ناہید نیازی…50 ء اور60 ء کی دہائی کی منفرد گلوکارہ

ناہید نیازی…50 ء اور60 ء کی دہائی کی منفرد گلوکارہ

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

خواجہ خورشید انور نے انہیںدریافت کیا، انہوں نے یادگار گیت گائے*****ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت میں کچھ ایسی اداکارائیں بھی تھیں جو جتنی حسین تھیں اتنی ہی اچھی اداکارائیں بھی تھیں۔ ان میں مدھوبالا، وحیدہ رحمان، زیبا اور رانی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح نورجہاں اور ثریا بھی بہت حسین تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ گلوکاری کی دنیا میں بھی ان کا طوطی بولتا تھا۔پاکستان کی فلمی صنعت میں 50ء اور 60ء کی دہائی میں ایک گلوکارہ ایسی آئی جو نہ صرف حسن کا مجسمہ تھی بلکہ اس کی گلوکاری بھی سب سے الگ تھی۔ اس گلوکارہ کا نام ہے ناہید نیازی۔ اپنے دور میں نہ صرف ان کے حسن و جمال کے چرچے عام تھے بلکہ ان کی آواز کو ہوا کا تازہ جھونکا بھی کہا جاتا تھا۔ ناہید نیازی کی گلوکارہ بننے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔ بے بدل موسیقار خواجہ خورشید انور ’’زہر عشق‘‘ کی موسیقی دے رہے تھے ۔وہ ’’زہر عشق‘‘ کے تمام نغمات میڈم نور جہاں سے گنوانا چاہتے تھے لیکن میڈم نور جہاں تیار نہیں تھیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میڈم نور جہاں اس وقت بھی گلوکاری کے ساتھ اداکاری بھی کر رہی تھیں۔ یعنی وہ اس وقت بھی (Singer-cum-actress) تھیں۔ نور جہاں ’’زہر عشق‘‘ میں وہ کردار ادا کرنے کی آرزو مند تھیں جو مسرت نذیر کو دیا گیا تھا۔ خواجہ خورشید انور نے نورجہاں کو اپنی فلم کے نغمات کی گائیکی کیلئے آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ مایوس ہو کر انہوں نے ’’زہر عشق‘‘ کے ایک گیت ’’موہے پیا ملن کو جانے دے‘‘ کیلئے اقبال بانو کا انتخاب کیا۔ گیت ریکارڈ ہوگیا لیکن خواجہ صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ دراصل خواجہ صاحب میڈم نور جہاں کے علاوہ اور کسی گلوکارہ کی گائیکی سے مطمئن نہیں تھے۔ خواجہ صاحب نے بھارتی گلوکارہ گیتادت سے رابطہ کیا کیونکہ وہ گیتا دت کی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے۔ بھارت میں گیتا دت نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں فلم ’’نشانہ‘‘ اور ’’نیلم پری‘‘ کیلئے کئی گیت گائے تھے۔ گیتا دت نے ’’زہر عشق‘‘ کے نغمات گانے کی حامی بھرلی۔ اس پر پاکستانی فلمی صنعت میں شور مچ گیا۔ خواجہ صاحب پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ پاکستانی گلوکارائوں کو ترجیح دیں۔ ان حالات میں خواجہ صاحب نے ایک نئی آواز متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے دوست سجاد انور نیازی کی بیٹی ناہید نیازی کی تربیت شروع کردی۔ اور یوں ناہید نیازی (اصل نام شاہدہ نیازی) پلے بیک سنگر بن گئیں اور فلمی صنعت کو ایک خوبصورت اور منفرد آواز مل گئی ۔ اسے اتفاق کہئے یا کچھ اور کہ ناہید نیازی اور گیتا دت کے گانے کا اسلوب خاصی حد تک ایک جیسا تھا۔’’زہر عشق‘‘ کا گیت ’’موہے پیاملن کو جانے دے‘‘ ناہید نیازی نے گایا اور اتنا اعلیٰ گایا کہ وہ ان کی شناخت بن گیا۔ موسیقی اور گلوکاری کے اسرارو رموز سمجھنے والے ابھی تک اس نغمے کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ ان کے بعد خواجہ صاحب کی فلم ’’جھومر‘‘ کے گیتوں نے ناہید نیازی کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ ’’جھومر‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ نغمہ کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔’’چلی رے چلی رے چلی رے‘‘ بڑی آس لگاکے چلی رے‘‘ اس کے علاوہ ان کے مندرجہ ذیل گیت بھی بہت مشہور ہوئے۔-1 رقص میں ہے سارا جہاں (فلم ایاز)-2 چاہے بولو یا نہ بولو (گھونگھٹ)اس کے بعد انہوں نے اپنے شوہر مصلح الدین (موسیقار) کے ساتھ اپنی ٹیم بنالی اور دونوں نے کئی اعلیٰ گیت تخلیق کیے۔ ان دونوں کی کاوشیں ثمر آور ثابت ہوئیں اور ان کے گیتوں کو زبردست پذیرائی ملی۔ مندرجہ ذیل گیت ملاحظہ کریں۔-1 جاگ، تقدیر کو جگا لوں گی (آدمی)-2 میرا کہا کبھی مان لو (آدمی)-3 رات سلونی آئی (احمد رشدی کے ساتھ) (زمانہ کیا کہے گا)-4سمجھ نہ آئے دل کو کہاں (دال میں کالا)-5 رات چلی ہے جھوم کے (احمد رشدی کے ساتھ)(جوش)ناہید نیازی اور مصلح الدین نے بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ ناہید نیازی کے بارے میں یہ تسلیم کرلیا گیا کہ ان کی آواز سب سے جدا ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ناہید نیازی کے شوہر مصلح الدین مرحوم بنگالی تھے۔1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان میں یہ افواہ پھیل گئی کہ بنگالی شوہر اپنی پاکستانی بیویوں کو چھوڑ دیں گے۔ یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ ناہید نیازی کی شادی بھی خطرے سے دوچار ہے۔ لیکن یہ افواہیں دم توڑ گئیں۔ اس کے بعد ناہید نیازی اور مصلح الدین نے برطانیہ آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ میں انہوں نے ایک نئی زندگی شروع کی۔ مصلح الدین نے برطانیہ میں ایک کمال کا کام کیا۔ انہوں نے جنوبی ایشیا کی مشہور ڈش چکن تکہ مصالحہ ایجاد کی۔ اس ڈش کو بے حد پسند کیا گیا، ناہید نیازی نے بھی اس کی تصدیق کی کہ یہ ڈش مصلح الدین نے ہی برطانیہ میں ایجاد کی۔2003ء میں مصلح الدین کی وفات کے بعد ناہید نیازی گوشہ تنہائی میں چلی گئیں۔ آج کل وہ بنگالی زبان سیکھنے پر زیادہ وقت صرف کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں رہ کر وہ اپنے وطن کو نہیں بھولیں۔ وہ اپنی گفتگو میں اکثر اپنے ملک کو یاد کرتی ہیں۔ ناہید نیازی کو ویسے تو اپنے بہت سے گیت پسند ہیں لیکن ان کا اپنا پسندیدہ نغمہ ’’اک بار پھر کہو ذرا‘‘ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیت کو سب سے پہلے شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ ان کی پسندیدہ گلوکارائوں میں میڈم نور جہاں اور لتا منگیشکر شامل ہیںجبکہ گلوکاروں میں وہ محمد رفیع اور مہدی حسن سے بہت متاثر ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں جو امریکہ اور برطانیہ میں آباد ہیں۔ناہید نیازی کا شمار ان گلوکارائوں میں کرنا چاہیے جنہوں نے کم گایا لیکن جتنا گایا بہت خوبصورت گایا۔ انہوں نے کبھی سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش نہیںکی ۔ وہ حسن کا پیکر تو ہیں ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بااصول اور وضع دار خاتون بھی ہیں۔ اس وقت وہ برطانیہ میں بڑی مطمئن اور خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ ہماری دعا ہے وہ سلامت رہیں اور ان کی آواز کا خزانہ بھی قائم رہے۔ انہوں نے اچھا نہیں بلکہ بہت اچھا کام کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
انئیوٹ،برف پر بسنے والے منفرد لوگ

انئیوٹ،برف پر بسنے والے منفرد لوگ

قدرت نے کرہ ارض کوہر قسم کے موسموں ، آب و ہوا اور ماحول سے سجا رکھا ہے۔ دراصل یہ کرہ ارض وسیع و عریض ہی اتنا ہے کہ بیک وقت اگر اس کے ایک کونے میں سورج آگ برسا رہا ہے تو دوسری طرف چارسو برف کا راج ہوتا ہے۔ ایسے ہی شمالی قطب جو دنیا کا سرد ترین علاقہ ہے اور یہاں سارا سال چارسو برف کا راج ہوتا ہے۔ یہاں کے باسیوں کو '' اسکیمو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسکیمو نہایت سخت جان، محنت کش اور جفاکش لوگ ہیں جن کا سال کا بیشتر حصہ تیز رفتار برفانی طوفانی ہواؤں سے مقابلہ کرتے گزرتا ہے۔اسکیمو لوگوں کے گھروں کو '' اگلو‘‘ کہا جاتا ہے۔ان لوگ نے اپنے کمروں (اگلو) میں موٹی تہہ در تہ برف کے بستر بنائے ہوتے ہیں جو فرش سے دو سے پانچ فٹ تک اونچے ہوتے ہیں۔سائنس کا اصول ہے کہ گرم ہوا ہلکی ہونے کی وجہ سے اوپر کا رخ کرتی ہے جبکہ ٹھنڈی ہوا ہمیشہ نیچے کی طرف ہوتی ہے۔ چنانچہ برف کے اس بستر پر یہ اسکیمو برفانی ریچھ کی کھال اوڑھے سکون کی نیند سوتے ہیں۔ لفظ خانہ بدوش کے ساتھ ہی عام طور پر ترقی پذیر ممالک کا تاثر ذہن میں ابھرتا ہے۔ لیکن قطب شمالی میں مشرقی سائبیریا سے الاسکا کینیڈا اور گرین لینڈ تک پھیلے اسکیمو نسل کی ایک قدیم شاخ کی شناخت ''انئیوٹ‘‘ کے نام سے کی جاتی ہے۔انئیوٹ نسل کے لوگوں نے ہمیشہ اپنی شناخت اور پہچان کو عام اسکیمو لوگوں سے مختلف رکھا حالانکہ بنیادی طور پر یہ بھی اسکیمو ہی ہیں۔اسکیمو کون ہیں ، کہاں سے اور کب آئے؟دنیا بھر میں الگ تھلگ رہنے والے اسکیمو بارے ماہرین ایک عرصہ سے اس کھوج میں تھے کہ بنیادی طور پر یہ کون لوگ ہیں ، کب اور کہاں سے آئے ہیں ؟۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لگ بھگ 3500 قبل مسیح میں قدیم اسکیمو لوگوں کاایک گروہ خلیج بیرنگ سے سائبیریا کے راستے شمالی امریکہ کے قطبی علاقے میں داخل ہوا تھا۔ خلیج بیرنگ سے انہوں نے کیوں ہجرت کی ؟اس با رے ماہرین کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ البتہ جب اس علاقے سے تقریباً ڈیڑھ سو لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ لئے گئے تو اس بات کے شواہد سامنے آئے کہ شمالی امریکہ میں بنیادی طور پر تین مختلف گروہ آباد تھے۔ آج سے 2500سال قبل تک یہاں ''سقاق‘‘ نسل کے لوگ آباد رہے ہیں ، اس کے بعد '' ڈورسیٹ ‘‘ نسل کے لوگوں نے لے لی جن کے آثار آج سے 1000 سال قبل تک ملتے ہیں۔ ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آج سے سات سو سال پہلے قدیم اسکیمو نسل اچانک ختم ہو گئی اور اس کی جگہ ''تھولے‘‘ نسل کے لوگوں نے لے لی جو ممکنہ طور پر آج کی نسل ''انئیوٹ‘‘ کے اجداد مانے جاتے ہیں۔ پھر یہ دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلتے چلے گئے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدیم اسکیمو نسل کے لوگ اب اس روئے زمین پر ''انئیوٹ‘‘ کے نام سے بستے ہیں۔انئیوٹ قطب شمالی میں مشرقی سائبیریا سے الاسکا ، کینیڈا اور گرین لینڈ تک پھیلے ہوئے ہیں ۔شمالی امریکہ کے قطبی علاقوں میں رہنے والوں کی شناخت اب بھی ''اسکیمو‘‘ کے نام سے ہی ہوتی ہے۔ جینیاتی طور پر سرد علاقوں میں پروان چڑھنے والی نسل کے یہ لوگ صرف سرد ترین علاقوں ہی میں پرورش پا سکتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں بسنے کی وجہ سے ان کی ثقافت، زبان اور رسم و رواج بھی جدا جدا ہیں۔ یہ دعویٰ کہ دنیا اب ایک گلوبل ولیج کا روپ دھار چکی ہے، بہت سارے ناقدین کے مطابق یہ جملہ بہت حد تک اسکیمو نسل پر صادق نہیں آتا ہے کیونکہ اس نسل کے لوگ اب بھی آپ اپنے کو دنیا سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قطب شمالی ہو یا دیگر سرد علاقے، انئیوٹ نسل کے لوگوں کا طرز زندگی ابھی بھی قدیم اور روائتی ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے نہ تو خود کو بدلا اور نہ ہی بدلنے کی کوشش کی۔ جو چیز اس نسل کو دنیا کی دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا جذبہ خود انحصاری ہے۔یہ صدیوں سے اپنی خوراک اور دیگر ضروریات زندگی خود پیدا کرتے آ رہے ہیں۔ مویشی پالنا، مچھلیاں پکڑنا ان کی ثقافت اور تہذیب کا بنیادی عنصر چلا آرہا ہے۔ یہ ماہر شکاری جانے جاتے ہیں۔ اسی شکار سے یہ اپنی خوراک، جانوروں کی چربی سے تیل (کھانے اور جلانے کیلئے ) ، جانوروں کی کھالوں سے لباس ، ہڈیوں سے روائتی اوزار اور ہتھیار تک بناتے ہیں۔اس روئے زمین پر شاید یہ واحد قوم ہے جن کی زندگی جانوروں کے گرد گھومتی ہے۔یہ جانوروں کے گوشت سے لے کر کھال، ان کے بال اور ہڈیوں تک کو استعمال میں لاتے ہیں ۔ مچھلی اور مقامی جانوروں کا گوشت ہی ان کی خوراک کا واحد ذریعہ ہیں۔مورخین کہتے ہیں اس روئے زمین پرشاید یہ واحد قوم ہے جو ضرورت پڑنے پر جانوروں کا کچا گوشت بھی کھا لیتی ہے۔یہ صدیوں سے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں اور ہر گروہ کا ایک سربراہ ہوتا ہے۔ انئیوٹ نسل کے لوگ حیرت انگیز طور پر کمال کے موجد بھی ہیں ، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات زندگی ایجاد کرتے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنے سفر کے لیے بغیر پہیوں والی ''کتا گاڑی‘‘ ایجاد کر رکھی ہے۔ جسے برفانی بڑے بڑے کتے کھینچ کر چلاتے ہیں۔ اسی طرح ہوا کارخ جاننے کیلئے انہوں نے ''پون چکیاں‘‘ بنا رکھی ہیں جس سے انہیں موسموں کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔اس سے بھی ان کی کمال ایجاد زمانہ قدیم کے '' برفانی چشمے ‘‘ تھے جو اس قوم نے برف پر پڑنے والی شدید روشنی کے انعکاس کا مقابلہ کرنے کیلئے ایجاد کئے تھے۔ بعض حوالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک دور میں سورج کی کرنوں سے پڑنے والی چکا چوند کرنوں سے انئیوٹ لوگ تیزی سے اندھے پن کا شکار ہونا شروع ہو گئے تھے جسے '' برفانی اندھا پن‘‘ کا نام دیا گیا۔اسے روکنے کیلئے یہاں کے تخلیق کاروں نے 'برفانی چشمے‘‘ ایجاد کر ڈالے۔ یہ چشمے عام طور پر وہیل یا ہرن کی ہڈی یا دیگر سمندری جانوروں کی کھال سے بنائے جاتے تھے۔ چشموں کا ڈیزائن نہایت سادہ ہوتا تھا جن کی پتلی پٹیوں میں باریک،لمبے اور افقی سوراخ اتنے باریک ہوتے تھے کہ روشنی کی ایک محدود مقدار ہی انکھوں تک پہنچتی تھی اور یوں برف کی سطح سے منعکس ہونے والی تیز اور چبھتی روشنی کو آنکھوں سے محفوظ رکھا جاسکتا تھا۔

نقل کے دائمی نقصانات

نقل کے دائمی نقصانات

نقل سے فوری فائدے تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں دائمی نقصان ہوتا ہے۔ ہمیں اکثر یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کروڑوں روپے کے خرچ سے تعمیر شدہ پل افتتاح سے قبل زمین بوس ہوگیا۔ نیم حکیم کے معالجہ سے سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ہلاکت خیز سانحہ کیلئے غیر تربیت یافتہ عملہ ذمہ دار قرار پاتا ہے۔ مختلف میدان ہائے حیات میں نیم پختہ کاری اور مہارتوں کے فقدان سے اس طرح کے واقعات کے نتیجہ میں انسانی جانوں اور قیمتی وسائل کا زیاں اور بربادی ہوتی ہے۔ نقل اور اہلیت کی حقیقی جانچ کے بغیر ڈگریوں کا دیا جانا اس صورتحال کو پیدا کرتا ہے کہ سب سے زیادہ گریجویٹس رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت صلاحیت اور اہلیت کی کسوٹی پر نہیں اترتی۔ ان کی میدان عمل کی کارکردگی ڈگریوں سے فروتر ہوتی ہے۔ نجی کمپنیاں صرف انتہائی ذہین امید وار کو ترجیح دیتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے ان مندرجہ بالا افراد کو دائمی نقصان ہوتا ہے۔ طالب علم نقل کی بیساکھیوں سے زیادہ لمبی دوڑ، دوڑ نہیں پاتے۔ جس طرح کسی عدد کے بائیں جانب کئی گنا صفر لگانے سے اس کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے اسی طرح نقل کے ذریعے کئی ڈگریاں حاصل کرنے کے بھی کوئی اہمیت اور قدر نہیں ہوتی ۔ نقل سے ہم ممتحن کو بیوقوف بناسکتے ہیں اساتذہ کو بیوقوف بناسکتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بیوقوف نہیں بنانا چاہیے کیونکہ نقل کرکے امتحان میں پاس ہوسکتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ناکامیاب رہیں گے ۔سکول کے وہ طلبا جو صحیح معنوں میں علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں محنت صرف کرتے ہیں۔ ٹیوٹر کی مدد کے بغیر وہ قابل بن کر ابھرتے ہیں مگر جو طلبا نقل نویسی یا وسیلہ بازی میں اپنی محنت کا استعمال کرتے ہیں بھلے ہی انہیں ڈگری پر فرسٹ کلاس ڈکلیئر کردیا جائے۔ جن کی ذمہ داری نقل کو روکنا ہے بعض اوقات وہ اسے پروان چڑھاتے ہیں۔ یاد رکھئے زہر میٹھا سہی پر زہرہی ہوتا ہے۔ امتحان میں نقل کوئی معمولی جرم ہی نہیں بلکہ اس کی تباہ کاریوں کی زد سارے سماج پر پڑتی ہے۔ سماج کو نقل کی لعنت سے نجات دلائی جائے، معاشرے میں اس برائی کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، تعلیمی اداروں کے منتظمین، پرنسپلز ، اساتذہ اور سر پرست حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی صحت مند خطوط پر تربیت کریں اور دانشوروں سے گزارش ہے کہ طلبا نقل کیوں کرتے ہیں، اس کے اسباب جانیں اور تدارک کے طریقے بتائیں۔

آے آر خاتون:اردو کی مقبول ناول نگار

آے آر خاتون:اردو کی مقبول ناول نگار

اردو ادب میں خواتین ناول نگاروں کا نمایاں کردار رہا ہے، جنہوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف قارئین کے دل جیتے بلکہ اردو ادب کو بھی نیا رنگ دیا۔ ان ہی میں سے ایک اہم نام اے آر خاتون کا ہے، جو اپنی پرکشش اور دلنشین تحریروں کے سبب بے حد مقبول ہوئیں۔ وہ بنیادی طور پر سماجی اور رومانی ناولوں کی مصنفہ تھیں اور ان کی کہانیوں میں مشرقی روایات، خاندانی اقدار اور جذباتی گہرائی نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کا اصل نام امت الرّحمٰن خاتون تھا اور اختصار کے ساتھ انھیں اے آر خاتون لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ان کا تعلق دہلی سے تھا جہاں وہ 1900ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ ابتدائی عمر ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتی تھیں۔ اس دور کے رواج کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت گھر پر مکمل ہوئی۔ اے آر خاتون نے اپنے شوق اور ادب میں دلچسپی کو مضمون نگاری کی شکل میں دوسروں کے سامنے رکھا اور حوصلہ افزائی نے انھیں باقاعدہ لکھنے پر آمادہ کیا۔ ان کے مضامین معروف رسالہ عصمت میں شائع ہونے لگے۔1929ء میں اے آر خاتون کا پہلا ناول شمع منظرِ عام پر آیا تھا اور یہ بھی برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب اور اقدار کے پس منظر میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس ناول کی مقبولیت کے بعد تصویر کے نام سے ان کی کہانی شائع ہوئی اور پھر اے آر خاتون نے افشاں، چشمہ، ہالا جیسے ناول لکھے اور ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ وہ ایک حساس اور مشاہدہ رکھنے والی ادیبہ تھیں، جنہوں نے اپنے ناولوں میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا۔ ان کا دور وہ تھا جب خواتین مصنفین کے لیے محدود مواقع میسر تھے، لیکن انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اردو ادب میں منفرد پہچان بنائی۔ان کے ناولوں کی سب سے بڑی خوبی ان کا سادہ مگر دلکش اسلوب ہے، جو قاری کو ابتدا سے لے کر اختتام تک جکڑے رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں خواتین کے جذبات، محبت، قربانی اور خاندانی تعلقات پر مرکوز رہتی ہیں۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں مشرقی تہذیب اور معاشرتی اقدار کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے کردار عام زندگی سے لیے گئے ہوتے تھے، جو قاری کے دل میں اتر جاتے تھے۔اے آر خاتون کے کئی ناول اردو ادب میں کلاسیکی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں افشاں،ہالہ،تصویر،شمع،چشمہ،رُمانہ،فرحانہ، عصمہ،شمع اور پروانہ،دل کی دنیا،محبت ایک خواب،پیار کا پیکر ، زیور قابل ذکر ہیں۔ ان ناولوں میں محبت، قربانی، معاشرتی تضادات اور انسانی جذبات کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ ان کے کردار حقیقت کے قریب اور جذبات سے بھرپور ہوتے ہیں، جو قاری کو اپنی دنیا میں کھینچ لیتے ہیں۔اے آر خاتون کا ناول ''افشاں‘‘ 1970ء کے اواخر میں پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا تھا جو اپنے وقت کا مقبول ترین ڈرامہ ثابت ہوا۔ یہ وہ ناول تھا جس کی بنیاد برصغیر کے مسلم سماج میں تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی کشاکش پر رکھی گئی تھی۔اے آر خاتون کی تحریریں خواتین قارئین میں بے حد مقبول تھیں۔ ان کے ناولوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا اور اردو ادب میں رومانوی اور سماجی کہانیوں کو فروغ دیا۔ ان کی تخلیقات نے نہ صرف تفریح فراہم کی بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کیا کہ محبت اور رشتے کس طرح زندگی کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔اے آر خاتون اردو کی ان چند ناول نگاروں میں شامل ہیں جن کی تحریریں وقت کے ساتھ مزید نکھرتی گئیں۔ ان کا سادہ مگر پراثر اسلوب آج بھی قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ان کی کہانیاں انسانی رشتوں، محبت اور قربانی کے گرد گھومتی ہیں، جو ہمیشہ دلوں پر نقش رہیں گی۔قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آ گئی تھیں اور یہاں بھی تصنیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ 24 فروری 1965ء کو ان کا لاہور میں انتقال ہوا۔ ان کا ادبی سرمایہ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کی تخلیقات نئی نسل کے لیے بھی متاثر کن ثابت ہوں گی۔

سائبریا ریلوے لائن

سائبریا ریلوے لائن

سائبریا(روس) کے یخ بستہ پہاڑوں اور پرپیچ راستوں پر بچھائی جانے والی ریلوے لائن دنیا کی سب سے طویل ریلوے لائن ہے جو ہر روز باقاعدگی سے ہزاروں مسافروں اور لاکھوں ٹن تجارتی سامان کو ایک جگہ سے دوسرے مقام تک پہنچاتی ہے۔ یہ منصوبہ 1891ء میں پیش کیا گیا جبکہ اس کی تکمیل میں 14سال کا عرصہ لگا۔ اس ریلوے لائن کو بچھانے میں لاکھوں مزدوروں نے حصہ لیا جنہوں نے لاتعداد پر پیچ راستوں، دریائوں، جھیلوں اور بلند و بالا پہاڑوں کو چیر کر یہ ریلوے لائن مکمل کی۔ اس کی تعمیر کے مشکل اور طویل ترین عرصے میں سینکڑوں مزدوروں نے اپنی جانیں قربان کیں۔یہ منصوبہ 1905ء میں مکمل ہوا۔ یہ لائن نہ صرف روس کے دور دراز علاقوں کو ملاتی ہے بلکہ اس کی رسائی ایشیا تک ہے۔ ابتداء میں اس پر صرف یک طرفہ ٹریک تیار کیا گیا تھا جسے بعد میں دو طرفہ کردیا گیا۔ شروع میں اس کے ذریعے سائبریا سے نکلنے والا سونا اور دیگر قیمتی معدنیات نکال کر دیگر علاقوں میں پہنچائی جاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس ریلوے لائن کے ذریعے سائبیریا کے یخ بستہ علاقے میں سیاسی و جنگی قیدیوں کو بھیجنے کے لئے بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ اس ریلوے لائن کو بچھانے کے لئے بڑی تعداد میں جنگی قیدیوں سے جبری مشقت بھی لی گئی۔ جنہوں نے سالہا سال اپنی قید بامشقت اس ریلوے ٹریفک کو بچھانے میں کاٹی۔انقلاب روس (1917ء) میں سیاسی قیدیوں کو علاقہ بدر کرنے کے لئے بھی اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ جدید روس کی ترقی میں اس ریلوے لائن نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ملک کے دور دراز دشوار گزار راستوں پر قائم صنعتی زون کو اس لائن کے ذریعے منسلک کیا گیا۔ شروع میں اس سفر کے دوران پڑنے والی بیکل جھیل کی یخ بستہ ہوائوں اور برف پوش راستہ جو 65کلو میٹر پر مشتمل ہے بہت سے حادثات رونما ہوئے جس پر بعد ازاں 4267 ٹن وزنی آئس بریکر تیار کرکے ٹکڑوں کی شکل میں نصب کردیا گیا۔ اس جھیل سے طے کیا جانے والا بحری نقل و حمل کے ذریعے تین ماہ کا سفر صرف ایک ہفتے میں طے کیا جاتا ہے۔سفر کا آغاز ماسکو کے وقت کے مطابق ہوتا ہے لیکن دوران سفر یہ آٹھ ٹائم زون سے گزرتی ہے۔ ماسکو سے چلنے والی یہ ٹرین دریائے وولگا اور پھر جنوب مشرق میں یورل پہاڑوں سے گزرتے ہوئے 1170 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہوئی یورپ سے ایشیا میں داخل ہو جاتی ہے۔سائبریا کا علاقہ ایک کروڑ 24لاکھ 94ہزار مربع کلو میٹر (50 لاکھ مربع میل) پر مشتمل ہے۔ سائبیریا تا تاری زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ''سوئی ہوئی زمین‘‘۔ یہ خطہ حیرت انگیز ہے جہاں قدم قدم پر برفانی چیتے، ریچھ، گیدڑ اور انواع و اقسام کے جانور اور پودے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہ خطہ تیل، کوئلہ اور لوہا سمیت قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ یہ انتہائی سرد علاقہ ہے جہاں 8سے 9ماہ سخت سردی اور یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں۔ اس دوران درجہ حرارت منفی 68 ڈگری سینٹی گریڈ (منفی90ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ جاتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

بغداد پیکٹ1955ء میں آج کے دن ''بغداد پیکٹ‘‘ کا قیام ہوا، جس میں ترکی، عراق، پاکستان اور ایران شامل تھے۔ کچھ عرصے بعد اس کا نام بدل کر ''سینٹو‘‘ کر دیا گیا۔ بعد میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور عراق بھی اس میں شامل ہو گئے۔ جولائی 1958ء میں عراق میں انقلاب آیا اور نئی حکومت نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس طرح اس کے مرکزی دفاتر بھی بغداد سے انقرہ منتقل ہو گئے۔ چودہ سال فعال رہنے کے بعد یہ تنظیم 16 فروری 1979ء کو معدوم ہو گئی۔ اس کا مقصد وسطی ایشیا میں اشتمالیت کے فروغ کو روکنا تھا۔خلیجی جنگ کا آغاز24 فروری1991ء کو خلیجی جنگ کا آغاز ہوا، جس میں عراق پر فضائی حملے ہوئے۔ خلیجی جنگ عراق اور امریکہ کی قیادت میں 42 ممالک کے اتحاد کے درمیان مسلح تصادم تھی۔ عراق کے خلاف اتحاد افواج کی کارروائی دو مراحل ''آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ‘‘ اور ''آپریشن ڈیزرٹ سٹارم‘‘ پر مشتمل تھی۔ اتحادی قوتوں کی بری کارروائی 3 روز تک جاری رہی اور اس کا اختتام 28 فروری 1991ء کو کویت کی آزادی کے ساتھ ہوا۔بحری جہاز 'سٹروما ‘غرق ہوا 1942ء میں آج کے دن کے دن یہودیوں کو فلسطین لے جانے والا بحری جہاز ''سٹروما‘‘ روس کی بحری فوج نے ڈبو دیا۔ ترکی نے اس بحری جہاز کو استنبول میں اس لیے حراست میں لے لیا کیونکہ برطانیہ نے اس کے مسافروں کو فلسطین میں داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فروری 1942ء میں ایک سوویت آبدوز نے ٹارپیڈو کر کے سٹروما کو بحیرہ اسود میں غرق کر دیا۔ اس واقعہ میں 800 یہودی ہلاک ہو گئے تھے اور صرف ایک شخص زندہ بچا تھا۔میکسیکو کی آزادی1821ء میں آج کے روز میکسیکو نے سپین سے آزادی حاصل کی۔ میکسیکو کی جنگ آزادی ایک مسلح تصادم اور سیاسی عمل تھا جس کے نتیجے میں میکسیکو کی ہسپانوی سلطنت سے آزادی ہوئی۔ یہ کوئی واحد، مربوط واقعہ نہیں تھا بلکہ مقامی اور علاقائی جدوجہد تھی جو اسی عرصے میں رونما ہوئی، اور اسے ایک انقلابی خانہ جنگی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا اختتام 28 ستمبر 1821ء کو میکسیکو سٹی میں میکسیکو کی سلطنت کی آزادی کے اعلان کے مسودے کے ساتھ ہوا۔

حکایت سعدیؒ:بادشاہ اور قیدی

حکایت سعدیؒ:بادشاہ اور قیدی

کہتے ہیں۔ ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ بادشاہ کے حکم پر پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے چلے تو اس نے بادشاہ کو بْرا بھلا کہنا شروع کر دیا کسی شخص کے لیے بڑی سے بڑی سزا یہی ہوسکتی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لیے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ ناراض ہو کر درپے آزار ہو گا۔بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا ''یہ کیا کہہ رہا ہے؟'' بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا س نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصیّ سے دیوانہ ہو جائے گا اور ہوسکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔ اس نے جواب دیا جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں''۔وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔بادشاہ کا ایک اور وزیر پہلے وزیر کا مخالف اور تنگ دل تھا وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا''یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ غصہّ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہ کر رہا تھا''۔وزیر کی یہ بات سن کر نیک دل بادشاہ نے کہا '' اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔ یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہوئےوہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زباں پہ آئےاچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو آگ فساد کی بجھائےحاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ بادشاہ نے قیدی کو آزاد کر دینے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ وزیروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ اس نے مزید کہا''یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر، سب کا انجام موت ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پر قبض کی جاتی ہے یا فرش خاک پر''۔ حضرت سعدیؒ کی یہ حکایت پڑھ کر سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ مصلحت کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ حکایت کی اصل روح یہ ہے کہ خلق خدا کی بھلائی کا جذبہ انسان کے تمام جذبوں پر غالب رہنا چاہیے اور جب یہ اعلیٰ د ارفع مقصد سامنے ہو تو مصلحت کے مطابق روّیہ اختیار کرنے میں مضائقہ نہیں۔ جیسے جراح کو یہ اجازت ہے کہ فاسد مواد خارج کرنے کے لیے اپنا نشتر استعمال کرے۔ کسی انسان کے جسم کو نشتر سے کاٹنا بذات خود کوئی اچھی بات ہر گز نہیں ہے لیکن جب جرّاح یہ عمل کرتا ہے تو اسے اس کی قابلیت سمجھا جاتا ہے۔