2018ء میں چین کیا کرے گا؟
2017ء میں عالمی سطح پر چین اور ملکی سطح پر کمیونسٹ پارٹی کے رہنما شی چن پنگ کی طاقت اور اثر میں اضافہ ہوا۔ رواں برس حکمران جماعت انہیں استعمال میں لاتے ہوئے چند بڑے معاشی چیلنجز سے نپٹنے کی کوشش کرے گی۔ ان میں مالیاتی خطرات، ماحولیاتی آلودگی اور سماجی ہم آہنگی شامل ہیں۔اولین اور اہم ترین ترجیح چینی معیشت کو درپیش مالیاتی خطرات سے نپٹنا ہے۔ چین مالیاتی شعبے کو شفاف بنانے اور اس پر کنٹرول مضبوط کرنے کا عمل جاری رکھے گا۔چین نے پہلے ہی خطرات کے حامل ’’بِٹ کوائن‘‘ مالیاتی نظام پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ 2018ء میں ’’موزوں مالیاتی پالیسیوں‘‘ پر عمل کرتی رہے گی۔ ان پالیسیوں میں 2017ء میں قرضوں کی بڑھوتری کو لگام دینا اور 100 ٹریلین یوآن (15ٹریلین ڈالر) مالیاتی اثاثہ جات کی صنعت کو مرکزی انتظامی چھتری کے نیچے لانا شامل ہے۔ منتظمین (ریگولیٹرز) نے ملک کی نجی انٹرپرائزز کے لیے 36 نکاتی کوڈ آف کنڈکٹ کا اجرا کیا ہے۔ بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے وقت اس کی پابندی کرنا ہو گی۔ اس اقدام کا مقصد عالمی سطح پر دھڑا دھڑ معاہدے کرنے والی فرمز کے پَر کاٹنا ہے۔ ان فرموں میں ایچ این اے گروپ اور فوسن انٹرنیشنل شامل ہیں۔یہ وہ گروپ ہیں جنہوں نے اس صدی کے آغاز پر شروع کردہ باقی دنیا سے چین کی معیشت کو منسلک کرنے والی کھلے پن کی پالیسی سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھایا۔ چین نے سٹے بازی اور ’’حساس‘‘ صنعتوں میں سرمایہ کاری پر پابندی لگا دی ہے اور پراپرٹی، ہوٹل، فلم اور کھیلوں میں سرمایہ کاری کو محدود کر دیا ہے۔ لیکن ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ سے وابستہ منصوبوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ ان منصوبوں کے ذریعے شاہراہ ریشم سے تجارت کی راہیں استوار کی جا رہی ہیں (چین پاک اقتصادی راہداری اسی کا حصہ ہے)۔ لہٰذا 2018ء میں انفراسٹرکچر اور دیگر بڑے منصوبوں کی مدد سے چین کا معاشی اثر عالمی سطح پر بڑھتارہے گا۔ چینی حکمران جماعت کی جانب سے استحکام لانے اورمعاشی خطرات کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ وہ تیز رفتار ترقی کی بجائے معیاری ترقی کی جانب رخ کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہاں ’’معیار‘‘ کا مطلب ایسی معیشت ہے جو شفاف اور صارف دوست ہو۔ حکومت آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کی بندش کے اقدامات اور ماحولیاتی نقصان کے ذمہ دار مقامی حکام کے مزید احتساب کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ شفاف معیشت کی جانب رخ کرنے کے چینی عزم کا ایک اہم جزو خود کو حصول توانائی کے کاربن ذرائع کی درآمدسے بری کرنا ہے۔ اس کا آسٹریلیا کی معیشت پر بہت زیادہ اثر پڑنے کا امکان ہے کیونکہ گزشتہ چند دہائیوں میں اس کی ترقی کی بڑی وجہ اسی جنس کی چین کو برآمد تھی۔ اب چین آسٹریلیا کا یہ کچرا درآمد کرنے کو تیار نہیں، جس سے آسٹریلیا کے لیے سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے ذخیروں کا کیا کرے۔ گزشتہ برس کے اختتام پر ہونے والے سالانہ ملک گیر اقتصادی کنونشن میں ایک غیرمعمولی قدم اٹھایا گیا۔ حکومت نے آن لائن جعل سازی، مقام کار پر جنسی امتیاز اور کچھ علاقوں میں کنڈرگارٹن کی سہولیات کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس سے حکمران جماعت کے سماجی ہم آہنگی کے معاملے پر فکر مندہونے کا عندیہ ملتا ہے۔ چینی رہنماؤں کے لیے سماجی ہم آہنگی کا قیام ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ 2018ء میں شی چن پنگ کی جاری کردہ تخفیف غربت کی مہم کو تیز کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں لاکھوں لوگوں کو پانی اور توانائی کی سہولتوں سے آراستہ گھروں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف کل داخلی پیداوار (جی ڈی پی) اور معاشی نمو میں اضافہ ہو گا، بلکہ پارٹی اور رہنماؤں کی مقبولیت میں اضافہ بھی مقصود ہے۔ چینی رہنماؤں کا سماجی ہم آہنگی پر زور پارٹی اور اس کے پالیسی اقدامات کی حمایت کے حصول کے لیے بھی ہے۔ بزنس اور سول سوسائٹی آرگنائزیشنز میں حکمران جماعت کی تنظیموں کو مضبوط کرنے کے لیے حال ہی میں متعدد اقدامات کیے گئے۔ چین کے موجودہ قانون کو ان اقدامات سے مربوط کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ چین میں تمام تنظیمیں (مقامی، غیرملکی، کمرشل اور غیرمنافع بخش) نچلی سطح پر حکمران کمیونسٹ پارٹی کے قریب ہوں۔ سوشل کریڈٹ کے ایک نظام کا اجرا کیا گیا ہے۔ اس کا مقصدتنظیموں اور افراد کے کردار کی نگرانی کرنا اور انہیں بہتر کرنا ہے۔ چاہے کوئی کارپوریٹ فلاحی کام کررہی ہو یا کوئی فرد ،اس نظام کے تحت اچھے سماجی کردار کو سوشل کریڈٹ پوائنٹس عطا کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اسے یہ مل سکتے ہیں جو صفائی کا خیال رکھتے ہوئے کچرا صاف کرتا ہے ۔ اس نظام کے تحت برے کردار پر پوائنٹس کاٹ لیے جاتے ہیں۔ مثلاً ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، وقت پر بلوں کی عدم ادائیگی یا گھریلو تشدد پر۔ جن افراد یا کارپوریشنز کا کردار انتہائی خراب ہو انہیں بلیک لسٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔چین کا ایجنڈا اور اس کے دارالحکومت سے آنے والا پیغام واضح ہے، اور وہ یہ ہے کہ اب کنٹرول سخت کیا جائے گا۔ البتہ بات یہاں مکمل نہیں ہوتی، اس پر عمل درآمد کے دوران ہی منسلک مسائل بھی سامنے آئیں گے۔ مرکزی حکومت اور مقامی حالات کے مطابق مقامی سطح پر پالیسیوں کے اطلاق میں ہمیشہ ایک کشمکش نظر آئی ہے اور یہ آئندہ بھی دکھائی دے گی۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک حکم نامے کے تحت مقامی سطح پر کہاگیا کہ کوئلے کی بجائے حرارت کے لیے قدرتی گیس استعمال کر یں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شمالی چین میں ہزاروں گھر اور سکول شدیدسردی میں حرارت سے محروم ہو گئے۔ لہٰذا حکام کو نئی پالیسی واپس لینا پڑی۔ حکومت کی کامیابی کا انحصاراصلاحات اور استحکام کے مابین توازن پر ہے۔ تیز رفتار اصلاحات کی رفتار کو اس وقت کم کرتے ہوئے پالیسی میں بدلاؤ لانا پڑے گا جب معاشی استحکام کو خدشہ ہو۔ اگر چین میں اصلاحات کامیاب ہوئیں تو وہ معیشت کو عالمی معاشی حرکیات سے ہم آہنگ کر دیں گے۔ تاہم اس کے لیے صرف اعلیٰ جذبوں سے کام لینا کافی نہیں ہوگا،صرف اسی پر انحصار ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ اور اگر ناکامی ہوئی تو یہ بھی بہت بڑی ہوگی۔