ساقی…پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ
اس ورسٹائل اداکار نے ہالی وڈ کی فلم سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا******کسی بھی فلم کی کامیابی میں صرف ہیرو ہیروئن، ہدایتکار یا موسیقار ہی اہم کردار ادا نہیں کرتے بلکہ اس فلم میں کارکردگی دکھانے والے معاون اداکار بھی اتنی ہی توصیف کے مستحق ٹھہرتے ہیں جتنی کہ دوسرے لوگ… مقام افسوس ہے کہ فلم بینوں کی اکثریت ہیرو، ہیروئن، کامیڈین یا ولن کی اداکاری کا نوٹس تو لیتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان فنکاروں کو نظرانداز کردیتی ہے جنہوں نے فلم کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا ہوتا ہے۔ معاون اداکار کسی بھی فلم کا وہ حصہ ہوتے ہیں جن کے بغیر فلم کی تکمیل کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔پاکستانی فلمی صنعت میں بھی کئی معاون اداکار ایسے تھے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر شائقین فلم سے بہت داد وصول کی۔ ان میں ایک نام ساقی کا بھی تھا۔ساقی کا اصل نام عبدالطیف بلوچ تھا۔ وہ دو اپریل 1925ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ یہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ہالی وڈ کی فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ سے کیا۔ 1955ء میں وہ لاہور میں فلم پروڈکشن یونٹ میں اسسٹنٹ ہوگئے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم ’’التجا‘‘ تھی جو 1955 میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ 1958 میں ’’لکھ پتی‘‘ میں نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ پھر اس کے بعد سسی پنوں، اور بمبئے والا میں کام کیا۔ 1959ء میں ان کی ایک اہم فلم ناگن ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سپیرے کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں نیلو اوررتن کمار نے ہیرو اور ہیروئن کے کردار ادا کیے تھے۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ساقی کی اداکاری کوبے حد سراہا گیا۔ ویسے تو پاکستان اور بھارت کے کئی اور اداکاروں نے بھی سپیرے کا کردار ادا کیا جن میں امریش پوری بھی شامل ہیں۔ 80ء کی دہائی میں سری دیوی کی یادگار فلم ’’نگینہ‘‘ میں امریش پوری نے جس اعلیٰ درجے کی اداکاری کی اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لیکن پاکستانی فنکار ساقی نے بھی سپیرے کے کردار میں جاندار اداکاری کی۔ ناگن کو ساقی کی اہم ترین فلم قرار دیا جا سکتا ہے۔ 1960ء میں ’’رات کے راہی‘‘ اور پھر 1965ء میں ’’ہزارداستان‘‘ میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔ ساقی کی ایک اور یادگار فلم لاکھوں میں ایک 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رضامیر کی اس فلم کو پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ فلم کے دیگر اداکاروں کی طرح ساقی کی اداکاری کوبھی بے حد پسند کیا گیا۔ ساقی نے500 سے زیادہ اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبان کی فلموں میں کام کیا۔ ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ ساقی گیارہ زبانیں جانتے تھے اور ان جیسی صلاحیتوں کا حامل کوئی اور دوسرا اداکار پاکستانی فلمی صنعت کو نہیں ملا۔ویسے تو ساقی بغداد میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد کچھ عرصہ کیلئے کاروبار کے سلسلے میں قیام پذیر تھے لیکن ان کا تعلق سندھ کے شہر دادو سے تھا۔ ساقی نے کیریکٹر ایکٹر اور ولن کے کرداروں سے شہرت حاصل کی۔ انہوں نے ’’پاپی اور ہم لوگ‘‘ کے نام سے ذاتی فلمیں بھی بنائیں لیکن یہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں الہ دین کا بیٹا، تاج اور تلوار، بارہ بجے ، میں نے کیا جرم کیا، عورت ایک کہانی، شہید، موسیقار، زرقا، ایک منزل دو راہیں، بیٹی، شطرنج، نہلے پہ دہلا، ایک دل دو دیوانے، وہ کون تھی، نغمہ صحرا، نصیب اپنا اپنا، یوسف خان شیربانو اور میرا گھر میری جنت شامل ہیں۔ اداکار مصطفی قریشی سے ان کی بڑی دوستی تھی۔ وہ ان کے ہمدم دیرینہ تھے۔ سمن آباد لاہور میں ساقی کی رہائش گاہ پر مصطفی قریشی اکثر دیکھے جاتے تھے۔ساقی بڑے خوش اخلاق اور حلیم الطبع تھے۔ اپنی خودداری اور وضع داری کی وجہ سے بھی ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ ساقی کا کریڈٹ یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کومسعود رانا اور مجیب عالم جیسے گلوکار دیئے۔ یہ وہ گلوکار ہیں جنہوں نے پاکستانی فلموں کیلئے ایسے شاندار گیت گائے جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔پشتو فلموں کی ناموراداکارہ یاسمین خان ساقی کی اہلیہ تھیں۔ جنہوں نے ایک زمانے میں بہت شہرت سمیٹی۔ ساقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دریا دل تھے اور ان کا دل انسانیت کے درد سے معمور تھا۔ پوری فلمی صنعت میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے ان سے شکایت ہو۔ انہوں نے کئی عشروں تک فلموں میں کام کیا اور فلمی صنعت کو ہر دور میں ان کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ وہ ایک عالی ظرف اور محب وطن شخص تھے۔ ریاض شاہد نے انہیں اپنی فلم ’’زرقا‘‘ میں ایک چھوٹے سے کردار کیلئے منتخب کرلیااور ساقی نے حامی بھر لی۔ کیونکہ ان کے بقول’ زرقا‘ فلم جس مقصد کیلئے بنائی جا رہی تھی وہ عظیم تھا اور اس مقصد کو پانے کیلئے وہ ہر صورت اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ ساقی کی فنکارانہ صلاحیتوں کا شاخسانہ تھا کہ انہیں زرقا میں اس چھوٹے سے کردار میں بھی پسند کیا گیا۔ ریاض شاہد باکمال ہدایتکار تھے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ چھوٹے سے چھوٹے کردار کیلئے بھی کن اداکاروں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ساقی نے ہمیشہ نوجوان اداکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور ہر نوجوان فنکار نے ان کی تعریف کی۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ نوجوان فنکاروں کی حوصلہ افزائی ان کا فرض اولین ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سینئر فنکاروں کے احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔ ساقی نے کچھ ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کے مداحوں کی تعداد میں کبھی کمی نہ آئی کیونکہ وہ ایک ورسٹائل اداکار تھے جو اپنے مداحوں کی توقعات پر پورا اترتے تھے۔22 دسمبر 1986ء کو یہ شاندار اداکار اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ تھے۔ بطور اداکار اور بطور انسان وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔