آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


لوزان معاہدے کا آغاز
20 نومبر1922ء کو ترکی کی خود مختاری پر مبنی لوزان معاہدے کا آغاز سوئس شہر لوزان میں ہوا۔اس کانفرنس میں ترکی کی نمائندگی وزیر خارجہ عصمت ان اونو نے کی۔ جنگ عظیم اوّل کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پایاجانے والا یہ معاہدہ 24 جولائی 1923ء سے نافذ العمل ہوا۔ معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔
کونڈسرمحل میں آتشزدگی
20 نومبر 1992ء کو ونڈسر محل میں آگ بھڑک اٹھی جو کہ دنیا کا سب سے بڑا آباد قلعہ اور برطانوی بادشاہ کی سرکاری رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ آگ کی وجہ سے قلعہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ۔اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد اس کی مرمت میں کئی سال لگ گئے جس پر36.5ملین پاؤنڈلاگت آئی۔ ایک تخمینے کے مطابق اس آتشزدگی کی وجہ سے کل50ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔
ونڈو1.0لانچ کی گئی
مائیکروسافٹ کی جانب سے 20نومبر 1985ء کو ''ونڈوز1.0‘‘ کو لانچ کیا گیا۔ یہ مائیکروسافٹ کی جانب سے پرسنل کمپیوٹر کیلئے تیارکردہ پہلا گرافک آپریٹنگ سسٹم تھا۔ امریکہ میں اسے پہلی مرتبہ 1985ء میں مینوفیکچرنگ کیلئے پیش کیا گیا جبکہ یورپی ورژن مئی1986ء میں ریلیز کیا گیا۔ اس ونڈوز میں ملٹی ٹاسکنگ کی سہولت موجود تھی جبکہ ماؤس کا استعمال بھی اسی ونڈوز کے ساتھ متعارف کروایا گیا۔
فارمنگٹن کان حادثہ
فارمنگٹن کان حادثہ 20نومبر1968ء کو پیش آیا۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کا اثر تقریباً 19کلومیٹر دور فیئر مونٹ میں بھی محسوس کیا گیا۔ دھماکے کے وقت99کان کن اندر موجود تھے۔21کان کن اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دیگر78 افرادکو کان سے باہر نہیں نکالا جا سکا۔ اس دھماکے کی وجہ کا تعین بھی نہیںکیا جا سکا کہ آخر یہ دھماکہ کیوں ہوا تھا۔
ایویو امپیکس فضائی حادثہ
ایویو امپیکس فلائٹ110ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی۔ یہ 20نومبر 1993ء کو جنیوا سے سکوپجے جاتے ہوئے تباہ ہو گئی۔طیارے میں تقریباً 116افراد سوار تھے۔ جہازاوہرڈ ائیر پورٹ کے قریب برفانی طوفان کی وجہ سے اپنے روٹ سے بھٹک گیا اور کیپٹن طیارے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات میں پائلٹ کی لاپرواہی کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 پووپو کا وجود کیسے مٹا؟

پووپو کا وجود کیسے مٹا؟

جھیل ایک قدرتی یا مصنوعی پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے جو زمین کی سطح پر کسی گہرے گڑھے یا میدان میں پایا جاتا ہے۔ یہ جغرافیائی زمین کی تبدیلی، گلیشیئرز کے پگھلنے، زمین دھنسنے یا انسانوں کے بنائے گئے ڈیموں کی وجہ سے وجود میں آ سکتی ہیں۔ جھیلوں کا پانی نہریں، دریا، چشمے یا بارش کے ذریعے آتا ہے، اور ان میں پانی کی نکاسی یا تو دریا کے ذریعے ہوتی ہے یا پھر یہ پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ جھیلیں ماحولیات کے لحاظ سے اہم ہیں کیونکہ یہ پینے کے پانی، ماہی گیری، زراعت، سیاحت اور جنگلی حیات کے لیے قدرتی مسکن فراہم کرتی ہیں۔دنیا کی مشہور جھیلوں میں کینیڈا کی سپیریئر جھیل، روس کی بائیکال جھیل اور پاکستان کی سیف الملوک جھیل شامل ہیں۔دنیا کی کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں جو کبھی دنیا بھر میں شہرت رکھتی تھیں مگر اب وہ اپنا وجود کھو چکی ہیں۔ ایسی جھیلوں کی فہرست تو بہت لمبی ہے جس میں سے ایک جھیل پووپوکا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔ جھیل پوپو بولیویا میں واقع ایک مشہور جھیل تھی، جو کبھی جنوبی امریکہ کی دوسری سب سے بڑی جھیل سمجھی جاتی تھی۔یہ جھیل تقریباً مکمل طور پر خشک ہو چکی ہے۔ جھیل پووپو سطح سمندر سے 12,090 فٹ بلند سطح مرتفع پر واقع تھی۔ تاریخی طور پر یہ ملک کی دوسری بڑی جھیل تھی اپنے عروج کے وقت اس جھیل کا رقبہ تقریباً 3000 مربع کلومیٹر تھا۔ یہ 90 کلومیٹر لمبی،32 کلومیٹر چوڑی اور صرف آٹھ سے 10 فٹ گہری تھی، لیکن دسمبر 2015ء تک یہ مکمل طور پر خشک ہو گئی۔ ایسا موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی خشک سالی اور مقامی کان کنی سے فضلے کے اجتماع دونوں کے مجموعی اثر سے ہوا۔ لیکن یہ مسلسل سکڑتی رہی۔جھیل کی اوسط گہرائی صرف 2 سے 3 میٹر تھی، جس کی وجہ سے یہ آسانی سے خشک ہونے کا شکار تھی۔1990ء کی دہائی سے عالمی حدت میں اضافے نے خطے کا درجہ حرارت بڑھا دیا اور جھیل سے پانی کی تبخیر کا عمل تین گنا بڑھ گیا۔ مناسب وقفوں سے بارش نہ ہونے سے پانی کم ہوتا گیا اور بالآخر جھیل خشک ہو گئی جس کے علاقے کے پودوں اور درختوں کے ساتھ انسانوں پر تباہ کن اثرات پڑے۔ جھیل بولیویا کے مقامی افراد کے لیے خوراک اور روزگار کا ذریعہ تھی، اس کے خشک ہونے سے جھیل کے ساحل پر آباد ماہی گیروں کو دوسرے مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ جھیل پووپو پرندوں، مچھلیوں، اور دیگر آبی حیات کا ایک اہم مسکن تھی۔ یہ جھیل بولیویا کے مقامی قبائل کے لیے روحانی اور ثقافتی اہمیت بھی رکھتی تھی۔2015ء میں جھیل پوپو مکمل طور پر خشک ہو گئی۔اقوام متحدہ اور مختلف ماحولیاتی تنظیموں نے جھیل کی بحالی کے لیے کوششیں کیں، لیکن پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔آج یہ جھیل ایک بنجر میدان میں تبدیل ہوچکی ہے، جہاں مقامی لوگ اپنی روزی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔بحالی کے اقداماتبولیویا کی حکومت اور اقوام متحدہ نے جھیل پوپو کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے منصوبے بنائے، جن میں پانی کے بہاؤ کو بہتر بنانے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات شامل تھے۔جھیل کی جغرافیائی ساخت اور قدرتی نکاسی کے نظام کی کمی نے بحالی کی کوششوں کو بہت مشکل بنا دیا۔وارننگ جھیل پوپو کو ''زمین پر پانی کے ختم ہونے کی وارننگ‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کیونکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی غفلت کے اثرات کو نمایاں کرتی ہے۔جھیل کے خشک ہونے کی وجوہات ٭...عالمی حدت میں اضافے اور بارشوں کی کمی نے جھیل کے پانی کی سطح کو کم کر دیا۔ ٭...پانی کا حد سے زیادہ استعمال (خاص طور پر زراعت اور کان کنی کے لیے) جھیل کے خشک ہونے کا باعث بنا۔ ٭... کان کنی کے زہریلے اثرات نے جھیل کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچایا۔٭...جھیل کی ساخت کم گہرائی اور زیادہ بخارات بننے کے عمل کی وجہ سے پانی کی کمی کا شکار تھی۔

دنیا کے سب سے بڑے آبی وسائل خطرے میں

دنیا کے سب سے بڑے آبی وسائل خطرے میں

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2025ء کو تحفظِ گلیشیئر کا عالمی سال قرار دے دیا ہے۔ اس اقدام سے دنیا میں دو ارب سے زیادہ لوگوں کیلئے تازہ پانی کے ان اہم ذرائع کو بچانے کی کوششیں یکجا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ دن ہر سال 21 مارچ کو منایا جائے گا۔دنیا میں تازہ پانی کے 70 فیصد ذخائر گلیشیئر اور برف کی تہوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کے تیزی سے پگھلنے سے ماحولیاتی و انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ 2023 ء میں گلیشیئر پگھلنے کی تیز رفتاری کا 50 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔ یہ متواتر دوسرا سال تھا جب دنیا بھر کے ایسے علاقوں میں برف کی مقدار میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ سوئٹزرلینڈ اس حوالے سے ایک نمایاں مثال ہے جہاں 2022ء اور 2023 ء کے درمیان 10 فیصد گلیشیائی برف پگھل گئی تھی۔اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو اور عالمی موسمیاتی ادارہ (WMO) اس اقدام کو آگے بڑھائیں گے جس کے تحت موسمیاتی معمول کو برقرار رکھنے اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں گلیشیئر کے اہم کردار پر عالمگیر آگاہی بیدار کی جائے گی۔ WMOکی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا ہے کہ برف اور گلیشیئر پگھلنے سے کروڑوں لوگوں کا طویل مدتی آبی تحفظ خطرے میں ہے۔ اس عالمی سال سے دنیا کو مسئلے کی سنگینی کے بارے میں آگاہ کرنے کا کام لیا جانا چاہیے جو کہ ہنگامی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ یونیسکو کے شعبہ قدرتی سائنس کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر لیڈیا بریٹو نے سوئٹزرلینڈ میں اس اقدام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیے گئے 50 مقامات دنیا کی تقریباً 10 فیصد گلیشیائی برف کا احاطہ کرتے ہیں۔ تاہم، ایک حالیہ جائزے سے یہ تشویشناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایسے ایک تہائی گلیشیئر 2050 ء تک مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ 2024 مصدقہ طور پر تاریخ کا گرم ترین سال تھا اور اسے مدنظر رکھتے ہوئے فوری اور فیصلہ کن اقدامات ضروری ہیں۔اس اقدام سے متعلق پالیسی بریف کے مطابق، گلیشیئر جس رفتار سے پگھل رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے اب تک ہونے والے کچھ نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہو گا اور یہ پگھلاؤ عالمی حدت میں تیزرفتار اضافہ تھم جانے تک جاری رہے گا۔کینیڈا کی یونیورسٹی آف سسکیچوان کے ڈاکٹر جان پومیروئے کا کہنا ہے کہ زیرزمین برف کی تہوں کا تحفظ کرنے کیلئے پالیسی میں ہنگامی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ان کوششوں کیلئے عالمگیر تعاون درکار ہے اور اس ضمن میں خاص طور پر وسطی ایشیا جیسے خطوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں گلیشیئر پگھلنے سے آبی تحفظ کو سنگین مسائل لاحق ہو گئے ہیں۔ پہاڑی علاقوں پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی نیٹ ورک ''ماؤنٹین ریسرچ انیشی ایٹو‘‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر کیرولینا ایڈلر نے کہا ہے کہ کوئی سائنس پر یقین رکھے یا نہ رکھے، گلیشیئر حدت میں پگھل جاتے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد گلوبل کریوسفیئر واچ جیسے پروگراموں کے ذریعے سائنسی آگاہی کو بڑھانا اور سائنسی معلومات کی بنیاد پر موثر موسمیاتی اقدامات کو یقینی بنانا ہے۔اس حوالے سے دنیا بھر میں بہتر پالیسی کی تیاری بھی ایک اہم ترجیح ہے جس کے تحت تحفظِ گلیشیئر کو عالمی اور قومی موسمیاتی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، مالیاتی وسائل جمع کرنا بھی ترجیح ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی کے سامنے غیرمحفوظ لوگوں کو ضروری مدد میسر آئے گی اور مقامی سطح پر لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کو ساتھ لے کر اس مسئلے کی روک تھام اور اس کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات شروع کیے جا سکیں گے۔تحفظِ گلیشیئر کا پہلا عالمی دن 22 مارچ کو پانی کے عالمی دن سے ایک روز پہلے منایا جائے گا۔ مئی میں تاجکستان تحفظِ گلیشیئر کی پہلی عالمی کانفرنس کا انعقاد کرے گا جس میں سائنس دان، پالیسی ساز اور سیاسی رہنما اس مسئلے کے حل تلاش کریں گے اور اس پر قابو پانے کیلئے شراکتیں قائم کی جائیں گی۔تاجکستان کی کمیٹی برائے تحفظ ماحول کے سربراہ بہادر شیر علی زودہ کے مطابق ان کے ملک کو اس مقصد کیلئے اہم کردار ادا کرنے پر بے حد فخر ہے۔ صرف تاجکستان میں ہی ایک تہائی یا تقریباً 1000 گلیشیئر پگھل چکے ہیں۔ پانی کے ان برفانی ذخائر کو بچانے کیلئے تمام حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اپنے قومی منصوبوں کے ذریعے اور عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک رکھنے کے ہدف کی مطابقت سے درست سمت اختیار کرنا ہو گی۔ڈاکٹر پومیروئے نے کہا ہے کہ یونیسکو اورWMO کے اس اقدام کے تحت ممالک، اداروں اور افراد کو تحفظِ گلیشیئر کے مشترکہ مقصد کے تحت اکٹھا کیا جائے گا۔ اس سے ایک ایسا طریقہ کار اختیار کرنے میں مدد ملے گی جس کے ذریعے بیک وقت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور عالمی حدت کے بڑھتے ہوئے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے درکار سائنسی آگاہی اور پالیسیوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ان کا کہنا ہے کہ تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کہ 2025ء ایسا سال تھا جب دنیا نے اپنی راہ تبدیل کی اور گلیشیئر، انسانوں اور کرہ ارض کو تباہی سے تحفظ فراہم کیا۔پاکستا ن میں بھی گلیشیرز کو متعدد خطرات لاحق ہیں اور گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا خطرہ ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے گلیشیر بشمول پاکستان کے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔گرمی میں اضافے کی وجہ سے برف پگھلنے کی رفتار بڑھ گئی ہے اور گلیشیر سکڑ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کے انداز میں بھی تبدیلی آئی ہے جس سے گلیشیئرز پر برف باری کم ہو رہی ہے۔گلیشیرز کے پگھلنے سے ان کے کناروں پر جھیلیں بن جاتی ہیں جن میں پانی جمع ہوتا رہتا ہے۔یہ جھیلیں کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں جس سے اچانک سیلاب آتے ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی مچاتے ہیں۔پاکستان میں ایسی کئی جھیلیں موجود ہیں جو آبادیوں کیلئے خطرہ ہیں۔جنگلات کی کٹائی اور زمین کے استعمال میں تبدیلیوں کی وجہ سے بھی گلیشیرز پر منفی اثر پڑتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

ٹیلی ویژن کی نمائش1926ء میں آج کے دن دنیا ٹیلی ویژن سے متعارف ہوئی۔ جس کا سہرا جان لوگی بیئرڈ نامی ایک برطانوی سائنس دان کو جاتا ہے جس نے پہلی بار عوام کے سامنے ٹی وی پیش کیا۔ پہلی بار اس ٹی وی پر نشریات دھندلی نظر آئیں۔ جنہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیئرڈ نے ٹھیک کیا۔ 1930ء سے ٹی وی کی باقاعدہ فروخت شروع ہوئی جو کہ 20ویں اور 21ویں صدی کی اہم ترین ایجادات میں شامل ہوئی۔عثمانیوں کا امن معاہدہ1699ء میں 26 جنوری کو عثمانیوں نے آسٹریا، وینس اور پولستان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے۔ جس کے تحت سلطنت عثمانیہ کو یورپ کے بیشتر قابض علاقوں کو چھوڑنا پڑا تھا۔ اس معاہدے کے بعد عثمانیوں نے دوبارہ سے ان علاقوں کو تسخیر کرنے کیلئے سیاسی کوششیں شروع کیں۔ 1517ء میں قائم ہونے والی خلافت عثمانیہ کا اختتام 1924ء میں ہوا۔ یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ آسٹریلیا میں یورپی آبادکاری کا آغازآسٹریلیا میں یورپی آبادکاری کا آغاز 26 جنوری 1788 کو ہوا، جب برطانیہ کے پہلے بحری قافلے نے سڈنی کوو (Sydney Cove) کے مقام پر لنگر انداز کیا۔ اس قافلے کو ''فرسٹ فلیٹ‘‘کہا جاتا ہے، جو 1500 برطانوی قیدیوں، فوجیوں اور عملے پر مشتمل تھا۔ 1770ء میں کیپٹن جیمز کک نے آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کو دریافت کیا اور اسے برطانیہ کی ملکیت قرار دیا۔ برطانیہ نے آسٹریلیا کو بطور سزا یافتہ قیدیوں کی نوآبادیاتی بستی کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ قافلہ 13مئی 1787ء کو انگلینڈ سے روانہ ہوا اور26 جنوری 1788 ء کو سڈنی کوو پہنچا۔دنیا کا سب سے بڑا ہیرا دریافت ہوا1905ء میں آج کے روز جنوبی افریقہ میں دنیا کا سب سے بڑا ہیرا ''کلینن ڈائمنڈ‘‘ دریافت ہوا۔ یہ ہیرا آج تک کا سب سے بڑا خام (uncut) ہیرا ہے، جس کا وزن 3106 قیراط (تقریباً 621 گرام) تھا۔یہ ہیرا جنوبی افریقہ کے معدنی وسائل کی دولت اور برطانوی استعمار کے دور کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔اس ہیرے کا نام کان کے مالک سر تھامس کلینن ( Thomas Cullinan Sir ) کے نام پر رکھا گیا۔یہ ہیرا بعد میں ایمسٹرڈیم کے ماہر جواہرات سازوں نے کاٹا۔ اسے 9 بڑے ٹکڑوں اور تقریباً 100 چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔کلینن ڈائمنڈ کے بڑے ٹکڑے آج بھی برطانوی شاہی خاندان کی ملکیت ہیں ۔

یاد رفتگاں: روحی بانو:فن کی دنیا کا چمکتا ستارہ

یاد رفتگاں: روحی بانو:فن کی دنیا کا چمکتا ستارہ

ان کا شمار پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ فنکاروں میں ہوتا ہےبے شک جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو جانا بھی ہے اور زندگی نام کے اس مختصر وقفے میں اپنے حصے کے دکھ، سکھ، خوشیاں، غم سب ہی جھیلنے ہیں۔ یہ ہی قدرت کا نظام ہے اور ہم سب اسی میں راضی ہیں۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کے چلے جانے سے یوں لگتا ہے جیسے ہماری زندگی کا کچھ حصہ بھی ان ہی کے ساتھ رخصت ہو گیا ہو۔ روحی بانو بھی ان لوگوں میں سے تھیں جنھوں نے اپنے پرستاروں کی زندگیوں پہ انمٹ نقوش چھوڑے۔ روحی بانو صرف ایک اداکارہ نہیں بلکہ ٹی وی ڈرامے کے ایک عہد کا نام تھا، وہ ایک ایسی اداکارہ تھیں، مصنف جن کی شخصیت کو سامنے رکھ کر کہانی کا تانا بانا بنتے تھے۔ روحی بانو بھی اپنے فن اداکاری سے کردار میں ایسا رنگ بھرتیں کہ دیکھنے والے اس کے سحر میں جکڑ جاتے۔ پاکستان کی اس عظیم فنکارہ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے چار برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے کام کی بدولت اپنے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ روحی بانو 10اگست 1951ء میں بھارتی شہر ممبئی میں پیدا ہوئیں۔ وہ برصغیر کے مشہور بھارتی طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کی بیٹی تھیں جن کا فن موسیقی میں اپنا ایک مقام تھا۔ والد کی دوسری شادی کے باعث روحی بانو کی والدہ بچوں کو لے کر پاکستان آگئیں جبکہ والد 2000ء میں انڈیا میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ بھارت کے معروف طبلہ نواز استاد ذاکرحسین ان کے سوتیلے بھائی ہیں جبکہ ان کی ایک سگی بہن انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ روحی بانو کا شمار پاکستان کے ماضی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ فنکاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سے سائیکالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ جب گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھیں تب پہلی بار ٹی وی پر جلوہ گر ہوئیں، انہیں ایک کوئز شو میںمدعو کیا گیا تھااور یہی فن کے سفر میں ان کا نقطہ آغاز تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سرکاری ٹی وی کی ابتدائی کامیابیوں میں روحی بانو کی اداکاری کا بہت بڑا حصہ ہے تو غلط نہ ہو گا۔وسائل کی کمی کی وجہ سے اس وقت فنکار اور پروڈیوسرز بڑی محنت سے اپنا کردار نبھاتے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتے تھے۔ روحی بانو نے 1970ء کے عشرے میں بیشمار ڈراموں میں یادگاری کردار نبھائے۔ان کے ابتدائی ڈراموں میں حسینہ معین کا ڈرامہ ''کرن کہانی‘‘قابل ذکر ہے جو 1973ء میں نشر ہوا۔ اس کے بعد 1974ء میں ''زیر زبر پیش‘‘ ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ یہ دونوں وہ ڈرامے ہیں جو سرکاری ٹی وی کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ڈرامے روحی بانو کی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ہر اہم ڈرامے میں،اہم کردار ادا کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ڈراموں میں روحی بانو کی موجودگی لازمی سمجھی جانے لگی۔ اشفاق احمد کی مقبول ترین ڈرامہ سیریز ''ایک محبت سو افسانے‘‘ کے کھیل ''اشتباہ نظر‘‘ میں روحی بانو کی اداکاری کو فراموش کرنا ممکن ہی نہیں۔ ''دروازہ‘‘، ''زرد گلاب‘‘، ''دھند‘‘، ''سراب‘‘، ''قلعہ کہانی‘‘ ہو یا پھر ''حیرت کدہ‘‘ ان کے کس ڈرامے کو یاد رکھیں اور کسے بھولیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ان کے ڈرامے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بہت پسند کئے جاتے تھے۔ ٹی وی پر ان کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں میں قوی خان، ڈاکٹر انور سجاد، خیام سرحدی، فردوس جمال، مسعود اختر، آغا سکندر، جمیل فخری، عاصم بخاری اور عابد علی شامل تھے۔ یہ سب کے سب روحی بانو کی اداکاری کے معترف تھے۔ صرف چھوٹی سکرین ہی نہیں بلکہ بڑی سکرین پر بھی روحی بانو نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ فلمی دنیا میں ان کا کریئر ڈبل اننگز پر مشتمل ہے۔ پہلی اننگز میں وہ فلمی ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہو سکیں اور وہاں سے واپسی اختیار کر لی۔ ہیرے کی پہچان رکھنے والے جوہری انہیں دوبارہ فلمی صنعت میں لے آئے۔ اس اننگز میں انہوں نے کئی شاندار فلموں میں کام کیا۔اگر روحی بانو کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں ہمیں دکھ ہی دکھ، ناکامیاں ہی ناکامیاں نظر آتی ہیں۔ صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی روحی بانو پے درپے صدمات کی زد میں رہیں۔ دو بار شادی کے بندھن میں بندھیں مگر دونوں ہی بارخوشیوں سے محروم رہیں۔ پھر ان کے جگر کے ٹکڑے کو کسی نے قتل کر دیا۔ اکلوتے بیٹے فرزند علی کے قتل کے بعد گویا زندگی کی تمام رعنائیاں ہی اُن سے چھن گئیں۔ یہ وہ صدمات تھے جنہوں نے خوش حال اور مایہ ناز فنکارہ کو نڈھال کر کے رکھ دیا۔ جس سے وہ نفسیاتی مرض ''شیزو فرینیا‘‘ کاشکار ہو کر فائونٹین ہائوس جا پہنچیں۔ روحی بانو کو گردوں کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ ترکی میں اپنے بھانجے کے پاس مقیم تھیں، وہیں ان کا انتقال ہوا اور وہیں تدفین کی گئی۔ اللہ سے دعا ہے کہ روحی بانو کو زندگی میں تو سکون نہ مل سکا، اللہ کرے مرنے کے بعد انہیں سکون حاصل ہو۔ امینروحی کی مقبول فلمیں پالکی (1975ء)، امنگ (1975ء)، انسان اور فرشتہ (1976ء)، راستے کا پتھر(1976ء)، انوکھی (1976ء)، گونج اٹھی شہنائی (1976ء)، زندگی (1978ء)، خدا اور محبت (1978ء)، دشمن کی تلاش (1978ء)، ضمیر (1980ء)، دل ایک کھلونا (1981ء)،کرن اور کلی (1981ء)، بڑا آدمی (1981ء)، کائنات (1983ء)، آ ج کا انسان (1984ء)، دشمن کی تلاش (1991ء)، سمجھوتہ (1995ء) 

رامائن رام چندر قلعہ آزاد کشمیر میں واقع خوبصورت سیاحتی مقام

رامائن رام چندر قلعہ آزاد کشمیر میں واقع خوبصورت سیاحتی مقام

رام کوٹ کا شمار پوٹھوہار کے قدیم قلعوں میں ہوتا ہے۔ قلعے کے داخلی راستے پر لگے معلوماتی بورڈ کے مطابق اس کی تعمیر 1186ء میں سلطان غیاث الدین نے کی تھی۔ قلعے کو دینہ، ڈڈیال اور میر پور سے تین راستے جاتے ہیں۔میر پور سے تیز رفتار کشتی سے آدھے گھنٹے کا سفر ہے۔ لوگ یہاں خال خال ہی جاتے ہیں اس لیے کشتیاں صرف بکنگ پر ہی چلتی ہیں جو خاصی مہنگی پڑتی ہیں۔چبوترے سے 440 سیڑھیاں رام کوٹ قلعے کے مرکزی دروازے تک لے جاتی ہیں۔ اگرمنگلا ڈیم بھرا ہوا ہو تو یہ سیڑھیاں کم بھی ہو سکتی ہیں۔ مرکزی دروازہ ڈھلوانی چٹان پر بنایا گیا ہے تاکہ کسی بیرونی حملے کی صورت میں یہاں تک رسائی خاصی مشکل ہو۔ مرکزی دروازے میں سرخ اینٹ جبکہ باقی تمام جگہوں پر پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کسی حملے میں مرکزی دروازہ تباہ ہو گیا تھا جس کی بعد میں تعمیر نو کی گئی۔قلعے کے عقب میں ایک چھوٹا دروازہ بھی ہے جو شاید فرار کیلئے بنایا گیا تھا۔ مرکزی دروازہ چار کمروں پر مشتمل ہے جس میں سے تین کمرے نیچے اور ایک بالائی منزل پر ہے جس کیلئے مرکزی دروازے سے ایک سیڑھی اوپر جاتی ہے۔ قلعے کی ساخت بتاتی ہے کہ یہاں تہہ خانے بھی ہوں گے۔ چونکہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہاں کوئی کام نہیں کیا اس لیے قلعے کے حوالے سے معلومات بہت محدود ہیں۔کشتی سے اترتے ہی جب پہاڑی پر چڑھائی شروع ہوتی ہے تو قلعے کی عالیشان عمارت حیران کرنا شروع کر دیتی ہے۔ نیچے دور تک نیلگوں پانی اور پہاڑی کی چوٹی پر ایک قلعہ نما ہے۔قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی سامنے میدان میں دو بڑے تالاب نظر آتے ہیں۔ جن کا مقصد بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا تھا۔ سیکڑوں سال پہلے یہ قلعہ دریائے جہلم اور دریائے پونچھ کے سنگم پر بنایا گیا تھا۔ گویاتین اطراف سے قلعے کو دریاؤں نے گھیر رکھا تھا۔ چونکہ قلعہ خاصی اونچائی پر تھا اس لیے پانی کی ضرورت کو بارش کا پانی اکٹھا کر کے پورا کیا جاتا تھا۔دو تالابوں کے درمیان چند کمرے بنے ہوئے ہیں جن کی چھتیں گر چکی ہیں۔ دوسرے تالاب کے ساتھ خام لوہا بڑی تعداد میں موجود ہے جو شاید ہتھیار سازی کیلئے استعمال ہوتا ہو گا۔ تالاب کے سامنے شمال کی جانب دروغہ کی رہائشگاہ ہے جہاں پہنچنے کیلئے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں پر دونوں طرف کمرے ہیں جن کے درمیان میں ایک وسیع برآمدہ ہے۔ کمروں سے سیڑھیاں چھت کو اور تہہ خانوں کو جاتی ہیں۔ دونوں طرف کونوں پر باہر کی جانب ایسے کمرے ہیں جو گولائی میں ہیں اور کال کوٹھڑیاں معلوم ہوتی ہیں۔ دروغہ کی رہائش کے ساتھ کچھ فاصلے پر مزید کمرے ہیں جو شاید دروغہ کے خدمت گاروں کیلئے ہوں۔ قلعے کی فصیل کے ساتھ ایک ڈھلوان ہے جو یقیناً توپوں کو اوپر لے کر جانے کیلئے استعمال کی جاتی ہو گی۔ مرکزی دروازے کے بائیں جانب تھوڑی اونچائی پر ایک مندرہے جس کی دیواریں گر چکی ہیں مگر اس میں سرخ رنگ کا ایک بڑا شیولنگ ابھی تک موجود ہے، جس پر چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔ قلعہ رام کوٹ میں مندر کی موجودگی سے یہ قیاس کیا جا تا ہے کہ کبھی یہاں ہندوؤں کی ایک بڑی آبادی موجود تھی ۔کیا یہ قلعہ واقعی غوری سلطان غیاث الدین نے بنایا تھا؟ معروف ماہر ارضیات وتاریخ دان فریڈرک ڈیو اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ اپنی کتاب ''دی جموں اینڈ کشمیر ٹیریٹریز‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ دریائے جہلم کے زیریں حصہ، کوٹلی اور میر پور کے مغرب میں ایک قبیلہ ہے جسے گکھڑ کہتے ہیں۔ ان کی ایک اہم شاخ ''شاہو‘‘ کہلاتی ہے۔ گکھڑ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں اور طاقتور دشمنوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی آزادی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ برطانوی راج میں دریا کے دائیں کنارے کے ساتھ ان کی عمارتوں کے آثار پائے جاتے ہیں جو ان کے شاندار ماضی کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک رام کوٹ کا قلعہ ہے۔سکھوں کے عہد میں یہ قلعہ ڈوگروں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ سری نگر جانے کیلئے قدیم دور میں جو چار راستے استعمال کیے جاتے تھے ان میں سے ایک راستہ رام کوٹ سے ہو کر گزرتا تھا۔ رام کوٹ قلعہ کے قریب ہی تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر منگلا کا قلعہ واقع ہے۔ دونوں قلعوں کے قریب ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں الگ الگ راجدھانیوں کی نمائندگی کرتے ہوں۔ منگلا کا قلعہ رانی منگلا سے منسوب ہے جو کہ راجہ پورس کی بیٹی تھی۔ پورس اور سکندر اعظم کے درمیان 326 ق م میں مشہور معرکہ اسی قلعے کے نواح میں ہوا تھا۔یہ قلعہ نجانے کتنی صدیوں اور کتنی داستانوں کا امین ہے۔ پوٹھوہار کے قلعوں میں یہ قلعہ سب سے اچھی حالت میں موجود ہے۔ تھوڑی سی کوشش سے اسے ایک سیاحتی مقام میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ یہاں آمدورفت کے ذرائع بہت مہنگے ہیں۔ اگر منگلا، میر پور اور ڈڈیال سے سواریوں والی کشتیاں چلیں تو یہاں لوگ جوق در جوق آئیں گے کیونکہ ایسے نظارے کسی اور قلعے میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ اگر یہاں سہولیات کی فراہمی کے ساتھ اس کی مناسب تشہیر کی جائے تو یہ قلعہ آزاد کشمیر کیلئے بڑی معاشی سرگرمی بھی پیدا کر سکتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بین البراعظمی ٹیلی فون سروس کاآغازگراہم بیل کو ٹیلی فون کا موجد مانا جاتا ہے اور موجودہ دور کا مواصلاتی نظام بھی اسی ایجاد کی جدید شکل ہے۔ ابتدائی طور پر ٹیلی فون کا استعمال اور اس کی حدود انتہائی کم اور محدود تھیں۔ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اس میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت آتی گئی۔ 25جنوری 1915ء میں گراہم بیل نے نیویارک میں موجودگی کے دوران سان فرانسسکو میں بیٹھے اپنے ساتھی تھامس واٹسن سے ٹیلی فون پر بات کر کے بین البراعظمی ٹیلی فون سروس کا آغاز کیا۔ تھامس واٹسن کو ٹیلی فون کی ایجاد میں ایک اہم کردار تصور کیا جاتا ہے۔ آرمینیا ، کولمبیا زلزلہ''آرمینیا ،کولمبیا زلزلہ‘‘ 25جنوری 1999ء کو آیا۔ اس زلزلے کا مرکز کولمبیا کے جنوب مغرب میں 40 کلومیٹر مغرب کی جانب واقع تھا۔ زلزلے کے شدید جھٹکوں نے آرمینیا کو بہت زیادہ متاثر کیا جبکہ کولمبیا میں کاشت کرنے والے ایکسس ریجن، 18 قصبے، 28 دیہات اور کافی حد تک پیریر اور مانیزیلس متاثر ہوئے۔زلزلے کی شدت6.2ریکارڈ کی گئی اور یہ 16برسوں میں کولمبیا میں آنے والا سب سے تباہ کن زلزلہ تھا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں تقریباً2ہزار افراد ہلاک اور 4ہزار زخمی ہوئے جبکہ لاپتہ ہونے والوں کی تعداد 3ہزار کے قریب تھی۔کلیمن ٹائن منصوبہ''کلیمن ٹائن‘‘ جسے ڈیپ سپیس پروگرام سائنس ایکسپیریمنٹ (DSPSE)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے دراصل ایک بیلسٹک میزائل ڈیفنس آرگنائزیشن(پہلے سٹریٹیجک ڈیفنس انیشی ایٹو آرگنائزیشن) اور امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے درمیان ایک مشترکہ خلائی منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کا آغاز 25جنوری1994ء کو کیا گیا۔ اس خلائی مشن کا مقصد سینسرز کی جانچ کرنا تھا۔خلائی جہاز میں ایسے آلات نصب کئے گئے تھے جن کی مدد سے چاند اور زمین کے قریب موجود خلائی ماحول کا جائزہ لیا جا سکے۔خلائی جہاز تکنیکی خرابی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام رہا۔الزبتھ کوچران کا سفرالزبتھ کوچران سیمن جو اپنے قلمی نام Nellie Blyکے نام سے بھی جانی جاتی تھیں ایک امریکی صحافی، صنعت کار، موجد اور سماجی کارکن تھیں۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ یہ اپنے ہی بنائے ہوئے ریکارڈ توڑ دیتی ہیں۔انہیں 72 دنوں میں دنیا بھر کا سفرکرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔انہوں نے یہ سفر 25جنوری 1890ء میں مکمل کیا۔ الزبتھ نے اس سفر کا آغاز جولس ورن کے افسانوی کردار فلیاس فوگ کی تقلید میں کیا۔ الزبتھ کوچران نے اپنے شعبے میںنئی نئی جہتیں دریافت کیں اور ایک نئی طرز کی تحقیقاتی صحافت کا آغاز کیا۔