پہلی جنگ عظیم:مارن کی لڑائی

اسپیشل فیچر
جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کیلئے ہر لمحہ حالت جنگ کا لمحہ تھا تاہم مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک مارن کے محاذ پر لڑی گئی، جس کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔ 26اگست کی لاکیٹائو کی لڑائی کے بعد مولٹک کی ہدایات کے مطابق جنرل کلاک اپنی آرمی کو جنوب مغرب کی جانب لے جا رہا تھا۔30اگست کو جنرل کلاک کو جنرل بوُلو کی جانب سے ایک پیغام ملا جس میں اسے بتایا گیا تھا کہ فرانس کی فوج کو بری طرح شکست ہو چکی ہے اور دشمن کو قدم جمانے سے روکنے کیلئے ایک شدید حملے کی ضرورت ہے جس کیلئے اس کی پہلی آرمی مدد کر کے جنگ کا خاتمہ کرے۔ جنرل کلاک جو جنگ کے آغاز میں جنرل بوُلو کا ماتحت تھا چند دن پہلے ہی ماتحتی ختم کرکے مطلق العنان جنرل بنا دیا گیا تھا۔ اس نے بہتر یہ سمجھا کہ ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرکے ہدایات لے مگر ہیڈ کوارٹر سے رابطہ بہت تاخیر کا باعث بنا۔ کئی دن کے انتظار کے بعد جب کوئی جواب نہ آیا تو کلاک نے فیصلہ کیا کہ وہ جنرل بوُلو کے فیصلے کے مطابق عمل کرے گا۔ 31اگست کو جب جنرل کلاک کو یہ معلوم ہوا کہ جنرل بولو بجائے گرتے ہوئے دشمن پر آخری ضرب لگانے کے ایک ہی مقام پر ایک دن سے زائد عرصے تک پڑائو ڈالے رہا ہے تو اس نے سوچا کہ اس بہترین موقع سے اگر جنرل بوُلو فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تو نہ اٹھائے۔ اسے تو بہرحال فائدہ اٹھانا چاہیے لہٰذا اس نے جنوب مشرق کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس کی پانچویں آرمی کودبانے اور پیرس کے مشرق میں پہنچنے کیلئے اپنی فوج کو پیش قدمی کرنے کی ہدایت کی۔
لیگزمبرگ میں مولٹک اپنی مغربی افواج سے مکمل طور پر کٹا ہوا تھا۔ فرانس کی پانچویں آرمی میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کیلئے تیسری اور چوتھی افواج متحرک ہو چکی تھیں۔ اور یہ تمام افواج ایک جگہ مجتمع ہو کر جرمن افواج پر ایک زور دار جوابی حملہ کرنے کیلئے تیاری پکڑ رہی تھی۔ مولٹک ابتدائی طور پر فرانس کی افواج کی پسپائی کو بھرپور شکست سمجھ چکا تھا اور یہ سوچنے کیلئے بالکل تیار نہ تھا کہ جنرل جوفر کسی منصوبے کے تحت بھی اپنی افواج کو پسپائی اختیار کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔
مزید یہ کہ جنرل مولٹک اپنی میدان جنگ میں مصروف افواج خصوصاً پہلی اور دوسری آرمی کو یہ معلومات دینے سے بھی قاصر رہا تھا کہ فرانس کی تازہ دم افواج بذریعہ ٹرین میدان کارزار میں پہنچ رہی ہیں اور دوسری طرف پیرس کے ارد گرد قلعہ بندیوں کا کام تیزی سے جاری ہے، جس کے مطابق میدان میں موجود افواج اپنی منصوبہ بندی کرتیں۔
فرانس میں پیرس پر حملے کے پیش نظر دارالخلافہ بورڈ یوکس منتقل کر دیا گیا تھا اور تقریباً 5لاکھ شری پیرس سے ہجرت کر گئے تھے۔ تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر جنرل جوفر کو اپنے منصوبے میں پھر تبدیلی کرنی پڑی کیونکہ برطانوی افواج بری طرح تباہ حال ہو چکی تھیں اور انہیں اپنے اوسان درست کرنے میں زیادہ وقت درکار تھا۔ مائونوری میں موجود چھٹی آرمی جو مشرقی افواج کے یونٹس سے مربوط کی گئی تھی ابھی جنگ کیلئے تیار نہ تھی جبکہ جرمن پہلی آرمی کی پیش قدمی کی سمت میں تبدیلی کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی تھیں۔ اس نئی صورتحال کے پیش نظر جنرل جوفر نے اپنی چوتھی ہدایات یکم ستمبر کو جاری کیں۔ جن کے مطابق اس نے اتحادی افواج کی پسپائی کا رخ مزید جنوبی سمت پیرس سے ورڈن اور ایک خم کی صورت میں جنوب کی جانب نوجینٹسر سے سائین تک پھیل جانے کی ہدایت کی تھی۔ مزید یہ کہ جنرل جوفر نے جنرل چارلس کی جگہ پانچویں آرمی کی کمانڈ نسبتاً زیادہ جارحیت پسند جنرل فرینچٹ ڈی ایسپیرے کو تفویض کر دی۔ جنرل الیگزینڈ روان کلاک اپنی پہلی آرمی کے ہمراہ 31 اگست سے 2ستمبر تک نہایت تیزی سے جنوب مشرقی جانب بڑھتا رہا۔ اس طرح وہ فرانس کی پانچویں آرمی کے بائیں بازو کو مکمل طور پر تباہ کردینا چاہتا تھا۔ جنرل بوُلو کی فوج جنگ گوئز کے بعد36 گھنٹے کے قیام کی وجہ سے ایک دن کی مسافت پیچھے رہ گئی تھی۔ اس نئی پیش قدمی سے یہ لگ رہا تھا کہ پہلی آرمی فرانس کی پانچویں آرمی کے عقب سے جبکہ دوسری آرمی سامنے سے حملہ آور ہو کر چکی کے دو پاٹوں میں پیس کر رکھ دیں گی۔ 2ستمبر کی شب پہلی آرمی کے 9کور دریائے مارن پر کیٹائوتھیری پر پہنچ چکے تھے۔ اسے مولٹک کی جانب سے ہدایات ملیں کہ وہ دوسری آرمی کے پیچھے رہتے ہوئے جرمن افواج کے دائیں حصے کی حفاظت کرے۔ ایک بار پھر مولٹک نے جنرل کلاک کو فرانس کی افواج کی نقل و حرکت سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ جنرل جوفر اپنے نئے منصوبے کے مطابق جنرل مائیکل مائونیوری کی چھٹی آرمی کے ساتھ 6ستمبر کو جرمنی کی پہلی آرمی پر ایک بھرپور جوابی حملہ کرنے والی تھی جبکہ برطانوی فوج اور پانچویں آرمی بھی جرمن فوج پر پہلوئوں سے حملے کرتے ہوئے پیچھے دھکیلنے کیلئے تیار تھیں۔ جرمنی کے ہیڈ کوارٹر میں مولٹک کو اب محسوس ہو رہا تھا کہ جنرل جوفر کا منصوبہ کیا ہے۔ فرانس کی افواج کا مشرق سے جنوب کی جانب منتقل ہونا اور پیرس کے ارد گرد بھاری فوجی نقل و حمل اسے احساس دلا رہے تھے کہ جنرل جوفر شدید جوابی حملے کیلئے تیاری کر رہا ہے۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اب شیلفن پلان کا متبادل زیر عمل لانا پڑے گا۔ کیونکہ پہلی اور دوسری آرمی اب اس قابل نہیں رہ گئی تھیں کہ وہ دشمن پر فیصلہ کن حملہ کر سکیں لہٰذا وہ ان دو آرمیوں سے مشرقی محاذ پر فرانس کی افواج کو روکتے ہوئے باقی ماندہ پانچ آرمیوں سے جنوب کی جانب فرانس کی مجتمع ہونے والی افواج سے برسرپیکار کرنا چاہتا تھا۔
جنرل جوفر2اگست سے 6ستمبر تک اپنی فوج کی کمانڈ اور کنٹرول کے نظام کو سختی سے درست کرتا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تین آرمی کمانڈروں، دس کور کمانڈروں اور اڑتیس ڈویژن کمانڈروں کو تبدیل کیا تھا۔جنرل جوفر نے اپنی چھٹی ہدایت میں فرانس کی چھٹی آرمی کو اپنی خندقوں سے نکل کر شمال کی جانب دریائے آرک کو عبور کرتے ہوئے 6ستمبر کی صبح دشمن پر حملہ آور ہونا تھا۔ ٹھیک اسی وقت برطانوی فوج اور فرانس کی پانچویں آرمی نے اپنے اپنے سامنے موجود دشمن سے بھڑ جانا تھا۔
جوفر کو یہ معلوم تھا کہ اگر اس حملے میں نتائج توقع کے برعکس رہے تو فرانس کیلئے ذلت آمیز شکست کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اسی لئے اس نے پہلی بار اپنے تمام جوانوں سے بلاواسطہ اپیل کی جس میں انہیں ملکی سالمیت کی اس جنگ میں مزید پسپائی کیلئے کوئی جگہ نہ ہونے کی بابت بتایا۔