گلوبل وارمنگ؟ حقیقت یا مبالغہ
اسپیشل فیچر
میساچوسیٹس کے پروفیسر کا چونکا دینے والا دعویٰ
موسمیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کے بارے میں شکوک و شبہات ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں، کیونکہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کے حقیقی اسباب ابھی تک واضح نہیں ہوسکے اور اس سے نمٹنے کیلئے بنائی جانے والی پالیسیاں سائنسی بنیادوں سے زیادہ مالی مفادات کے تحت تشکیل دی جارہی ہیں۔''میساچوسیٹس انسٹی ٹیوشن آف ٹیکنالوجی‘‘ (MIT) کے شعبہ موسمیات کے پروفیسر ایمریٹس رچرڈ لنڈزن(Richard Lindzen) جو کئی دہائیوں سے فضائی و ماحولیاتی علوم پر تحقیق کر رہے ہیں، نے برطانوی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں پیدا کی جانے والی ہیجان انگیزی دراصل حقیقی اعداد و شمار پر مبنی نہیں ہے۔
کلائمٹ چینج اس اصطلاح کو کہا جاتا ہے جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو بیان کرتی ہے، جس کی بڑی وجہ انسانی سرگرمیوں کو سمجھا جاتا ہے، مثلاً کوئلہ، تیل اور گیس جلانا۔سائنس دانوں اور ماحولیاتی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ غیر معمولی حدت میں یہ اضافہ زیادہ شدید طوفانوں، ساحلی علاقوں میں سمندر کی سطح بلند ہونے سے ممکنہ تباہ کن سیلابوں اور زیادہ گرم موسمِ گرما کا باعث بن سکتا ہے، جس سے دنیا بھر میں غذائی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے اور یہ سب آئندہ 25 برسوں میں ممکن ہے۔ تاہم، رچرڈ لنڈزن کا کہنا ہے کہ توانائی کی کھربوں ڈالر مالیت کی عالمی صنعت پر کنٹرول حاصل کرنے کے مالی اثرات ہی وہ حقیقی محرک ہیں جنہوں نے سیاست دانوں کو اس ''غلط تحقیق‘‘ کی حمایت پر اکسایا ہے، جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی فوری تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کہ آپ ایک کھربوں ڈالر کی صنعت کے مالک ہیں اور آپ کو اسے مکمل طور پر بدلنے کا موقع مل رہا ہے، بہت سے سیاست دانوں کیلئے بڑی کشش رکھتا تھا۔ وہ اس پر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ آدھا درجہ اور ہم تباہ ہو جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ عوام جانتی ہے کہ یہ سب بکواس ہے۔ لنڈزن نے اس چیز کا بنیادی حساب بھی واضح کیا جسے وہ ''موسمیاتی خطرہ انگیزی‘‘ (climate alarm)کہتے ہیں۔ ان کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مخصوص گیسوں کے اخراج میں کمی پر زور دینا وہ عالمی درجہ حرارت کی تبدیلیاں ہرگز پیدا نہیں کرتا جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
ان سائنسدان کا کہنا تھا کہ زمین کے درجہ حرارت میں تاریخ کے مختلف ادوار میں نمایاں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، اور اب تک سائنسی طور پر یہ بات بھی یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکی کہ شدید حدت یا شدید سردی کی ان تبدیلیوں کی اصل وجہ کیا رہی ہے۔انہوں نے 15ویں صدی میں ہونے والی برف باری اور شدید سردی کے طویل دور جسے ''لٹل آئس ایج‘‘کہا جاتا ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس برفانی دور کو نہیں سمجھ سکے جو 15ویں صدی میں آیا تھا۔ تو پھر اس وقت کیا ہو رہا تھا؟ کیا اس دور میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ناکافی تھی؟
صاف توانائی کے منصوبوں اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کی مالی معاونت کیلئے ''ریڈکشن فنڈ‘‘ قائم کیا گیا ہے۔لنڈزن کا دعویٰ ہے کہ قانون سازوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا سب سے بڑا ماحولیاتی مجرم بنا کر پیش کیا ہے، حالانکہ یہ دراصل ایک نسبتاً معمولی گرین ہاؤس گیس ہے جو پودوں کی نشوونما کیلئے فائدہ مند کردار ادا کرتی ہے۔محقق نے مؤقف اختیار کیا کہ دنیا بھر میں بعض گرین ہاؤس گیسوں کو شیطانی صورت میں پیش کرنے کے رجحان نے بہت سے سائنس دانوں کو ایک طرح کی ''آزاد چھوٹ‘‘ دے دی، جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے نظریات کی حمایت میں تحقیق کرنے والوں کی جامعات کو بڑے پیمانے پر مالی گرانٹس دی گئیں۔
حالیہ برسوں میں امریکی وفاقی ادارے ہر سال تقریباً 5 ارب ڈالر موسمیاتی تحقیق پر خرچ کر رہے ہیں، جبکہ وائٹ ہاؤس کے 2024ء کے بجٹ کے تحت 1.6 ارب ڈالر جامعات اور غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کو ایسے تحقیقی منصوبوں کیلئے فراہم کیے گئے جو گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والی ممکنہ قدرتی تباہ کاریوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔مزید یہ کہ لنڈزن بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ جن سائنس دانوں نے موسمیاتی تبدیلی کے غیر مستقل اور متضاد اعداد و شمار پر سوالات اٹھائے، ان کی تحقیق کو اکثر علمی جرائد نے مسترد کر دیا، یا پھر وہ مدیران جنہوں نے ان کے نتائج شائع کیے، انہیں بعد میں عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔
لنڈزن نے موسمیاتی تبدیلی کی تعبیر کے بارے میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ امید کی بات ہے کہ لوگ کم از کم اس پر سوال تو اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ تاریخی طور پر ایک انوکھا معاملہ ہے اور ہماری عہد کیلئے شرمندگی کا باعث ہوگا۔
شائع شدہ مطالعات نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا بھر کی حکومتیں 2050 تک عالمی درجہ حرارت کو قبل از صنعتی دور کی اوسط کے مقابلے میں 2.7°F سے زیادہ بڑھنے سے نہ روک سکیں، تو اس کے نتیجے میں برفانی چادروں کا ناقابلِ واپسی پگھلاؤ، فصلوں کی تباہی اور مہلک گرمی کی لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔ان خدشات کے باوجود، لنڈزن کے حساب کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار دوگنی ہو جانے سے درجہ حرارت میں صرف آدھا درجہ اضافہ ہوگا۔تاہم، بہت سے ماڈلز جو ممکنہ موسمیاتی تباہی کی پیش گوئی کرتے ہیں، یہ مفروضہ بھی شامل کرتے ہیں کہ درجہ حرارت میں ہر معمولی اضافہ فضا میں مزید آبی بخارات جمع کر دیتا ہے اور آبی بخارات حرارت جذب کرنے میں کاربن ڈائی آکسائیڈسے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ لنڈزن اس مفروضے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق قدرت اکثر بڑی موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتی ہے، نہ کہ انہیں مزید شدید بناتی ہے۔ ان کا نظریہ ''آئرس افیکٹ‘‘ کہلاتا ہے، جس کے مطابق جب استوائی خطے ضرورت سے زیادہ گرم ہو جاتے ہیں تو طاقتور طوفانی بادل فضا میں سوراخ پیدا کرتے ہیں، جس سے اضافی حرارت خلا میں خارج ہو جاتی ہے۔اس عمل کے نتیجے میں بادلوں کی نمی کم ہوتی ہے، جو دوسری صورت میں زیادہ حرارت جذب کر کے زمین کو مزید گرم رکھتی۔
لنڈزن نے یہ بھی کہا کہ اگر دنیا کے تمام ممالک 2050 تک بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق نیٹ زیرو اخراج کے ہدف تک پہنچ بھی جائیں، یعنی ایندھن کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہونا مکمل طور پر ختم ہو جائے، تب بھی اس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں صرف نہایت معمولی سے حصے کے برابر کمی آئے گی۔البتہ سخت ماحولیاتی پابندیوں پر عملدرآمد کی عالمی معاشی لاگت کھربوں ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، جسے لنڈزن نے ''انتہائی خسارے کا سودا، اور تقریباً بے فائدہ‘‘ قرار دیا ہے۔