ایران کی دو خوبصورت مساجد

اسپیشل فیچر
شاہ مسجد، اصفہان
عہدِ صفوی کی یہ مسجد اسلامی فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ ایران کے مشہور شہر اصفہان کے نقشِ جہاں اسکوائر سے جنوب کی جانب واقع ہے۔ اس کی فنی خوبصورتی کے باعث اس مسجد اور اس سے ملحقہ نقش جہاں اسکوائر کو یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ اس کو '' امام مسجد‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس مسجد کی تعمیر 1611ء میں شروع ہوئی۔ اس کی شان و شوکت اس میں لگی ہوئی سات رنگی ٹائلوں کی مرہون منت ہے۔ یہ مسجد1629ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس مسجد کی لمبائی430 فٹ اور چوڑائی330فٹ ہے۔ اس کے گنبد کی بلندی 174فٹ ہے جبکہ اس کے چار مینار ہیں ہر مینار کی بلندی 189فٹ ہے۔ اس میں 60ہزارنمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کا ڈیزائن ایران کے مشہور ماہر تعمیرات شیخ بہائی نے بنایا تھا۔ مرکزی ہال میں قبیلہ والی محراب دس فٹ بلند ہے جس کی پیشانی پر قرآنی آیات تحریر ہیں۔مسجد کا صحن 230فٹ لمبا اور اتنا ہی چوڑا یعنی مربع شکل کا ہے۔
ایران عرصہ دراز سے کاریگروں اور ماہر فن کاروں کا گڑھ رہا ہے۔ ماضی میں مغلیہ دور میں اور اس سے قبل یہاں کے فن کاروں نے برصغیر میں ایرانی فن تعمیر اور نقش و نگار کو متعارف کروایا۔ ان ایرانی فنکاروں کے فن پارے آج بھی اپنے تخلیق کاروں کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس مسجد کی تصویر ایران کے بیس ہزار ریال کے نوٹ پر بھی چھپی ہوئی ہے۔
مسجد گوہر شاہ، مشہد
دنیائے اسلام میں جہاں مردوں نے خوبصورت مساجد تعمیر کروانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں خواتین بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے میں پیچھے نہ رہیں۔ انہی میں امیر تیمور کی بیگم کے نام سے مسجد بی بی خانم (سمر قند) تیموری دور کی خوبصورت مساجد میں شمار کی جاتی ہے۔ امیر تیمور اور بی بی خانم کی بہو اور ان کے بیٹے شاہ رخ کی بیگم گوہر شاہ بھی اپنی ساس سے کسی طرح کم نہ ٹھہری۔ ملکہ گوہر شاہ نے اپنے درباری ماہرِ تعمیرات زین الدین شیرازی کو حکم دیا کہ مشہد میں ایک خوبصورت اور عالیشان مسجد تعمیر کی جائے۔
1418ء میں مسجدکی بنیاد رکھی گئی۔ اصفہان اور شیراز سے ماہر فن کار اور کاریگر بلائے گئے۔ انہوں نے ملکہ کی خواہشات کے مطابق مسجد تعمیر کرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں۔ استاد شیرازی کی زیر نگرانی یہ مسجد بارہ سال میں مکمل ہوئی۔ مسجد سمر قندی طرز تعمیر سے تیار کی گئی۔ پیازی طرز کا گنبد مسجد کی شان ہے۔ گنبد کا رنگ فیروزی ہے، مسجد کا کل رقبہ 101292مربع فٹ ہے اور صحن 180فٹ لمبا اور 160فٹ چوڑا ہے۔ مسجد کے صحن میں سنگ مر مر استعمال کیا گیا ہے صحن کے تینوں اطراف میں برآمدے بنائے گئے ہیں۔ مسجد کے دو مینار ہیں جو 131فٹ بلند ہیں۔ گنبد کا قطر49فٹ اور اس کا محیط207فٹ ہے صحن سے مسجد کے اندر ہال میں داخل ہونے کیلئے نو محرابی دروازے ہیں۔ گنبد کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ دہری تہہ میں بنایا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں سرخ اینٹوں، ٹائلوں اور سنگ مر مر کا استعمال کیا گیا ہے۔ خطِ کوفی میں قرآنی آیات اتنی خوشخطی سے تحریر کی گئی ہیں کہ چھ صدیاں گزرنے کے بعد بھی زمانے کے حوادث ان کی آب و تاب میں سرموفرق نہیں لا سکے۔ مسجد کا منبر اخروٹ کی لکڑی سے تیار کیا گیا ہے۔ منبر کی تیاری میں کہیں بھی لوہے کی میخ کا استعمال نہیں کیا گیا۔ مسجد کے ہال میں ہاتھ سے تیار کردہ خوبصورت ایرانی قالین بچھائے گئے ہیں۔ مسجد سے ملحق ایک بڑی لائبریری ہے جس میں 35ہزار کتب رکھی گئی ہیں۔ شاہ رخ کے صدر مقام ہرات میں ایک خوبصورت مدرسہ بھی استاد زین الدین شیرازی کی زیر نگرانی مکمل ہوا تھا۔ ملکہ گوہر شاہ امیر تیمور کے پوتے اور شاہ رخ کے بیٹے الغ بیگ کی والدہ تھی۔ الغ بیگ ایک بڑا حکمران، مشہورہیت دان اور سائنسدان تھا۔
صفوی حکمران شاہ عباس نے مسجد گوہر شاہ کی مرمت اورتزئین و آرائش پر خاص توجہ دی۔1803ء میں زلزلے نے اس مسجد کے کچھ حصے کو نقصان پہنچایا جس کی بعد میں مرمت کر دی گئی۔