خدیجہ مستور کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا ان کے ناول ’’آنگن‘‘ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا

اسپیشل فیچر
خدیجہ مستور کا شمار پاکستان کی مشہور خاتون افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا ۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انہوں نے ناول بھی لکھے اور ان کا ناول’’آنگن‘‘ اپنی جگہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔خدیجہ مستور 11دسمبر 1927 کو بریلی (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر طہور احمد خان برٹش آرمی ڈاکٹر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد وہ اپنی ہمشیرہ حاجرہ مسرور کے ہمراہ لاہور چلی آئیں اور پھر یہیں آباد ہو گئیں۔ خدیجہ مستور نے 1942 میں افسانے لکھنے شروع کیے۔ ان کے پانچ افسانوی مجموعے اور دو ناول شائع ہوئے۔ ان کے افسانوں کی بنیاد سماجی‘ اخلاقی اور سیاسی اقدار پر ہے۔خدیجہ مستور کے افسانے’’محافظ الملک‘‘ کو اردو کے عظیم افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس میں ایک خاص دور کے ذہنی رجحان اور فضا کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانے’’تلاشِ گم شدہ‘‘ اور درد‘‘ بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ان افسانوں میں ہمیں بیزاری کا رجحان ملتا ہے جس کے پیچھے خارجی ماحول کا انتشار ہے۔تحریک و قیامِ پاکستان پر ان کا ناول’’آنگن‘‘ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جس حقیقت نگاری کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ’’آنگن‘‘ وہ ناول ہے جس میں خدیجہ مستور کے فن کی بہترین عکاسی کی گئی ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ یہ وہ ناول ہے جس میں انہوں نے کئی سماجی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی تحریکوں کا بھر پور تجزیہ کیا ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ ان کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ وہ سنجیدہ سوچ رکھنے والی ناول نگار تھیں۔آنگن ایک خاندان کی کہانی ہے۔ جہاں خاندانی نوک جھونک اور اونچ نیچ کا بڑے گہرے انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ اِس ناول میں انہوں نے یہ دکھایا ہے کہ خاندانی نوک جھونک کس طرح پورے خاندان میں تلخیوں کا زہر گھول دیتی ہے۔ اورپھر یہ لوگ کس طرح ذہنی طور پر علیحدگی کا شکار ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ناول ہمارے پورے معاشرے کا ’’آنگن‘‘ ہے۔دوسری طرف ایک متوسط طبقے کے خاندان کا معیارِ زندگی بھی بیان کیا گیا ہے۔ پھر اس کے علاوہ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ جو آج کے خاندانوں میں مفقود ہو گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناول کا سیاسی پہلو بھی بہت اہم ہے۔ خدیجہ نے سیاسی نظریات کے ٹکرائو کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے حالات بھی بیان کئے ہیں جس میں خاص طور پر جاپان میں ایٹم بم گرانے کے بعد جو تباہی ہوئی اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول کا ایک معاشرتی پہلو بھی ہے۔ اور پھر ایک پہلو انسانیت کا بھی ہے۔ جس میں مختلف کرداروں کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانیت سے بڑی کوئی شے نہیں اور اگر انسانیت کا رشتہ قائم ہے تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہر مصیبت ‘ بحران اور تکلیف پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ انسانیت ہی وہ رشتہ ہے جو تمام رشتوں پر بھاری ہے۔ اور انسانیت اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب انسانی اقدار زندہ ہوں۔ انسانی اقدار کیسے تباہ ہوتی ہیں‘ اس کا احاطہ بھی انہوں نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔خدیجہ مستور کے ایک اور ناول ’’زمین‘‘ کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ ناول بھی حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ زمین کیا چیز ہے اور اس سے محبت کیوں ضروری ہے۔ اس فلسفے کو بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ زمین اگر وطن کے لیے حاصل کرنا مقصود ہو تو پھر اس کا تقدس حد درجہ بڑھ جاتا ہے۔خدیجہ مستور کا اسلوب بے حد متاثر کن ہے۔ وہ بہت اچھی نثر نگارہیں اور بات کو قاری کے ذہن میں اتارنے کا فن جانتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ حقیقت پسند ہیں اور انہوں نے کبھی اس میں جھوٹ کی آمیزش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے افسانے بھی براہ راست ابلاغ کے افسانے ہیں اوروہ جس موضوع پر لکھتی ہیں اُس پر انہیں پورا عبور حاصل ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی مشہور خاتون افسانہ نگار اور ناول نگار قراۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن خدیجہ مستور کے منفرد مقام سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اُردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام کو بھی معتبر حیثیت حاصل ہے اور رہے گی۔٭…٭…٭۔۔