ساقی…پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ

ساقی…پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


اس ورسٹائل اداکار نے ہالی وڈ کی فلم سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا******کسی بھی فلم کی کامیابی میں صرف ہیرو ہیروئن، ہدایتکار یا موسیقار ہی اہم کردار ادا نہیں کرتے بلکہ اس فلم میں کارکردگی دکھانے والے معاون اداکار بھی اتنی ہی توصیف کے مستحق ٹھہرتے ہیں جتنی کہ دوسرے لوگ… مقام افسوس ہے کہ فلم بینوں کی اکثریت ہیرو، ہیروئن، کامیڈین یا ولن کی اداکاری کا نوٹس تو لیتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان فنکاروں کو نظرانداز کردیتی ہے جنہوں نے فلم کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا ہوتا ہے۔ معاون اداکار کسی بھی فلم کا وہ حصہ ہوتے ہیں جن کے بغیر فلم کی تکمیل کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔پاکستانی فلمی صنعت میں بھی کئی معاون اداکار ایسے تھے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر شائقین فلم سے بہت داد وصول کی۔ ان میں ایک نام ساقی کا بھی تھا۔ساقی کا اصل نام عبدالطیف بلوچ تھا۔ وہ دو اپریل 1925ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ یہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ہالی وڈ کی فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ سے کیا۔ 1955ء میں وہ لاہور میں فلم پروڈکشن یونٹ میں اسسٹنٹ ہوگئے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم ’’التجا‘‘ تھی جو 1955 میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ 1958 میں ’’لکھ پتی‘‘ میں نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ پھر اس کے بعد سسی پنوں، اور بمبئے والا میں کام کیا۔ 1959ء میں ان کی ایک اہم فلم ناگن ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سپیرے کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں نیلو اوررتن کمار نے ہیرو اور ہیروئن کے کردار ادا کیے تھے۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ساقی کی اداکاری کوبے حد سراہا گیا۔ ویسے تو پاکستان اور بھارت کے کئی اور اداکاروں نے بھی سپیرے کا کردار ادا کیا جن میں امریش پوری بھی شامل ہیں۔ 80ء کی دہائی میں سری دیوی کی یادگار فلم ’’نگینہ‘‘ میں امریش پوری نے جس اعلیٰ درجے کی اداکاری کی اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لیکن پاکستانی فنکار ساقی نے بھی سپیرے کے کردار میں جاندار اداکاری کی۔ ناگن کو ساقی کی اہم ترین فلم قرار دیا جا سکتا ہے۔ 1960ء میں ’’رات کے راہی‘‘ اور پھر 1965ء میں ’’ہزارداستان‘‘ میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔ ساقی کی ایک اور یادگار فلم لاکھوں میں ایک 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رضامیر کی اس فلم کو پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ فلم کے دیگر اداکاروں کی طرح ساقی کی اداکاری کوبھی بے حد پسند کیا گیا۔ ساقی نے500 سے زیادہ اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبان کی فلموں میں کام کیا۔ ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ ساقی گیارہ زبانیں جانتے تھے اور ان جیسی صلاحیتوں کا حامل کوئی اور دوسرا اداکار پاکستانی فلمی صنعت کو نہیں ملا۔ویسے تو ساقی بغداد میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد کچھ عرصہ کیلئے کاروبار کے سلسلے میں قیام پذیر تھے لیکن ان کا تعلق سندھ کے شہر دادو سے تھا۔ ساقی نے کیریکٹر ایکٹر اور ولن کے کرداروں سے شہرت حاصل کی۔ انہوں نے ’’پاپی اور ہم لوگ‘‘ کے نام سے ذاتی فلمیں بھی بنائیں لیکن یہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں الہ دین کا بیٹا، تاج اور تلوار، بارہ بجے ، میں نے کیا جرم کیا، عورت ایک کہانی، شہید، موسیقار، زرقا، ایک منزل دو راہیں، بیٹی، شطرنج، نہلے پہ دہلا، ایک دل دو دیوانے، وہ کون تھی، نغمہ صحرا، نصیب اپنا اپنا، یوسف خان شیربانو اور میرا گھر میری جنت شامل ہیں۔ اداکار مصطفی قریشی سے ان کی بڑی دوستی تھی۔ وہ ان کے ہمدم دیرینہ تھے۔ سمن آباد لاہور میں ساقی کی رہائش گاہ پر مصطفی قریشی اکثر دیکھے جاتے تھے۔ساقی بڑے خوش اخلاق اور حلیم الطبع تھے۔ اپنی خودداری اور وضع داری کی وجہ سے بھی ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ ساقی کا کریڈٹ یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کومسعود رانا اور مجیب عالم جیسے گلوکار دیئے۔ یہ وہ گلوکار ہیں جنہوں نے پاکستانی فلموں کیلئے ایسے شاندار گیت گائے جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔پشتو فلموں کی ناموراداکارہ یاسمین خان ساقی کی اہلیہ تھیں۔ جنہوں نے ایک زمانے میں بہت شہرت سمیٹی۔ ساقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دریا دل تھے اور ان کا دل انسانیت کے درد سے معمور تھا۔ پوری فلمی صنعت میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے ان سے شکایت ہو۔ انہوں نے کئی عشروں تک فلموں میں کام کیا اور فلمی صنعت کو ہر دور میں ان کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ وہ ایک عالی ظرف اور محب وطن شخص تھے۔ ریاض شاہد نے انہیں اپنی فلم ’’زرقا‘‘ میں ایک چھوٹے سے کردار کیلئے منتخب کرلیااور ساقی نے حامی بھر لی۔ کیونکہ ان کے بقول’ زرقا‘ فلم جس مقصد کیلئے بنائی جا رہی تھی وہ عظیم تھا اور اس مقصد کو پانے کیلئے وہ ہر صورت اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ ساقی کی فنکارانہ صلاحیتوں کا شاخسانہ تھا کہ انہیں زرقا میں اس چھوٹے سے کردار میں بھی پسند کیا گیا۔ ریاض شاہد باکمال ہدایتکار تھے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ چھوٹے سے چھوٹے کردار کیلئے بھی کن اداکاروں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ساقی نے ہمیشہ نوجوان اداکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور ہر نوجوان فنکار نے ان کی تعریف کی۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ نوجوان فنکاروں کی حوصلہ افزائی ان کا فرض اولین ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سینئر فنکاروں کے احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔ ساقی نے کچھ ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کے مداحوں کی تعداد میں کبھی کمی نہ آئی کیونکہ وہ ایک ورسٹائل اداکار تھے جو اپنے مداحوں کی توقعات پر پورا اترتے تھے۔22 دسمبر 1986ء کو یہ شاندار اداکار اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ تھے۔ بطور اداکار اور بطور انسان وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
پہاڑوں کو خراج تحسین

پہاڑوں کو خراج تحسین

ہمارے سیارے کے ماحولیاتی نظام اور انسانی معاشرت میں پہاڑوں کے اہمیت بارے آگاہی بڑھانے کے لیے ہر سال 11 دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں اس دن کو پہاڑوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، پہاڑوں کی بہتری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کرنے اوردنیا بھر میں پہاڑی ماحولیات میں مثبت تبدیلی کی کوششوں سے منسوب کیا تھا۔ یہ دن ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے:Mountain solutions for a sustainable future یعنی پہاڑ پائیدار مستقبل کا حل ہیں۔ پہاڑ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑ زمین کی سطح کے ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا کی آبادی کے 12 فیصد کا مسکن ہیں جبکہ بنی نوح انسان کے لیے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں ہی سے ملتا ہے، اور دنیا کی خوراک کا 80 فیصد فراہم کرنے والے پودوں کی 20 انواع میں سے چھ پہاڑوں سے آتی ہیں۔پہاڑ حیاتیاتی تنوع کا بیش قیمت خزانہ ہیں۔اگرچہ دنیا کے صرف 27 فیصد حصے پر پہاڑ ہیں لیکن اپنے حجم کے مقابلے میں یہ حیاتیاتی تنوع میں کہیں زیادہ کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم بین الحکومتی ماحولیاتی تبدیلی کے پینل (IPCC) کے مطابق پہاڑوں میں پائی جانے والے منفرد پودوں اور جانوروں کی اقسام میں سے 84 فیصد معدوم ہونے کے خطرے سے دوچارہیں۔پہاڑ دنیا کی قدرتی خوبصورتی کا اہم حصہ ہیں اور ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہوا کے بہاؤ کو متاثر کرتے ہیں، بارش کے پیٹرن کو منظم کرتے ہیں اور جانوروں اور پودوں کی انواع کا مسکن فراہم کرتے ہیں۔ پہاڑ مختلف اقتصادی سرگرمیوں جیسا کہ سیاحت، کان کنی، زراعت اور پانی کی فراہمی میں بھی خصوصی طور پر مددگار ہیں ۔آج کے دور میں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی آلودگی اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پہاڑوں کے ایکو سسٹم خطرے میں ہیں۔ ان کی حفاظت اور تحفظ ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کی خوبصورتی اور فوائد سے مستفید ہو سکیں۔پاکستان کیلئے یہ امر قابلِ فخر ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور 9ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔ عالمی سطح پر ہر سال پانچ کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں جس سے 90 ارب ڈالر تک کا ریونیو حاصل ہوتا ہے تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسفک (UNESCP) کی رپورٹ ''پاکستان میں پہاڑی سیاحت کے ماحولیاتی اثرات‘‘ کے مطابق کوہ ہندو کش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں آلودگی کی سطح درمیانی جبکہ ہمالیہ میں بلند ہے۔دنیا کی 9 ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو جانے و الے تین راستو ں میں سے کنشوفر رُوٹ پرکوہ پیماؤں کے استعمال میں رہنے والی اشیا، پلاسٹک بیگز، پیک فوڈ کی باقیات اور شیٹس وغیرہ کی سطح بہت بلند جبکہ روپال روٹ پر یہ آلودگی مزید زیاد ہ ہے۔ گلوبل وارمنگ بھی پہاڑی سیاحت کی صنعت کو متاثر کررہی ہے۔ جنگلات کا کٹاؤ بھی پہاڑوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو جنگلات کی کٹائی میں آنے والی تیزی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض پہاڑی علاقوں میں جنگلات کا اوسط فاصلہ دو کلومیٹر تک بڑھ چکا ہے جو 10سال پہلے ڈیڑھ کلومیٹر تھا۔ انٹرنیشنل جرنل آف ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی کی ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ پہاڑی جنگلات والے دو اضلاع (نوشہرہ اور سوات) کے دیہاتوں میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اوسطاً آٹھ میں سے چھ دیہات میں بجلی اور ایل پی جی ہونے کے باوجود ان کے مہنگا ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کیلئے ان کا کم استعمال کرتی ہے اور 73 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ علاقے میں گھروں کی تعمیر اور مرمت میں جنگلات کی لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔40فیصد افراد کا خیال ہے کہ مقامی آبادی کی جانب سے لکڑی کے غیر قانو نی کٹاؤ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ 79 فیصد افراد جنگلات کے غیر قانونی کٹاؤکا ذمہ دار محکمہ جنگلات کو تصور کرتے ہیں۔جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے گلیشیئر پگھلنے کی شرح میں اضافہ ہورہاہے جو نیچے کی جانب پانی کے بہاؤ اور مقدار کو متاثر کر رہا ہے۔پاکستان میں مجموعی طور پر سات ہزار کے قریب گلشیئرز ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں برف کے ان تودوں کے پگھلنے کا عمل تیز تر ہو رہا ہے۔ پگھلتے گلیشئرز اچانک ٹوٹ جائیں تو پہاڑوں سے نیچے آتے پانی کا بہاؤ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ جو کچھ راستے میں آتا ہے بہہ جاتا ہے۔گلگت بلتستان کے علاقے میں درجنوں گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے ہزاروں جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں اور ان میں سے بہت سی جھیلیں ایسی ہیں جو سیلاب کا باعث بنتی رہتی ہیں۔اہم معلومات٭اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003ء میں پہاڑوں کی اہمیت پر اس دن کو منسوب کیا تھا۔٭پہاڑ زمین کی ایک چوتھائی سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔٭بنی نوح انسان کیلئے تازہ پانی کا نصف سے زائد پہاڑوں سے ملتا ہے۔٭پہاڑ دنیا کے 27 فیصد حصہ پر ہیں۔٭دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2 اور نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے زائد بلند5 چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔ 

ملتان کے تاریخی مقامات

ملتان کے تاریخی مقامات

فن تعمیر ثقافتی و تہذیبی روایت کے علاوہ معاشرتی ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خطے میں موجود تاریخی عمارات تاریخی کلچر کی مظہر ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں اور جو قومیں اس کی حفاظت نہیں کرتیں، انہیں زوال پذیر ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ملتان ضلع لودھراں سے 75 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پاکستان کے صوبہ پنجاب کا قدیم شہر ہے، اپنی تہذیبی، تاریخی اور مذہبی اہمیت کی بنا پر ہمیشہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر کو "اولیاء￿ کا شہر" کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کئی معروف صوفیائے کرام کے مزارات موجود ہیں۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور یہاں کے تاریخی مقامات میں فن تعمیر، ثقافت اور روحانی ورثے کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ملتان کی وجہ شہرت تو کئی ہیں لیکن مزارات کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت حاصل ہے جہاں پاکستان بھر سے زائرین حاضر ہوتے ہیں۔ ملتان کی تاریخ کا آغاز کم از کم پانچ ہزار سال پہلے ہوا۔ قدیم تہذیبوں میں اسے "مالیستان" کے نام سے جانا جاتا تھا اور اسے بدھ مت اور ہندو مت کے مذہبی مراکز میں شمار کیا جاتا تھا۔ بعد میں یہ اسلامی تہذیب کا اہم مرکز بن گیا، جب صوفیائے کرام نے یہاں قدم رکھا اور اسلام کی تبلیغ کی۔پاکستان کے شہروں میں ملتان کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ اولین دور میں اور سب سے زیادہ عرصے تک برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کا مرکز رہا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں محمد بن قاسم نے سندھ کے جو علاقے فتح کیے ان میں ملتان بھی شامل تھا لیکن ملتان اس سے بھی پہلے ہندوستان کا رخ کرنے والے بزرگان دین اور صوفیائے کرام کا ایک اہم پڑاؤ بن چکا تھا۔ فتح ملتان کے بعد اس طرف آنے والے صوفیاء کی تعداد میں اور بھی اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ نے مستقل قیام کے لیے ملتان کو منتخب کیا اور کچھ عارضی قیام کے بعد ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ملتان کو مذہبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ کسی زمانے میں ملتان کے بارے میں شاید یہ درست ہو کہ چہار چیز است تحفہ ملتان۔ گرد، گرما، گدا، گورستان لیکن آج یہ پاکستان کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور ایک بارونق صنعتی شہر کی حیثیت سے تیزی کے ساتھ اپنے مراحل طے کر رہا ہے۔ملتان کے مشہور تاریخی مقامات درج ذیل ہیں۔ شاہ رکن عالم کا مزارشاہ رکن عالم کا مزار ملتان کا سب سے معروف تاریخی مقام ہے۔ یہ عظیم صوفی بزرگ حضرت شاہ رکن الدین عالم کا مدفن ہے جو سلسلہ سہروردیہ کے مشہور ولی تھے۔ مزار کا فن تعمیر اسلامی طرز کا شاہکار ہے۔ اس کے گنبد کو دنیا کے سب سے بڑے گنبدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مزار پر سنگ مرمر اور سرخ اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جو اسے منفرد بناتا ہے۔ حضرت بہاء الدین زکریا کا مزارحضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کا مزار بھی ملتان کے تاریخی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ صوفی بزرگ اسلامی تعلیمات اور تصوف کے فروغ کے لیے مشہور ہیں۔ مزار کا طرز تعمیر قدیم اسلامی طرز کو ظاہر کرتا ہے اور یہاں روحانی سکون کے متلاشی لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔قلعہ ملتانقلعہ ملتان، جسے "قلعہ قاسم" بھی کہا جاتا ہے، تاریخی قلعہ ہے جو کبھی ملتان کی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا۔ یہ قلعہ دریائے چناب کے قریب ایک بلند مقام پر واقع ہے اور اس کا شمار قدیم ترین قلعوں میں ہوتا ہے۔ قلعہ کا اندرونی حصہ وقت کے ساتھ ختم ہو گیا، لیکن اس کے آثار اب بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہاں سے شہر کا خوبصورت منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ملتان کے بازارملتان کے بازار حسین آگاہی کو بھی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ یہ بازار نہ صرف خریداری کے لیے مشہور ہے بلکہ یہاں کی روایتی اشیاء اور دستکاری سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ثقافتی ورثہملتان جتنا قدیم شہر ہے، اتنی ہی پرانی اس کی ثقافت ہے۔ ملتانی کھسہ، ملتانی چادر، ملتانی چپل، سوہن حلوہ، ہاتھ سے بنے ہوئے برتن اور خوب صورت اجرکیں، ٹوپیاں غرض ہر طرح کی اشیا اس بازار میں مل جاتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بازار قریبی علاقوں لودھراں، بہاولپور ، مظفرگڑھ کوٹ ادو کے علاقوں کے لیے معاشی ہب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہاں سے دور دراز علاقوں کے دکاندار یہاں پر اشیاء خریدنے آتے ہیں اور اپنے علاقوں میں جا کر مناسب دام میں فروخت کرنے کے بعد اپنے روزگار کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ ملتان اپنے تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی ورثے کی بنا پر بھی مشہور ہے۔ یہاں کے روایتی کھانے ملتانی سوہن حلوہ، ملک بھر میں مشہور ہے۔ یہاں کے کاریگر ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء￿ ، جیسے شیشے کا کام اور کشیدہ کاری، اپنی مثال آپ ہیں۔ ادیبوں کا شہرملتان شہر کو ادیبوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے مشہور ادبا اور شاعروں کا تعلق اس شہر سے ہے۔ ادیبوں اور شعرا کی محفلیں ہر شام شہر میں چند سال پہلے قائم کیے گئے ملتان ٹی ہاؤس میں منعقد ہوتی ہیں۔ ملتان ٹی ہاؤس میں ملتان کے تمام ادیبوں اور شعراء￿ کی تصاویر آویزاں اور تصانیف رکھی گئی ہیں۔ وہیں، علم و ادب سے چاہ رکھنے والے اور عام لوگ بھی یہاں بیٹھ کر چائے کی پیالیوں کے دور چلا رہے ہوتے ہیں۔ملتان کے تاریخی مقامات پاکستان بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ یہ مقامات تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کے ثقافتی اور روحانی تشخص کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مقامات کی دیکھ بھال اور ترقی کے لیے مزید اقدامات کرے تاکہ سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ ملتان کے تاریخی مقامات ماضی کی عظمت اور تہذیب کی نشانی ہیں۔ یہ مقامات سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں بلکہ اپنے شاندار ماضی کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ ملتان کی سیر ہر شخص کو زندگی میں ایک بار ضرور کرنی چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

یونیسف کا قیام 11دسمبر1946ء کویونیسف کا قیام عمل میں آیا۔یہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں بچوں کو انسانی حقوق اور ترقی کیلئے فنڈز فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ ''بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ یہ اداراہ دنیا کے 192ممالک میں کام کر رہا ہے جو اسے سماجی بہبود کیلئے کام کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ مقبول بناتا ہے۔ یونیسف کی سرگرمیوں میں حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی، بیماریوں سے بچاؤ، ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں اور ماؤں کے علاج کا انتظام، بچوں میں غذائیت کی کمی کو دور کرنا، صفائی ستھرائی کو بہتر بنانا، تعلیم کو فروغ دینا اور آفات کے دوران ہنگامی امداد فراہم کرنا شامل ہے۔ایڈورڈ ہشتم کی دستبرداری 1936ء میں آج کے روز برطانوی سلطنت میں اس وقت ایک آئینی بحران پیدا ہوا، جب بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے ایک امریکی سوشلسٹ والیس سمپسن سے شادی کرنے کا اعلان کیا۔ والیس سمپسن اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے چکی تھیں اور دوسرے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھیں۔ برطانوی حکومتوں اور برطانوی دولت مشترکہ کی حکومتوں نے بادشاہ کے اس فیصلے کی شدید مخالف کی۔ تمام مخالفتوں کے باوجود بادشاہ نے سمپسن سے شادی کی اور اسے اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ایڈورڈ اور سمپسن35برس تک (ایڈورڈ کی وفات تک) ایک ساتھ رہے۔اپالو 17کا آخری مشن 11دسمبر 1972ء کو اپالو پروگرام کا آخری مشن ''اپالو 17‘‘ اپنے سفر پر روانہ ہوا۔اس مشن کا مقصد چاند کی سطح اور ماحول کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول ممکن بنانا تھا۔ ''اپالو17‘‘ کے کمانڈر کو ایک حیاتیاتی تجربے کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں، جس میں چاند پر پانچ چوہوں کو لے جایا گیا۔ ماہرین کی جانب سے آتش فشاں پہاڑوں کی موجودگی کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے۔ایل موزوٹ قتل عام ایل موزوٹ کا قتل عام 11دسمبر 1981ء کو ایل سلواڈور کے ایل موزوٹ گاؤں کے اندر اور اس کے گرد و نواح میں کیا گیا۔اس قتل عام میں سلواڈور کی فوج نے خانہ جنگی کے دوران 800سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس قتل عام کا فیصلہ فوج اور گوریلا جنگجوئوں کے درمیاں جھڑپوں کے بعد کیا گیا۔سلوا ڈور آرمی کی ایک مخصوص بٹالین کواس تباہی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔دسمبر 2011ء میں ایل سلواڈور کی حکومت نے اس قتل عام کیلئے معافی بھی مانگی۔انڈیا ناریا ستہائے متحدہ امریکہ میں شامل ہوا انڈیانا ریاستہائے متحدہ امریکہ کا رقبے کے لحاظ سے 38 واں سب سے بڑا اور 50 ریاستوں میں سے 17 واں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر انڈیاناپولس ہے۔ انڈیانا کو 11 دسمبر 1816 کو ریاستہائے متحدہ میں 19ویں ریاست کے طور پر داخل کیا گیا تھا۔ 

ایجادات اور اتفاقات

ایجادات اور اتفاقات

انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لیے سائنسی علم کو بروئے کار لاتے ہوئے ایجادات ایک منظم کاوش کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں ‘ مگر یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بہت سی ایجادات جنہوں نے نوع انسانی کو بہت فائدہ پہنچایا اور ان کی افادیت بدستور موجود ہے دراصل ایک اتفاق کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ آئیے ان ایجادات کے بارے جانتے ہیں جن کی دریافت اتفاقیہ ہوئی۔ مائیکروویو اونمائیکر و ویوز گرمی اور روشنی کی لہروں کی طرح شارٹ ریڈیو ویوز ہیں جو موشن کے ذریعہ کام کرتی ہیں اور خوراک کے مالیکیول میں موشن پید اکرتی ہیں جن کی وجہ سے فرکشن پیدا ہوتی ہے۔ فرکشن کی وجہ سے کھانے کے اندر گرمی پید ا ہوتی ہے جس سے کھانا گرم ہو جاتا ہے۔ 1946ء میں امریکہ میں Raytheon کمپنی کا ایک ملازمPercy Spencer لیبارٹری کے معا ئنہ کے دوران میگنا ٹرون کے سامنے آکر رکا جو مائیکرو ویوز پیدا کرتی ہیں۔میگنا ٹرون وہ پاور ٹیوب ہے جس سے ریڈار سیٹ چلتا ہے۔Percyکی جیب میں چا کلیٹ تھی جب اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ پگھل چکی تھی۔اس کو احساس ہو گیا کہ چاکلیٹ مائیکرو ویوز کی وجہ سے پگھلی ہے۔ چنانچہ Raytheonکمپنی نے اس کی سفارش پر 1947ء میں سب سے پہلا اوون 'ریڈار رینج‘ کے نام سے تیار کیا۔ 1953ء تک اوون کی قیمت تین ہزار ڈالر تھی اور یہ بڑے ریستورانوں اور بحری جہازوں میں استعمال ہوتا تھا۔ٹائپ رائٹر ٹائپ رائٹرمیں 1869ء میں امریکہ میں ایجادہوا۔ ٹائپ رائٹر کی ایجاد کا سہرا امریکہ کے دو افراد کے سر ہے۔ ایک Christopher Latham Sholes اور دوسرا Samuel W. Souléتھا جس نے پریکٹیکل ٹائپ رائٹر مشین شاپ میں بنا ئی تھی۔ Christopher Latham Sholes کے بنائے بورڈ پر انگلش کے حروف تہجی A-Z ترتیب دیے گئے تھے۔مگر اس ترتیب میں مسئلہ یہ تھاکہ ABCکی ترتیب سے اس کی کیز آپس میں اٹک جاتی تھیں۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ٹائپسٹ آہستہ آہستہ ٹائپ کرتا تھا۔مسٹر شولز نے اپنے ایک عزیز کو کی بورڈ دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کہا۔یوں کہ حروف تہجی ایک دوسرے سے زیادہ قریب نہ ہوں۔نئی ترتیب میں حروف تہجی یوں بنتے ہیں QWERTYیہی ترتیب اب کمپیوٹرز میں بھی استعمال ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ لوگوں نے ٹا ئپ رائٹر کی مقبولیت کے پیش نظر ان حروف کی ترتیب ذہن نشین کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور امریکی مصنف اور ادیب مارک ٹوئین نے 1874ء میں ٹائپ رائٹر خریدا تھا۔ آرک ویلڈنگ امریکی پر وفیسر تھامپسن فلاڈلفیا شہر کے شہرہ آفاق فرینکلن انسٹی ٹیوٹ میں بجلی پر لیکچر دے رہا تھا۔لیکچر کے دوران ڈیمانسٹریشن کے دوران اس نے غلطی سے دوتاروں کو آپس میں ملایا تو وہ آپس میں جڑ گئیں۔ تھامپسن کے خیال میں ان تاروں کو جڑنا نہیں چاہیے تھا۔ اس نے ان کو الگ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ہوا یہ کہ بجلی کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی تھی اور یہ تاریں ویلڈ ہو گئی تھیں۔ تھامپسن نے یوں اتفاقی طور پر آرک ویلڈنگ کا نیا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔انسولین 1923ء میں Frederick Banting اورJohn Macleod کو ذیا بیطس کے علاج کیلئے انسولین کی دریافت پر نوبیل انعام دیا گیا۔ لبلبے اور انسولین میں تعلق انہوں نے یورپ کے سائنسدانوں کے تعاون سے معلوم کیا تھا۔جرمن فزیشن Joseph von Mering اورOskar Minkowskiنے ایک صحت مند کتے کے جسم سے لبلبے کو الگ کیا تا کہ نظام ہضم میں اس کے کردار کا پتہ لگا یا جاسکے۔ لبلبہ الگ کرنے کے کئی روز بعد سائنسدانوںنے دیکھا کہ کتے کے پیشاب کے اوپر مکھیاں اڑ رہی تھیں۔ پیشاب کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں شو گر تھی جو ذیابیطس کی نشانی ہے۔ انہوں نے مزید ٹیسٹ کیے تو پتہ چلا کہ لبلبہ ایک چیز پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم کے اندر شوگر کو کنٹرول کرتی ہے۔اس کے بعدکئی سائنسدانوں نے انسولین جو لبلبے سے پیدا ہوتی ہے الگ کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار کینیڈین پروفیسر Banting اور Macleod نے پتہ لگا لیا کہ لبلبے سے پیدا ہونے والا مادہ انسولین ہے۔ ہیضہ ویکسین فرانس کا مشہور سا ئنسدان لوئی پا سچر انیسویں صدی کا معروف ترین انسان تسلیم کیا جاتا ہے۔1880ء میں اس نے فرانس کی چکن انڈسٹری کومرغیوں کے ہیضہ سے محفوظ کر لیا۔ پا سچر نے اس جراثیم کو لیبارٹری میں خود پیدا کیا جس سے ہیضہ کی بیماری ہوتی تھی۔اس نے یہ جراثیم ایک بوتل میں محفوظ کر لیے۔ ایک روز اس نے یہ جراثیم چند مرغیوں کو کھلا دیے۔ اس کا خیال تھا کہ بیمار ہو کرمر جائیں گی مگر ہوا یہ کہ مرغیاں کچھ عرصے بعد صحت یاب ہو گئیں۔اس طرح پاسچر نے محض اتفاقی طور پر یہ حقیقت دریافت کر لی کہ پرانے جراثیم دراصل اپنی ہیئت بدل چکے تھے اوران سے بیماری پید ا نہ ہوتی تھی۔پا سچر نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا کہ وہ بیکٹیریا جو انسانوں کو متاثر کرتا ہے اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوگا؛ چنانچہ1881ء میں اس نے ہیضہ کی ویکسین تیار کر لی جس سے لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچا۔کو نین بیماریوں کے علاج میں کونین یعنی سنکونا درخت کی چھال کے جوہر نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔اس دوا سے ملیریا بخار کا علاج کیا جاتا ہے جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔کہتے ہیں کونین کی دریافت1600ء کے لگ بھگ محض اتفاقی طور پر ہوئی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں ایک ہسپانوی سپاہی کو ملیریا کا سخت بخار ہوگیا اور اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔اس نے قریبی تالاب کا پانی پی لیا جس سے بخاراتر گیا۔ تالاب کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہواکہ اس میں کڑواہٹ کی وجہ ایک درخت کی چھال تھی جو تالاب کے کنارے پر تھا۔اس سپا ہی نے محض حادثاتی طور پر یہ بات دریافت کر لی کہ سنکونادرخت کی چھال سے ملیریا کا علاج کیا جاسکتا ہے۔اس درخت کی چھال سے پاؤڈر بنا کر اس کی گولیاں تیار کی جانے لگیںجو ملیریا کا مؤثر علاج ہے۔ 

ذیابیطس ایشیائی باشندوں کیلئے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟

ذیابیطس ایشیائی باشندوں کیلئے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟

''دی لانسیٹ‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک تازہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 82 کروڑ بالغ افراد ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہیں۔ 1990 ء سے 2022ء کے دوران دنیا بھر 63 کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہوئے۔جنوبی ایشیاکے لوگوں میں ذیابیطس کا امکان یورپی باشندوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے اور ان میں یہ بیماری یورپی باشندوں کی نسبت 10 سال پہلے ظاہر ہو سکتی ہے۔ ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اس کا ایک سبب موروثیت کو قرار دیا گیا ہے۔علاوہ ازیںپراسیس شدہ گوشت کا زیادہ استعمال ‘ فضائی آلودگی میں موجود PM2.5 ذرات بھی ذیابیطس کے خطرے میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔دنیا میں ذیابیطس کے شکار ملکوں میں سے چار ایشیا میںہیں۔ بھارت میں ذیابیطس کے21 کروڑ 20 لاکھ مریض ہیں‘ چین میں 14کروڑ، پاکستان میں تین کروڑ 30 لاکھ اور جاپان میں ایک کروڑ 10 مریض موجود ہیں۔ جزیرہ نارو میں دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیائی باشندوں کے خون میں شوگر کی سطح نسبتاً بلند رہتی ہے جس کے نتیجے میں دل، گردے اور جگر کے امراض پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ٹائپ ون ذیابیطس انسانی جسم میں موجود بیٹا سیلز پر حملہ کرتی ہے جس سے جسم میں انسولین کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کے سبب شوگر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ذیابیطس کے کل کیسز میں سے تقریباً 96 فیصد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے کیسز ہوتے ہیں۔ غیر صحت مندانہ خوراک، موٹاپا اور بڑھتی عمر کے ساتھ اس مرض کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ تاہم جینیات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے اپنی ایک رپورٹ میںامریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کی کلینیکل سائنسدان الکا کنایا کے حوالے سے بتایا تھا کہ جینیاتی عوامل کے باعث جنوبی ایشیائی افراد میں ذیابیطس کی بیماری کا آغاز تیزی سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص پری ڈائبیٹک (جب بلڈ شوگر بہت زیادہ ہو لیکن ذیابیطس کے رینج میں نہیں) ہو تو وہ جلدی ذیابیطس کا شکار ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً ایسے افراد کے پاس اس مرض کے شروع ہونے سے پہلے اسے روکنے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔سائنسی جریدے ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جینیاتی عوامل کی وجہ سے جنوبی ایشیائی افراد یورپی ممالک کے افراد کے مقابلے میں جلد ذیابیطس کا شکار ہو جاتے ہیں۔جنوبی ایشیائی افراد میں کچھ خاص جینیاتی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے چربی جسم کے ان حصوں میں جمع ہو جاتی ہے جو ان کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر رانوں یا بازوؤں کے گرد، جگر اور اندرونی اعضا کے قریب ۔ ان عوامل کے باعث ان افراد کے لیے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی دوا بھی بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔طبی ماہرین کے مطابق اگرچہ جینیاتی خصوصیات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن طرز زندگی میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے فضا میں موجود پی ایم 2.5 کے آلودہ ذرات ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے نصف کیسز میں موٹاپا ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ مقدار میں پراسیسڈ گوشت ( جس میں نمک، چکنائی اور دیگر مضر اجزاشامل ہوں) کا استعمال بھی ذیابیطس کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے 2006ء میں خبر دار کیا تھا کہ آئندہ بیس سالوں میں ایشیا میں ذیابیطس کے کیس 90 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور یہ بیماری اور اس سے ہونے والے مسائل اکیسویں صدی میں صحت کے حوالے سے سب سے بڑا بحران کھڑا کریں گے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پہلا نوبیل انعام10دسمبر 1901ء کو سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں پہلی دفعہ 5کیٹیگریز میں نوبیل ایوارڈ دیا گیا۔سائنس دانوں ولہیلم رونٹگین، جیکبس وان ٹی ہوف اور جرمن مائیکرو بیالوجسٹ ایمیل وان بیہرنگ، ادبیات میں فرانسیسی شاعر سلی پرڈ ہوم، ریڈ کراس کے بانی سویڈش ہنری ڈونانٹ اور امن لیگ کے بانی فرانسز فریڈرک پیسی نے ایوارڈ حاصل کیا۔ نوبیل انعامات کی مالی اعانت اس فنڈ سے کی جاتی ہے جو بارود اور دیگر اعلیٰ دھماکہ خیز مواد کے سویڈش موجد الفریڈ نوبیل کی موت کے بعد بنایا گیا تھا۔ اپنی وصیت میں نوبیل نے ہدایت کی تھی کہ اس کی دولت کا بڑا حصہ ایک فنڈ میں رکھا جائے اور اس رقم پر حاصل ہونے والے انٹرسٹ سے سالانہ انعامات کی شکل میں ان لوگوں میں تقسیم کیا جائے جنہوں نے پچھلے سال کے دوران بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہو۔ پیرس معاہدہریاستہائے متحدہ امریکہ اور سلطنت سپین کے درمیان10دسمبر1898ء کو ایک امن معاہدہ طے پایا، جسے1898ء کا پیرس معاہدہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس معاہدے کے مطابق امریکہ اور ہسپانیہ کی جنگ کا اختتام ہوا۔معاہدے کے مطابق سپین نے خودمختاری کے تمام دعوے ترک کر دئیے اور ان علاقوں سے دستبردار ہو گیا جن پر قبضے کا دعویٰ کر رہا تھا۔دستبردار ہونے والے جزائر میں پورٹوریکو اور دیر علاقے شامل تھے جو اب ویسٹ انڈیز میں سپین کے زیر انتظام موجو د ہیں۔ ماریاناس یا لاڈرونس میں گوام کے جزیرے، جزیرہ نما کے طور پر جانا جاتا ہے۔ معاہدے کی توثیق کے دستاویزات کا 11 اپریل 1899ء کو تبادلہ ہوا۔جنوبی افریقی آئین1996ء میں آج کے روز جنوبی افریقہ کے صدر نے ملک کے نئے آئین کی منظوری دی۔ جس کے تحت وہاں سفید فام لوگوں کی اجاراداری ختم ہوئی۔ یہ آئین جنوبی افریقہ کا سپریم قانون ہے جو جمہوریت کے وجود کیلئے قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اسے صدر نیلسن منڈیلا نے 18 دسمبر 1996 کو نافذ کیا۔ یہ اپنے شہریوں کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے، اور حکومت کے ڈھانچے کی وضاحت کرتا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی قانون 10 دسمبر 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عالمی منشورکی توثیق کی۔ اسے عالمی سطح پر انسانی حقوق کا پہلا اعلان تعبیر کیا جاتا اور اقوامِ متحدہ کی ابتدائی بڑی کامیابیوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔عموماً اس دن اعلیٰ سطحی سیاسی کانفرنسوں اور جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور تقریبات کے ذریعے انسانی حقوق سے متعلقہ مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر 10 دسمبر ہی کو انسانی حقوق کے میدان میں اقوامِ متحدہ کا انعام اور نوبل امن انعام بھی دیا جاتا ہے۔