مہرگڑھ:برصغیر کے تمدنی سفر کی پہلی منزل
اسپیشل فیچر
بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں ایک ایسی بستی آباد تھی جو آج بھی انسانی تاریخ کی پہلی دھڑکنوں کی یاد دلاتی ہے۔ یہ ہے مہر گڑھ،جنوبی ایشیا کی وہ تہذیب جس نے انسان کو خانہ بدوشی سے نکال کر منظم زندگی، آباد بستیوں اور زرعی تمدن کی طرف دھکیلا۔ اس کہانی کا آغاز تقریباً نو ہزار سال پہلے ہوا جب دنیا کے کئی خطے ابھی پتھر کے دور میں گم تھے۔
یہ 1974ء کی ایک دوپہر تھی جب فرانسیسی ماہرینِ آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جارج (Jean-François Jarrige) اور کیتھرین جارج( Catherine Jarrige) نے بلوچستان کے ضلع کچّھی میں مٹی کے نیچے چھپی ایک ایسی دنیا دریافت کی جو تاریخ کو نئی ترتیب دینے والی تھی۔ شب و روز کی کھدائی سے سامنے آیا کہ یہ جگہ کوئی عام بستی نہیں بلکہ برصغیر کی سب سے قدیم زرعی معاشرت کا گہوارہ تھی۔مہر گڑھ کا مقام کچھ ایسا تھا کہ یہاں سے گزرنے والے راستے سندھ، افغانستان اور ایران تک پہنچتے تھے۔ شاید یہی وہ سنگم تھا جہاں انسان نے پہلی بار تجارت، تبادلے اور میل جول کی اہمیت محسوس کی۔ کھدائی میں ملنے والی اینٹیں، چکی کے پتھر اور اناج کے ذخائر بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ شکار پر انحصار چھوڑ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے کچی اینٹوں کے گھر بنائے،اناج کے گوداموں میں غلہ محفوظ کیا اور ایک جگہ مستقل رہائش اختیار کی۔ یہ تمام باتیں اس بستی کے ارتقا کی بنیاد تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کے چند ہی خطوں میں زراعت کا آغاز ہوا تھا، مہر گڑھ ان میں سرفہرست ہے۔
قدیم مہر گڑھ کا طرزِ زندگی
مہر گڑھ کے رہنے والوں نے گندم اور جو کی باقاعدہ کاشت کی۔ دریا کے قریب لہلہاتے کھیت، پانی کھینچ کر لانے کے طریقے، اور غلے کی حفاظت کے انتظامات سے وہ ایک مکمل زرعی معاشرے میں تبدیل ہو گئے۔ مویشی بانی بھی یہاں کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی۔مہر گڑھ کی دستکاری آج بھی ماہرین کو حیران کرتی ہے۔ یہاں سے ملنے والی اشیا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قدیم بستی کے لوگ صرف کسان نہیں، فنکار بھی تھے۔ ان کی بنائی ہوئی چیزوں میں خوبصورت ڈیزائنوں والے مٹی کے برتن، فیروزے اور سیپیوں سے بنے زیورات،تانبے کے اوزار،ہڈی سے کندہ کاری کے نمونے اورانسانی اور حیوانی پیکرخاص طور پر مٹی کی گڑیائیں انتہائی دلچسپ ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ گڑیاں زرخیزی، ممتا اور مذہبی عقائد کا آئینہ تھیں۔مہر گڑھ کی سب سے حیران کن دریافت انسانی جبڑوں پر کیے گئے سوراخ ہیں جو کسی قدیم ڈینٹل ڈرل سے بنائے گئے تھے۔ یعنی 7000 سال پہلے اس بستی کے لوگ دانتوں کا علاج کر رہے تھے! یہ دنیا کی قدیم ترین دندان سازی میں شمار ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہر گڑھ صرف ایک زرعی بستی نہیں بلکہ سائنسی سوجھ بوجھ کی حامل ایک جدید آبادی تھی۔
موت کی وادی میں زندگی کا یقین
ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ مہر گڑھ کی قبروں میں ملنے والی چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھتے تھے۔ دفن کیے گئے افراد کے ساتھ رکھا جانے والا سامان ان کے عقائد اور رسوم کا پتہ دیتا ہے۔ مٹی کے برتن، زیورات، کھانے پینے کی اشیا،بعض جگہ جانوروں کی قربانی کے آثار،یہ رواج اس تہذیب کے روحانی شعور اور سماجی تنظیم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
لوبان اور فیروزے کی تجارت
مہر گڑھ کے باشندے اپنی حدود سے بہت آگے تک سفر کرتے تھے۔ یہاں پایا جانے والا لیپس لازولی اور فیروزہ افغانستان سے آتا تھا جبکہ بعض مصنوعات ایران تک جاتی تھیں۔ یہ شواہد بتاتے ہیں کہ لمبے فاصلے کی تجارت کا راج تھا،دستکار قیمتی مصنوعات تیار کرتے تھے اورمہر گڑھ علاقائی سطح پر معاشی مرکز بن چکا تھا،یہی تجارتی روایت بعد میں وادی سندھ کے بڑے شہروں میں بھرپور طور پر نظر آتی ہے۔
یہ تہذیب ختم نہیں ہوئی، آگے بڑھ گئی
تاریخ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مہر گڑھ ہی وہ ابتدائی بنیاد ہے جس نے بعد میں موئن جو دڑو، ہڑپہ اوروادی سندھ کے دیگر شہروں کو جنم دیا۔ شہری منصوبہ بندی، تجارت، دستکاری، زرعی نظام،یہ سب عناصر سب سے پہلے مہر گڑھ میں پروان چڑھے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مہر گڑھ نے انسان کو راستہ دکھایا اور وادی سندھ نے اس راستے پر ایک عظیم تہذیب پروان چڑھی۔سمندر بہا دیا۔2600 قبل مسیح کے بعد مہر گڑھ کی آبادی کم ہونے لگتی ہے۔ ماہرین اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں مثال کے طور پر موسمی تبدیلیاں، دریاؤں کے رخ میں تبدیلی یا بہتر مواقع کی تلاش۔ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ مہر گڑھ کے لوگ کہیں گم نہیں ہوئے،وہ آگے جا کر وادی سندھ کے بڑے مراکز میں جذب ہو گئے۔آج جب ہم بلوچستان کی اس تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت جیسے تھم گیا ہو۔ کہیں دور مٹی کے نیچے وہ لوگ اب بھی چکی پیس رہے ہیں، مٹی کی گڑیاں بنا رہے ہیں، کھیتوں میں اگتی گندم سے امید کا رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ مہر گڑھ ہمیں بتاتا ہے کہ برصغیر کی کہانی کسی جنگ، کسی فاتح یا کسی سلطنت سے نہیں شروع ہوئی بلکہ ایک چھوٹی سی بستی سے، جہاں انسان نے پہلی بار زمین کو کاٹ کر اپنا مستقبل بویا۔ اسی لیے مہر گڑھ ایک تہذیب نہیں، ہمارے تمدنی سفر کی پہلی دھڑکن ہے۔