صاحب کی بیٹھک:جنت گم گشتہ

اسپیشل فیچر
استور پہنچے تو جیپ ڈرائیور نے ایک نئے سفر کی طرف مائل اور قائل کر لیا کہ ایک ایسا خوبصورت علاقہ دیکھنا ابھی باقی ہے جو ہمیں منی مرگ سے جدائی کا احساس جلد بھلا دے گا۔ پہلے تو ہم نے اس بات کو مذاق سمجھا ، لیکن پھر معلوم ہوا کہ وہ ہماری آوارہ گردی اور کوہ نوردی کی الگ سی حس کی وجہ سے ہمیں کچھ خاص سمجھتے ہوئے ایسے علاقے کی طرف بھیج کر اسے لوگوں کے سامنے لانے کا خواہاں ہے۔
یہ مقام ''صاحب کی بیٹھک‘‘ ہے اور جلد ہی ہم نے یہاں تک رسائی کا ارادہ کر لیا۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہم نے اپنا سفر استور شہر سے شروع کیا جو بذریعہ جیپ تھا ایک بار پھر گوری کوٹ ہمارا نقطہ آغاز تھا۔ چورت کے مقام پر ہم دریائے روپل پر قائم پُل پار کرکے رٹو چھاؤنی کی طرف مڑ گئے۔ اب ہمارا سفر دریائے ریاٹ کے ساتھ ساتھ تھا۔ رٹو چھاؤنی سے ہم نے دریائے ریاٹ کو الوداع کہا اور دائیں طرف میر ملک نالے کے ہم قدم ہوگئے۔
داؤ جیل گاؤں اور چمروٹ کے مقامات سے گزرتے ہوئے میر ملک گاؤں پہنچے۔ استور شہر سے 3 گھنٹے کا سفر کرکے ہم شونٹر پاس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہماری دائیں جانب مشہور شونٹر پاس تھا جہاں سے لوگ براستہ کیل بکروال قدیم زمانوں سے پیدل سفر کر کے پہنچتے تھے جبکہ مخالف سمت میں پھلاوائی وادی نیلم کے قرب و جوار کے پہاڑ واقع تھے۔ قرب میں چند خانہ بدوش بھی آباد تھے۔ شونٹر پاس کی طرف سے آنے والی ندی کو ایک ایسے پُل سے پار کیا جو لکڑی کے 2 شہتیروں کے درمیان پتھر کی سلیں رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔یہاں سے ہم نے ٹریکنگ کا آغاز کیا اور تھکن کے خوف نے باقی ہم سفروں کو وہیں روک لیا اور ہم آبشار کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ انتہائی آسان تھا، گھاس میں پوشیدہ چند ڈھلوانیں پار کیں تو ایک گمنام جھیل کے کنارے جا اترے۔ یہ جھیل اگرچہ چھوٹی تھی لیکن باقاعدہ الپائن جھیل تھی۔ یہاں سے آگے راستے میں پتھر اور چٹانیں تھیں جن پر ہمیں احتیاط سے قدم اٹھانا پڑے۔ تھوڑی بلندی سے نیچے اترے تو ایک اور خوبصورت جھیل کا دیدار نصیب ہوا۔ یہ جھیل بھی ایک الپائن جھیل ہی تھی جو پچھلی جھیل کی نسبت قدرے بڑی تھی۔
دور پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیاں فلک سے محو گفتگو تھیں۔ ان چوٹیوں کے نیچے ایک بڑا گلیشیئر نظر آرہا تھا جس کا دل موہ لینے والا نظارہ بہت ہی آفاقی معلوم ہورہا تھا۔ کچھ آگے بڑھے تو تیسری جھیل کا دیدار نصیب ہوا اور پھر دور سے آبشار کے گرنے کی کھنکتی آواز نے توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔
یہاں بھی چند خانہ بدوش آباد تھے اور اپنے گاؤں کو 'صاحب کی بیٹھک‘ کا نام دیتے ہیں۔ گاؤں کی خوبصورتی نے ہم سب کو اپنا گرویدہ کرلیا اور سوچنے پر مجبور کردیا۔یہ انگریز بھی عجیب لوگ تھے جو صدیوں قبل منی مرگ اور صاحب کی بیٹھک تک جاپہنچے اور ہم اب تک ان جگہوں کے دیدار سے محروم رہے۔ شاید واقعی ہم اپنے ملک کی خوبصورتی کو ابھی تک پہچان نہیں سکے۔
اس گاؤں کے قریب بھی ایک خوبصورت جھیل موجود تھی۔ چلتے چلتے اب ہم ایک میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ اس میدان میں میر ملک کی ندی میدان کا سینہ چیرتے ہوئے چند شاخوں میں تقسیم ہوکر بہہ رہی تھی۔ بعض شاخوں میں پانی مٹیالہ اور بعض میں نیلا تھا۔
نیلے رنگ کا پانی تین چارجھیلوں کا تھا جبکہ مٹیالے رنگ کا پانی دیوقامت آبشار کے بطن سے نکل رہا تھا۔ ایک مقام پر مٹیالے رنگت کا پانی شفاف نیلے پانی میں ضم ہو رہا تھا اور ڈرون سے یہ منظر قابلِ دید تھا۔ نظروں کو بھلا لگنے والا میدان گھاس کا مخملی قالین اوڑھے ہوئے تھا۔ کچھ دیر آرام کیا اور پیٹ پوجا کی۔ یاک کا مکھن بطور سالن تازہ روٹی کے ساتھ نوش کیا اور پھر آبشار کی جانب ایک بار پھر سفر شروع کر دیا۔ نالہ پار کر کے آبشار کی طرف چلے لیکن ہمارا راستہ بڑی ندی نے روک لیا۔ اسے پار کرنا ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ ماہ اگست میں پانی کی مقدار قدرے کم تھی لیکن پھر بھی لاچار ہوکر آبشار کو دیکھ رہے تھے اور چلتے چلتے ہم اس ندی کے بہاؤ کی مخالف سمت ایک اور جھیل پر جا پہنچے۔ اس مقام سے آبشار کم و بیش 800 میٹر کے فاصلے پر تھی لیکن چہرے پر پڑتی ہلکی پھوار ہمیں آبشار کے قریب جانے کیلئے اکسا رہی تھی۔ اس آبشار کا شور اس قدر زیادہ تھا کہ کان میں بات کرکے ہی بات سنائی دیتی تھی۔ آبشار کا پانی پہاڑ کی چوٹی سے تین حصوں میں گرتا ہے۔ یہ خوبصورت آبشار 700 سے 800 فٹ اونچائی سے گرتی ہے اور پاکستان کی بڑی آبشاروں میں اس کا شمار ہوتا ہوگا۔ شام ہوچکی تھی۔ لہٰذا آبشار کے قریب پہنچنے کا راستہ تلاش کرنا اب ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس مرتبہ قدرت ہمیں ابھی آبشار کے چرنوں میں بیٹھنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہتی تھی۔ ویسے تو قدرت کا ہر رنگ ہی خوبصورت ہوتا ہے لیکن میرے پسندیدہ مقام منی مرگ کی خوبصورتی میر ملک کے میدان میں موجود 'صاحب کی بیٹھک‘ اور اس کی دل موہ لینے والی آبشار کے سامنے ڈھلتی ہوئی نظر آئی۔
اس خوبصورت وادی میں سرسبز مخملی گھاس، ندی نالے، آبشاریں، جھرنے، جھیلیں، مختلف رنگوں کے پہاڑ اور ایک خوبصورت گلیشیئر موجود ہیں جو اسے میری نظر میں پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ بناتے ہیں۔ تین گھنٹے طویل اور تھکا دینے والے اور ایک گھنٹے کے پیدل سفر نے اگرچہ تھکا دیا تھا مگر جس قدر قدرتی حسن یہاں بکھرا تھا کہ اس کے مقابلے میں راستے کی مشکلات کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اس امید کے ساتھ ایک کوہ نورد ان مقامات کی خوبصورتی کو قلم بند کر رہا ہے کہ شاید قدرت کا متلاشی کوئی اربابِ اختیار اس خوبصورت جگہ تک پہنچ جائے اور یہاں کے مکینوں کی زندگی آسان کرنے کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات کر سکے۔