’’ٹوبیکو ہارم ریڈکشن‘‘
جس طرح ایٹمی ہتھیار اور ماحولیاتی آلودگی پوری دنیا کیلئے بڑے خطرات بن چکے ہیں، اسی طرح سگریٹ نوشی بھی ایک ایسا خاموش قاتل ہے جس سے زیادہ تر لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہر سال لاکھوں زندگیاں نگل رہی ہیں اور ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 60 ہزارافراد تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جو کہ ہمارے ملک کے صحت عامہ کے نظام پر ایک بڑا بوجھ ہے۔
پاکستان میں تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کیلئے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اقدامات اس حد تک موثر ثابت نہیں ہو سکے جتنی ہمیں ضرورت ہے۔ تمباکو سے متعلق بیماریوں کی روک تھام کیلئے ایک جامع اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سویڈن کی مثال ہمارے لیے ایک امید کی کرن بن سکتی ہے جہاں تمباکو کے نقصان کو کم کرنے کی حکمت عملی ''Harm Reduction‘‘کے ذریعے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔
''ٹوبیکو ہارم ریڈکشن‘‘(THR)ایک اہم حکمت عملی ہے جس کا مقصد تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ہے۔ جہاں سونگھنے والے تمباکوکا استعمال سگریٹ نوشی کے متبادل کے طور پر کیا گیا۔سویڈن کا یہ اقدام ایک انقلابی موڑ ثابت ہوا جس نے تمباکو نوشی کی شرح کو صرف5فیصد تک محدود کر دیا ہے۔ ماہرین نے اس کامیابی کی بڑی وجہ ''سنوس‘‘ نامی بے دھوئیں تمباکو کو قرار دیا جس نے سگریٹ نوشی سے ہونے والے نقصانات میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ سویڈن کی اس حکمت عملی نے دنیا بھر میں تمباکو کنٹرول کے ماہرین کی توجہ حاصل کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ تمباکو کے مضر اثرات میں کمی کی حکمت عملی زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں سگریٹ نوشی اور تمباکو کی دیگر مصنوعات کا استعمال بڑے پیمانے پر عام ہے۔ تقریباً23.9ملین (2کروڑ 39لاکھ) افراد باقاعدگی سے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جب کہ15.9ملین افراد دھوئیں کے بغیر تمباکو کا استعمال کرتے ہیں، اور 6.2 فیصد افراد ویپنگ کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے پیش نظر، مضر اثرات میں کمی کی حکمت عملی کو اپنانا پاکستان کیلئے ایک موثر اور اہم قدم ہو سکتا ہے۔نقصان میں کمی کی حکمت عملی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تمباکو کے کم مضر متبادل فراہم کیے جائیں تاکہ صحت کے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ سویڈن میں اس حکمت عملی نے ثابت کیا ہے کہ ای سگریٹ، نیکوٹین پاچز اور دیگر کم نقصان دہ مصنوعات کا استعمال تمباکو نوشی کے نقصانات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اسی طرح کے اقدامات کیے جائیں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ 2020 ء سے 2060 ء کے درمیان تقریباً 1.2ملین زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ جس کا عنوان ہے''Lives Saved: Integrating Harm Reduction into Tobacco Control‘‘ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصان میں کمی کی حکمت عملیوں کو تمباکو کنٹرول کی موجودہ پالیسیوں میں شامل کیا جائے، تو یہ تمباکو سے جڑی اموات میں بڑی حد تک کمی لا سکتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر نقصان میں کمی کے اقدامات کو پھیپھڑوں کے کینسر کی ابتدائی تشخیص اور علاج کے ساتھ ملا کر اپنایا جائے تو ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے نقصانات میں کمی کی حکمت عملیوں کو اپنانے کے بعد مختلف ممالک میں لاکھوں زندگیاں بچائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، بنگلہ دیش میں اس حکمت عملی کو اپنانے سے 9لاکھ 20 ہزار زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں جبکہ جنوبی افریقہ میں 3لاکھ 20ہزار اور قازقستان میں ایک لاکھ 65ہزار اموات کی روک تھام ممکن ہے۔پاکستان میں تمباکو سے جڑی بیماریوں کو کم کرنے کیلئے ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ تمباکو کے نقصان دہ اثرات کو کم کرنے والی مصنوعات، جیسے نیکوٹین پاچز، ای سگریٹ، اور دیگر متبادل عوام کو بہتر صحت کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں تمباکو کنٹرول کی موجودہ کوششوں میں نقصان میں کمی کی حکمت عملی کو شامل کرنے سے ہم سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور اموات میں نمایاں کمی دیکھ سکتے ہیں۔وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی تمباکو کنٹرول کی حکمت عملی میں تبدیلی لائے اور عالمی تجربات سے سیکھتے ہوئے نقصان میں کمی کی حکمت عملی کو اپنائے۔
سویڈن کے ماڈل کی کامیابی ہمارے لیے ایک مثال ہے کہ اگر صحیح اقدامات کیے جائیں تو ہم بھی سگریٹ نوشی کی شرح میں نمایاں کمی لا سکتے ہیں اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس وقت تمباکو نوشی کے خلاف جنگ میں ایک نازک موڑ پر ہے۔ سویڈن کی طرح اگر ہم بھی تمباکو نوشی سے ہونے والے نقصانات میں کمی کی حکمت عملی کو اپنی پالیسیوں کا حصہ بنائیں اور عوام کو کم مضر متبادل فراہم کریں تو ہم لاکھوں زندگیاں بچا سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں مدد دے گا بلکہ ہمارے صحت عامہ کے نظام پر بوجھ کو بھی کم کرے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تمباکو کنٹرول کے اقدامات کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور ایک صحت مند، مضبوط اور روشن مستقبل کی جانب بڑھیں۔