میکاولی کے سیاسی تصورات
جو مقبولیت اور شہرت کتاب ’’حکمران‘‘ (دی پرنس) کو حاصل ہوئی وہ میکاولی کی کسی اور تصنیف کو نصیب نہیں ہوئی۔ لیکن اس کی ذمہ داری میکاولی پر نہیں بلکہ ان سیاسی لیڈروں اور حاکموں پر ہے جنہوں نے اپنی ذاتی اغراض اور سیاسی اقتدار کے حصول اور استحکام کے لیے ’’حکمران‘‘ سے استفادہ کیا۔ اگرچہ یہ کتاب خاص حالات میں یعنی سولہویں صدی میں اطالیہ کی سیاسی زبوں حالی اطالوی ریاستوں کی باہمی چپقلش اور خانہ جنگی۔۔۔ اور ایک مقصد و نظریہ یعنی اطالیہ کے قومی اتحاد اور آزادی کے نصب العین کے تحت لکھی گئی تھی لیکن پھر بھی یہ خیال درست نہیں کہ ’’حکمران‘‘ میکاولی کے سیاسی نظریات کی صحیح ترجمان ہے۔ کیونکہ اگر اس کی جملہ تصانیف اور خاص کر ’’مقالات‘‘ کو ہم پیش نظر رکھیں تویہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ مطلق العنانی کا ہرگز مداح نہ تھا جیسا کہ ’’حکمران‘‘ سے تاثر ملتا ہے، بلکہ جمہوریت کا شیدائی اور قومی آزادی کا نقیب و علم بردار تھا۔میکاولی سے قبل فلسفہ سیاسیات میں قوم من حیث القوم کسی خاص توجہ یا فکر کا موضوع نہ رہی تھی۔ اگرچہ میکاولی کے دیکھتے دیکھتے فرانس اور انگلستان میں قومی یکجہتی اور قومی اتحاد کی تحریکیں روزبروز جڑ پکڑ رہی تھیں لیکن اس کے باوجود جہاں تک عملی سیاست کا تعلق تھا اقتدار اعلیٰ موروثی حکمرانوں ہی کی ذات سے وابستہ تھا۔ یہ نظریہ کافی عرصہ تک مقبول رہا کہ مملکت خدا کا بنایا ہوا ایک ادارہ ہے اور حقوق فرماں روابھی اسی کی طرف سے عطا کردہ ہیں جنہیں حکمرانوں سے چھینا نہیں جا سکتا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں جیمز اول نے اپنی ’’آزاد شاہی کا قانون‘‘ (Law of Monarchies ) میں اس نظریہ کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی تھی:’’اگرچہ ایک اچھے بادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے افعال کو قانون کے مطابق رکھے مگر ایسا کرنے پر وہ مجبور نہیں۔ وہ اپنی مرضی کا مختار ہے اور اسے اپنے افعال سے اپنی رعایا کے لیے مثال قائم کرنی ہے۔۔۔ بادشاہت ایک موروثی حق ہے اور بادشاہ کے حکم کی بے چون و چرا اطاعت مذہبی فرائض میں داخل ہے۔موروثی حکمرانی کے نظریہ اور حکمرانوں کے وسیع اقتدار و اختیار کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’ تیس سالہ جنگ ‘‘ کے اختتام پر صلح ویسٹ فیلیا نے حکمرانوں کے اس حق کو تسلیم کیا تھا کہ انہیں اپنی رعایا کے مذہبی اور ملکی معاملات پر کامل اختیار ہے۔ مزید برآں سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں انگلستان اور فرانس کی داخلی سیاسی کشمکش اور نظریاتی بحث و مباحثوں میں بھی قومی انفرادیت اور قومی حقوق پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی بلکہ موضوع بحث یہ تھا کہ اگر فرماں روا اپنے اختیارات سے تجاوز کرے یا ان کا صحیح استعمال نہ کرے تو ایسی صورت میں شہری اپنے مفاد اور حقوق کی حفاظت کے لیے کیا ذرائع اور وسائل اختیار کریں۔ انقلاب فرانس اور امریکی جنگ آزادی کے نعروں اور منشوروں کے سرسری مطالعہ سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ قومی انفرادیت کا جذبہ یا نظریہ اٹھارہویں صدی کی نظری اور عملی سیاست میں کارفرما نہ تھا۔ قوم من حیث القوم نہیں بلکہ ابھی تک حقوق انسانی یعنی آزادی، اخوت، مساوات اور جستجوئے مسرت توجہ و فکر کا موضوع تھا۔ ایک سکالر کے مطابق ’’نشاۃ الثانیہ کے بعد کئی صدیاں گزریں اور جب تک نپولین کا زمانہ نہیں آیا قومیت کا خیال محض جذبہ کی شکل میں موجود تھا۔ اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تھا لیکن یہ جذبہ تھا بہت زبردست۔‘‘حقیقت تو یہ ہے کہ مذیبیت کے زوال کے ساتھ ساتھ ہی وطنیت اور حق پرستی کی نشوونما شروع ہو چکی تھی۔ رومی کلیسا کی مخالفت میں مارٹن لوتھر نے اپنی جرمن قوم سے مدد لی تھی اور کلیسا کی شکست کے بعد وہ تسبیح ٹوٹ گئی جس میں مختلف قومیں پروئی ہوئی تھیں۔ رفتہ رفتہ آفاقیت کی بجائے قومیت کو قابل قبول بلکہ واجب الحصول نصب العین قرار دیا گیا۔ لارڈ لاتھین کے الفاظ میں ’’جب لوتھر کی تحریک نے (جس کو اصلاحِ مذہب کی تحریک کہا جاتا ہے) یورپ کی ثقافتی اورمذہبی وحدت کا خاتمہ کر دیا تو یہ براعظم مختلف قومی حکومتوں میں منقسم ہو گیا جن کے جھگڑے اور مقابلے دنیا کے امن کے لیے ایک دائمی اور مستقل خطرہ بن گئے۔’’ اور یہی وہ جذبہ تھا جس نے نپولین کے خلاف اہل ہسپانیہ کی جدوجہد 1806ء سے 1813ء تک، کو تقویت بخشی تھی۔ یہ جذبہ قوم پرستی ہی کی کارفرمائی تھی جس کے سبب نپولین کو بالآخر شکست ہوئی اور جرمنی کو ازسر نو زندگی حاصل ہوئی۔ اسی کے تحت انیسویں صدی میں اقتدار اعلیٰ اور قانون سازی کے مسئلوں پر باقاعدہ توجہ دی گئی اور مبصرین و مفکرین سیاست نے اپنے اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق قوم، مملکت اور قومی حقوق کی توضیح و توجیح کی۔ اس لحاظ سے یہ میکاولی کا طرہ امتیاز ہے کہ عصرجدید کا وہ پہلا سیاسی مفکر ہے جس نے نہ صرف قوم کی اہمیت کو تسلیم کیا بلکہ قومی آزادی و اتحاد کو بجائے خود ایک ایسا اہم و بلند پایہ نصب العین قرار دیا کہ جس کے حصول کی خاطر ہر قسم کا حیلہ و حربہ جائز اور جس کے لیے ایک بیدار مغز شہری کو ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ صرف جان و مال کی قربانی نہیں بلکہ اصول و اخلاق کی بھی۔اس میں شک نہیں کہ میکاولی کے اس نظریہ کہ عملی سیاست میں اخلاقیات کے بجائے سیاسی مصالحت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور قومی آزادی برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن حیلہ و حربہ سے کام لینا چاہیے اور اس بنا پر حکمران مذہبی یا اخلاقی قیود کو پس پشت ڈالنے میں حق بجانب ہے، بظاہر بہت عجیب بلکہ قابل نفرت معلوم ہوتا ہے، مگر اس سلسلہ میں ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ دانتے کی طرح میکاولی بھی ایک محب وطن تھا جس کا دل و دماغ مادروطن کی ابتری و بدحالی سے حد درجہ متاثر تھا۔ اطالیہ کے اتحاد کا وہ دل و جان سے خواہش مند تھا مگر اس اتحاد کے لیے ضروری تھا کہ ایک ایسا لیڈر یا حکمران ہو جو اپنی طاقت اور سیاست سے اطالیہ کی طوائف الملوکی کا قلع قمع کرے، غیر ملکیوں کو اطالیہ چھوڑنے پر مجبور کرے اور مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک دوسرے سے منسلک و متحد کر کے جمہوری حکومت کی داغ بیل ڈالے۔ میکاولی کے نزدیک یہ ایک ایسا بلند اور اہم نصب العین تھا جس کے حصول کے سلسلہ میں یہ خیال نہ ہونا چاہیے کہ اسے کن طریقوں سے حاصل کیا جارہا ہے۔ اصل چیز مقصد ہے اور قومی آزادی اور ملکی فلاح و بہبود کے لیے جو بھی طریقہ اور حربہ استعمال میں لایا جائے وہ جائز ہے۔ ٭…٭…٭