منسا موسیٰ۔۔تاریخ انسانی کا امیر ترین شخص
جس طرح کھیلوں کی دنیا میں ہر کچھ عرصہ بعد کھلاڑیوں کی کارکردگی کی رینکنگ (درجہ بندی)متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری ہوتی رہتی ہے اسی طرح دولت کی دنیا میں بھی مختلف تنظیموں کی طرف سے دنیا بھر کے دولت مندوں کے اثاثوں کی درجہ بندی جاری ہوتی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف بین الاقوامی جریدے ''فور بز‘‘ نے دنیا کے موجودہ دس امیر ترین لوگوں کی درجہ بندی کی ایک فہرست جاری کی تھی جس کے مطابق'' ایمیزون‘‘ کے مالک جیف بیزوز 131 بلین ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص قرار پایا ہے جبکہ مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس 96.5بلین ڈالرز کے ساتھ دوسرے نمبر پر،برک شائیر ہیتھ وے کے واران بفے 82.5 بلین ڈالرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔
تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے پر ایسے لوگوں کا پتہ بھی ملتا ہے جو دور جدید کے ارب پتیوں سے کہیں زیادہ اثاثہ جات کے مالک رہے ہیں۔مثال کے طور پر لیبیا کے آنجہانی صدر معمرقذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کے اثاثے عالمی طور پر منجمد کر دئیے گئے تھے جنکی مالیت 200بلین ڈالر بنتی ہے، اسی طرح رومن سلطنت کے مارکس لیسینس کراسس کے اثاثوں کی مالیت آج کے حساب کے مطابق 201ملین ڈالر بنتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ سنکر حیرت ہوگی کہ موجودہ دور کے ارب پتیوں کے مقابلے میں تاریخ میں ایک ایسے مسلم حکمران کا نام بھی ملتا ہے جس کی دولت کا اندازہ موجودہ اور سابقہ ادوار کے اشخاص سے کئی گنا زیادہ بتایا جاتا ہے۔
تاریخ کے اس امیر ترین شخص کا اصل نام موسیٰ کیٹا تھا لیکن تخت نشینی کے بعد یہ منسا موسیٰ Mansa Musa کہلایا ۔منسا مقامی زبان میں بادشاہ کو کہتے تھے۔ یہ سن 1312 سے 1337 تک سلطنت مالی کا حکمران تھا۔ منسا موسی تاریخ کا امیر ترین شخص مانا جاتا ہے۔اس نے مالی سلطنت پر جس زمانے میں حکومت کی اس وقت سلطنت مالی معدنیات کے خزانوں جن میں گرینائیٹ ، یورینیم، فاسفورس چونا،نمک اور سونے سے مالا مال تھی بالخصوص سونے کے ذخائر کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چودھویں صدی کے اوائل میں سلطنت مالی دنیا میں سونے کی کل ترسیل کے نصف کی مالک تھی۔
یہی وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں سونے کی مانگ عروج پر تھی۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ بقول بی بی سی ، منسا موسیٰ کی سلطنت کی حد کسی کو معلوم نہیں تھی۔اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ آج کے موریطانیہ، سینی گال، گیمبیا ، گنی، برکینیا فاسو، مالی، نائیجیر ، چاڈ اور نائیجیریا وغیرہ کے علاقے اس زمانے میں منسا موسی کی سلطنت کا حصہ ہوا کرتے تھے۔
اس زمانے میں ٹمبکٹو Tomboucto مالی کا سب سے بڑا علاقہ تھا جو سلطنت کے شمال میں واقع تھا اور دنیا کے سب سے بڑے صحرا صحارا کے جنوب مغرب میں واقع تھا۔ٹمبکٹو کی وجۂ شہرت زمانہ ء قدیم میں افریقہ سے ہونے والی سونے کی ساری تجارت تھی اور یہی شہر سونے کی تجارت کا مرکز تھا۔
منسا موسیٰ ایک دویش صفت،نیک اور سخی حکمران کی شہرت رکھتا تھا۔اس کے عدل و انصاف کے متعدد قصے تاریخ میں درج ہیں۔منسا موسی کے دور حکومت کا مشہور ترین واقعہ سن 1324 میں اس کا منفرد سفر حج تھا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ منسا موسیٰ کی حج کی تیاری کو لگ بھگ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ سونے کی تاروں سے مرصع شاہی خیمے بنائے گئے۔اہل خانہ کے لئے سفری محل بنایا گیا۔
موسیٰ کے ذہین ترین درباریوں نے ہزاروں خیموں پر مشتمل ایک بے مثال چلتا پھرتا شہر بنا ڈالا۔منسا موسیٰ کو سب سے زیادہ شہرت اس سفر حج کی وجہ سے ملی۔یہ سفر اس قدر پر شکوہ تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسیٰ کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک اس کے نام کے چرچے ہونے لگے۔ اور لوگ اس کے قافلے کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
لوگوں نے دیکھا کہ منسا موسیٰ کے قافلے کے ہمراہ ساٹھ ہزار افراد تھے۔جن میں سے بارہ ہزار اس کے غلام اور پیروکار تھے جنہوں نے چار چار پاؤنڈ سونا اٹھا رکھا تھا بقول ابن خلدون منسا موسیٰ کے قافلے میں اتنے زیادہ لوگ تھے کہ ان کاشمار مشکل تھا۔منسا موسی جس گھوڑے پر سوار تھا اس کے لئے سونے کی خصوصی لگامیں تیار کی گئی تھیں۔اسی طرح منسا موسیٰ کے آگے 500 افراد کا دستہ تھا جنہوں نے خوبصورت ریشمی لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور ہر ایک کے ہاتھ میں سونے کی ایک ایک چھڑی تھی۔ اس کیساتھ ساتھ اس قافلے میں 80 اونٹوں کا ایک کارواں بھی تھا جس کے ہر اونٹ پر 136کلو سونا لدا ہوا تھا۔
دراصل اس وسیع سلطنت میں سلطنت مالی دنیا کے آدھے سونے کی مالک تھی اور ان سب کا مالک منسا موسیٰ تھا۔ایک اندازے کے مطابق منسا موسیٰ نے 125ٹن سونا راہ خدا میں خرچ کیا تھا۔اس سفر کے دوران یہ جہاں سے گزرتا غرباء کی مدد کرتا ہر جمعہ کووہاں ایک مسجد تعمیر کراتا اور وہاں کے حاکم اور تاجروں کو ملتا اور انہیں سونے سے مالا مال کر دیتا۔ کہتے ہیں کہ قاہرہ اور مدینہ کے لوگوں نے اتنا سوناشاید خواب میں بھی نہ دیکھا ہو گا جتنا منسا موسیٰ اپنے ساتھ سفر میں لایاتھا۔ منسا موسیٰ اس سفر کے دوران مختلف ریاستوں کے بادشاہوں سے بھی ملتا ہوا جاتا۔مصر کے مملوک سلطان اور النصر محمد سے اس کی ملاقات تاریخ کے اوراق میں آج بھی زندہ ہے۔ابن خلدون کہتا ہے
''النصر محمد جیسا بادشاہ منساموسیٰ کے جاہ و جلال اور دولت کو دیکھ کر ششدر رہ گیا ‘‘۔
اس سفر کے دوران اس نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی برسوں تک گری رہیں۔اس زمانے میں غالباً مغربی افریقہ کے اس علاقے میں سونے کی کثیر تعداد پائی جاتی تھی۔
منسا موسی اس قدر فراخ دل، سخی اور شاہ خرچ تھا کہ جب مصر سے گزرا تو کہتے ہیں کہ اس نے غریبوں کو اتنے عطیات دئیے کہ علاقے میں افراط زر کی کیفیت ہو گئی۔ منسا موسیٰ مناسک حج سے جب واپس آ رہا تھا تو دربار میں سوال اٹھایاگیا کہ میں ان علاقوں کی معیشت کیسے بہتر کر سکتا ہوں کیونکہ میرا ارادہ تو نادار لوگوں کی مدد کرنا تھا۔جبکہ میرے علم کے مطابق ان علاقوں کے لوگ معاشی عدم استحکام کا شکار ہو گئے ہیں۔چنانچہ باہم مشورے سے اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ اسے سونا واپس کرنا چاہیں وہ اسے دوگنا قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔لوگوں نے اس ناقابل یقین پیشکش سے خوب فائدہ اٹھایااور خیرات اور امداد میں دیا گیا سونا دوبارہ اس کے پاس واپس آ گیا اور لوگوں کی معاشی حالت بھی بہتری کی جانب جانا شروع ہو گئی۔
منسا موسیٰ کے اس سفر کی وجہ سے اس کی دولت اور فیاضی کے چرچے چارسو پھیل گئے چنانچہ یورپ سے لوگ اس کے پاس صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا واقعی اس کے پاس اتنی کثیر دولت ہے جسکے چرچے چار سو ہیں جوق در جوق آنے لگے۔
جب منسا موسیٰ کے مال و دولت کی تصدیق ہو گئی تو اس کا نام کیٹلان کی اٹلس میں شامل کر لیا گیا ۔
معروف منی میگزین میں یونیورسٹی آف مشی گن کے ہسٹری کے پروفیسر روڈولف وئیر کے بقول
''یہ تاریخ کے اس امیر ترین شخص کی بات ہے جسکی دولت کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہ ہو تو پھر یہ سمجھ لینے کے علاوہ اور کوئی اور صورت باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ بہت زیادہ امیر ہے‘‘۔
اگرچہ منسا موسیٰ کی دولت کا آج کے دور میں تخمینہ لگانا مشکل ہے تاہم پھر بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی دولت آج کے 480 بلین ڈالر زسے بھی شاید زیادہ تھی۔