ثقافت کا دریا مسلسل بہتا ہے‘ اس میں نئے پانی اور نئے دھارے شامل ہوتے رہتے ہیں۔ ثقافت صرف روایات‘ زبان اور رسم و رواج تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع تصور ہے جو کسی قوم کی تاریخ‘ معاشرت‘ فنون اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔ اس لیے ثقافتی تبادلہ ایک قدرتی عمل ہے جو مختلف تہذیبوں کے درمیان ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔ جب مختلف ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات استوار ہوتے ہیں تو ان کے درمیان لوگوں کا آنا جانا شروع ہو جاتا ہے۔ تاجر‘ سیاح اور دیگر افراد جب ایک دوسرے کے ممالک کا سفر کرتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنی ثقافت بھی لے کر جاتے ہیں۔ اس طرح مختلف ثقافتوں کے درمیان اقدار کا تبادلہ ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس ثقافتی تبادلے میں کاروبار کو سرفہرست قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ جب مختلف ممالک کی کمپنیاں ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں تو ان کے درمیان ملازمین کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس طرح مختلف ممالک کے لوگ ایک دوسرے کی ثقافت سے قریب سے واقف ہوتے اور اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کاروباری تعلقات کے ذریعے مختلف ممالک کی مصنوعات دوسرے ممالک میں پہنچتی ہیں۔ لوگ ان مصنوعات کے استعمال سے اس ملک کی ثقافت سے متاثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اطالوی فیشن اور امریکی فلمیں دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ کاروباری تعلقات ثقافتی تبادلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پچھلی نصف صدی سے امریکی اور مغربی ثقافت نے دنیا پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہ اثر صرف سیاسی اور اقتصادی میدان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے سماجی اور ثقافتی‘ حتیٰ کہ ذہنی سطح پر بھی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ اس اثر کا ایک اہم سبب اقتصادی ترقی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد مغربی ممالک نے تیزی سے ترقی کی اور دنیا پر اپنی اقتصادی برتری قائم کی۔ اس اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی ثقافت بھی پوری دنیا میں پھیلنے لگی۔ مغربی ممالک نے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی کالونیاں قائم کیں اور ان پر اپنا ثقافتی اثر ڈالا۔ اپنی زبان‘ مذہب اور رسم و رواج کو پھیلانے کی کوشش کی۔ جدید تعلیم کے نظام کو متعارف کرایا اور اس طرح مغربی طرزِ زندگی کو فروغ دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر ابھرا۔ اس نے اپنی فوجی اور اقتصادی طاقت کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر قائم کیا۔ امریکی فلمیں‘ موسیقی اور ٹیلی ویژن پروگرامز دنیا بھر میں مقبول ہوئے اور انہوں نے لوگوں کے ذہنوں اور سوچ میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ امریکی اور مغربی ثقافت نے دنیا بھر میں ایک گلوبل ثقافت کو جنم دیا ہے۔ مقامی ثقافتیں مغربی ثقافت سے متاثر ہو کر تبدیل ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر میں فاسٹ فوڈ‘ جینز اور پاپ میوزک کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی اور مغربی ثقافت نے دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصورات کو بھی فروغ دیا ہے۔ اگرچہ ان تصورات کو عملی جامہ پہنانے میں مشکلات کا سامنا ہے لیکن انہوں نے لوگوں میں شعوری تبدیلی پیدا کی ہے۔
اب مغربی ممالک کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے۔ مغربی ثقافت کی جگہ لوگ چین کی ثقافت سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال چین کا جشنِ بہار تہوار ہے جو پوری دنیا میں مقبول ہو رہا ہے۔ چین میں بہار کا تہوار‘ جسے نئے چینی سال کے تہوار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‘ پورے ملک میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار چاند کی گردش کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی تاریخ ہر سال بدلتی رہتی ہے۔ اس کا آغاز عام طور پر جنوری یا فروری کے مہینے میں ہوتا ہے۔ نئے چینی سال کی تاریخ کا تعلق قدیم چینی ثقافت سے ہے جس کی ابتدا قدیم زمانے میں ہوئی تھی۔ اس وقت کے لوگ چاند کی گردش کو وقت کا پیمانہ سمجھتے تھے اور اس کے مطابق اپنا سال شمار کرتے تھے۔ اگرچہ اس تہوار کی سرکاری تعطیلات عام طور پر ایک ہفتہ تک جاری رہتی ہیں لیکن اس سے جڑی ہوئی رسومات اور جشن کا دورانیہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے‘ بعض اوقات یہ 40دنوں تک جاری رہتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ چینی ثقافت میں بہار کا تہوار صرف ایک دن کا تہوار نہیں ہے بلکہ یہ پورے موسم بہار کی آمد اور نئے سال کے استقبال کا جشن ہے۔ اس موقع پر چین میں گھروں کو خوبصورت انداز میں سجایا جاتا ہے۔ سرخ رنگ کے فانوس لٹکائے جاتے ہیں اور دروازوں پر مبارکباد کے پیغامات لکھے جاتے ہیں۔ لوگ نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں۔ اپنے عزیزوں سے ملنے جاتے ہیں اور تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔ چینی عوام میں اس موقع پر بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ نئے چینی سال کا تہوار چینی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے‘ اس موقع پر لوگ اپنی ثقافتی روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چینی ثقافت میں ایک قدیم عقیدہ ہے کہ بارہویں قمری مہینے کی 25تاریخ کو یوہوانگ دادی کے نام سے معروف جید شہنشاہ زمین پر اترتے ہیں۔ یہ عقیدہ چینی لوگوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس عقیدے کے مطابق جید شہنشاہ زمین پر اتر کر لوگوں کے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ لوگوں کے کردار‘ اخلاص اور ایمانداری کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں خوشی اور برکت کا فیصلہ کرتے ہیں۔
چین کے جشنِ بہار اور نئے قمری سال کے تہوار کی اہمیت کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اسے یونیسکو کی نمائندہ فہرست میں غیرمحسوس ثقافتی ورثے کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی سنگ میل ہے کیونکہ اس سے چینی ثقافت کی عالمی سطح پر شناخت ہوئی اور اس کے تحفظ اور فروغ کو عالمی سطح پر حمایت ملی ہے۔ نئے چینی سال کا تہوار صرف چین میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں چینی برادریوں کے ذریعے بھی منایا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک جیسا کہ سنگاپور‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ ویتنام‘ تھائی لینڈ اور فلپائن میں چینی بہار کا تہوار بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں چینی برادریاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور یورپ کے مختلف ممالک میں بھی چینی برادریاں موجود ہیں جو نئے چینی سال کے تہوار کو بڑے جوش و خروش سے مناتی ہیں۔ ان ممالک میں چینی کمیونٹی نے اپنے ثقافتی مراکز قائم کیے ہیں جہاں وہ نئے چینی سال کے موقع پر مختلف ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئے چینی سال کا تہوار صرف ایک تہوار نہیں ہے بلکہ یہ چینی ثقافت کی علامت ہے جو دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا چکی ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں موجود چینی سفارت خانے میں بھی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ مستقبل اور ایک مشترکہ کمیونٹی کی تعمیر کے عزم کا اظہار کیا۔ چینی اس روایتی تہوار کو ہر خاندان کے لیے پرانے سال کو الوداع کرنے اور نئے کو خوش آمدید کہنے‘ دوبارہ ملنے اور اشتراک کرنے کا ایک اہم لمحہ قرار دیتے ہیں۔ چینی ہم آہنگی کے تصور کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ 155ممالک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بڑے خاندان میں شامل ہو چکے ہیں۔ ہر چینی سال کسی جانور سے منسوب ہوتا ہے‘ اس بار نیا قمری سال سانپ سے منسوب ہے۔ روایتی چینی ثقافت میں سانپ حکمت‘ بہادری اور استقامت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔