نگہت بٹ ایک ورسٹائل اداکارہ انہوں نے بے شمار سٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا

نگہت بٹ ایک ورسٹائل اداکارہ  انہوں نے بے شمار سٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

سرکاری ٹی وی ڈراموں سے شہرت پانے والی کچھ اداکارائیں ایسی ہیں جنہوں نے کیریکٹر ایکٹر خاص طور پر ماں کے کردار میں بہت شہرت حاصل کی۔ ان میں عرش منیر، عشرت جہاں، عذرا شیروانی، ذہین طاہرہ، عظمیٰ گیلانی اور خورشید شاہد کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن نگہت بٹ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے کئی دہائیوں تک اپنی فطری اداکاری کا جادو جگائے رکھا۔ 1964ء میں جب سرکاری ٹی وی کا آغاز ہوا تو سٹیج کے بہت سے اداکاروں نے ٹی وی کا رخ کیا۔ ان میں محمد قوی خان، علی اعجاز، مسعود اختر اور دیگر کئی فنکاروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اداکار شکیل یوسف وہ واحد اداکار تھے جو پہلے ٹی وی میں آئے اور بعد میں ایس ایم یوسف نے انہیں اپنی فلم ’’ہونہار‘‘ میں کاسٹ کیا۔ نگہت بٹ کو ٹی وی ڈراموں سے زیادہ شہرت ملی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عظمیٰ گیلانی، خالدہ ریاست، عذرا شیروانی، عشرت جہاں اور ذہین طاہرہ کا طوطی بول رہا تھا۔ دوسرے اہم کرداروں میں روحی بانو، بشریٰ انصاری، غزالہ رفیق، عطیہ شرف اور مدیحہ گوہر اپنے فن کے جوہر دکھا رہی تھیں۔ نگہت بٹ کو کھلا میدان نہیں ملا۔ انہوں نے بڑی منجھی ہوئی اداکاراؤں کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوایا۔ یہی ایک بڑے آرٹسٹ کی پہچان ہوتی ہے۔ اس سے پہلے وہ سٹیج ڈراموں میں اپنی شناخت بنا چکی تھیں اور مسعود اختر، انور سجاد اور محمد قوی خان جیسے اداکاروں کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔ نگہت بٹ نے کمال احمد رضوی اور رشید عمر تھانوی کے ساتھ بھی کام کیا۔ نگہت بٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مکالموں کی ادائیگی اور چہرے کے تاثرات سے بہت کام لیتی تھیں۔ خاص طور پر المیہ کرداروں میں انہوں نے بڑی جاندار اداکاری کی۔ کیمرے کے سامنے کیسے کھڑا ہونا ہے اور کیسے بولنا ہے، اس حوالے سے وہ سب جانتی تھیں۔ سینئر ٹی اداکاروں کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ شروع سے ہی اعتماد کی دولت سے مالامال تھیں اور ریکارڈنگ کے دوران کبھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئیں۔ وہ اپنے سے سینئر اداکاروں کا احترام اور جونیئر فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ انہوں نے اصغر ندیم سید، یونس جاوید اور امجد اسلام امجد کے کئی مشہور ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ مسعود اختر کا کہنا ہے کہ نگہت بٹ اپنے وقت کی شاندار اداکارہ تھیں۔ محمد قوی خان کہتے ہیں کہ ابتدائی سالوں میں وہ سرکاری ٹی وی کا چہرہ تھیں اور انہوں نے ٹی وی کے کئی ڈراموں میں متاثر کن اداکاری کی۔ وہ ایک ذہین اداکارہ تھیں جو اپنے کردار میں ڈوب جایا کرتی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ انہوں نے اداکاری کا ایک معیار قائم کیا۔ نگہت بٹ کے مشہور ترین ڈراموں میں ’’خواہش، پیاس، لنڈا بازار اور وارث‘‘ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ معروف شاعر اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ نگہت بٹ بڑی باکمال اداکارہ تھیں جنہوں نے اپنے ہر کردار سے انصاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نگہت بٹ نے ان کی ڈرامہ سیریز ’’خواہش‘‘ اور ’’پیاس‘‘ میں اپنی فنی عظمت کے نقوش چھوڑے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ ٹی وی میں آئے تو 1986ء میں اپنی پہلی ڈرامہ سیریز ’’دریا‘‘ لکھی۔ جب ’’خواہش‘‘ اور ’’پیاس‘‘ لکھے تو نگہت بٹ ٹی وی ڈراموں کا ایک نمایاں نام تھا۔ وہ ایک ورسٹائل اداکارہ تھیں۔ انہوں نے طویل دورانیہ کے ڈراموں میں بھی کام کیا اور ڈرامہ سیریز میں بھی۔ انہوں نے پنجابی ڈراموں میں بھی کام کیا۔ ڈرامہ ’’پیاس‘‘ میں انہوں نے جاگیردارنی کا کردار بہت عمدہ طریقے سے ادا کیا۔ سرکاری ٹی وی ان کا گھر تھا۔ اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ وہ دھیمے مزاج کی خاتون تھیں اور وقت کی بہت پابند تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرنے سے عزت تو ملتی ہے لیکن اتنے زیادہ پیسے نہیں ملتے۔ بڑی مشکل سے دال روٹی چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فنکاروں پر جب مشکل وقت آتا ہے تو پھر انہیں حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ حکومت نے بھی کوئی فنڈ قائم نہیں کیا جہاں سے ان کی مدد کی جائے۔ ممتاز ڈرامہ نگار یونس جاوید کا کہنا تھا کہ وہ عابد بٹ کی بیوہ تھیں۔ دونوں میاں بیوی اداکاری کرتے تھے لیکن نگہت بٹ میں اداکاری کے جوہر زیادہ تھے اور انہوں نے ہر قسم کے کردار ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ نگہت بٹ پیدائشی آرٹسٹ تھیں۔ نگہت بٹ نے امجد اسلام امجد کی مشہور ڈرامہ سیریز ’’وارث‘‘ میں بھی بڑا اچھا کام کیا تھا۔ اس میں انہوں نے منور سعید کی بیوی کا کردار ادا کیا۔ دیگر اداکاروں کی طرح نگہت بٹ کی کارکردگی کو اس ڈرامے میں پسند کیا گیا۔ 8 فروری 2020ء کو نگہت بٹ 72 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھیں اور معاشی تنگدستی کا بھی شکار تھیں۔ حکومت نے درخواست کے باوجود ان کی کوئی مالی امداد نہیں کی۔ اس بے حسی کا ماتم کرتے ہوئے کتنا عرصہ بیت گیا ہے لیکن نادار اور مالی بدحالی کے شکار فنکاروں کے لیے حکومتی سطح پر کچھ نہیں کیا جاتا اور پھر وہ کسمپرسی کی حالت میں راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ حکومتی اور معاشرتی بے حسی کب ختم ہو گی۔ وہ اپنے سے سینئر اداکاروں کا احترام اور جونیئر فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
قوی خان ٹی وی کے پہلے ہیرو

قوی خان ٹی وی کے پہلے ہیرو

باوقار شخصیت اور دلکش آواز کے مالک قوی خان ایک ورسٹائل اداکار تھے۔ ان کے بارے میں بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ اور ہمارے ملک کا اثاثہ تھے۔ آپ وہ خوش قسمت اداکار تھے جنہوں نے سات دہائیوں تک نان سٹاپ کام کیا ۔وہ 13 نومبر 1942ء کو شاہجہاں پور (غیرمنقسم ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد نقی خان محکمہ پولیس سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان کے وقت انہوں نے ہجرت کی تو پشاور کو اپنا مسکن بنایا اور وہیں قوی خان نے گورنمنٹ ہائی اسکول سے اور پھر ایڈورڈ کالج سے تعلیم حاصل کی ۔پاکستان میں 26 نومبر 1964ء وہ یادگار تاریخ ہے جب ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا۔ اس تاریخ کے ٹھیک 2 دن بعد پاکستان ٹیلی وژن سے پہلا ڈرامہ ''نذرانہ‘‘نشر ہونا تھا جس کے ہیرو محمد قوی خان تھے۔ پروڈیوسر فضل کمال تھے جبکہ نجمہ فاروقی نے اسے لکھا تھا۔ قوی خان اس وقت سے لے کر تادمِ مرگ ٹیلی وژن سے وابستہ رہے، یہ عرصہ لگ بھگ 7 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس میڈیم میں ان کو سب سے زیادہ شہرت 1980ء کی دہائی میں سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والے ڈرامے ''اندھیرا اجالا‘‘ سے ملی۔اس ڈرامہ میں ان کا پولیس افسر کا کردار بے پناہ مقبول ہوا۔یہ ڈرامہ جس وقت نشر ہوتا تھا سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ اس ڈرامہ نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ملک میں بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔ قوی خان نے '' اندھیر اجالا‘‘ میں اپنے لازوال کردار کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن اداکار کمال اور گلوکار عنایت حسین بھٹی کی طرح کامیاب نہ ہوسکے ۔ اشفاق احمد کے ڈرامہ ''کوئی نہ آدھا سچ ملا‘‘میں قوی خان کو شاعر مرزا غالب کا کردار نبھانے کو دیا گیا جسے وہ اپنے کریئر کا یادگار کردار قرار دیا کرتے تھے۔ ان کی شادی 1968 میں ہوئی، ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کے دونوں بیٹوں عدنان قوی اور مہران قوی نے بھی شوبز میں قسمت آزمائی کی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ پاکستانی فلمی صنعت کے حوالے سے ڈائریکٹری کی حیثیت رکھنے والی ویب سائٹ کے مطابق ہدایتکار دلجیت مرزا کی فلم ''رواج‘‘ جو 1965ء میں سینما گھروں کی زینت بنی، قوی صاحب کی پہلی فلم تھی۔ طویل فلمی کریئر میں ڈھائی سو کے قریب فلموں میں کام کرنے کے باوجود انہیں وہ جائز مقام کبھی نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔ زیادہ تر معاون کرداروں میں نظر آئے ، مثبت اور منفی کرداروں میں جلوہ گر ہوئے، اولڈ ، ولن اور کامیڈین کے طور پر بھی کردار نبھائے لیکن کبھی سولو ہیرو نہیں آئے۔ چند فلموں میں سیکنڈ ہیرو کے طور پر موقع ملاجن میں فلم ''مسٹربدھو‘‘ میں دیبا، فلم ''اجنبی‘‘میں بابرہ شریف اور فلم ''چوری چوری‘‘ میں زیبا کے ساتھ ان کی جوڑیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ قوی نے بطور فلمساز ، درجن بھر فلمیں بنائیں جن میں سے پہلی فلم ان کی مادری زبان پشتو میں ''مہ جبینے‘‘ تھی ،1972ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں وہ آصف خان کے مقابل سیکنڈہیرو تھے۔ بطور فلمساز ان کی دیگر فلموں میں ''مسٹر بدھو‘‘، ''بے ایمان‘‘ ، ''منجی کتھے ڈاہواں‘‘، ''نیلام‘‘، ''روشنی‘‘ ، ''جوانی دیوانی‘‘، ''چوری چوری‘‘ ، ''پاسبان‘‘ ، ''گرفتاری‘‘ اور ''ماں بنی دلہن‘‘ شامل ہیں۔ یہ ان کی بدقسمتی کہیے کہ ٹی وی پر کامیابیاں سمیٹنے والے قوی خان فلم پروڈکشن کے میدان میں بری طرح ناکام رہے اور ان کی بنائی ہوئی ایک بھی فلم کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ انہوں نے ایک فلم ''روشنی‘‘ڈائریکٹ بھی کی۔ 1975ء میں ریلیزہونے والی اس فلم نے کراچی میں اوسط درجے کا بزنس کیا جبکہ باقی ملک میں ناکام رہی۔قوی پر فلمائے ہوئے متعدد گیتوں کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں صرف چند گیتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ فلم ''چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘ میں قوی اپنی زندگی کی بازی ہار کر کسی کیلئے قربانی دیتے ہیں اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے دوران پس منظر سے مسعود رانا کی آواز گونجتی ہے:چراغوں کی بجائے ہم نے داغ دل جلائے ہیںہمارے خون کے چھینٹوں سے ہوگی روشنی برسوںلگا کے جان کی بازی بچا لی آبرو اس کیہماری قبر پہ رویا کرے گی دنیا برسوں فلم ''پازیب‘‘ میں اخلاق احمد کا گایا ہوا گیت ''او ماما میرے ، او چاچا میرے‘‘ بھی قوی پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم میں ایک کامیڈی رول کررہے تھے۔فلم ''مسٹربدھو‘‘ میں مالا کا یہ گیت اپنے وقت کا سپرہٹ گیت تھا، جس کے بول تھے ''ڈھولک بجا کے ، سہیلیاں بلا کے ، بنڑے کے گیت میں گاؤں گی ، اپنے بھیا کو دولہا بناؤں گی‘‘۔ فلم ''بے ایمان‘‘ کا ایک کورس گیت ''اللہ کے نام پہ جھولی بھردے ، اللہ ہی دے گا‘‘احمدرشدی ، مسعودرانا اور روشن کی آوازوں میں تھا جو رنگیلا ، نرالا اور قوی پر فلمایا گیا تھا۔قوی کی بطور فلمساز پہلی پنجابی فلم ''منجی کتھے ڈاہواں ‘‘ تھی جس میں ان پر مسعود رانا کا سولو گیت فلمایا گیا تھا، جس کے بول تھے ''حْسن دا غرور میری توبہ ، آیا سرور میری توبہ‘‘۔فلم پہچان میں مہدی حسن کا گیت ''تیرا پیار میرے جیون کے سنگ رہے گا‘‘ ان پر عکسبند کیا گیا۔ فلم ''بیگم جان‘‘ میں غلام عباس کا رنجیدہ گیت ''اے دوست ، تیری آنکھ اگر نم ہے تو مجھے کیا‘‘بھی قوی پر فلمایا گیا۔ مقبول ڈرامے٭اندھیرا اجالا، دن ٭من چلے کا سودا ٭دو قدم دور تھے٭ لاہوری گیٹ،٭مٹھی بھر مٹی٭، الف نون٭آشیانہ٭ میرے قاتل میرے دلدار٭در شاہوار٭ پھر چاند پہ دستک٭ سہلیاں٭ انگار وادی٭ زندگی دھوپ تم گھنا سایہ٭ نظر بد٭ اڑان ٭ صدقے تمہارے٭ تم کون پیا٭ الف اللہ ٭انسان ٭ دہلیز فشار٭ مرزا اینڈ سنز ٭ریزہ ریزہ٭لاکھوں میں تین ٭داستان٭ دل موم کا دیا٭ پہچان ٭خانی٭ صدقے تمہارے،٭میرا قاتل میرا دلدار٭ ،میری شہزادیقوی کی چند فلمیں محبت زندگی ہے ، ٹائیگر گینگ ، سوسائٹی گرل، سرفروش ، کالے چور، آج اور کل ، صائمہ، بیگم جان ، ناگ منی، رانگ نمبر ، انٹرنیشنل لٹیرے، سر کٹا انسان ، پری، قائداعظم زندہ باد ، ''چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘ ، ''پازیب‘‘ ، ''مسٹربدھو‘‘ ، ''بے ایمان‘‘ ، ''منجی کتھے ڈاہواں ‘‘ ، ''نیلام‘‘ ، روشنی ، پہچان ، وطن ،جوانی دیوانی ، ''چوری چوری‘‘ ، '' محبت مرنہیں سکتی ‘‘

مقبرہ دائی انگہ

مقبرہ دائی انگہ

لاہور میں جی ٹی روڈ پر انجینئرنگ یونیورسٹی سے زرا آگے سڑک پر بائیں مغلیہ دور کہ ایک یادگار گلابی باغ کے نام سے مشہور ہے۔ باغ کا محرابی دروازہ اور اس پر نقاشی اور روغنی ٹائلیں اسے مغلیہ دور کی ایک اہم عمارت کا رنگ و روپ دیتی ہیں۔ اسی محرابی دروازے سے چند قدم آگے بڑھیں تو سامنے ایک گنبد نما عمارت پر نظر پڑ ے گی، یہی دائی انگہ کا مزارہے۔ وہ شاہجہاں کی صاحبزادی سلطان بیگم کی دائی تھیں اور شہزادی نے یہ باغ اپنی دائی کو بخش دیا تھا۔ دائی انگہ کا اصل نام زیب النّسا تھا۔ وہ ایک مغل منصب دار، مراد خان کی اہلیہ تھیں جو بادشاہ جہانگیر کے عہد میں بیکانیر میں مجسٹریٹ رہا۔ ان کا بیٹا راشد خان بہترین تیر اندازوں میں شمار ہوتا تھا جس نے شاہجہاں کے بڑے بیٹے دارا شکو کی خاطر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ لاہور میں ریلوے سٹیشن کے قریب دائی انگہ سے منسوب ایک خوبصورت مسجد بھی واقع ہے جو ان کے سفرِِحج سے پہلے ان کے شوہر مراد خان نے بنوائی تھی۔انگریزوں کے دور میں یہ مسجد حکومتی قبضے میں رہی لیکن 1905ء میں یہ مسجد دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کردی گئی ہے۔ گلابی باغ جو شروع میں بارہ ایکڑ پرمحیط تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ چند کنال کے لگ بھگ رقبہ پر رہ گیا ہے اور تین اطراف سے مکانوں میں گھرا ہوا ہے۔ دائی انگہ کے مقبرے کے پختہ اینٹوں سے بنے فرش اور دیگر بہت سی تعمیراتی خوبیوں اور مزار کے سقف پر خوبصورت خطاطی سے اس کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مقبرے میں دائی انگہ کی آخری آرام گاہ کے علاوہ ایک اور قبر بھی ہے تاہم اس صاحبِ قبر کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ دوسری قبر ان کی بیٹی سلطانہ کی ہے۔ پرانے دستور کے مطابق یہ قبریں ایک تہہ خانے میں ہیں جبکہ مقبرے کی اندرونی دیواروں پر کی گئی گل کاری کے نقوش آج بھی واضح ہیں۔ مغل فنِ تعمیر کی ندرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبرے کی چھت اور گنبد کو سریے کے بغیر تعمیر کیا گیا تھا اور یہ آج تک قائم ہیں۔تاریخ دانوں کے مطابق اسے مرزا سلطان بیگ نے 1656ء میں تعمیر کروایا تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ وسیع و عریض گلابی باغ کے چاروں گوشوں میں بنائی گئی عالی شان اور منقّش ڈیوڑھیاں دیکھ کر راہ گیر دنگ رہ رہ جاتے تھے۔عمارت میں موجود بارہ دریاں، محرابی دروازے اور نشست گاہیں مغلوں کے اعلیٰ ذوق کا پتا دیتی ہیں۔ باغ کے داخلی دروازے یعنی ڈیوڑھی پربنائے گئے نہایت دیدہ زیب نقش و نگار صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی ترو تازہ ہیں۔ عمارت میں نصب ایک بڑے سے کتبے پر ''افضل الذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ درج ہے، مرکزی راستے پر قرآنی نقش ونگار اور مقبرے کے اندر نہایت خوبصورت انداز سے قرآنی آیات کی خطاطی کی گئی ہے اورسورہ فتح کی آیات درج ہیں اور آخر میں کاتب کا نام محمد صالح اور سال 1086ھ تحریر ہے۔ کنہیا لال لکھتے ہیں ''وسعت میں یہ باغ بہت بڑا تھا۔ چار طرف چار ڈیوڑھیاں عالیشان بنی ہوئی تھیں اور ایک بہت چوڑا کنواں وغیرہ امارات متعلق باغ کے تھیں وسط میں یہ بارہ دری عالیشان بنائی گئی گویا نمونہ خلد بریں کا بنا۔تاریخ سے شغف رکھنے والے افراد یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں محکمہ آثار قدیمہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مقبرے اور باغ کی تاریخی اہمیت کو محفوظ کیے ہوئے ہے اور پی ایچ اے بہت محنت سے باغ کی رونق بحال کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔

رمضان کے پکوان:آلو سبزی کباب

رمضان کے پکوان:آلو سبزی کباب

اجزا: چکن کا قیمہ ایک کلو گرام، ہری پیاز ایک عدد، انڈا ایک عدد، تیل دو کھانے کے چمچ، پسی ہوئی کالی مرچ ایک چائے کا چمچ، ابلے ہوئے آلو ایک پیالی، ابلے ہوئے مٹر کے دانے ایک پیالی، ہری مرچ چھ عدد، ادرک ایک انچ کا ٹکڑا، سوکھی ڈبل روٹی کاچورا حسب ضرورت، نمک حسب ذائقہ، سرکہ ایک کھانے کا چمچ، اجوائن ایک چٹکی، کارن فلورایک پیالی، گاجر کٹی ہوئی اور ابلی ہوئی آدھی پیالی، باریک کٹی ہری مرچ تین سے چارعدد، تیل آدھی پیالی، سویا سوس تین چائے کے چمچ، ادرک ایک کھانے کا چمچ، اجینو موتو (چائنیزنمک) ایک چٹکی۔ترکیب:سویا سوس میں نمک، کالی مرچ اور اجینو موتو ملا دیں۔ ایک کھانے کا چمچ پانی بھی شامل کر دیں۔ سویا سوس کا آمیزہ قیمے پر اچھی طرح لگائیں۔ ادرک ، انڈا، ہری پیاز، ڈبل روٹی کا چورا اور کارن فلور کا آمیزہ بنا کرقیمے پر مل دیں۔ اب اس کو آٹھ گھنٹے کے لئے رکھ دیں۔ تیل گرم کر یں اورنہایت ہلکی آنچ پر قیمہ فرائی کر یں۔ پھر آدھی پیالی پانی ڈال کر پکائیں۔ پانی خشک ہو جائے تو قیمے کو سنہری رنگ کا ہونے دیں۔ خوب کرارا ہو جائے تو ہری مرچ ڈال دیں اور ابلے ہوئے آلو، گاجر اور مٹر کے دانے ڈال کر چند منٹ پکا کر اتار لیں۔ جب یہ تمام چیزیں ٹھنڈی ہو جائیں تو ان کو کباب کی شکل دے لیں اور توے پر تل لیں۔ پھر گرم گرم پیش کر یں۔ پائن ایپل سن شائن اجزاء : انناس کے ٹکڑے ایک پیالی، کینو کا رس دو پیالی، برائون شوگر تین کھانے کے چمچ، کُٹی ہوئی برف حسب پسند۔ترکیب: بلینڈر میں انناس کے ٹکڑے اور ایک پیالی پانی ڈال کر بلینڈ کریں، جب انناس پانی کے ساتھ یکجان ہو جائے تو اس میں برائون شوگر، کینو کا رس اور کٹی ہوئی برف ڈال کر بلینڈ کر لیں۔

حکایت سعدیؒ:روشن ضمیر وزیر

حکایت سعدیؒ:روشن ضمیر وزیر

ایک بادشاہ کا وزیر بہت لائق، روشن ضمیر اور دور رس نگاہ رکھتا تھا۔ اللہ کا فرمانبردار ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا بھی تابع دار تھا۔ ظالم حاکموں کی طرح نہ تھا کہ لوگوں پر بے جا ٹیکس لگا کر خزانہ بھرتا ہو اور خدا کا نافرمان ہو۔ ایک شخص صبح سویرے بادشاہ کے پاس گیا اور دعا دے کر عرض کرنے لگاکہ آپ مانیں نہ مانیں یہ وزیر آپ کا خفیہ دشمن ہے کیونکہ اس نے بہت سارے لوگوں کو اپنا مقروض بنا لیا ہے اور شرط یہ لگائی ہے کہ بادشاہ کے مرنے پر قرض واپس لوں گا۔ گویا یہ آپ کی جلد موت کا خواہاں ہے۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر وزیر کی طرف دیکھاکہ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ وزیر نے آداب بجا لاتے ہوئے عرض کیا! اب جبکہ بات کھل ہی گئی ہے تو میں عرض کردیتا ہوں۔ مقروض تو لوگوں کو میں نے مذکورہ شرط پر بنایا ہے لیکن میرے حاسد نے نتیجہ غلط نکالا ہے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ کو موت جلد ہو بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ سارے مقروض آپ کی درازی عمر کے لیے دعا گو رہیں کیونکہ آپ کی عمر جتنی لمبی ہو گی اتنی ہی ان کو قرض کی ادائیگی میں مہلت مل جائے گی۔ تو کیا آپ نہیں چاہتے کہ لوگ آپ کی درازی عمر کی دعا کریں؟ عقل مند لوگ تو دعا کو غنیمت جانتے ہیں کیونکہ دعا ہی سے مصائب کے تیر روکے جا سکتے ہیں۔ بادشاہ کو بات سمجھ آ گئی اور اس کا چہرہ پھول کی طرح کھل اٹھا اور وزیر کا مرتبہ پہلے سے بھی بڑھا دیا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ چغل خور بدنصیب ہے جو بدگوئی کے ذریعے دو دوستوں کی لڑائی کراتا ہے گویا دو افراد میں آگ جلاکر خود ہی اس آگ میں جل مرتا ہے۔ سعدیؒ فرماتے ہیں! جو خلوت کا مزہ چکھ لیتا ہے پھر لوگوں کی برائی سے زبان روک لیتا ہے۔ نفع والی بات کر! اگرچہ کسی کو پسند نہ آئے کیونکہ حق بات نہ کہنے والا قیامت کے دن شرمندہ ہو گا اور افسوس کرتے ہوئے چیخیں مارے گا۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلا کمرشل کمپیوٹر6 مارچ 1946ء کو دنیا کا پہلا کمپیوٹر ' اینیاک‘‘ فروخت کیلئے مارکیٹ میں پیش کیا گیا۔ کمپیوٹر اس سے پہلے بھی استعمال ہو رہا تھا لیکن کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے اس سے بڑے پیمانے پر کام نہیں لیا جا رہا تھا۔1946ء میں جب ''اینیاک‘‘ کو فروخت کیلئے پیش کیا گیا تو دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ کاسیئس کلے سے محمد علی کلے 1964ء میں آج کے روز دنیاکے مقبول ترین امریکی باکسرز کاسیئس کلے نے اپنا نام محمد علی کلے رکھ لیا۔کہا جاتا ہے کہ وہ 1961ء میں ذہنی طور پر اسلام قبول کر چکے تھے اور وہ اسلام سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے کیمپوں میں باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔ محمد علی نے تین مرتبہ باکسنگ کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ''ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ‘‘ جیتا ۔ریال میڈرد کا قیامریال میڈرڈ کا شمار فٹ بال کے مشہور ترین کلبوں میں ہوتا ہے جوسپین کا عالمی شہرت رکھنے والا ایک پیشہ ورانہ فٹ بال کلب ہے۔یہ فٹ بال کلب آج کے دن 1902ء میں قائم ہواتھا۔اس کلب کی وردی روایتی طور پر سفید ہے۔ہسپانوی زبان میں ریال معنی شاہی کے ہیں یا اسے شاہی خاندان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نام بادشاہ الفانسو کی طرف سے پیش کیا گیاتھا۔سالانہ آمدنی کے لحاظ سے ریال میڈرڈ سب سے امیر فٹ بال کلب ہے۔گھانا کا یوم آزادیمغربی افریقہ کے ملک گھانا نے 1957ء میں آج کے روز انگلینڈ سے آزادی حاصل کی۔ گھانا کے یوم آزادی کو گھانا کا قومی دن بھی کہا جاتا ہے اور اس روز گھانا میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس موقع پر پریڈ سمیت مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ 2لاکھ 38ہزار مربع کلو میٹر ہے اور اس کی آبادی تین کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔

یادرفتگاں: مسعود اختر ہر فن مولااداکار

یادرفتگاں: مسعود اختر ہر فن مولااداکار

مسعود اختر پاکستان شوبز انڈسٹری کے ایک ورسٹائل اداکار تھے۔ انہوں نے ریڈیو، تھیٹر، فلموں اور ڈراموں میں اپنی اداکاری سے پرستاروں کو متاثر کیا۔انہیں ہر فن مولااداکار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ انہیں جو کردار بھی دیا گیا اسے انہوں نے نہایت عمدگی کے ساتھ نبھایا۔ مسعود اختر 5 ستمبر 1940ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کرنے کے بعد ملٹری کالج مری میں داخل ہوئے۔ بعدازاں ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ گریجویشن کے بعد ایک بینک میں ملازمت کر کے اپنے کریئر کا آغاز کیا جبکہ ملازمت کے ساتھ ساتھ بیچلر آف لاز کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہوئے اور اپنے فنکارانہ کریئر کا آغاز ریڈیو سے کیا، وہاں برجستہ جملوں کی ادائیگی سے تھیٹر پر اداکاری کی راہ ہموار ہوئی۔ تھیٹر پر ان کے فن کو نکھارنے میں نذیر ضیغم نے نمایاں کردار ادا کیا۔ مسعود اختر کا شمار الحمرا آرٹس کونسل میں سٹیج ڈرامہ شروع کرنے والے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے مقبول سٹیج ڈراموں میں سے ایک ''پیسہ بولتا ہے‘‘ جو 1970 کی دہائی میں الحمرا میں پیش کیا گیا تھا اور اس سے انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔انہوں نے 1960ء کی دہائی میں تھیٹر پر قدم رکھا اور مرتے دم تک تھیٹر کی دنیا سے وابستہ رہے۔ لاہور کے الحمرا آرٹ سینٹر سے ان کی طویل وابستگی تھی اور وہ ہر شام الحمرا کیفے میں باقاعدہ ایک خصوصی نشست رکھتے تھے۔ مسعود اختر سٹیج ڈراموں میں ذو معنی جملوں اور نازیبا رقص سے نالاں تھے، اور اسی وجہ سے انہوں نے کمرشل تھیٹر سے ناطہ توڑ لیا تھا۔ وہ اس امر کے قائل تھے کہ صاف ستھرے تھیڑ کو پروان چڑھایا جائے اور ایسے ڈرامے پیش کئے جائیں جو ماں کے ساتھ بیٹا، باپ کے ساتھ بیٹی اور بہن کے ساتھ بھائی بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ 1968ء میں ہدایتکار و پروڈیوسر شباب کیرانوی نے انہیں فلم انڈسٹری میں متعارف کرایا۔ شباب کیرانوی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کو بے شمار نئے چہرے دیے۔ انہوں نے جن فنکاروں کو متعارف کرایا ان میں عنایت حسین بھٹی، کمال، احمد رشدی، نغمہ، شیریں، ننھا، علی اعجاز، ندیم (مغربی پاکستان میں پہلی فلم سنگدل) ظفر شباب، صاعقہ، زرقا، مسعود اختر، نذر شباب، آسیہ ، غلام محی الدین اور انجمن شامل ہیں۔ 1970ء میں مسعود اختر کی ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ''آنسو‘‘، اس کی ہدایات ایس اے بخاری نے دی تھیں اور اس کی دیگر کاسٹ میں فردوس، ندیم، زاہد خان اور سلمیٰ ممتاز کے علاوہ ایک نیا چہرہ بھی شامل تھا جس کا نام تھا شاہد۔ فلم ''سنگدل‘‘ میں بھی ان کی اداکاری کو سراہا گیا۔ انہوں نے لگ بھگ 135 فلموں میں کام کیا۔ جن میں 78 اردو، 51 پنجابی، تین ڈبل ورژن اور دو پشتو فلمیں شامل ہیں۔ نمایاں ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں ولن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ٹیلی وژن کے سیکڑوں ڈرامے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ مسعود اختر نے اداکاری کے علاوہ ٹی وی ڈراموں اور تھیٹر پروڈکشنز میں بھی قسمت آزمائی کی۔ انہیں ان کی شاندار اداکاری پرمتعدد ایوارڈز ملے، حکومت پاکستان نے انہیں 2005ء میں ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا۔ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ ان کے اکلوتے بیٹے علی رضا کا انتقال ان کی وفات سے چند ماہ قبل (27 ستمبر 2021ء کو) ہوا تھا۔ بیٹے کے غم نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ زائد العمری اور پھیپھڑوں کے کینسر سمیت مختلف طبی پیچیدگیوں کے باعث جب وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے تو اپنی عیادت کیلئے آنے والوں سے بیٹے کی مغفرت کی دعا کی درخواست کرتے۔ 5مارچ2022ء کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مقبول فلمیں ''میرا نام ہے محبت‘‘ (1975ء) ''شبانہ‘‘ (1976ء) ''وعدے کی زنجیر‘‘ (1979ء) ''چھوٹے نواب‘‘ (1980ء) ''امانت‘‘ (1981ء) ''انسانیت کے دشمن‘‘ (1990ء) ''وطن کے رکھوالے‘‘ (1991ء) ''میڈم رانی‘‘ (1995ء)، ''موسیٰ خان‘‘ (2001ء)، ''دوسری ماں‘‘، ''آنسو‘‘، ''درد‘‘، ''بھروسا‘‘ ''تیری صورت میری آنکھیں‘‘، ''انتخاب‘‘، ''جاپانی گڈی‘‘، ''گھرانہ‘‘، ''نکی جئی ہاں‘‘