خدیجہ مستور کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا ان کے ناول ’’آنگن‘‘ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا

خدیجہ مستور کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا ان کے ناول ’’آنگن‘‘ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


خدیجہ مستور کا شمار پاکستان کی مشہور خاتون افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا ۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انہوں نے ناول بھی لکھے اور ان کا ناول’’آنگن‘‘ اپنی جگہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔خدیجہ مستور 11دسمبر 1927 کو بریلی (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر طہور احمد خان برٹش آرمی ڈاکٹر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد وہ اپنی ہمشیرہ حاجرہ مسرور کے ہمراہ لاہور چلی آئیں اور پھر یہیں آباد ہو گئیں۔ خدیجہ مستور نے 1942 میں افسانے لکھنے شروع کیے۔ ان کے پانچ افسانوی مجموعے اور دو ناول شائع ہوئے۔ ان کے افسانوں کی بنیاد سماجی‘ اخلاقی اور سیاسی اقدار پر ہے۔خدیجہ مستور کے افسانے’’محافظ الملک‘‘ کو اردو کے عظیم افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس میں ایک خاص دور کے ذہنی رجحان اور فضا کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانے’’تلاشِ گم شدہ‘‘ اور درد‘‘ بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ان افسانوں میں ہمیں بیزاری کا رجحان ملتا ہے جس کے پیچھے خارجی ماحول کا انتشار ہے۔تحریک و قیامِ پاکستان پر ان کا ناول’’آنگن‘‘ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جس حقیقت نگاری کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ’’آنگن‘‘ وہ ناول ہے جس میں خدیجہ مستور کے فن کی بہترین عکاسی کی گئی ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ یہ وہ ناول ہے جس میں انہوں نے کئی سماجی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی تحریکوں کا بھر پور تجزیہ کیا ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ ان کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ وہ سنجیدہ سوچ رکھنے والی ناول نگار تھیں۔آنگن ایک خاندان کی کہانی ہے۔ جہاں خاندانی نوک جھونک اور اونچ نیچ کا بڑے گہرے انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ اِس ناول میں انہوں نے یہ دکھایا ہے کہ خاندانی نوک جھونک کس طرح پورے خاندان میں تلخیوں کا زہر گھول دیتی ہے۔ اورپھر یہ لوگ کس طرح ذہنی طور پر علیحدگی کا شکار ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ناول ہمارے پورے معاشرے کا ’’آنگن‘‘ ہے۔دوسری طرف ایک متوسط طبقے کے خاندان کا معیارِ زندگی بھی بیان کیا گیا ہے۔ پھر اس کے علاوہ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ جو آج کے خاندانوں میں مفقود ہو گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناول کا سیاسی پہلو بھی بہت اہم ہے۔ خدیجہ نے سیاسی نظریات کے ٹکرائو کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے حالات بھی بیان کئے ہیں جس میں خاص طور پر جاپان میں ایٹم بم گرانے کے بعد جو تباہی ہوئی اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول کا ایک معاشرتی پہلو بھی ہے۔ اور پھر ایک پہلو انسانیت کا بھی ہے۔ جس میں مختلف کرداروں کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانیت سے بڑی کوئی شے نہیں اور اگر انسانیت کا رشتہ قائم ہے تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہر مصیبت ‘ بحران اور تکلیف پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ انسانیت ہی وہ رشتہ ہے جو تمام رشتوں پر بھاری ہے۔ اور انسانیت اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب انسانی اقدار زندہ ہوں۔ انسانی اقدار کیسے تباہ ہوتی ہیں‘ اس کا احاطہ بھی انہوں نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔خدیجہ مستور کے ایک اور ناول ’’زمین‘‘ کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ ناول بھی حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ زمین کیا چیز ہے اور اس سے محبت کیوں ضروری ہے۔ اس فلسفے کو بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ زمین اگر وطن کے لیے حاصل کرنا مقصود ہو تو پھر اس کا تقدس حد درجہ بڑھ جاتا ہے۔خدیجہ مستور کا اسلوب بے حد متاثر کن ہے۔ وہ بہت اچھی نثر نگارہیں اور بات کو قاری کے ذہن میں اتارنے کا فن جانتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ حقیقت پسند ہیں اور انہوں نے کبھی اس میں جھوٹ کی آمیزش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے افسانے بھی براہ راست ابلاغ کے افسانے ہیں اوروہ جس موضوع پر لکھتی ہیں اُس پر انہیں پورا عبور حاصل ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی مشہور خاتون افسانہ نگار اور ناول نگار قراۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن خدیجہ مستور کے منفرد مقام سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اُردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام کو بھی معتبر حیثیت حاصل ہے اور رہے گی۔٭…٭…٭۔۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصر کے مقبرے نے حیرتوں کے در کھول دیے!

مصر کے مقبرے نے حیرتوں کے در کھول دیے!

نایاب نوادرات کی دریافتفرعونی دور کی نئی کہانی، مصر میں نئی بحث کا آغازقدیم مصر کی سرزمین ایک بار پھر دنیا کو حیران کر گئی ہے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے ایک مقبرے سے شاندار خزانہ دریافت کیا ہے جس نے تاریخ کے کئی اوراق پلٹ کر رکھ دیے ہیں۔ صدیوں پرانے اس مقبرے میں سے ملنے والی نایاب اشیا، زیورات، روزمرہ استعمال کے آلات اور مذہبی علامات نے نہ صرف ماہرین کو نئی تحقیق پر مجبور کر دیا ہے بلکہ یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس دور کی تہذیب اور طرزِ زندگی پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور پیچیدہ تھی۔ اس حیران کن دریافت نے مصر کی قدیم تہذیب کے بارے میں رائج بہت سے نظریات کو چیلنج کر دیا ہے اور نئے سوالات نے جنم لیا ہے کہ آخر اس مقبرے کے مالک کی حیثیت کیا تھی، اور ان قیمتی نوادرات کو اس انداز میں کیوں دفن کیا گیا؟ ماہرین اس انکشاف کو صدی کی عظیم ترین آثارقدیمہ دریافت قرار دے رہے ہیں۔مصر کے ماہرین آثار قدیمہ نے یہ حیرت انگیز خزانہ ایک قدیم شاہی مقبرے سے دریافت کیا ہے، جو اتنا نایاب ہے کہ تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے پر مجبور کر رہا ہے۔تانیس ( Tanis)کی ریت میں گہرائی میں دفن اس مقام سے محققین کو 225 نہایت نفاست سے تراشی گئی مورتیاں ملی ہیں، جو ایک پراسرار مذہبی طرز پر ترتیب دی گئی تھیں۔ یہ دریافت صرف اپنی مقدار کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی گتھیوں کے باعث بھی آثارِ قدیمہ کی دنیا میں نئی سنسنی پھیلا رہی ہے۔ان مورتیوں میں سے آدھے سے زیادہ انسائی شکلوں پر مشتمل ہیں، جو شاہی تدفینی رسومات میں تقریباً ناپید خصوصیت ہے۔ اس سے مصر کے تیسرے عبوری دور کی رسومِ تدفین کے بارے میں نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مورتیاں ستارے جیسی ساخت اور بالکل سیدھی افقی قطاروں میں رکھی ملیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تقریباً 3 ہزار سال تک بغیر چھوئے ایک خاص مذہبی ترتیب کے تحت محفوظ رہیں۔ تقریباً 80 سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ تانیس میں کسی شاہی مقبرے کے اندر سے غیر متاثر شدہ مورتیاں ملی ہیں۔ اسے 1940ء کی دہائی کے بعد اس مقام کی سب سے بڑی دریافت قرار دیا جا رہا ہے۔سب سے حیران کن انکشاف یہ ہے کہ ان ننھی مورتیوں پر موجود شاہی نشانات ثابت کرتے ہیں کہ یہ خالی مقبرہ دراصل فرعون شوشنق سوم کا تھا۔وہ حکمران جس کی آخری آرام گاہ ماہرین کیلئے دہائیوں سے معمہ بنی ہوئی تھی۔ اس کی حکمرانی 830 قبل مسیح سے 791 قبل مسیح تک رہی۔ یہ انکشاف برسوں سے قائم نظریات کو الٹ دیتا ہے اور اس گتھی کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے کہ آخر فرعون اپنے ہی مقبرے میں دفن کیوں نہ کیا گیا۔کھدائی کی ٹیم نے انتہائی احتیاط سے ان مورتیوں کو 10 دن کے دوران نکالا اور ان کی نازک حالت کو محفوظ رکھنے کیلئے رات بھر کام کیا۔ تحقیق مکمل ہونے کے بعد یہ مورتیاں مصر کے ایک میوزیم میں نمائش کیلئے رکھی جائیں گی، جہاں عوام کو مصر کے سب سے پراسرار فرعونوں میں سے ایک کی تدفینی رسومات کا نایاب مشاہدہ حاصل ہو گا۔ فرانسیسی ماہر مصر شناس فریڈرک پیروڈیو نے پیرس میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ دریافت ''حیران کن‘‘ ہے، کیونکہ اسی مقام پر موجود ایک اور مقبرے کی دیواروں اور وہاں کے سب سے بڑے تابوت (sarcophagus) پر اسی فرعون کا نام درج ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پھر وہ اسی مقبرے میں دفن کیوں نہیں ہے؟ پیروڈیو نے کہا کہ اصل میں، کسی فرعون کیلئے مقبرہ تعمیر کرنا ایک بڑا جوا ہوتا ہے، کیونکہ اسے کبھی یقین نہیں ہوتا کہ اس کا جانشین واقعی وہیں اسے دفن کرے گا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یقیناً، ہمارے پاس اب اس بات کا نیا ثبوت موجود ہے کہ یہ جوے ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے۔شوشنق سوم نے تیسرے عبوری دور کے دوران حکومت کی وہ دور جو سیاسی انتشار اور اقتدار کی مسلسل کشمکش کیلئے بدنام تھا۔ پیروڈیو کے مطابق، اس کی چار دہائیوں پر مشتمل حکمرانی نہایت پُرآشوب تھی اور اس میں ''بالائی اور زیریں مصر کے درمیان ایک انتہائی خونریز خانہ جنگی جاری رہی، جہاں کئی فرعون طاقت کے حصول کیلئے لڑ رہے تھے۔لہٰذا یہ ممکن ہے کہ شاہی جانشینی منصوبے کے مطابق نہ ہوئی ہو اور فرعون کو اس کے منتخب کردہ مقبرے میں دفن نہ کیا گیا ہو۔ ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ لوٹ مار کے بعد اس کے باقیات کو کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہو۔فرانسیسی ماہر پئیر مونٹے نے یہ چونے کے پتھر سے بنا مقبرہ پہلی بار 1939ء میں دریافت کیا تھا، جو معبدِ آمون کے بالکل ساتھ واقع ہے۔اگرچہ یہ مقبرہ قدیم زمانے میں لوٹا جا چکا تھا، مگر اس کے چار کمروں میں سے سب سے بڑے کمرے میں اب بھی اوسورکون دوم جو مصر کی 22ویں سلطنت کا فرعون تھاکا گرینائٹ کا تابوت موجود تھا۔کھدائی کی ٹیم اس تنگ مقبرے کے باقی تین کونوں میں بھی کھدائی مکمل کر چکی ہے، جن میں سے ایک میں ایک عجیب و غریب، مگر بے نام و نشان تابوت پایا گیا۔پیروڈیو کے مطابق، ایسی دریافت مصر کے جنوب میں وادی الملوک (لکسر کے قریب) میں بھی کبھی نہیں ہوئی،سوائے 1922ء میں دریافت ہونے والے نو عمر بادشاہ توت عنخ آمون کے مقبرے کے،کیونکہ تاریخی طور پر وہاں کے زیادہ تر مقبرے لوٹ مار کا شکار ہو چکے ہیں۔  

’’بلیک پینتھر‘‘ کی دیوانی

’’بلیک پینتھر‘‘ کی دیوانی

سپر ہیرو سے جڑی 2,546 اشیاء جمع کر کے عالمی ریکارڈ بنا ڈالاہیوسٹن، ٹیکساس کی رہائشی ٹائیشا ایلام نے اپنے شوق کو اس حد تک پروان چڑھایا ہے کہ ان کا پورا گھر مارول کے مشہور کردار بلیک پینتھر کیلئے ایک منفرد اور ریکارڈ ساز مقام بن چکا ہے۔ گھر کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں اس افریقی خیالی بادشاہ کی جھلک نہ ملتی ہو۔ شیلفوں پر سلیقے سے رکھی اشیاء، دیواروں پر سجے پوسٹر اور آرٹ ورک حتیٰ کہ الماری میں رکھے مگ اور کپ بھی اسی کردار کی تصویر سے مزین ہیں۔ٹائیشا ایلام نہ صرف بلیک پینتھر کی شوقین ہیں بلکہ گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی بلیک پینتھر یادگاروں کی مالک بھی ہیں۔ ان کے پاس 2,546 سرکاری طور پر تسلیم شدہ اور مجموعی طور پر 3ہزار سے زائد اشیاء موجود ہیں، جنہوں نے ان کے گھر کو فینز کیلئے ایک عجوبہ بنا دیا ہے۔یہ سپر ہیرو کی سپر فین اپنے شوق کی تکمیل کیلئے دنیا بھر کا سفر کر چکی ہیں۔ انہوں نے بلیک پینتھر کے سیکوئل ''واکانڈا فاریور‘‘ (2022ء) کو سات مختلف ممالک کے سینمائوں میں دیکھا، جن میں جرمنی، فجی، نیوزی لینڈ، میکسیکو، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ان کے پاس اشیاء کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہوں نے بقول خود ''کئی چھوٹی چھوٹی کلیکشنز پر مشتمل ایک بڑی کلیکشن‘‘ جمع کر لی ہے۔ اس میں فنکو پاپس اور ڈیزائنر برانڈ Coach کے خصوصی آئٹمز سے لے کر دنیا بھر کے سینما گھروں کے مووی کپ اور پاپ کارن بکٹ تک شامل ہیں۔یہ سب کچھ فروری 2018ء میں شروع ہوا، جب ٹائیشا نے پہلی بار اپنی والدہ کے ساتھ فلم ''بلیک پینتھر‘‘ دیکھی۔ٹائیشا کے مطابق،اس وقت میری عمر 46 سال اور میری والدہ کی عمر 66 سال تھی۔ ہماری فلموں میں دلچسپی مختلف ہونے کی وجہ سے ہم کئی دہائیوں سے اکٹھی سینما نہیں گئے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایاکہ کہنے کی ضرورت نہیں، ہمیں دونوں کو یہ فلم بے حد پسند آئی! میں نے ''بلیک پینتھر‘‘ کی اشیاء جمع کرنا صرف اس خوبصورت یاد کو تازہ رکھنے کیلئے شروع کیا تھا۔سینما ہال سے باہر نکلتے ہی ٹائیشا اور ان کی ماں سیدھا قریبی ٹوائز شاپ پہنچیں تاکہ اپنی کلیکشن کی پہلی چیز بلیک پینتھر کا ماسک خرید سکیں۔ ٹائیشا نے بتایا، جی ہاں، 46 سال کی عمر میں، وہ مجھے ٹوائے شاپ لے گئیں! میں خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ انہوں نے مجھے ناکیا کی گڑیا، شوری کی گڑیا اور بلیک پینتھر کا ماسک لے کر دیا۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہی تین اشیاء آگے چل کر ہزاروں کی کلیکشن کی بنیاد بنیں گی۔ٹائیشا، جو پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں، ہائی اسکول کے زمانے میں اداکارہ بھی رہی ہیںاور آج تک فنونِ لطیفہ سے گہرا لگاؤ رکھتی ہیں۔ مگر بلیک پینتھر نے ان پر محض اپنی والدہ کے ساتھ جڑی جذباتی یاد سے بڑھ کر، ایک گہرا اثر چھوڑا۔اس فلم کے مرکزی کردار ٹی چیلا(بلیک پینتھر) اور دیگر کرداروں کے ساتھ انہیں فوراً ایک مضبوط روحانی اور جذباتی رشتہ محسوس ہوا،ایسے کردار جو اپنے خاندان، اپنے ثقافتی ورثے اور اپنی خودمختاری سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور جو اپنی اخلاقی قدروں پر قائم رہتے ہوئے خوشحال زندگی بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جو بھی فلمیں میں نے دیکھی ہیں، ان میں بلیک پینتھر سب سے بہترین ہے! کہانی میں چھپی اقدار اور اخلاقی اصول دنیا بھر کے مداحوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔ٹی چیلا کے ساتھ، ہم اس کے پورے خاندان سے محبت کرنے لگے۔ ہمیں اس کے والد بادشاہ ٹی چا کا، والدہ ملکہ رامونڈا اور بہن پرنسس شوری سب پسند ہیں۔ ہم واکانڈا میں کئی قبائل کے سرداروں سے ملے اور ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنے بادشاہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔دشمن کے مقابلے میں بھی، جیسے ایم'باکو یا کلمنگر کے ساتھ لڑائی، ہمیں آخرکار یہ سیکھنے کو ملا کہ ٹی چیلا انہیں محبت کرتا تھا اور دل کی گہرائیوں سے وہ بھی اسے پسند کرتے تھے۔مزید برآں، ٹائیشا کہتی ہیں کہ یہ فلمیں ان کیلئے ایک سیاہ فام عورت کی حیثیت سے بہت اہم ہیں، کیونکہ انہیں شاذ و نادر ہی ایسے کردار نظر آئے جو اپنی طرح دکھائی دیتے ہوں اور جنگجو یا سپر ہیروز بنیں۔لیکن نمائندگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر کی چھوٹی سیاہ اور بھوری لڑکیوں کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ ملکہ رامونڈا کی طرح عقلمند، شوری کی طرح ذہین، ناکیا کی طرح خوبصورت اور اوکوائے کی طرح مضبوط بن سکتی ہیں۔اور اس فلم کی بدولت، جو 11 مارچ 2021ء تک دنیا کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی سپر ہیرو فلم بن گئی اور جس نے عالمی سطح پر ایک ارب 33کروڑ ڈالر کا بزنس کیا۔ نیز یہ 2019ء میں بیسٹ پکچر کیلئے نامزد ہونے والی پہلی سپر ہیرو فلم بھی بنی، ٹائیشا نے خود یہ دیکھا کہ باکس آفس پر درست نمائندگی کس طرح کامیابی اور اثر انگیز مشترکہ تجربات کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اپنی کلیکشن کی بدولت، ٹائیشا نے دنیا بھر میں سفر کرتے ہوئے بے شمار انمول یادیں جمع کی ہیں، جب وہ مزید یادگار اشیاء تلاش کرتی رہیں۔ انہیں ڈزنی پارکس جانا بہت پسند ہے،خاص طور پر اس لیے کہ ان کی سالگرہ 5 دسمبر کو والٹ ڈزنی کے ساتھ منائی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ فلم کی خوشی میں خود کیلئے ایک خاص سالگرہ کا تحفہ خریدتی ہیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

صدام حسین کی گرفتاریعراق کے معزول صدر صدام حسین کو امریکی فوجی دستوں نے13دسمبر2003ء کو عراق کے قصبے ادداور سے گرفتار کیا ۔صدام حسین کے خلاف اس آپریشن کو ''ریڈ ڈان‘‘ کا نام دیا گیا تھاجو 1984ء کی ہالی وڈ فلم ''ریڈ ڈان‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔مشن کو مشترکہ آپریشنز ٹاسک فورس121کے ذریعے انجام دیا گیا۔ صدام حسین کو دو مختلف جگہوں پر تلاش کیا گیا، امریکی فوجیوں نے صدام حسین کو گرفتار کیاتو انہوں نے بغیر مزاحمت کے گرفتاری دے دی۔ نیوزی لینڈ دریافت ہواابیل تسمان، ڈچ مہم جو اور جہاز ران تھا۔ 1642ء میں اس نے جنوبی سمندری علاقوں کی تلاش کیلئے تاریخ ساز سفر شروع کیا۔13 دسمبر 1642ء کو تسمان نے ایک نامعلوم سرزمین دیکھی جو بعد میں نیو زی لینڈ کہلائی۔ یہ اس خطے سے یورپی اقوام کا پہلا رابطہ تھا۔تسمان نے ابتدا میں اس جگہ کو ''Staten Landt‘‘ کا نام دیا۔بعد میںبرطانوی مہم جو کیپٹن جیمز کک نے 1769ء میں اس علاقے کی تفصیلی نقشہ بندی کی۔یورپی یونین میں توسیع2002ء میں آج کے روز یورپی یونین میں تویسع کی گئی۔ یورپی یونین نے وسعت کا اعلان کرتے ہوئے مزید دس ممالک کو یونین میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یورپی یونین کا حصہ بننے والے نئے ممالک میں قبرص، چیکیا، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیہ اور سلووینیا شامل ہیں۔ یہ ممالک یکم مئی 2004ء کو یونین کا رکن بنے۔لزبن معاہدہ''لزبن معاہدہ‘‘ جسے ''ریفارم ٹریٹی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے پر یورپی یونین کے رکن ممالک نے 13دسمبر2007ء کو دستخط کئے۔ یہ معاہدہ یکم دسمبر2009ء کو نافذ العمل ہوا۔ اس معاہدے کے ذریعے ''Maastricht Treaty‘‘ میں ترمیم کی گئی جسے اب '' European Union Treaty‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں یورپی اٹامک انرجی کمیونٹی کے قیام کے معاہدے میں بھی ترمیم کی گئی۔شمالی یمن میں زلزلہ13دسمبر1982ء کو شمالی یمن کے شہر دمار میں 6.2شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کے شدیدجھٹکوں نے پورے شہر میں تباہی مچا دی جس کے بعد 2800 افراد جاں بحق اور 1500سے زیادہ شدید زخمی ہوئے۔ یہ زلزلہ ارضیاتی طور پر پیچیدہ خطے میں پلیٹ باؤنڈری کے کئی سو کلومیٹر کے اندر آیا جس میں فعال آتش فشاں اور سمندری سطح پر پھیلنے والی پہاڑیاں شامل تھیں۔پولینڈ میں مارشل لاء13دسمبر1981ء کو پولیش عوامی جمہوریہ کی حکومت نے سیاسی مخالفین بالخصوص یکجہتی کی تحریک کا مقابلہ کرنے کی کوشش میںمارشل لاء لگا کر روزمرہ کی زندگی کو محدود کر دیا۔ 1970ء کی دہائی کے اختتام سے کمیونسٹ پولینڈ ایک گہری اقتصادی کساد بازاری کاشکار تھا۔ پولیش فرسٹ سیکرٹری ایڈورڈ گیرک نے بہتر معاشی پیداوارکیلئے غیر ملکی قرضوںکا ایک سلسلہ شروع کیا لیکن اس کا نتیجہ ملکی بحران کی صورت میں نکلا۔    

VILPA:مختصر وقفوں کی ورزش صحت مند زندگی کا راز

VILPA:مختصر وقفوں کی ورزش صحت مند زندگی کا راز

آج کی تیزرفتار زندگی میں باقاعدہ ورزش کے لیے وقت نکالنا بہت سے لوگوں کے لیے مشکل کام بن چکا ہے۔ مصروف شیڈول، دفتری ذمہ داریاں، گھر کے کام، سفر اور سماجی مصروفیات کی وجہ سے ہم یا تو جِم جانے کا ارادہ ٹالتے رہتے ہیں یا پھر روزانہ کے دس ہزار سٹیپس کا ہدف پورا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مگر سائنس ایک نئی تحقیق نے ہماری سوچ بدل کر رکھ دی ہے۔ اب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ صحت بہتر رہنے کے لیے نہ لمبی ورزش ضروری ہے نہ مہنگا سامان اور نہ ہی روزانہ گھنٹوں کی مشقت۔ صرف چند منٹ کی مختصر مگر تیز جسمانی حرکات جنہیں Vigorous Intermittent Lifestyle Physical Activityیا (VILPA) کہا جاتا ہے،آپ کو صحت مند لمبی زندگی کے قابل بناسکتی ہیں۔VILPA کیا ہے؟ گزشتہ چند برسوں میں ورزش کی سائنس میں یہ نیا تصور بہت تیزی سے مقبول ہوا ہے کہ عام گھریلو یا روزمرہ کے کام تیز رفتاری سے اور توانائی سے بھرپور انداز میں کیے جائیں مثال کے طور پر سیڑھیاں چڑھنا، کچن میں تیزی سے کام کرنا، بچوں کے ساتھ کھیلنا، خریداری کے تھیلے اٹھانا یا گھر کی صفائی کرنا۔ ان سرگرمیوں کا دورانیہ بہت کم،صرف ایک سے دو منٹ ہوتا ہے لیکن ان کے اثرات حیران کن ہیں۔لندن یونیورسٹی کالج کے پروفیسر مارک ہیمر اور ان کے ساتھیوں نے جب ایسے افراد کا ڈیٹا دیکھا جو کسی قسم کی باضابطہ ورزش نہیں کرتے تھے، تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان میں سے کئی لوگ روزمرہ کے معمولات میں تیز رفتار حرکات کے ذریعے کافی مقدار میں ورزش کر رہے تھے۔ یہ حرکات مختصر وقفوں میں تھیں مگر شدت زیادہ تھی۔ تحقیق میں سامنے آیا کہ یہی مختصر وقفے، دل کی دھڑکن بڑھا کر اور پٹھوں کو فعال بنا کر صحت پر ایسے مثبت اثرات چھوڑ رہے تھے جنہیں پہلے صرف جِم کی سخت ورزشوں سے جوڑا جاتا تھا۔تحقیق کیا کہتی ہے؟ 2022ء میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے محققین نے 25 ہزار سے زائد افراد پر مبنی ایک بڑی تحقیق شائع کی جس میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ اگر کوئی شخص روزانہ صرف تین سے چار بار ایک منٹ کے VILPA بٹس کرے تودل کی بیماریوں سے موت کا خطرہ تقریباً 49 فیصد کم دیکھا گیا۔ ایک اور تازہ تحقیق نے بتایا کہ صرف چار منٹ کی VILPA روزانہ، بیٹھے بیٹھے زندگی گزارنے والوں کے لیے دل کی بیماری کا خطرہ نمایاں حد تک گھٹا دیتی ہے۔یہ نتائج طبی دنیا کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب80 کروڑافراد ایسے ہیں جو ورزش نہ کرنے کی وجہ سے خطرناک بیماریوں کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ وقت کی کمی، سہولیات کا فقدان، عدم دلچسپی اور طرزِ زندگی کی مصروفیات،یہ تمام عوامل ورزش چھوڑنے کی بنیادی وجوہات مانے جاتے ہیں۔ ایسے میں VILPA کا ماڈل ان لوگوں کے لیے ایک قابلِ عمل راستہ فراہم کرتا ہے جو پوری ورزش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ صرف ایک یا دو منٹ کی تیز رفتار حرکت ہماری صحت میں اتنا بڑا فرق کیسے ڈال سکتی ہے؟ اس کی وضاحت سادہ ہے وہ یہ کہ جیسے ہی ہم تیزی سے حرکت کرتے ہیں پٹھے سکڑ کر خون میں مختلف بائیو کیمیکل مادوں کو متحرک کرتے ہیں جو چربی جلانے، خون میں شوگر کو بہتر انداز میں استعمال کرنے اور جسم میں موجود سوزش کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ VILPA نہ صرف دل کی صحت کے لیے مفید ہے بلکہ ذیابیطس، موٹاپا اور ہائی کولیسٹرول جیسے مسائل کے خطرات بھی گھٹا دیتی ہے۔یہ مائیکرو برسٹ بڑھتی عمر کے ساتھ سامنے آنے والی کمزوری اور فریکچر کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں کیونکہ یہ جسم کے اہم عضلات کو مسلسل فعال رکھتے ہیں۔ ایسے افراد جنہیں گھٹنوں، کمر یا جوڑوں میں درد رہتا ہے وہ بھی مختصر وقفوں میں تیز رفتار حرکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔VILPA کیسے کریں؟ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں کچھ خاص یا مشکل کام کرنے ہوں گے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس کے لیے آپ کو نہ وقت نکالنے کی ضرورت ہے نہ پیسے خرچ کرنے کی۔ یہ صرف معمولات میں تھوڑی سی تبدیلی کا نام ہے ۔ جیسا کہ لفٹ کے بجائے سیڑھیاں استعمال کریں،مگر عام چال سے تھوڑا تیز۔گھر میں چلتے پھرتے قدموں کی رفتار بڑھا دیں۔ کچن کا کام کرتے ہوئے تیز رفتار موومنٹ اپنائیں۔گاڑی سے اتریں تو آخری چند میٹر پاور واک کر کے چلیں۔بچوں کے ساتھ روزانہ دو تین منٹ تیز کھیلیں۔ویٹ نہ اٹھا سکیں تو شاپنگ کے بیگ اٹھا لیں۔یہ بھی ایک طرح کی طاقت بڑھانے والی مشق ہے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب یہ سرگرمیاں دن بھر میں تین سے چار بار دہرائی جائیں تو اثرات باقاعدہ ورزش کے برابر محسوس ہو سکتے ہیں۔ورزش کے متعلق ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ماہرین زیادہ قدم چلنے کے جنون کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق دل کی بیماریوں کے خطرے میں کمی کے لیے 10 ہزار قدم ضروری نہیں۔ صرف 2200 سے 2700 قدم روزانہ بھی بڑا فائدہ دیتے ہیں۔ VILPA کی کارکردگی محض دل اور میٹابولزم تک محدود نہیں چند سٹڈیز ظاہر کرتی ہیں کہ روزانہ صرف چار منٹ کی تیز رفتار سرگرمی کینسر کے خطرے کو 17 سے 18 فیصد تک کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ سرگرمیاں جسم میں موجود مہلک سوزش کو نمایاں حد تک کم کر دیتی ہیں،وہی سوزش جو نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک متعدد بیماریوں کی جڑ ہے۔ماہرین اس ماڈل کو مستقبل کی صحت پالیسیوں کا حصہ بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر پوری آبادی کو اس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ دن میں چند بار مختصر مگر تیز حرکات کریں تو اس کا مجموعی اثر لاکھوں زندگیاں بچا سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بیماریوں کا بوجھ کم کرے گا بلکہ ہسپتالوں پر دباؤ بھی گھٹا دے گا۔اہم بات یہ ہے کہ ''کچھ کرنا، کچھ بھی نہ کرنے سے کہیں بہتر ہے‘‘۔ اگر آپ جِم نہیں جا سکتے، واک کا وقت نہیں ملتا یا آپ کو لگتا ہے کہ ورزش کی روٹین بنانا بہت مشکل ہے تو کوئی مسئلہ نہیں صرف اپنی روزمرہ زندگی میں تیزی اور توانائی شامل کریں۔ تیز قدموں سے چلیں، تیزی سے سیڑھیاں چڑھیں یا گھر کے کاموں میں حصہ لیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے قدم آپ کی صحت میں بڑا انقلاب لا سکتے ہیں۔ 

آن لائن ہراسانی :خواتین کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ صورتحال

آن لائن ہراسانی :خواتین کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ صورتحال

ڈیجیٹل دنیا نے انسانوں کے درمیان رابطے کے نئے ذرائع پیدا کیے ہیں، لیکن اسی دنیا میں لاکھوں خواتین اور لڑکیاں ہر روز '' تشدد اور بدسلوکی‘‘ کا شکار ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین(UN Women) کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک ارب 80کروڑخواتین اور لڑکیاں یعنی خواتین کی مجموعی آبادی کا44 فیصد آن لائن ہراسانی یا تعاقب سے قانونی تحفظ سے محروم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی آدھی سے زائد خواتین کیلئے ڈیجیٹل دنیا خطرے کا گڑھ بن چکی ہے۔آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی کی نوعیت مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ اس میں نہ صرف ہراسانی اور تعاقب شامل ہیں بلکہ بدنامی، جھوٹی معلومات، رضامندی کے بغیر تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنا، ڈیپ فیک اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے جعلی مواس اوردھمکیاں دینا بھی شامل ہے۔ یہ تشدد صرف آن لائن محدود نہیں رہتا بلکہ حقیقی زندگی میں خوف، ذہنی اور جسمانی نقصان اور بعض اوقات خواتین کے قتل تک جا پہنچتا ہے۔قانونی خلا اور کمزور تحفظ ورلڈ بینک کے مطابق 40 فیصد سے بھی کم ممالک میں خواتین کو آن لائن ہراسانی سے تحفظ دینے والے قوانین موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی 44 فیصد خواتین اور لڑکیاں قانونی خلا کی وجہ سے خطرات کا شکار ہیں۔ کمزور قانونی نظام کی وجہ سے مجرم بلاخوف و خطر اپنے اقدامات جاری رکھتے ہیں جبکہ متاثرہ خواتین اور لڑکیاں غیر محفوظ رہ جاتی ہیں۔خاص طور پر کاروبار یا سیاست میں قیادت کے عہدوں پر فائز خواتین اکثر منظم ہراسانی اور ڈیپ فیک کا شکار بنتی ہیں۔ ان پر غلط معلومات پھیلانے، بدنام کرنے یا انہیں اپنے عہدوں سے ہٹانے کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یو این ویمن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی تقریباً ایک چوتھائی خاتون صحافیوں کو آن لائن جسمانی تشدد حتیٰ کہ قتل کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔مصنوعی ذہانت اور آن لائن تشدد آن لائن ہراسانی میںAI کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈیپ فیک اورAI ٹولز کے ذریعے سرحد پار تشدد سے دھمکیوں اور بدنامی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عدالتی نظام اس طرح کے نئے جرائم سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز پر مؤثر احتساب تقریباً موجود نہیں۔ یہ صورتحال مجرموں کو مزید بے خوف بناتی ہے اور متاثرہ خواتین کی آواز کو دبانے کا سبب بنتی ہے۔تاہم کچھ مثبت پیش رفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کے آن لائن سیفٹی ایکٹ، میکسیکو کے اولمپیا ایکٹ اور یورپی یونین کے ڈیجیٹل سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین آن لائن تشدد کے خلاف مؤثر اقدامات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 117 ممالک نے آن لائن تشدد سے نمٹنے کی اپنی کوششوں کی رپورٹ پیش کی مگر عالمی سطح پر یہ کوششیں اب بھی ناکافی ہیں۔یو این ویمن نے آن لائن ہراسانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے چند اہم سفارشات پیش کی ہیں:عالمی تعاون: ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور AI آلات کو حفاظتی اور اخلاقی معیار کے مطابق بنانے کیلئے ممالک کے درمیان تعاون ضروری ہے۔مالی معاونت: آن لائن تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے حقوق نسواں کی تنظیموں کو مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی جائے۔قانونی نفاذ: قوانین بہتر بنانے اور ان کے نفاذ کے ذریعے مجرموں کو جوابدہ بنایا جائے تاکہ متاثرہ خواتین تحفظ حاصل کر سکیں۔خواتین کی شمولیت: ٹیکنالوجی کمپنیوں میں خواتین کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ آن لائن ماحول محفوظ بن سکے، نقصان دہ مواد کو ہٹایا جا سکے اور شکایات پر مؤثر کارروائی ہو۔رویوں میں تبدیلی: ڈیجیٹل خواندگی، آن لائن حفاظت کی تربیت اور زہریلی آن لائن ثقافت کا مقابلہ کرنے کے پروگرام مرتب کیے جائیں تاکہ خواتین اور لڑکیوں کو معلوماتی اور ذہنی تحفظ حاصل ہو۔ آن لائن ہراسانی کا اثر صرف ڈیجیٹل دنیا تک محدود نہیں یہ حقیقی زندگی میں خوف، ذہنی دباؤ اور جسمانی تشدد تک پہنچ سکتا ہے۔ جب خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد بڑھتا ہے تو ان کی آوازیں دب جاتی ہیں، وہ عوامی زندگی سے کٹ جاتی ہیں اور بعض اوقات انہیں اپنے پیشہ ورانہ یا ذاتی میدان میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث (Sima Bahous)کہتی ہیں کہ جو کچھ آن لائن شروع ہوتا ہے وہ وہاں ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہ حقیقی زندگی میں تشدد اور خطرات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے قوانین اور پالیسیوں کو ٹیکنالوجی کے مطابق تیار کرنا ناگزیر ہے تاکہ خواتین اور لڑکیاں آن لائن اور آف لائن دونوں جگہوں پر محفوظ رہ سکیں۔آگے کا راستہیو این ویمن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دنیا بھر میں فوری اقدامات کیے جائیں اور قانونی خلا کو ختم کرنا، مجرموں کو جوابدہ بنانا اور ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کی ذمہ داری بڑھانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کی ڈیجیٹل خواندگی بڑھانا، آن لائن حفاظت کی تربیت دینا اور زہریلی آن لائن ثقافت کا مقابلہ کرنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آن لائن ہراسانی ایک عالمی مسئلہ ہے جو نہ صرف خواتین کی حفاظت بلکہ سماجی اور قانونی ڈھانچے کی مضبوطی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ قانونی خلا، کمزور احتساب اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے خواتین غیر محفوظ ہیں لیکن عالمی تعاون، مضبوط قوانین اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت کے ذریعے یہ مسئلہ کم کیا جا سکتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

انسانی حقوق کا اعلامیہ 10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں لاکھوں انسانوں کے قتل، نسل کشی، جبری مشقت، جلاوطنی اور ظلم و جبر کے بعد دنیا کو ایسی دستاویز کی ضرورت تھی جو ہر انسان کے بنیادی، پیدائشی اور ناقابلِ تنسیخ حقوق کی وضاحت کرے۔ یہ اعلامیہ ایلینور وزویلٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی ایک کمیشن کی محنت کا نتیجہ تھا۔ اس میں 30 آرٹیکلز شامل کیے گئے جن میں آزادی ٔاظہار، مذہبی آزادی، قانون کے سامنے مساوات، تعلیم کا حق، زندگی اور تحفظ کا حق، جبری مشقت اور تشدد کی ممانعت، آزادانہ نقل و حرکت اور منصفانہ عدالتی کاروائی جیسے اصول شامل تھے۔ پہلا نوبیل انعام10 دسمبر 1901ء کو دنیا میں پہلی مرتبہ نوبیل انعامات تقسیم کیے گئے۔ اسی تاریخ کو سویڈن کے سائنسدان اور ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبیل کی برسی بھی ہوتی ہے۔ نوبیل نے اپنی وصیت میں کہا کہ فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، ادب اور امن کے شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں کو ہر سال انعام دیا جائے گا۔ بعد میں معاشیات کا نوبیل انعام بھی شامل ہوا۔ 1901ء میں انعامات کی پہلی تقریب میں مختلف ممالک کے سائنسدان، مصنفین اور امن کے علمبرداروں کو اعزازات سے نوازا گیا۔ اس دن نے عالمی سطح پر علمی اور اخلاقی خدمات کو ایک نئے معیار پر متعارف کرایا، جو آج تک جاری ہے۔پیرس معاہدہ10 دسمبر 1898ء کو امریکہ اور سپین کے درمیان پیرس معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے نتیجے میں سپین امریکہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ معاہدے کے تحت سپین نے کیوبا پر اپنا قبضہ ختم کیا جبکہ پورٹو ریکو، فلپائن اور گوام امریکہ کے زیرِ انتظام آگئے۔ اس معاہدے نے امریکہ کو پہلی بار ایک بین الاقوامی نوآبادیاتی طاقت بنا دیا اور بحرالکاہل و بحرِ اوقیانوس میں اس کے اثرات کو بڑھایا۔ فلپائن پر قبضے نے امریکہ کو ایشیا میں ایک سٹریٹجک مقام فراہم کیا۔ معاہدے کے اثرات مقامی آبادیوں پر بھی بہت گہرے تھے۔ فلپائن میں امریکی قبضے کے خلاف آزادی کی تحریک نے جڑ پکڑی، پورٹو ریکو کے سیاسی مستقبل پر بحث شروع ہوئی اور کیوبا کا سیاسی ڈھانچہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہا۔ یہ دن عالمی طاقتوں کی نئی تقسیم کی ابتدا کا نشان مانا جاتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کوامن انعام1993ء کے نوبیل امن انعام کا اعلان 10 دسمبر کو کیا گیا جو نیلسن منڈیلا اور فریڈریک ڈی کلرک کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ یہ انعام نسل پرستی کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے ان دونوں رہنماؤں کی کوششوں کا اعتراف تھا۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال جیل میں گزارے لیکن انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ رہائی کے بعد انہوں نے سفید فام حکومت سے مذاکرات کے ذریعے پرامن سیاسی انتقالِ اقتدار کی کوشش جاری رکھی۔ دوسری جانب صدر ڈی کلرک نے جنوبی افریقہ کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کا آغاز کیا، پابندیوں ختم کیں، اپارتھائیڈ قوانین منسوخ کیے اور پہلے آزاد انتخابات کی بنیاد رکھی۔