یادرفتگاں: ایک عظیم قوال غلام فرید صابری

اسپیشل فیچر
غلام فرید صابری پاکستان کے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال تھے، جنہوں نے قوالی کے فن کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ وہ اپنی جادوئی آواز، وجدانی انداز اور منفرد طرزِ گائیکی کی بدولت صوفیانہ موسیقی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔''تاجدارِ حرم‘‘ جیسی متعدد معروف قوالیوں سے لوگوں کو جھومنے پر مجبور کر دینے والے معروف قوال غلام فرید صابری کو دنیا سے گزرے آج31 برس بیت گئے ہیں۔
غلام فرید صابری نہ صرف پاکستان کے مقبول ترین قوال تھے بلکہ دنیا بھر میں قوالی کے کروڑوں چاہنے والوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔وہ 1930ء میں ہندوستان کے علاقے روہتک میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک قوال گھرانے سے تھا، جہاں صدیوں سے قوالی کا فن نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ ان کے والد عنایت حسین صابری بھی قوال تھے، جنہوں نے غلام فرید کو بچپن ہی سے اس فن کی تربیت دی۔قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔
ان کا پہلا البم 1958ء میں ریلیز ہوا، جس کی قوالی ''میرا کوئی نہیں تیرے سوا‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ وہ اپنے بھائی مقبول صابری کے ساتھ مل کر قوالی گایا کرتے تھے، ان کی جوڑی صابری بردران کے نام سے مشہور ہوئی۔70ء اور 80ء کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا، اسی زمانے میں انھوں نے ''بھر دو جھولی میری یا محمد‘‘ جیسی قوالی گا کر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوا لیا۔1975ء میں گائی قوالی ''تاجدار حرم‘‘ نے ان کی شہرت کو دوام بخشا ۔ ایک دور میں ان کے آڈیو کیسٹس کی ریکارڈ فروخت ہوتی تھی۔
انہوں نے قوالی کے صوفیانہ رنگ کو جدید موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور اپنی پرجوش آواز کے ذریعے سامعین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔صابری برادران نے قوالی میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا اور اس فن کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں متعارف کروایا۔ ان کی قوالیوں کو سن کر لوگ وجد میں آجاتے اور روحانی سرور محسوس کرتے۔
غلام فرید صابری کی قوالیوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بے حد پذیرائی ملی۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک میں اپنی پرفارمنس کے ذریعے قوالی کی خوشبو بکھیر دی۔
انہوں نے فلموں کیلئے بھی قوالیاں ریکارڈ کروائیں جن فلموں میں ان کی قوالیاں شامل کی گئیں ان میں ''عشق حبیب، چاند سورج، الزام، بن بادل برسات، سچائی‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مقبول فلمی قوالیوں میں ''محبت کرنے والوں‘‘ اور'' آفتاب رسالت‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔اردو کے علاوہ پنجابی، سرائیکی اور سندھی زبان میں بھی انہوں نے قوالیاں گائیں۔انہیں کئی بڑے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ غلام فرید صابری نے قوالی کو ایک نئی جہت دی اور ان کا اندازِ گائیکی آج بھی کئی نئے قوال اپنا رہے ہیں۔ ان کے بیٹے امجد فرید صابری نے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قوالی میں شہرت حاصل کی، مگر بدقسمتی سے وہ بھی جوانی میں شہید کر دیے گئے۔
5 اپریل 1994ء کو کراچی میں غلام فرید صابری کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے لیکن ان کا فن آج بھی زندہ ہے۔ ان کی قوالیاں دنیا بھر میں صوفیانہ موسیقی کے شائقین کے دلوں میں جگہ بنا چکی ہیں۔ ان کی یاد ہمیشہ عقیدت مندوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کا انداز، ان کی عقیدت اور ان کی آواز ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
مشہور قوالیاں
٭...تاجدارِ حرم
٭...بھر دو جھولی میری یا محمد
٭...مریضِ محبت اْنہی کا فسانہ
٭...خواجہ کی دیوانی
٭...میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا
٭...بالے بالے نی سوہنیا
٭...محبت کرنے والوہم محبت اس کو کہتے ہیں
٭...آئے ہیں تیرے در پہ تو...
اعزازات
صابری بردران نے اپنے کریئر میں بیشمار نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈز اور اعزازات اپنے نام کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
٭...1978ء میں صدر پاکستان نے غلام فرید صابری کے پورے گروپ کو ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا تھا۔
٭...1981ء میں امریکی حکومت کی طرف سے صابری برادران (غلام فرید صابری اور مقبول صابری) کو ''سپرٹ آف ڈیٹرائٹ ایوارڈ‘‘ ملا تھا۔
٭... 1977ء میں نظام الدین اولیاء کے مزار کی انتظامیہ نے انہیں ''بلبل پاک و ہند‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔
٭...1983ء میں انہیں فرانسیسی حکومت نے اپنے اعلیٰ ترین اعزاز ''چارلس ڈی گائولے ایوارڈ‘‘ دیا۔
٭...آکسفورڈ یونیورسٹی نے صابری برادرز کو علامہ اقبالؒ کا کلام ''شکوہ جواب شکوہ‘‘ پڑھنے پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔