نیازی کی شادی بھی خطرے سے دوچار ہے۔ لیکن یہ افواہیں دم توڑ گئیں۔ اس کے بعد ناہید نیازی اور مصلح الدین نے برطانیہ آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ میں انہوں نے ایک نئی زندگی شروع کی۔ مصلح الدین نے برطانیہ میں ایک کمال کا کام کیا۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کی مشہور ڈش چکن تکہ مصالحہ ایجاد کی۔ اس ڈش کو بے حد پسند کیا گیا، ناہید نیازی نے بھی اس کی تصدیق کی کہ یہ ڈش مصلح الدین نے ہی برطانیہ میں ایجاد کی۔2003ء میں مصلح الدین کی وفات کے بعد ناہید نیازی گوشہ تنہائی میں چلی گئیں۔ آج کل وہ بنگالی زبان سیکھنے پر زیادہ وقت صرف کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں رہ کر وہ اپنے وطن کو نہیں بھولیں۔ وہ اپنی گفتگو میں اکثر اپنے ملک کو یاد کرتی ہیں۔ ناہید نیازی کو ویسے تو اپنے بہت سے گیت پسند ہیں لیکن ان کا اپنا پسندیدہ نغمہ ’’اک بار پھر کہو ذرا‘‘ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیت کو سب سے پہلے شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ ان کی پسندیدہ گلوکارائوں میں میڈم نور جہاں اور لتا منگیشکر شامل ہیںجبکہ گلوکاروں میں وہ محمد رفیع اور مہدی حسن سے بہت متاثر ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں جو امریکہ اور برطانیہ میں آباد ہیں۔ناہید نیازی کا شمار ان گلوکارائوں میں کرنا چاہیے جنہوں نے کم گایا لیکن جتنا گایا بہت خوبصورت گایا۔ انہوں نے کبھی سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش نہیںکی ۔ وہ حسن کا پیکر تو ہیں ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بااصول اور وضع دار خاتون بھی ہیں۔ اس وقت وہ برطانیہ میں بڑی مطمئن اور خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ ہماری دعا ہے وہ سلامت رہیں اور ان کی آواز کا خزانہ بھی قائم رہے۔ انہوں نے اچھا نہیں بلکہ بہت اچھا کام کیا۔