غذا سے تیرابیت کا تدراک

غذا سے تیرابیت کا تدراک

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر بلقیس


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

معدے میں تیزابیت کا مسئلہ یوں تو پوری دنیا میں ہے لیکن ان ممالک میں زیادہ ہے جہاں مرغن، مصالحے دار اور تیزابی غذائیں رغبت سے کھائی جاتی ہیں۔ بعض غذائیں ایسی ہیں جن کے استعمال سے تیزابیت کی شکایت کوکم کیا جا سکتا ہے۔
ادرک تیزابیت کے خلاف بہت مؤثر ہے۔ ادرک میں اینٹی آکسیڈنٹ اور رد سوزش خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ تیزابیت کے ساتھ یہ سینے کی جلن، بدہضمی اور پیٹ کے دیگر امراض میں بھی مفید ہے۔ اگر کسی کو تیزابیت کے ساتھ ساتھ سینے میں جلن کی شکایت بھی ہے توادرک کا قہوہ بنا کر پینے سے افاقہ ہو سکتا ہے۔ تازہ ادرک کاچھوٹا ٹکڑا دیگر غذاؤں کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔
سبز پتوں کی سبزیاں جیسا کہ پالک، پودینا، دھنیا، میتھی اور بندگوبھی وغیرہ کو اپنی روزمرہ غذا کا حصہ بنا کر تیزابیت کو دور بھگایا جا سکتا ہے۔ اگر انہیں مرغن اور مصالحے دار بنا کر کھایا جائے گا تو فائدہ نہیں ہو گا۔
سینے میں جلن اور تیزابیت کی شکایت ہو تو ایک پیالہ دہی استعمال کر لیں۔ دہی میں کیلا یا خربوزہ ڈال کر آپ اس کی افادیت میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔
کیلے میں الکلائن موجود ہوتا ہے اسی لئے یہ تیزابیت میں مفید رہتا ہے۔ کسی بھی ایسے مسئلے کی صورت میں آپ ایک سے دوکیلے کھا سکتے ہیں۔ ذائقے میں کیلا مزیدارہوتا ہے اس لئے رغبت سے کھایا جاتا ہے۔
جن افراد کو تیزابیت کا مسئلہ درپیش ہو، انہیں ناشتے میں جوکا دلیہ کھانا چاہیے۔ اس میں پایا جانے والا ریشہ اپھارہ کے خاتمے میں مدد دیتا ہے۔ یہ پیٹ میں موجود اضافی تیزاب کو جذب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس مسئلہ کیلئے کچھ اور ریشے سے لبریز غذائیں بھی مفید ہیں۔
خربوزہ الکلائن پھل ہے۔ تیزابیت کی صورت میں اسے استعمال کریں، فائدہ دے گا۔ یہ نظام انہضام کیلئے بہت مفید ہے، اس کے استعمال سے فوری آرام آتا ہے۔
آلو بھی مفید ہیں، لیکن یہ تلے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں۔ جڑ والی دیگر سبزیاں بھی فائدہ دیتی ہیں۔
مچھلی اور سمندری خوراک (سی فوڈ) معدے کی تیزابیت میں فائدہ مند ہیں لیکن انہیں تلا ہوا یا مصالحے دار نہیں ہونا چاہیے۔
پارسلے:پارسلے کو ڈشز سجانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ تیزابیت سے نجات دلانے میں بھی اہم ہے۔ دراصل اسے سیکڑوں برسوں سے اس مقصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کے معروف شہروں کے نک نیم

دنیا کے معروف شہروں کے نک نیم

دنیا کے چند مشہور شہر اپنی منفرد خصوصیات، تاریخی اہمیت، ثقافتی ورثے اور معاشی یا سیاحتی اہمیت کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔اسی طرح کچھ شہر ایسے بھی ہیں جو اپنے اصل نام کے بجائے دیگر ناموں سے مشہور ہیں۔ جنہیں ہم ان کے نک نیم بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے شہروں کی فہرست تو بہت لمبی ہے ، جن میں سے ہم چند شہروں کا ذکر اپنے اس مضمون میں کریں گے۔ قاہرہ... ہزار میناروں کا شہر قاہرہ مصر کا وہ شہر ہے جو فنون، موسیقی اور فلم کا مرکز ہے۔اسے دنیائے عرب کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جدید قاہرہ کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی اور یہ شہر اسلامی تعمیرات سے مالا مال ہے۔ مسلمانوں نے بہت سی مساجد تعمیر کیں اور مساجد میں میناروں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی لیے قاہرہ ''ایک ہزار میناروں کا شہر‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ کراچی...روشنیوں کا شہرآبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ''روشنیوں کا شہر‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ ملک کا صنعتی مرکز اور اہم ترین بندرگاہ ہے، اسی لیے زندگی کی گہماگہمی یہاں شب و روز جاری رہتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کراچی جب ایک چھوٹے سے قصبے سے بڑا شہر بننے کے سفر کی جانب گامزن تھا تو اس کی سڑکیں لیمپوں سے روشن رہتی تھیں۔ یہاں بجلی کا انتظام بھی قیام پاکستان سے قبل ہو چکا تھا۔نیویارک...بڑا سیبامریکی شہر نیویارک کے کئی نک نیم ہیں۔ جیسا کہ کبھی نہ سونے والا شہر، گوتھم،عالمی دارالحکومت اورنیا ایمسٹرڈیم۔ نیویارک کا سب سے مقبول عرفی نام غالباً ''بڑا سیب‘‘ (دی بِگ ایپل) ہے۔یہ اصطلاح 1900ء کی دہائی کے اوائل سے تحریر میں آ رہی تھی اور اسے سب سے پہلے ''دی وے فیئر اِن نیویارک‘‘ کے مصنف ایڈورڈ ایس مارٹن نے لکھا۔ لیکن اسے شہرت 1920ء کی دہائی میں ملی۔ صحافی جان جے فٹز گیراڈ نے گھڑدوڑ پر ایک کالم لکھنا شروع کیا جس کا نام ''بڑے سیب کے گرد‘‘ (اِراؤنڈ دی بگ ایپل) رکھا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں سیاحت کے فروغ کے سلسلے میں چلائی جانے والی ایک مہم کے بعد اس عرفی نام نے ایک بار پھر مقبولیت پائی۔ ٹورنٹو...گدلا یارک آبادی کے لحاظ سے کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورنٹو کا عرفی نام ''گدلا یارک‘‘ (مڈّی یارک) ماضی جتنا مقبول نہیں رہا اور اس کی وجہ بھی ہے۔ ماضی میں جب شہر کی نکاسی کا انتظام نہیں ہوا تھا تو یہاں کیچڑ وغیرہ بہت ہو جایا کرتی تھی۔ تب اسے زیادہ تر ''مڈی‘‘ یا گدلا کہا جاتا تھا۔ اس میں یارک کا اضافہ ان دنوں کی یادگار ہے جب شہر نوآبادی تھا اور شہزادہ فریڈرک، ڈیوک آف یارک کے اعزار میں شہر کا نام ''ٹاؤن آف یارک‘‘ رکھا گیا تھا۔سڈنی...بندرگاہ شہر آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر سڈنی واقع ہے۔ اس شہر نے بطور بندرگاہ بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے وسیع ساحلوں سے لوگ چہل قدمی، سرفنگ اور کئی دیگر طریقوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ ساحل پر بہت سی مشہور عمارتیں ہیں جن میں سڈنی اوپیرا ہاؤس کو عالم جانتا ہے۔لاس ویگاس...گناہوں کا شہرامریکی شہر لاس ویگاس رات کو جاگتا ہے اور اس دوران جواخانوں اور کلبوں میں گہماگہمی ہوتی ہے۔ سالانہ کروڑوں افراد اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے یہاں آتے ہیں اور اسی لیے اسے گناہوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ پیرس...محبت کا شہرجانے سبب ''زبانِ محبت‘‘فرانسیسی ہے یا شہر کا رومانوی ماحول، پیرس محبت کے شہر کے عرفی نام سے جانا جاتا ہے۔ انسان، فن، ادب، سماجی علوم اور فلسفے سے محبت کے مارے پیرس کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں اور اسی لیے پیرس نے بہت سے نامور لوگ پیدا کیے۔ ویانا...خوابوں کا شہر آسٹریا کا شہر ویاناخوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے اور موسیقی کا شہر بھی۔ یہ آبادی کے لحاظ سے یورپ کے بڑے شہروں میں شامل ہے۔ اسے شاہی شہر بھی کہتے ہیں کیونکہ سلطنت کے مرکز کی حیثیت سے یہاں بادشاہوں نے قیام کیا۔ معروف ماہر نفسیات اور تحلیلِ نفسی کے بانی سگمنڈفرائڈ کا قیام یہیں تھا، اس لیے اسے خوابوں کا شہر کہتے ہیں۔ فرائڈ کے نظریات میں خوابوں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اُشوایا... دنیا کا اختتام اگر جنوب کی طرف جائیں تو بالآخر آپ انٹارکٹیکا یا قطب جنوبی جا پہنچیں گے۔ وہاں قدم رکھنے سے قبل ارجنٹائن کا ایک شہر اُشوایا آئے گا۔ مقامی زبان میں اس کا عرفی نام ''ال فِن ڈل مونڈو‘‘ یعنی ''دنیا کا اختتام‘‘ ہے۔ اگرچہ اس سے آگے جنوب میں، کہیں چھوٹی آبادی پورٹو ولیمز (چلی) کے نام سے موجود ہے، لیکن مذکورہ عرفی نام سے مشہور یہی شہر ہے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے ارجنٹائن کی حکومت اس نام کو خوب استعمال کرتی ہے۔

سرسٹیم فورڈریفلز سنگا پور کا بانی

سرسٹیم فورڈریفلز سنگا پور کا بانی

سٹیم فورڈ ریفلز (Stamford Raffles ) ایک برطانوی نوآبادیاتی منتظم اور سفارت کار تھے جو سنگاپور کے بانی کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ 19ویں صدی میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک نمایاں رکن تھے اورانہوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی مفادات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا پورا نام سر تھامس سٹیم فورڈ بینگلے ریفلز تھا۔ وہ 6 جولائی 1781ء کو پیدا ہوئے اور 5 جولائی 1826ء کو وفات پائی۔ انہیں 1816ء میں ''سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ قرض میں گھرے ہوئے ماحول میں پلا بڑھا۔ 14 برس کی عمر میں اسے سکول چھوڑنا پڑا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوا تاکہ اپنی ماں اور چار بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اگرچہ اس کی رسمی تعلیم ناکافی تھی، لیکن اس نے فارغ وقت میں سائنس اور بہت سی زبانوں کا مطالعہ کیا اور تاریخِ طبیعی (نیچرل ہسٹری) میں دلچسپی لینے لگا جس کے باعث بعدازاں اسے امتیازی مقام حاصل ہوا۔ اپنی محنت سے وہ اتنا نظروں میں آیا کہ 23 برس کی عمر میں نئی تشکیل پانے والی حکومتِ پینانگ میں اسسٹنٹ سیکرٹری تعینات کر دیا گیا، قبل ازیں یہ آبنائے ملاکا کے شمالی داخلی راستے پر ایک غیر معروف جزیرہ تھا۔ پینانگ کو ایسٹ انڈیز میں برطانویوں کے پاؤں جمانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہاں ریفلز نے بحرالجزائر میں پھیلے ملاوی لوگوں کی زبان، تاریخ اور ثقافت کے بارے میں گہرائی سے جان کاری حاصل کی، اسی سے بعدازاں اس کے کیرئیر کی تشکیل ہوئی۔ وہ تب گورنر جنرل انڈیا لارڈ منٹو کی نظروں میں آیا جب ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی کیونکہ نپولین جاوا کو برطانیہ کے سست رفتار سامان بردار جہازوں کی تباہی کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ منٹو جاوا سے فرانسیسی اثر ختم کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے تھا۔ منٹو نے بحری حملے کی تیاری کے لیے ریفلز کو اپنا ایجنٹ نامزد کیا۔ ریفلز نے ملاکا میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ اپنے غیر معمولی کام پر بطور انعام اسے منٹو کے سٹاف میں شامل کر لیا گیا۔ اس نے منٹو کے ساتھ جاوا کا بحری سفر بھی کیا، جہاں وہ کسی حادثے کا شکار ہوئے بغیر چھ اگست 1811ء کو پہنچے۔ ولندیزوں اور فرانسیسیوں سے مختصر مگر تند لڑائی کے بعد انہوں نے جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ منٹو نے جیت کا خاصا کریڈٹ ریفلز کو دیا۔ وہ اسے پہلے ہی ''بہت چالاک، قابل، سرگرم اور سمجھ دار انسان‘‘ قرار دے چکا تھا لیکن اب اس کی دانشورانہ اور انتظامی اہلیت کا بھی قائل ہو گیا تھا۔ 11 اکتوبر کو اس نے اسے جاوا کا لیفٹیننٹ گورنر بنا دیا۔ کچھ عرصہ بعد 30 برس کی عمر میں ریفلز کو نہ صرف جاوا بلکہ بہت سے جزائر پر مشتمل اور کروڑوں کی آبادی والی سلطنت کا حاکم بنا دیا۔ ریفلز نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا جن کا مقصد ولندیزی نوآبادیاتی نظام کو بدلنا اور مقامی آبادی کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ مگر اس کی اصلاحات منافع کو اولیت دینے والی تجارتی کمپنی کو بہت مہنگی پڑیں اور زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکیں۔ ساڑھے چار سال بعد زیادہ بیمار رہنے اور اپنی بیوی کے انتقال سے صدمے میں آنے کی وجہ سے اسے واپس بلا لیا گیا۔ منٹو کی موت کے بعد اس پر نجی حملے کیے گئے جن سے بچانے والا اب نہ رہا تھا۔ 25 مارچ 1816ء کو اس نے انگلستان کا بحری سفر کیا۔ اسے سابقہ اعتماد پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ لندن میں جدت پسند اور اہل علم دونوں حلقوں میں اسے کامیابیاں ملیں اور انہیں کی مدد سے اسے رائل سوسائٹی کا فیلو منتخب کیا اور ''سر‘‘ کا خطاب دیا گیا، اس نے مشرق میں سماٹرا کے مغربی ساحل پر بنگکولو کی بندرہ گاہ کے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں مگر اس کے اختیارات محدود تھے۔ تاہم بنگکولو سے ہی اس نے انڈونیشیائی جزائر پر ولندیزوں کے دوبارہ قبضے اور مکمل کمرشل اجارہ داری کا مشاہدہ کیا۔ پھر اس نے جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اگلا قدم اٹھایا۔ اس نے مشرقی امور میں اپنے وسیع علم اور قائل کرنے کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے لارڈ ہیسٹنگ کو راضی کیا مشرق بعید میں برطانوی تجارت کے تحفظ کے لیے فوری اور بھرپور کارروائی ضروری ہے۔ ہیسٹنگ اس وقت انڈیا کا گورنر جنرل تھا۔ سات دسمبر 1818ء کو اس نے کلکتہ کا سفر کیا۔ اس کے پاس ہیسٹنگ کا عطا کردہ اختیار نامہ تھا جس کے تحت آبنائے ملاکا کے مشرق کی طرف اس نے ایک قلعہ بند چوکی قائم کرنی تھی تاکہ چینی سمندروں کا راستہ محفوظ بن سکے۔ 29جنوری 1819ء کی صبح وہ ملایا کے جنوبی کونے پر ایک ایسے جزیرے پر اترا جس کی آبادی بکھری ہوئی تھی۔ اسے ولندیزوں سے ٹکراؤ کا خطرہ تھا، مگر اس نے ایک معاہدے کے تحت یہاں سنگاپور کی بندرگاہ قائم کر لی۔ اگرچہ وہ بنگکولو میں اپنے عہدے پر تین برسوں کے لیے واپس آ گیا، لیکن اکتوبر 1822ء میں واپس سنگاپور چلا گیا، جہاں اس نے انتظامیہ کی شاخوں کو ازسرنو منظم کیا۔ 1823ء میں اس کے جاری کردہ قواعد و ضوابط میں کہا گیا ہے، ''سنگاپور کی بندرگاہ آزاد بندرگاہ ہو گی، اور یہاں ہر ملک کی کشتیاں اور بحری جہاز آ سکتے ہیں، یہ سب کیلئے برابر اور ایک جیسی ہے‘‘۔17 مارچ 1824ء کو ولندیزی سنگاپور پر اپنے تمام دعوؤں سے دست بردار ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ریفلز کی صحت تیزی سے بگڑ رہی تھی، اسے سر میں شدید درد اٹھتے تھے۔ وہ 22 اگست 1824ء کو انگلستان واپس پہنچا۔ اس نے لندن کے چڑیا گھر کی بنیادیں رکھنے میں مدد دی۔ اسے اس چڑیا گھر کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ جولائی 1826ء کو دماغی رسولی سے اس کا انتقال ہوا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

دنیا کی پہلی جوہری آبدوز21جنوری1954ء کو جوہری طاقت سے چلنے والی دنیا کی پہلی آپریشنل آبدوز ''نوٹیلس یو ایس ایس‘‘ (Nautilus USS) کو لانچ کیا گیا ۔ 3اگست1958ء کو اس آبدوزنے زیر آب قطب شمالی کا سفر مکمل کیا۔ اس کا ابتدائی کمانڈنگ آفیسر یوجین ڈینس تھا ۔جس نے امریکہ کی آج کی نیوکلیئر بحریہ کے بہت سے پروٹوکولز کو ڈیزائن کیا، جنہوں نے آگے چل کر بہت سے آفیسرز کیلئے رہنمائی پیدا کی۔یہ دنیا کی پہلی آبدوز تھی جس میں تھرمل ری ایکٹر کا استعمال کیا گیا تھا تاکہ یہ طویل عرصے تک زیر سمندر رہ کر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکے۔فرانس کے شاہ لوئس کو پھانسی21 جنوری 1793ء کو فرانس کے شاہ لوئس XVI کو پھانسی دی گئی۔ یہ کسی بادشاہ کو پھانسی دینے کا فرانسیسی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔لوئس کو یہ سزا غداری کے صلے میں دی گئی۔ 23 اگست 1754ء کو پیدا ہونے والا وہ انقلاب فرانس کے دوران بادشاہت کے خاتمے سے پہلے فرانس کا آخری بادشاہ تھا۔ 10مئی 1774ء کو بادشاہت کا تاج اس کے سر سجا اور 21 ستمبر 1792ء کو بادشاہت کے خاتمے تک اس نے حکومت کی۔ لوئس XVI کے دور حکومت کا پہلا حصہ روشن خیالی کے نظریات پر مبنی تھا۔ غیر کیتھولک کے تئیں رواداری بڑھانے کے ساتھ ساتھ صحرائیوں کیلئے سزائے موت کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ماؤنٹ لیمنگٹن دھماکےجنوری 1951ء کے اوائل میں پاپوا اور نیوگنی کے علاقے میں واقع ایک آتش فشاںمیں، چھوٹے دھماکوں اور زلزلوں کے ایک سلسلے نے ماؤنٹ لیمنگٹن کو ہلا کر رکھ دیا۔ پھٹنے سے قبل پودوں کے گھنے احاطے کی عدم موجودگی کی وجہ سے ماؤنٹ لیمنگٹن کو آتش فشاںں تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ 15جنوری سے آتش فشاں میں سرگرمیاں تیز ہوئیں اور چھوٹے دھماکے شروع ہوئے۔ سب سے بڑا دھماکہ 21 جنوری 1951ء کو ہوا۔ صبح سویرے ہونے والا یہ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کا سیاہ لاوا فضا میں50ہزار فٹ تک بلند ہوا۔ پھٹنے سے لاوے کا ایک گنبد بن گیا اور ایک مہلک پائرو کلاسٹک بہاؤ پیدا ہوا جس سے تقریباً3ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔ سوویت ،فن لینڈ عدم جارحیت معاہدہسوویت ،فنش عدم جارحیت معاہدہ دراصل ایک غیر جارحیت معاہدہ تھا، جس پر فن لینڈ اورسوویت یونین کے نمائندوں نے 21جنوری1932ء کو دستخط کئے۔اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر1939ء میں سوویت یونین نے مینیلا میں ترک کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین نے اپنے ہی علاقے میں موجود ایک گاؤں پر گولا باری کی اوراس کا الزام فن لینڈ پر لگا دیا اور اسی واقعہ کو وجہ بنا کر سوویت یونین نے عدم جارحیت معادہ ختم کر دیا۔سوویت یونین نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کیلئے بہت سے یورپی ممالک کے ساتھ اسی طرز کے معاہدے کئے تھے۔ 

کمزاریہ۔۔دنیا کی ایک عجیب و غریب زبان

کمزاریہ۔۔دنیا کی ایک عجیب و غریب زبان

اگر ہم دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی بات کریں تو علاقائی زبانوں سمیت ان کی تعداد 17 سے 18 ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ اگر ذکر صرف بڑی زبانوں کا کیا جائے تو اس وقت انگریزی دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں بولی جانے والی زبان ہے، جسے 1 ارب 42 کروڑ افراد بولتے ہیں۔ چینی زبان دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جسے 1 ارب 12کروڑ افراد بولتے ہیں۔ ہندی دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے جسے 60 کروڑ افراد بولتے ہیں۔ عربی دنیا کی پانچویں بڑی زبان ہے جو 27 کروڑ لوگوں کی زبان ہے جبکہ اردو دنیا کی دسویں بڑی زبان ہے جسے 23 کروڑ لوگ بولتے ہیں۔ جبکہ سلطنت آف عمان کی ایک علاقائی زبان ''کمزاریہ‘‘ دنیا کی سب سے کم بولی جانے والی زبان ہے جو صرف چار ہزار لوگ بولتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زبان کا انسانی ذہنی ارتقاء سے خاصا گہرا تعلق ہوتا ہے۔لیکن ایک عرصہ تک ماہر لسانیات اکثر اسی کھوج میں لگے رہے کہ کیا زمانۂ قدیم کی زبان ایک تھی ؟ اور اگر ایک تھی تو پھر وقت کے ساتھ ساتھ زبانیں مختلف کیوں ہوتی چلی گئیں ؟۔ایک عرصہ تک انسان اس کھوج میں الجھا رہا لیکن اب سے کچھ عرصہ پہلے کیلیفورنیا کی یونیورسٹی آف سٹینفرڈ کے ماہر لسانیات میرٹ رولن جو دنیا کے سب سے بڑے ماہر لسانیات کی شہرت بھی رکھتے ہیںنے بتایا کہ جدید جینیاتی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ لگ بھگ 50 ہزارسال قبل انسانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ مشرقی افریقہ سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گروہ ایک ہی زبان بولتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے علاقائی اور موسمی تغیرات کے زیر اثر انسانی رنگ روپ اور خدوخال میں تبدیلیاں آتی گئیں، ویسے ہی یہ ابتدائی زبان مختلف خطوں میں جا کر بدلتے بدلتے ہزاروں مختلف اور باہم ناقابل فہم زبانوں میں بدلتی چلی گئی۔جہاں تک لسانی یا علاقائی زبانوں کا تعلق ہے یہ بعض اوقات دو تین یا کئی دفعہ اس سے بھی کچھ زیادہ زبانوں کا مرکب ہوتی ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ قبل دنیا کے دو معروف ماہر لسانیات ایرک انوبی اور کرسٹینا انوبی جو ایک سال تک اس زبان کی تحقیق کی غرض سے ''کمزار‘‘ (Kumzar) نامی دنیا سے الگ تھلگ ایک ایسے علاقے میں رہے جہاں کی زبان کو ''کمزاریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف بولی جاتی ہے لکھی نہیں جاتی۔ صدیوں پرانی یہ زبان دنیا کی منفرد اور عجیب ترین زبان ہی نہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ زبان 45 مختلف زبانوں کا ملغوبہ ہے۔ اس بات کی تصدیق فرانس کی معروف نئوز ایجنسی '' یورو نیوز‘‘ نے بھی ایک تحقیق میں کی ہے کہ کمزاریہ 45 زبانوں کا مرکب ہے۔ یہاں کے مقامی افراد کہتے ہیں کہ ہماری معلومات کے مطابق ''کمزاریہ‘‘ زبان عربی، قدیم فارسی، قدیم عراقی، شامی، ترکی،اکادیان، انگریزی، اسیرئین،ہندی، فرنچ، پرتگالی اور بلوچی وغیرہ کا مرکب ہے جو صرف اسی خطے میں بولی جاتی ہے دنیا میں کہیں اور نہیں بولی جاتی۔یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی بولنے والوں کو اس کے بیشتر الفاظ جانے پہچانے لگتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کمزاریہ میں فارسی اور عربی کے الفاظ بھی جا بجا ملتے ہیں۔ایک اورچیز جو اس زبان کو دوسری زبانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا لہجہ اور ادائیگی کا انداز ہے۔ ماہرین اس انداز کو قرون وسطیٰ کے دور سے جوڑتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی ثقافت نے جس طرح مختلف زبانوں کے ملغوبے ''کمزاریہ‘‘ کو اپنے اندر سمویا ہے اور اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان عربی سے محفوظ رکھا ہے دنیا بھرکے ماہرین لسانیات ابھی تک اس راز کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔4ہزار نفوس پر مشتمل کمزاریہ بولنے والوں کا یہ چھوٹا سا جزیرہ نما گائوں ''کمزار‘‘ کہلاتا ہے۔ کمزار کہاں ہے ؟ عمان کے شمال میں واقع کمزار نامی چھوٹا سا جزیرہ نما گاؤں صوبہ مسندم کے علاقے میں واقع ہے۔ اس گاؤں کے دائیں، بائیں اور پچھلی جانب اونچے اونچے پہاڑ جب کہ سامنے حد نگاہ سمندر ہے۔یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمان کے اس شہر کا کوئی حصہ عمان کے ساتھ نہیں لگتا بلکہ یہ ایک حد تک عرب امارات سے ملا ہوا ہے۔اس شہر کے سامنے سمندر، دائیں جانب امارات کا صوبہ فجیرہ کا علاقہ دبہ جبکہ بائیں جانب راس الخیمہ واقع ہیں۔ کمزار کی مخصوص شناخت کی بڑی وجہ اس کا منفرد جغرافیہ ہے جو عمان کے دوسرے علاقوں سے کم وبیش ایک سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔اس کی جغرافیائی ساخت ، ساحلی پٹی اور گہری کھائیوں کی وجہ سے سیاحوں نے اسے ''عربی ناروے‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اگر اس خطاب میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ ناروے کے ساحل کی چٹانیں صدیوں پہلے گلیشیئرز کی شکست و ریخت سے وجود میں آئی تھیں جبکہ یہاں کی چٹانیں زیر زمین ٹیکٹونک پلیٹ کے ٹکرانے کے باعث وجود میں آئی تھیں۔ایک طرف کمزار کے سمندر میں واقع گہری کھائیاں چونکہ سمندر کے اندر آبنائے ہرمز میں کھلتی ہیں جبکہ دوسری جانب یہ ایران کی سرحد کو چھو رہی ہوتی ہیں۔ان کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے کیونکہ سال کے آٹھ نو مہینے مچھلیاں سمندری کھائیوں میں رہتی ہیں۔جب مچھلیاں ختم ہو جاتی ہیں تو یہ لوگ قریبی شہر خصب میں تازہ کھجوریں اتارنے چلے جاتے ہیں۔ کمزاری خطے کے باقی لوگوں سے الگ تھلگ ہونے کے باوجود خود انحصاری پر یقین رکھنے والی قوم ہے۔یہ لوگ معاشی طور پر خودکفیل ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکول ، اسپتال اور نمکین پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ ان کا اپنا ہے۔ کھیل کے میدان میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ان کی فٹ بال ٹیم دنیا کی اچھی ٹیموں میں شمار ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ اب یہاں کے بزرگ انٹر نیٹ اور ٹیلی وژن سے بہت پریشان رہنے لگے ہیں کیونکہ اب روزمرہ زندگی میں عربی زبان تیزی سے گھستی جا رہی ہے جس کے سبب نئی نسل اپنی مادری زبان کی بجائے عربی کو ترجیح دینے لگ گئی ہے۔ اس گائوں تک پہنچنے کے دو ہی طریقے ہیں، ایک بذریعہ ہیلی کاپٹر اور دوسرا روائتی سمندر کے ذریعے بذریعہ کشتی۔ بذریعہ سمندر تیز ترین راستہ بوٹ کا ہے جو ایک گھنٹے میں خصب سے یہاں پہنچا دیتی ہے جبکہ دوسرا روائتی ذریعہ بادبانوں والی کشتی '' بو‘‘کا ہے جو اڑھائی گھنٹوں میں پہنچاتی ہے۔ '' کمزاری‘‘ کے عقائد و رسوم کمزاری ثقافت میں سمندر کی چھاپ بہت گہری ہے،یہاں کی عام بول چال میں بھی سمندری ماحول کا اثر نمایاں ہے۔ ویسے بھی ان کے روزمرہ معمولات اور رسم و رواج کا براہ راست تعلق بھی سمندر اور موسم پر منحصر ہوتا ہے۔ ان کا صدیوں پرانا عقیدہ ہے کہ اگر سفر کے دوران اپنی کشتیوں پر گھونگے کی سیپی کو لٹکا دیا جائے تو اس کی برکت سے یہ ہر سمندری حادثے سے محفوظ ہو جائیں گے۔اکثر و بیشتر گھروں کے باہر سمندری گھونگے لٹکے نظر آتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کا گھر ہر قسم کی آفات سے محفوظ ہو گیا ہے۔ شادی کی رنگارنگ تقریبات کمزاری ثقافت پورے عرب میں شادی کی رنگارنگ تقریبات کیلئے مشہور ہے۔یہاں شادی کی رسمیں ایک ہفتہ سے لے کر دس دن تک، دن رات جاری رہتی ہیں۔صدیوں پرانی موسیقی اور رقص ان تقریبات کا لازمی جزو تصور ہوتا ہے۔ مہمان نوازی کمزاری صدیوں سے مہمان نوازی کی ثقافت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ مورخین کہتے ہیں کہ چونکہ تاریخی طور پر یہاں وہ ملاح وغیرہ پناہ لیتے رہے ہیں جن کی کشتیاں آبنائے ہرمز میں کسی حادثے کا شکار ہو جاتی تھیں یا ملاح بحری قذاقوں سے بچنے کیلئے اپنی کشتیاں گاؤں کے قریب گہری سمندری کھائیوں میں چھپا لیا کرتے یا مسافر میٹھے پانی کی تلاش میں اس گائوں میں آ نکلتے تھے ، جس سے نسل در نسل یہاں کے باسیوں کو مہمان نوازی کی عادت ورثے میں ملتی رہی ہے۔ 

حجاج بن یوسف مَطر

حجاج بن یوسف مَطر

علم ہندسہ کے ماہر، ریاضی پر متعدد کتب لکھیںحجاج بن یوسف بن مطر جوعلم ہندسہ میں کمال رکھتے تھے کا شمار بھی عظیم مسلمان سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اس نے دو بڑے کام کئے۔ مقدمات اقلیدس کے نام سے ایک جامع کتاب علم ریاضی میں مرتب کی۔ دوسرا کام اس کا قدیم دور کی مشہور کتاب الحسبعیٰ کو اصلاح اور نظرثانی کے بعد (ایڈٹ کرکے) مرتب کیا۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتحجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ کا ماہر تھا۔ اس فن میں انہوںنے کمال پیدا کیا۔ حجاج بن یوسف دیہات کا باشندہ تھا، والدین تو کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن حجاج نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی، پھر دیہات کے تنگ دائرے سے نکل کر786ء میں بغداد آ گیا اور یہیں بس گیا۔حجاج نے بغداد کے علمی ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بغداد کی علمی صحبتوں سے مستفید ہو کر اپنی قابلیت اور استعداد میں اچھا اضافہ کیا۔ حجاج نے ہارون الرشید اور مامون الرشید دونوں کا روشن دور دیکھا تھا، مگر وہ خاموش علمی کام کرتا رہا۔علمی خدمات اور کارنامےحجاج ایک بلند پایہ ریاضی دان تھا۔ اس نے دو بنیادی کام کئے، ایک تو علم ہندسہ یعنی جیو میٹری کا کام تھا اور دوسرا علم ہیئت سے متعلق تھا۔ اس نے ان دونوں علوم کو نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ جومیٹری میں اس نے نئے نئے انکشاف کئے اور اپنا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس وقت علم ہندسہ میں اس کا کوئی ہمسر نہ تھا۔علم ہندسہ میں ایک جامع کتاب ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے اس ریاضی دان نے مرتب کی۔ یہ ریاضی دانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔دوسرا کارنامہ اس کا علم ہیئت سے متعلق ہے۔ قدیم زمانے کی مشہور کتاب ''المحسبعیٰ‘‘ کو اصلاح اور تصحیح کے ساتھ نئی ترتیب سے اس نے مرتب کیا اور اس علم کو نئے انداز سے فروغ دیا۔ اہل یورپ نے حجاج کی دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھایا ''مقدمات اقلیدس‘‘ کا ترجمہ ملک ڈنمارک سے 1893ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کی کتابیں بیسویں صدی تک مدارس کی زینت بنی رہیں۔ حجاج نے اور بھی بہت سی کتابیں ریاضی پر لکھی ہیں۔ 

ابوالہول مصر کے آثار قدیمہ میں اہم عجوبہ

ابوالہول مصر کے آثار قدیمہ میں اہم عجوبہ

مصر کے آثار قدیمہ میں ابو لہول (Sphinx) بہت مشہور اور قدیم ہے۔ ابو الہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی''خوف کا باپ‘‘ ہیں۔ جیزہ(قاہرہ) کے عظیم الجثہ بت کا عربی نام، جس کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔ ابو الہول نام فاطمی دور میں رائج ہوا۔ اس سے قبل اس کا قبطی نام ''بلہیت‘‘ مشہور تھا۔ عہد قدیم میں لفظ''ابو الہول‘‘ کا اطلاق اس مجسمے کے سر پر ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے میں اس کا پورا دھڑ ریت میں دبا ہوا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بت ایک طلسم ہے جو وادی نیل کی حفاظت کرتا ہے۔قدیم مصری دیو مالا میں اس قسم کے مجسمے فراعنہ کی الوہیت کی علامت سمجھے جاتے تھے اور بعض مجسموں میں مینڈھے یا عقاب کا سر بھی بنایا جاتا تھا۔ جیزہ کا ابوالہول ایک ہی چٹان سے تراش کر بنایا گیا تھا جو خفرع کے ہرم کے نزدیک ہے۔ ابوالہول کا تصور دراصل یونانیوں نے مصر کے علم الاصنام یا دیو مالا سے مستعار لیا۔ یونانیوں کے نزدیک ابو الہول ایک پردارمادہ ببر شیر تھا جس کا چہرہ نسوانی تھا۔ یونانیوں کا کہنا تھا کہ ابوالہول یونان کے شہر ییوٹیا کی ایک اونچی پہاڑی پر رہا کرتی تھی۔ جو لوگ بھی اس کے سامنے سے گزرتے وہ انہیں ایک معمہ حل کرنے کو دیتی جو اس کا صحیح حل نہ بتا سکتا اس کو ہڑپ کر جاتی۔ بالآخر ایک تھبیس ہیرو اوڈی پس نے اس معمہ کا صحیح حل پیش کیا اور یوں اس کی موت کا سبب بنا۔ معمہ یہ تھا کہ وہ کون ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔ دوپہر کو دو ٹانگوں پر اور شام کو تین ٹانگوں پر۔ جو بھی اس معمہ کا حل نہ بوجھ سکتا اسے عفریت ہلاک کر ڈالتا۔ آخر اوڈی پس نے یہ معمہ حل کر لیا۔ اس پر سفنکس نے چٹان سے گر کر خود کشی کر لی اور اوڈی پس تھیبس شہر کا بادشاہ بن گیا۔ ابوالہول کی لمبائی 189 فٹ اور اونچائی 65فٹ کے قریب ہے۔ دور سے دیکھیں تو پہاڑ سا نظر آتا ہے۔ یہ مجسمہ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا، اس کی انسانی شکل کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فرعون (Khatre) کی شبیہ ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی شبیہ (Khatre) کے بجائے اس کے بھائی (Rededer) سے ملتی جلتی ہے۔ یہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 60میل دور جیزہ (غزہ) کے ریگستان میں موجود چونے کے پتھر (Lime Stone)کی پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جب یہ مجسمہ تیار ہوا ہوگا تو بہت ہی حسین نظر آتا ہوگا کیونکہ اس میں جا بجا رنگ استعمال کئے گئے۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کی شکل میں یہ رنگ نظر آتے ہیں۔ اس کے سر پر اب بھی فرعون کے روایتی رومال اور اس کے درمیان پیشانی پر ناگ کی شبیہ صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ناگ کی اس شبیہ کو قدیم مصری (Wadhet) کہتے تھے اور سر کے رومال کو اپنے دیوتا (Horus)کے پھیلے ہوئے دونوں پروں سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس مجسمہ کی ناک اور داڑھی بھی ٹوٹی نظر آتی ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ 820ء میں خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے عبداللہ مامون نے اہرام اعظم کے اندرونی حصے کی مکمل معلومات حاصل کرنے کیلئے اپنے کچھ ماہرین تعمیرات کے ساتھ مصر میں قدم رکھا۔ کافی عرصے تک جان توڑ کوشش کے باوجود بھی جب مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو غصے میں انہوں نے ابوالہول کے مجسمے کی ناک اور داڑھی کو توڑ ڈالا۔ یہ ٹوٹی ہوئی ناک قاہرہ کے عجائب گھر اور داڑھی برطانیہ کے مشہور زمانہ برٹش میوزیم میں نمائش کیلئے رکھی ہے۔ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں کے درمیان سنگ خارا (Granite)کا ایک کتبہ موجود ہے جس کے مطابق فرعون (Tothmusis iv)جس نے 1420 قبل مسیح تک حکومت کی تھی۔ اس کی جوانی کا ایک واقعہ درج ہے کہ ابوالہول کے سامنے ریگستان میں شکار کھیلتے ہوئے ایک بار وہ تھکن سے چور ہو کر اس مجسمے کے سائے میں سو گیا۔ اس زمانے میں یہ مجسمہ ریگستان کی ریت میں کندھے تک دھنس چکا تھا اور اگر کچھ عرصہ اور اسی طرح رہتا تو شاید یہ مکمل طور پر ریت میں دھنس جاتا۔ قدیم مصریوں کے مطابق ابوالہول ان کے سورج دیوتا''راحو راختے‘‘ (Rahor-Akhte)کا دنیاوی ظہور تھا۔ یہ دیوتا سوئے ہوئے شہزادے کے خواب میں آیا اور اسے مخاطب کرکے یہ ہدایت دی کہ اگر شہزادہ اسے ریت کے اندر سے پوری طرح باہر نکال دے تو جلد ہی شہزادہ تاج و تخت کا مالک ہو جائے گا۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی شہزادے نے ایسا ہی کیا اور واقعی کچھ عرصے کے بعد وہ مصر کا شہنشاہ بن گیا۔ اسی واقعہ کی یاد میں اس فرعون نے یہ کتبہ ابو الہول کے اگلے دونوں پنجوں میں نصب کرایا۔ ابوالہول کے مجسمہ کی عمر کے بارے میں آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ فرعون خوفو کا دور تقریباً 2600ق م تھا۔ اس سے بھی پہلے یعنی تقریباً 3100 ق م فرعون مینیس (Menes) کا زمانہ تھا۔ اس قدیم دور سے بھی پہلے موجود عراق ((Sumerکی انتہائی ترقی یافتہ تہذیب انتہائی عروج پر پہنچی ہوئی قوم سمیرین (Sumeren) اپنی بہت ساری دستاویزات میں اہرام اور ابواہول کی موجودگی کی شہادتیں چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی شہادتیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابوالہول انسانی تعمیرات کا ایک انتہائی قدیم شاہکار ہے اور اس کی عمر کے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ کب، کس نے اور کیوں بنایا؟سورج دیوتا کی حیثیت سے اس کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ امتداد زمانہ سے اس کی صورت کافی بگڑ گئی ہے اور اس کا وہ ''پر وقار تبسم‘‘ جس کا ذکر قدیم سیاحوں نے کیا ہے ناپید ہو چکا ہے۔ اب یہ ایک ہیبت ناک منظر پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے عربوں نے اس کا نام ''ابوالہول‘‘ (خوف کا باپ) رکھ دیا ہے۔حکومت مصر نے یہاں سیاحوں کیلئے موسیقی اور روشنی کے شو کا انتظام کیا ہے۔ صحرا کی بے پناہ پہنائی میں ابوالہول کی پرہیبت آواز ماضی کے مزاروں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔