انسداد سگریٹ نوشی کا عالمی دن اور ’’گناہ ٹیکس‘‘
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تمباکو نوشی سے ہر سال 80 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ اس میں 12 لاکھ افراد وہ ہیں جو اپنے اردگرد تمباکو پینے والے افراد کے خارج کئے گئے دھوئیں سے ہلاک ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بچوں کی صحت کے حوالے سے اقوام متحدہ ہی کی ایک رپورٹ میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ سگریٹ کے دھوئیں سے 65 ہزار بچوں کی اموات واقع ہوئی ہیں۔ سگریٹ کے دھوئیں سے بچے بہت جلدی متاثر ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر سماعت میں کمی اور بہرے پن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تمباکو کی تمام اقسام انسانی صحت کیلئے خطرناک ہیں۔ڈبلیو ایچ او، یورپ کی ایک ٹیکنیکل آفیسر انجیلا سیو بانو کا کہنا ہے کہ، دوسرے لوگوں کے چھوڑے گئے سگریٹ کے دھوئیں میں سات ہزار سے زائد کیمیکل ہوتے ہیں جن میں سے ستر سے زائد کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔
تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کیلئے دوسروں کی جانب چھوڑے گئے دھوئیں سے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بیس سے تیس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تمباکو کا دھواں ارد گرد بیٹھے لوگوں کے دلوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ تمباکو نوشی گلے اور منہ کے کینسر کے ساتھ سانس کی متعدد بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ''گرینڈ ویو ریسرچ‘‘ کے ایک تجزیے کے مطابق دنیا بھر میں 2021ء میں تمباکو کی صنعت کا حجم 850 ارب ڈالر تھا۔
تمباکو کا پس منظر
تمباکو بنیادی طور پر ''نکوٹیانا‘‘ نامی پودوں کے تازہ پتوں کی پیداوار ہے۔ اس کی ابتدا امریکہ میں ہوئی اور اسے یورپ میں 1559ء میں فرانس میں پرتگال کے سفیر جین نکوٹ نے متعارف کرایا تھا۔یہ تیزی سے مقبول ہوااور اہم تجارتی فصل بن گئی۔
1900ء کی دہائی میں یہ واضح ہو گیا کہ تمباکو کے استعمال سے دل کے دورے، فالج، کینسر اور سانس کی متعدد بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے باعث تیزی سے بڑھتی ہوئی اموات کی وجہ سے 15 مئی 1987ء کو ڈبلیو ایچ او نے ایک قرار داد منظور کی جس میں 7 اپریل 1988ء کو سگریٹ نوشی کا عالمی دن منانے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ بعد ازاں 17 مئی 1989ء کو ہر سال 31 مئی کو '' انسداد تمباکو نوشی‘‘ کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد اب باقاعدگی سے دنیا بھرمیں یہ دن ''انسداد تمباکو نوشی‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں سگریٹ کا بڑھتا رجحان
پاکستان میں سگریٹ نوش افراد کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے جبکہ عالمی سروے رپورٹس کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ شرح کمی کی طرف جارہی ہے۔ایک سروے کے مطابق ہر روز چھ سے پندرہ سال تک عمر کے 1200 پاکستانی بچے سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہے۔ نوجوانوں بالخصوص نابالغ افراد میں سگریٹ نوشی کا بڑھتا رجحان ان کی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 3لاکھ 37ہزار افراد براہ راست یا بالواسطہ طور پر تمباکو نوشی کی وجہ سے لگنے والی بیماریوں کا شکار ہو کر مرجاتے ہیں۔
دنیا میں سگریٹ نوشی کی شرح
کیری باتی جزیرہ: یہ جزیرہ سگریٹ نوشی میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ بحرالکاہل کے اس جزیرے کی آبادی تقریباً ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے 66 فیصد بالغ مرد اور 32 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔
مونٹی نیگرو : اس کی آبادی 6 لاکھ 33ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ اپنے براعظم میں سب سے زیادہ سگریٹ نوش افراد پر مشتمل ہے۔ اس کی 46 فیصد آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے۔
یونان: یونان سگریٹ نوشی کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے۔اس کی کل آبادی کے 53 فیصد مرد جبکہ 35 فیصد خواتین سگریٹ نوش ہیں۔
مشرقی تیمور : مشرقی تیمور کی کل آبادی میں سے 80فیصد مرد، جبکہ صرف 6 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔
روس : روس کی کل آبادی کے 60 فیصد مرد جبکہ 15 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔
ڈنمارک : ڈنمارک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عورتیں اپنے ملک کے مردوں سے زیادہ سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔یہاں عورتوں کا تناسب 19.3 فیصد جبکہ مردوں کا تناسب 18.9 فیصد ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ سگریٹ نوشی
گنتی کے اعتبار سے چین دنیا کا سب سے زیادہ سگریٹ بنانے اور پینے والا ملک ہے۔یہاں کل دنیا کے 33 فیصد سگریٹ نوش پائے جاتے ہیں جبکہ 140 کروڑ سے زیادہ آبادی کے اس ملک میں 30 کروڑ سے زائد افراد یعنی کل آبادی کے 21 فیصد افراد سگریٹ نوش ہیں۔ کل دنیا کے ایک تہائی سگریٹ نوش صرف چین میں رہتے ہیں۔
سب سے کم سگریٹ نوشی کہاں ؟
نائجیریا، ایریٹیریا ، پاناما ، گھانا اور ایتھوپیا وہ ممالک ہیں جہاں دنیا میں سب سے کم سگریٹ نوش بستے ہیں۔
'' گناہ ٹیکس‘‘ کا نفاذ :
عالمی ادارہ صحت پاکستان کو بار بار متنبہ کرتا آرہا ہے کہ 6 سے 15 سال تک کی عمر کے1200 بچے ہر سال سگریٹ نوشی کی لعنت میں پڑرہے ہیں۔ اگرچہ ہمارے اکابرین ہر سال سگریٹ کی قیمتیں بڑھا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب یہ تعداد خودبخود کم ہو جائے گی ، جبکہ یہ قیاس حقیقت کے برعکس ہے ۔اس سلسلے میں 2017ء میں تھائی لینڈ میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب حکومت نے اچانک ملک میں سگریٹ پر ایک نیا ٹیکس عائد کر دیا، جسے وہاں کے میڈیا نے ''گناہ ٹیکس‘‘ کا نام دے ڈالا۔اور اب یہ اسی نام کی شناخت سے جانا جاتا ہے۔ اس نئے ٹیکس کے نفاذ کے بعد مذکورہ بالا اشیاء کی قیمتوں میں 40 فیصد تک اضافہ ہوا تاہم استعمال میں اضافہ رک نہ سکا۔
حرف آخر : حکومت وقت کو چائیے کہ وہ عالمی رپورٹس کے تناظر میں والدین کے ساتھ مل کر نابالغ افراد کی سگریٹ نوشی کی عادت کے ساتھ ہنگامی طور پر آہنی ہاتھوں سے نمٹے تاکہ کم عمر نوجوان نسل کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔