نگہت بٹ ایک ورسٹائل اداکارہ انہوں نے بے شمار سٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا
سرکاری ٹی وی ڈراموں سے شہرت پانے والی کچھ اداکارائیں ایسی ہیں جنہوں نے کیریکٹر ایکٹر خاص طور پر ماں کے کردار میں بہت شہرت حاصل کی۔ ان میں عرش منیر، عشرت جہاں، عذرا شیروانی، ذہین طاہرہ، عظمیٰ گیلانی اور خورشید شاہد کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن نگہت بٹ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے کئی دہائیوں تک اپنی فطری اداکاری کا جادو جگائے رکھا۔ 1964ء میں جب سرکاری ٹی وی کا آغاز ہوا تو سٹیج کے بہت سے اداکاروں نے ٹی وی کا رخ کیا۔ ان میں محمد قوی خان، علی اعجاز، مسعود اختر اور دیگر کئی فنکاروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اداکار شکیل یوسف وہ واحد اداکار تھے جو پہلے ٹی وی میں آئے اور بعد میں ایس ایم یوسف نے انہیں اپنی فلم ’’ہونہار‘‘ میں کاسٹ کیا۔ نگہت بٹ کو ٹی وی ڈراموں سے زیادہ شہرت ملی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عظمیٰ گیلانی، خالدہ ریاست، عذرا شیروانی، عشرت جہاں اور ذہین طاہرہ کا طوطی بول رہا تھا۔ دوسرے اہم کرداروں میں روحی بانو، بشریٰ انصاری، غزالہ رفیق، عطیہ شرف اور مدیحہ گوہر اپنے فن کے جوہر دکھا رہی تھیں۔ نگہت بٹ کو کھلا میدان نہیں ملا۔ انہوں نے بڑی منجھی ہوئی اداکاراؤں کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوایا۔ یہی ایک بڑے آرٹسٹ کی پہچان ہوتی ہے۔ اس سے پہلے وہ سٹیج ڈراموں میں اپنی شناخت بنا چکی تھیں اور مسعود اختر، انور سجاد اور محمد قوی خان جیسے اداکاروں کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔ نگہت بٹ نے کمال احمد رضوی اور رشید عمر تھانوی کے ساتھ بھی کام کیا۔ نگہت بٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مکالموں کی ادائیگی اور چہرے کے تاثرات سے بہت کام لیتی تھیں۔ خاص طور پر المیہ کرداروں میں انہوں نے بڑی جاندار اداکاری کی۔ کیمرے کے سامنے کیسے کھڑا ہونا ہے اور کیسے بولنا ہے، اس حوالے سے وہ سب جانتی تھیں۔ سینئر ٹی اداکاروں کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ شروع سے ہی اعتماد کی دولت سے مالامال تھیں اور ریکارڈنگ کے دوران کبھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئیں۔ وہ اپنے سے سینئر اداکاروں کا احترام اور جونیئر فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ انہوں نے اصغر ندیم سید، یونس جاوید اور امجد اسلام امجد کے کئی مشہور ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ مسعود اختر کا کہنا ہے کہ نگہت بٹ اپنے وقت کی شاندار اداکارہ تھیں۔ محمد قوی خان کہتے ہیں کہ ابتدائی سالوں میں وہ سرکاری ٹی وی کا چہرہ تھیں اور انہوں نے ٹی وی کے کئی ڈراموں میں متاثر کن اداکاری کی۔ وہ ایک ذہین اداکارہ تھیں جو اپنے کردار میں ڈوب جایا کرتی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ انہوں نے اداکاری کا ایک معیار قائم کیا۔ نگہت بٹ کے مشہور ترین ڈراموں میں ’’خواہش، پیاس، لنڈا بازار اور وارث‘‘ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ معروف شاعر اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ نگہت بٹ بڑی باکمال اداکارہ تھیں جنہوں نے اپنے ہر کردار سے انصاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نگہت بٹ نے ان کی ڈرامہ سیریز ’’خواہش‘‘ اور ’’پیاس‘‘ میں اپنی فنی عظمت کے نقوش چھوڑے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ ٹی وی میں آئے تو 1986ء میں اپنی پہلی ڈرامہ سیریز ’’دریا‘‘ لکھی۔ جب ’’خواہش‘‘ اور ’’پیاس‘‘ لکھے تو نگہت بٹ ٹی وی ڈراموں کا ایک نمایاں نام تھا۔ وہ ایک ورسٹائل اداکارہ تھیں۔ انہوں نے طویل دورانیہ کے ڈراموں میں بھی کام کیا اور ڈرامہ سیریز میں بھی۔ انہوں نے پنجابی ڈراموں میں بھی کام کیا۔ ڈرامہ ’’پیاس‘‘ میں انہوں نے جاگیردارنی کا کردار بہت عمدہ طریقے سے ادا کیا۔ سرکاری ٹی وی ان کا گھر تھا۔ اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ وہ دھیمے مزاج کی خاتون تھیں اور وقت کی بہت پابند تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرنے سے عزت تو ملتی ہے لیکن اتنے زیادہ پیسے نہیں ملتے۔ بڑی مشکل سے دال روٹی چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فنکاروں پر جب مشکل وقت آتا ہے تو پھر انہیں حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ حکومت نے بھی کوئی فنڈ قائم نہیں کیا جہاں سے ان کی مدد کی جائے۔ ممتاز ڈرامہ نگار یونس جاوید کا کہنا تھا کہ وہ عابد بٹ کی بیوہ تھیں۔ دونوں میاں بیوی اداکاری کرتے تھے لیکن نگہت بٹ میں اداکاری کے جوہر زیادہ تھے اور انہوں نے ہر قسم کے کردار ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ نگہت بٹ پیدائشی آرٹسٹ تھیں۔ نگہت بٹ نے امجد اسلام امجد کی مشہور ڈرامہ سیریز ’’وارث‘‘ میں بھی بڑا اچھا کام کیا تھا۔ اس میں انہوں نے منور سعید کی بیوی کا کردار ادا کیا۔ دیگر اداکاروں کی طرح نگہت بٹ کی کارکردگی کو اس ڈرامے میں پسند کیا گیا۔ 8 فروری 2020ء کو نگہت بٹ 72 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھیں اور معاشی تنگدستی کا بھی شکار تھیں۔ حکومت نے درخواست کے باوجود ان کی کوئی مالی امداد نہیں کی۔ اس بے حسی کا ماتم کرتے ہوئے کتنا عرصہ بیت گیا ہے لیکن نادار اور مالی بدحالی کے شکار فنکاروں کے لیے حکومتی سطح پر کچھ نہیں کیا جاتا اور پھر وہ کسمپرسی کی حالت میں راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ حکومتی اور معاشرتی بے حسی کب ختم ہو گی۔ وہ اپنے سے سینئر اداکاروں کا احترام اور جونیئر فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں