گلوبل وارمنگ؟ حقیقت یا مبالغہ

گلوبل وارمنگ؟ حقیقت یا مبالغہ

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ارشد لئیق


میساچوسیٹس کے پروفیسر کا چونکا دینے والا دعویٰ
موسمیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کے بارے میں شکوک و شبہات ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں، کیونکہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کے حقیقی اسباب ابھی تک واضح نہیں ہوسکے اور اس سے نمٹنے کیلئے بنائی جانے والی پالیسیاں سائنسی بنیادوں سے زیادہ مالی مفادات کے تحت تشکیل دی جارہی ہیں۔''میساچوسیٹس انسٹی ٹیوشن آف ٹیکنالوجی‘‘ (MIT) کے شعبہ موسمیات کے پروفیسر ایمریٹس رچرڈ لنڈزن(Richard Lindzen) جو کئی دہائیوں سے فضائی و ماحولیاتی علوم پر تحقیق کر رہے ہیں، نے برطانوی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں پیدا کی جانے والی ہیجان انگیزی دراصل حقیقی اعداد و شمار پر مبنی نہیں ہے۔
کلائمٹ چینج اس اصطلاح کو کہا جاتا ہے جو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو بیان کرتی ہے، جس کی بڑی وجہ انسانی سرگرمیوں کو سمجھا جاتا ہے، مثلاً کوئلہ، تیل اور گیس جلانا۔سائنس دانوں اور ماحولیاتی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ غیر معمولی حدت میں یہ اضافہ زیادہ شدید طوفانوں، ساحلی علاقوں میں سمندر کی سطح بلند ہونے سے ممکنہ تباہ کن سیلابوں اور زیادہ گرم موسمِ گرما کا باعث بن سکتا ہے، جس سے دنیا بھر میں غذائی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے اور یہ سب آئندہ 25 برسوں میں ممکن ہے۔ تاہم، رچرڈ لنڈزن کا کہنا ہے کہ توانائی کی کھربوں ڈالر مالیت کی عالمی صنعت پر کنٹرول حاصل کرنے کے مالی اثرات ہی وہ حقیقی محرک ہیں جنہوں نے سیاست دانوں کو اس ''غلط تحقیق‘‘ کی حمایت پر اکسایا ہے، جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی فوری تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کہ آپ ایک کھربوں ڈالر کی صنعت کے مالک ہیں اور آپ کو اسے مکمل طور پر بدلنے کا موقع مل رہا ہے، بہت سے سیاست دانوں کیلئے بڑی کشش رکھتا تھا۔ وہ اس پر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ آدھا درجہ اور ہم تباہ ہو جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ عوام جانتی ہے کہ یہ سب بکواس ہے۔ لنڈزن نے اس چیز کا بنیادی حساب بھی واضح کیا جسے وہ ''موسمیاتی خطرہ انگیزی‘‘ (climate alarm)کہتے ہیں۔ ان کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مخصوص گیسوں کے اخراج میں کمی پر زور دینا وہ عالمی درجہ حرارت کی تبدیلیاں ہرگز پیدا نہیں کرتا جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
ان سائنسدان کا کہنا تھا کہ زمین کے درجہ حرارت میں تاریخ کے مختلف ادوار میں نمایاں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، اور اب تک سائنسی طور پر یہ بات بھی یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکی کہ شدید حدت یا شدید سردی کی ان تبدیلیوں کی اصل وجہ کیا رہی ہے۔انہوں نے 15ویں صدی میں ہونے والی برف باری اور شدید سردی کے طویل دور جسے ''لٹل آئس ایج‘‘کہا جاتا ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس برفانی دور کو نہیں سمجھ سکے جو 15ویں صدی میں آیا تھا۔ تو پھر اس وقت کیا ہو رہا تھا؟ کیا اس دور میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ناکافی تھی؟
صاف توانائی کے منصوبوں اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کی مالی معاونت کیلئے ''ریڈکشن فنڈ‘‘ قائم کیا گیا ہے۔لنڈزن کا دعویٰ ہے کہ قانون سازوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا سب سے بڑا ماحولیاتی مجرم بنا کر پیش کیا ہے، حالانکہ یہ دراصل ایک نسبتاً معمولی گرین ہاؤس گیس ہے جو پودوں کی نشوونما کیلئے فائدہ مند کردار ادا کرتی ہے۔محقق نے مؤقف اختیار کیا کہ دنیا بھر میں بعض گرین ہاؤس گیسوں کو شیطانی صورت میں پیش کرنے کے رجحان نے بہت سے سائنس دانوں کو ایک طرح کی ''آزاد چھوٹ‘‘ دے دی، جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے نظریات کی حمایت میں تحقیق کرنے والوں کی جامعات کو بڑے پیمانے پر مالی گرانٹس دی گئیں۔
حالیہ برسوں میں امریکی وفاقی ادارے ہر سال تقریباً 5 ارب ڈالر موسمیاتی تحقیق پر خرچ کر رہے ہیں، جبکہ وائٹ ہاؤس کے 2024ء￿ کے بجٹ کے تحت 1.6 ارب ڈالر جامعات اور غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کو ایسے تحقیقی منصوبوں کیلئے فراہم کیے گئے جو گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والی ممکنہ قدرتی تباہ کاریوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔مزید یہ کہ لنڈزن بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ جن سائنس دانوں نے موسمیاتی تبدیلی کے غیر مستقل اور متضاد اعداد و شمار پر سوالات اٹھائے، ان کی تحقیق کو اکثر علمی جرائد نے مسترد کر دیا، یا پھر وہ مدیران جنہوں نے ان کے نتائج شائع کیے، انہیں بعد میں عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔
لنڈزن نے موسمیاتی تبدیلی کی تعبیر کے بارے میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ امید کی بات ہے کہ لوگ کم از کم اس پر سوال تو اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ تاریخی طور پر ایک انوکھا معاملہ ہے اور ہماری عہد کیلئے شرمندگی کا باعث ہوگا۔
شائع شدہ مطالعات نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا بھر کی حکومتیں 2050 تک عالمی درجہ حرارت کو قبل از صنعتی دور کی اوسط کے مقابلے میں 2.7°F سے زیادہ بڑھنے سے نہ روک سکیں، تو اس کے نتیجے میں برفانی چادروں کا ناقابلِ واپسی پگھلاؤ، فصلوں کی تباہی اور مہلک گرمی کی لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔ان خدشات کے باوجود، لنڈزن کے حساب کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار دوگنی ہو جانے سے درجہ حرارت میں صرف آدھا درجہ اضافہ ہوگا۔تاہم، بہت سے ماڈلز جو ممکنہ موسمیاتی تباہی کی پیش گوئی کرتے ہیں، یہ مفروضہ بھی شامل کرتے ہیں کہ درجہ حرارت میں ہر معمولی اضافہ فضا میں مزید آبی بخارات جمع کر دیتا ہے اور آبی بخارات حرارت جذب کرنے میں کاربن ڈائی آکسائیڈسے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ لنڈزن اس مفروضے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق قدرت اکثر بڑی موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتی ہے، نہ کہ انہیں مزید شدید بناتی ہے۔ ان کا نظریہ ''آئرس افیکٹ‘‘ کہلاتا ہے، جس کے مطابق جب استوائی خطے ضرورت سے زیادہ گرم ہو جاتے ہیں تو طاقتور طوفانی بادل فضا میں سوراخ پیدا کرتے ہیں، جس سے اضافی حرارت خلا میں خارج ہو جاتی ہے۔اس عمل کے نتیجے میں بادلوں کی نمی کم ہوتی ہے، جو دوسری صورت میں زیادہ حرارت جذب کر کے زمین کو مزید گرم رکھتی۔
لنڈزن نے یہ بھی کہا کہ اگر دنیا کے تمام ممالک 2050 تک بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق نیٹ زیرو اخراج کے ہدف تک پہنچ بھی جائیں، یعنی ایندھن کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہونا مکمل طور پر ختم ہو جائے، تب بھی اس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں صرف نہایت معمولی سے حصے کے برابر کمی آئے گی۔البتہ سخت ماحولیاتی پابندیوں پر عملدرآمد کی عالمی معاشی لاگت کھربوں ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، جسے لنڈزن نے ''انتہائی خسارے کا سودا، اور تقریباً بے فائدہ‘‘ قرار دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
3 دسمبر:خصوصی افراد  کا عالمی دن: حقوق،رکاوٹیں اور ہماری ذمہ داریاں

3 دسمبر:خصوصی افراد کا عالمی دن: حقوق،رکاوٹیں اور ہماری ذمہ داریاں

3 دسمبر کو خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد معاشرے کے ان افراد کے حقوق، ضروریات، صلاحیتوں اور مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی تقریباً 16 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں خصوصی افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن حکومتی سطح پر ان کی ضروریات کے مطابق سہولتوں کی فراہمی اب بھی ناکافی ہے۔ پاکستان میں خصوصی افراد کی اصل تعداد پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں ان کی شرح صرف 0.48 فیصد بتائی گئی تاہم ماہرینِ سماجیات اسے درست قرار نہیں دیتے۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں معذور افراد کی شرح 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔اس حساب سے پاکستان میں تقریباً دو کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی جسمانی، ذہنی یا سماعت و بصارت کی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق متعدد قوانین منظور کیے ہیں۔ 2011ء میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ معذوراں (UNCRPD) کی توثیق کی۔ اس کے بعد مختلف صوبوں نے خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین بھی بنائے جیسے سندھ میں 2018 کا سندھ معذور افراد تحفظ ایکٹ،پنجاب کا سپیشل پرسنز ایکٹ 2020،خیبرپختونخوا کا معذور افراد کا ایکٹ 2022۔ ان قوانین میں تعلیم، روزگار، رسائی، مالی معاونت، علاج، سماجی تحفظ اور سیاسی شمولیت جیسے نکات شامل ہیں،لیکن مسئلہ ہمیشہ کی طرح نفاذ کا ہے۔ عملاً نہ عمارتیں قابلِ رسائی ہیں نہ دفاتر میں ریمپس ہیں نہ بڑی تعداد میں ملازمتوں کا کوٹہ پورا کیا جاتا ہے نہ ہی خصوصی افراد کے لیے تعلیم اور صحت کے نظام کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ قانون موجود ہو تو بھی رویے، نگرانی، بجٹ اور ترجیح نہ ہو تو وہ کاغذی کارروائی بن جاتا ہے۔خصوصی افراد کو صحت کے نظام میں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں وہیل چیئر کی رسائی،بریل یا سائن لینگویج کے ذریعے معلومات کی فراہمی اورذہنی صحت کے لیے معاون سہولتیں بہت کم ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ نفسیاتی دباؤ ہے جو خصوصی افراد مسلسل معاشرتی رویوں کی وجہ سے سہتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی معذوری کے لیے پاکستان میں ماہرین اور علاج کے وسائل بہت کم ہیں۔تعلیم تک رسائی، سب سے بڑا چیلنجپاکستان میں خصوصی بچوں کی تعلیم سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خصوصی بچے سکولوں سے باہر ہیں۔عام سکولوں میں ریمپس، سائن لینگویج، بریل سسٹم یا خصوصی اساتذہ نہیں ہیں ۔خصوصی بچوں کو تعلیمی نظام سے باہر رکھ کر ہم ان کی زندگی، کیریئر اور سماجی کردار کو محدود کر دیتے ہیں۔ دنیا کے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں انکلوسیو ایجوکیشن یعنی سب کے لیے مشترکہ نظام تعلیم ترجیح ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی یہ تصور ابتدائی مراحل میں ہے۔روزگار اور معاشی مشکلات معذور افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ مختص ہے لیکن اکثر محکمے یہ کوٹہ پورا نہیں کرتے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان افراد کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے۔یوں مالی انحصار خاندانوں پر بڑھ جاتا ہے،عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے،سماجی سطح پر الگ تھلگ ہونے کا احساس بڑھتا ہے۔اصل مسئلہ معذوری نہیں بلکہ معاشرتی نظام کی وہ ناکامی ہے جو اِن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتی ہے۔دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے خصوصی افراد کے لیے ہزاروں مواقع پیدا کیے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس سمت میں ترقی ابھی بہت سست ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا، نصاب،مساجد، تعلیمی ادارے اور حکومتی بیانیہ مل کر آگاہی پیدا کریں کہ معذوری ایک جسمانی یا ذہنی کیفیت ہے کمزوری نہیں۔آگے بڑھنے کا راستہخصوصی افراد کے حوالے سے حقیقی تبدیلی کے لیے کئی اقدامات ناگزیر ہیں مثال کے طور پر درست اعداد و شمار کی تدوین، خصوصی افراد کے حقوق سے متعلق قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔سکولوں کو قابلِ رسائی بنایا جائے اور خصوصی تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کیے جائیں۔ دو فیصد کوٹہ بھرنے پر سختی کی جائے اور نجی شعبے کو مراعات دی جائیں۔ میڈیا اور نصاب میں خصوصی افراد کی نمائندگی بڑھائی جائے۔ جدید ایڈاپٹو ٹیکنالوجیز کو سبسڈی دے کر عام کیا جائے۔ ریاست، معاشرہ اور خاندان خصوصی افراد کو وہ مواقع فراہم کریں جن کے وہ برابر کے حق دار ہیں۔پاکستان تبھی مضبوط ہو گا جب اس کے تمام شہری،چاہے وہ جسمانی، ذہنی، بصارت یا سماعت کی کسی بھی معذوری کے حامل ہوں،برابر کے شہری تسلیم کیے جائیں۔

مہرگڑھ:برصغیر کے تمدنی سفر کی پہلی منزل

مہرگڑھ:برصغیر کے تمدنی سفر کی پہلی منزل

بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں ایک ایسی بستی آباد تھی جو آج بھی انسانی تاریخ کی پہلی دھڑکنوں کی یاد دلاتی ہے۔ یہ ہے مہر گڑھ،جنوبی ایشیا کی وہ تہذیب جس نے انسان کو خانہ بدوشی سے نکال کر منظم زندگی، آباد بستیوں اور زرعی تمدن کی طرف دھکیلا۔ اس کہانی کا آغاز تقریباً نو ہزار سال پہلے ہوا جب دنیا کے کئی خطے ابھی پتھر کے دور میں گم تھے۔یہ 1974ء کی ایک دوپہر تھی جب فرانسیسی ماہرینِ آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جارج (Jean-François Jarrige) اور کیتھرین جارج( Catherine Jarrige) نے بلوچستان کے ضلع کچّھی میں مٹی کے نیچے چھپی ایک ایسی دنیا دریافت کی جو تاریخ کو نئی ترتیب دینے والی تھی۔ شب و روز کی کھدائی سے سامنے آیا کہ یہ جگہ کوئی عام بستی نہیں بلکہ برصغیر کی سب سے قدیم زرعی معاشرت کا گہوارہ تھی۔مہر گڑھ کا مقام کچھ ایسا تھا کہ یہاں سے گزرنے والے راستے سندھ، افغانستان اور ایران تک پہنچتے تھے۔ شاید یہی وہ سنگم تھا جہاں انسان نے پہلی بار تجارت، تبادلے اور میل جول کی اہمیت محسوس کی۔ کھدائی میں ملنے والی اینٹیں، چکی کے پتھر اور اناج کے ذخائر بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ شکار پر انحصار چھوڑ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے کچی اینٹوں کے گھر بنائے،اناج کے گوداموں میں غلہ محفوظ کیا اور ایک جگہ مستقل رہائش اختیار کی۔ یہ تمام باتیں اس بستی کے ارتقا کی بنیاد تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کے چند ہی خطوں میں زراعت کا آغاز ہوا تھا، مہر گڑھ ان میں سرفہرست ہے۔ قدیم مہر گڑھ کا طرزِ زندگیمہر گڑھ کے رہنے والوں نے گندم اور جو کی باقاعدہ کاشت کی۔ دریا کے قریب لہلہاتے کھیت، پانی کھینچ کر لانے کے طریقے، اور غلے کی حفاظت کے انتظامات سے وہ ایک مکمل زرعی معاشرے میں تبدیل ہو گئے۔ مویشی بانی بھی یہاں کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی۔مہر گڑھ کی دستکاری آج بھی ماہرین کو حیران کرتی ہے۔ یہاں سے ملنے والی اشیا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قدیم بستی کے لوگ صرف کسان نہیں، فنکار بھی تھے۔ ان کی بنائی ہوئی چیزوں میں خوبصورت ڈیزائنوں والے مٹی کے برتن، فیروزے اور سیپیوں سے بنے زیورات،تانبے کے اوزار،ہڈی سے کندہ کاری کے نمونے اورانسانی اور حیوانی پیکرخاص طور پر مٹی کی گڑیائیں انتہائی دلچسپ ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ گڑیاں زرخیزی، ممتا اور مذہبی عقائد کا آئینہ تھیں۔مہر گڑھ کی سب سے حیران کن دریافت انسانی جبڑوں پر کیے گئے سوراخ ہیں جو کسی قدیم ڈینٹل ڈرل سے بنائے گئے تھے۔ یعنی 7000 سال پہلے اس بستی کے لوگ دانتوں کا علاج کر رہے تھے! یہ دنیا کی قدیم ترین دندان سازی میں شمار ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہر گڑھ صرف ایک زرعی بستی نہیں بلکہ سائنسی سوجھ بوجھ کی حامل ایک جدید آبادی تھی۔موت کی وادی میں زندگی کا یقینماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ مہر گڑھ کی قبروں میں ملنے والی چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھتے تھے۔ دفن کیے گئے افراد کے ساتھ رکھا جانے والا سامان ان کے عقائد اور رسوم کا پتہ دیتا ہے۔ مٹی کے برتن، زیورات، کھانے پینے کی اشیا،بعض جگہ جانوروں کی قربانی کے آثار،یہ رواج اس تہذیب کے روحانی شعور اور سماجی تنظیم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔لوبان اور فیروزے کی تجارت مہر گڑھ کے باشندے اپنی حدود سے بہت آگے تک سفر کرتے تھے۔ یہاں پایا جانے والا لیپس لازولی اور فیروزہ افغانستان سے آتا تھا جبکہ بعض مصنوعات ایران تک جاتی تھیں۔ یہ شواہد بتاتے ہیں کہ لمبے فاصلے کی تجارت کا راج تھا،دستکار قیمتی مصنوعات تیار کرتے تھے اورمہر گڑھ علاقائی سطح پر معاشی مرکز بن چکا تھا،یہی تجارتی روایت بعد میں وادی سندھ کے بڑے شہروں میں بھرپور طور پر نظر آتی ہے۔یہ تہذیب ختم نہیں ہوئی، آگے بڑھ گئیتاریخ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مہر گڑھ ہی وہ ابتدائی بنیاد ہے جس نے بعد میں موئن جو دڑو، ہڑپہ اوروادی سندھ کے دیگر شہروں کو جنم دیا۔ شہری منصوبہ بندی، تجارت، دستکاری، زرعی نظام،یہ سب عناصر سب سے پہلے مہر گڑھ میں پروان چڑھے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مہر گڑھ نے انسان کو راستہ دکھایا اور وادی سندھ نے اس راستے پر ایک عظیم تہذیب پروان چڑھی۔سمندر بہا دیا۔2600 قبل مسیح کے بعد مہر گڑھ کی آبادی کم ہونے لگتی ہے۔ ماہرین اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں مثال کے طور پر موسمی تبدیلیاں، دریاؤں کے رخ میں تبدیلی یا بہتر مواقع کی تلاش۔ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ مہر گڑھ کے لوگ کہیں گم نہیں ہوئے،وہ آگے جا کر وادی سندھ کے بڑے مراکز میں جذب ہو گئے۔آج جب ہم بلوچستان کی اس تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت جیسے تھم گیا ہو۔ کہیں دور مٹی کے نیچے وہ لوگ اب بھی چکی پیس رہے ہیں، مٹی کی گڑیاں بنا رہے ہیں، کھیتوں میں اگتی گندم سے امید کا رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ مہر گڑھ ہمیں بتاتا ہے کہ برصغیر کی کہانی کسی جنگ، کسی فاتح یا کسی سلطنت سے نہیں شروع ہوئی بلکہ ایک چھوٹی سی بستی سے، جہاں انسان نے پہلی بار زمین کو کاٹ کر اپنا مستقبل بویا۔ اسی لیے مہر گڑھ ایک تہذیب نہیں، ہمارے تمدنی سفر کی پہلی دھڑکن ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

جارج پنجم کی دہلی دربار میں آمد3 دسمبر 1910ء کو برطانوی بادشاہ جارج پنجم نے دہلی دربار میں بطور بادشاہ پہلی مرتبہ شرکت کی۔ اس دربار کو خاص طور پر ہندوستان کیئیے سیاسی کنٹرول، طاقت کے اظہار اور عوامی جذبات کو اپنے حق میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جارج پنجم کی آمد کے موقع پر پورے دہلی کو شاہی طرز پر سجایا گیا اور لاکھوں لوگ اس تاریخی موقع پر جمع ہوئے۔ اس تقریب میں آنے والے برسوں میں ہونے والی انتظامی تبدیلیوں، سیاسی فیصلوں اور نوآبادیاتی حکمتِ عملی کی جھلک بھی نظر آئی۔ یہ وہی دور تھا جب انگریزوں نے دارالحکومت کو کلکتہ سے دہلی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس نے ہندوستان کی سیاسی نقشہ بندی بدل دی۔ دہلی دربار کی یہ تقریب نوآبادیاتی نظام کے عروج کا نشان سمجھی جاتی ہے۔پہلا کامیاب دل کا ٹرانسپلانٹ3 دسمبر 1967ء کو طب کی تاریخ میں ایک عظیم سنگِ میل اس وقت عبور ہوا جب جنوبی افریقی سرجن ڈاکٹر کرسچین برنارڈ نے انسانی دل کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا۔ یہ آپریشن 25 سالہ خاتون کے دل کو 55 سالہ مریض لوئس واشکانسکی کے جسم میں منتقل کرنے کے ذریعے کیا گیا۔ اگرچہ مریض صرف 18 دن تک زندہ رہا لیکن اس سرجری نے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس واقعے نے دل کے امراض کے علاج کے حوالے سے نئی راہیں کھولیں، اعضاکی پیوند کاری کے عالمی رجحان کو بڑھایا اور سرجری کو جدید سائنس کے نئے دور میں داخل کیا۔ اس کامیابی پر دنیا بھر کے طبی اداروں نے تحقیق کا نیا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں دل کے ٹرانسپلانٹ آج معمول کا طریقہ بن چکا ہے۔ پیراگوئے میں شدید زلزلہ3 دسمبر 1973ء کو پیراگوئے کے کئی علاقوں میں تباہ کن زلزلہ آیا جس نے ملک کے اقتصادی و سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات چھوڑے۔ اگرچہ لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کی طرح پیراگوئے میں زلزلے عام نہیں تھے لیکن اس زلزلے کی شدت اور نوعیت نے حکومتی و انتظامی اداروں کو سخت امتحان میں ڈال دیا۔ کئی دیہات مکمل طور پر متاثر ہوئے، بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس واقعے نے پیراگوئے میں قدرتی آفات کے انتظام، حفاظتی تعمیرات اور امدادی نظام کی کمزوریوں کو نمایاں کیا۔ زلزلے کے بعد بین الاقوامی اداروں نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ یہ زلزلہ آج بھی پیراگوئے کی تاریخ کا اہم ترین قدرتی حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ یونین کاربائیڈ حادثہ 3 دسمبر 1984ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں بدترین صنعتی حادثہ پیش آیا جب یونین کاربائیڈ فیکٹری سے زہریلی گیس لیک ہو گئی اورچند گھنٹوں میں ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔اس سانحہ کی وجہ حفاظتی نظام میں شدید غفلت، ناقص مینجمنٹ اور حکومتی نگرانی کی کمی تھی۔ اس حادثے نے نہ صرف بھارتی صنعتکاری پر سوال اٹھائے بلکہ پوری دنیا میں صنعتی حفاظتی قوانین میں انقلابی تبدیلیاں لائیں۔ آج بھی بھوپال میں ہزاروں افراد اس گیس کے اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سانحہ صنعتی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے جو انسانی جانوں، ماحول اور انتظامی ذمہ داریوں کی سنگینی کا ہمیشہ کے لیے سبق بن گیا۔ سرب فورسز کے حملے کی ابتدا3 دسمبر 1992ء کو بوسنیا کی خانہ جنگی کے دوران سرب فورسز نے سربرنیٹسیا کے علاقے پر بڑے حملے کا آغاز کیا جو بعد میں 1995ء کے بدنامِ زمانہ قتلِ عام کی بنیاد بنا۔ اس دن ہونے والی جارحیت نے مقامی بوسنیائی مسلمانوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا اور ہزاروں افراد پناہ گزینی کے لیے دیگر علاقوں کی طرف منتقل ہونے لگے۔ اس حملے کا مقصد سٹریٹجک علاقوں پر قبضہ، آبادیاتی تبدیلی اور مسلم آبادی کو بے دخل کرنا تھا۔ 3 دسمبر کا یہ حملہ بوسنیا کی تاریخ میں وہ موڑ تھا جس نے جنگ کے ظلم اور انسانیت سوز مظالم کی راہ ہموار کی۔ آج یہ واقعہ نسل کشی کے مقدمات میں تاریخی حوالہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔   

بین الاقوامی یومِ انسداد غلامی : ایک تجدیدِ عہد

بین الاقوامی یومِ انسداد غلامی : ایک تجدیدِ عہد

دنیا ہر سال 2 دسمبر کو غلامی کے خاتمے کا عالمی دن مناتی ہے۔ یہ دن ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ غلامی اگرچہ ماضی کا قصہ سمجھی جاتی ہے لیکن اس کی مختلف شکلیں آج بھی انسانی معاشروں کو متاثر کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ دن اس مقصد کے تحت منانا شروع کیا کہ عالمی برادری کو آگاہ کیا جائے کہ جدید دور کی غلامی،جس میں جبری مشقت،انسانی سمگلنگ، بچوں کا استحصال، قرض کے عوض غلامی، جبری شادی اور جسم فروشی شامل ہیں،اب بھی کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔غلامی انسانی تاریخ کی قدیم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ ماضی میں طاقتور قومیں کمزور اقوام کے لوگوں کو غلام بنا لیتی تھیں۔ منڈیوں میں انسانوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور انہیں محض ایک جائیداد سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں غلامی کا نظام طویل عرصے تک قائم رہا۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کے مختلف ممالک نے قانون سازی کے ذریعے غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن سماجی و عدم مساوات اور بدعنوان نظاموں نے غلامی کی نئی شکلیں پیدا کر دیں۔ آج بین الاقوامی اداروں کے مطابق دنیا میں تقریباًپانچ کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی شکل میں جدید غلامی کا شکار ہیں۔ان میں اکثریت بچوں، خواتین اور مزدور طبقے کی ہے جنہیں غربت، جہالت، روزگار کی کمی، قدرتی آفات اور تنازعات کی وجہ سے استحصال کا سامنا ہے۔ غلامی کی جدید صورتیںجدید دور کی غلامی پرانی غلامی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اب غلاموں کی خرید و فروخت روایتی منڈیوں کے بجائے خفیہ نیٹ ورکس اور جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے ہوتی ہے۔جدید دور میں غلامی کی چند نمایاں صورتوں میں انسانی سمگلنگ،جبری مشقت،بچوں سے جبری مشقت اور استحصال، قرض کے عوض غلامی اور جبری شادی شامل ہیں۔ انسانی سمگلنگ کو جدید غلامی کی سب سے خطرناک صورت قرار دیا جاتا ہے۔ سمگلرز لوگوں کو بہتر روزگار، خوشحال زندگی، یا بیرونِ ملک مواقع کا لالچ دے کر دھوکے سے اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ بعد ازاں انہیں جبری مشقت، جسم فروشی یا دیگر مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے۔دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں مزدور غیر انسانی حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ فیکٹریوں، کھیتوں، کانوں، تعمیراتی مقامات اور گھروں میں لاکھوں لوگ انتہائی کم اجرت پر 14 سے 18 گھنٹے تک کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ قانونی تحفظ ہوتا ہے نہ ہی کوئی سماجی سہولت۔بچوں کو ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، اینٹوں کے بھٹوں، کھیتوں اور گھریلو کام کاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں سے بھیک منگوائی جاتی ہے اور انہیں جرائم پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔قرخ کے عوض غلامی کا نظام جنوبی ایشیا سمیت کئی خطوں میں موجود ہے۔ ایک خاندان معمولی قرض لیتا ہے اور پھر سود، غیر منصفانہ حساب یا طاقتور جاگیرداروں کے دباؤ کی وجہ سے نسل در نسل غلامی میں جکڑا رہتا ہے۔اکثر معاشروں میں لڑکیوں کو کم عمری میں زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری زندگی سماجی، جسمانی اور ذہنی پابندیوں میں گزارتی ہیں۔ جبری شادی کو بھی اقوام متحدہ جدید غلامی کی ایک شکل کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔بین الاقوامی کوششیں اور اقوام متحدہاقوام متحدہ نے 1949ء میں غلامی کے کاروبار اور انسانوں کی خرید و فروخت کے خلاف کنونشن منظور کیا۔ اس کے بعد مختلف پروٹوکولز اور معاہدوں کے ذریعے عالمی کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ جدید غلامی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ 2000ء میں ''پالرمو پروٹوکول‘‘ کی منظوری انسانی سمگلنگ کے خلاف اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔ بین الاقوامی ادارہ محنت (ILO) مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور جبری مشقت کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل مہم چلا رہا ہے۔پاکستان میں چیلنجزپاکستان میں بھی جدید غلامی کی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے اور کھیت مزدور قرض کے عوض نسل در نسل بندھے رہتے ہیں۔ بچوں سے جبری مشقت، گھریلو ملازمین کا استحصال، انسانی سمگلنگ اور غیرقانونی ہجرت (مثلاً یورپ جانے کے لیے ایجنٹوں کا استعمال) سنگین مسائل ہیں۔حکومتِ پاکستان نے متعدد قوانین بنائے ہیں جن میں Prevention of Trafficking in Persons Act, 2018 ،جبری مشقت کے خلاف قانون سازی اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے پروگرام شامل ہیں، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ قانون پر عمل درآمد، اداروں کی کمزوریاں اور بدعنوانی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔سول سوسائٹی، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں لیکن چیلنج اب بھی بہت بڑا ہے۔معاشی مواقع اور سماجی تحفظ غربت جدید غلامی کی بنیادی وجہ ہے۔ لوگوں کو تعلیم، مہارت، روزگار اور سماجی تحفظ دیا جائے تاکہ وہ مجبوری میں استحصال کا شکار نہ ہوں۔دیہی علاقوں، کم تعلیم یافتہ طبقے اور نوجوانوں کو اس بات کی آگاہی دینا بھی ضروری ہے کہ جھوٹے وعدوں یا معاہدوں کے ذریعے انہیں کس طرح غلامی میں دھکیلا جاتا ہے۔بین الاقوامی یومِ انسدادِ غلامی ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ آزادی محض ایک لفظ یا قانون نہیں بلکہ ایک بنیادی حق ہے جسے ہر انسان کے لیے یقینی بنانا ہمارا مشترکہ فریضہ ہے۔ غلامی کی پرانی زنجیریں تو ٹوٹ چکی ہیں لیکن نئی، خاموش اور پیچیدہ زنجیریں آج بھی انسانی معاشروں کو جکڑے ہوئے ہیں۔اس دن کا مقصد یہی ہے کہ دنیا متحد ہو کر یہ عہد کرے کہ غلامی کسی بھی شکل میں ناقابلِ قبول ہے۔ ہر بچے، عورت اور مرد کا حق ہے کہ وہ آزادانہ، باعزت اور محفوظ زندگی گزارے۔اگر ہم اجتماعی کوشش کریں، قانون کو مضبوط کریں، انسانی وقار کو مقدم رکھیں اور سماجی انصاف کو فروغ دیں تو ایک دن ضرور آئے گا جب دنیا غلامی کے لفظ سے بھی ناواقف ہو جائے گی۔

چھپے ہوئے آتش فشاں:ان دیکھے خطرات جو دینا کو ہلا سکتے ہیں

چھپے ہوئے آتش فشاں:ان دیکھے خطرات جو دینا کو ہلا سکتے ہیں

زمین کی سطح کے نیچے ایک خاموش ہلچل ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ کہیں میگما آہستہ آہستہ حرکت کرتا ہے، کہیں زمین کے دباؤ میں معمولی سی تبدیلی زیرِ زمین توازن بگاڑ دیتی ہے۔ ہم عموماً ان آتش فشاں پہاڑوں سے واقف ہیں جو مشہور ہیں، جن کی تصاویر کتابوں میں چھپی ہیں، جن کے فعال ہونے کی خبریں وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑا خطرہ اکثر اُن آتش فشانوں سے نہیں ہوتا جو مشہور ہیں بلکہ ان سے ہوتا ہے جو نامعلوم، غیر معروف یا صدیوں سے خاموش چلے آ رہے ہیں۔حال ہی میں ایتھوپیا کے علاقے افار میں پھٹنے والےHayli Gubbi آتش فشاں نے دنیا کو خاصا متاثر کیا۔ 12 ہزار سال کی طویل خاموشی کے بعد اس کا اچانک جاگ اٹھنا جیالوجی کے سائنسدانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے آتش فشاں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں یا جنہیں ہم ہمیشہ سے غیر فعال سمجھتے آئے ہیں اصل میں سب سے بڑا عالمی خطرہ بن سکتے ہیں۔Hayli Gubbi کی کہانی 23 نومبر کی صبح دنیا نے ایک ایسے آتش فشاں کی خبر سنی جس کا نام شاید ہی کسی نے پہلے سنا ہو۔Hayli Gubbi ایک شیلڈ آتش فشاں ہے، یعنی وہ پہاڑ جو سطح سے زیادہ بلند نہیں ہوتا اور اپنی ساخت کے باعث نسبتاً کم خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نے دھواں اگلنا شروع کیا تو راکھ کا بادل 45 ہزار فٹ کی بلندی تک جا پہنچا۔ یہ راکھ ایتھوپیا سے نکل کر یمن، عمان، بحیرہ عرب تک پھیل گئی۔گوادر کے ساحلی علاقے کے قریب بھی اس بادل کے آثار محسوس کیے گئے اور محکمہ موسمیات نے ایوی ایشن کیلئے ایش الرٹ جاری کیا۔یہ واقعہ دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ احتیاط ان جگہوں سے ضرور کرنی چاہیے جو دکھائی نہیں دیتیں۔ چھپے ہوئے آتش فشاں اتنے خطرناک کیوں؟ سائنسدانوں کے مطابق فعال آتش فشانوں میں سے 50 فیصد سے بھی کم کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے۔ جن ممالک میں وسائل کم ہیں ، جیسے افریقی، پیسیفک یا جنوب مشرقی ایشیائی خطے، وہاں سینکڑوں آتش فشاں ایسے ہیں جن پر کوئی مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ ان کے اندر بڑھتے ہوئے دباؤ یا تبدیل ہوتے ہوئے میگما کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوتی نتیجتاً وہ اچانک پھٹ سکتے ہیں۔Mount Etna،ییلو سٹون یا فیوجی جیسے آتش فشانوں پر بے شمار تحقیقی مقالے اور رپورٹس موجود ہیں مگر انڈونیشیا، فلپائن، چلی، پیرو اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں موجود کئی آتش فشاں مکمل طور پر نظر انداز ہیں۔ یہ وہ خطے ہیں جہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور معاشی و سماجی نقصان بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ آتش فشاں کا اثر صرف اسی علاقے تک محدود رہتا ہے جہاں وہ پھٹتا ہے لیکن تاریخ اس کے برخلاف شواہد پیش کرتی ہے مثلاً 1982ء میں میکسیکو کا El Chichónآتش فشاں اچانک پھٹا تھا حالانکہ اس کا بھی کوئی بڑا تاریخی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس دھماکے نے عالمی موسم کو متاثر کیا، بارشوں کے نظام میں تبدیلی آئی، زراعت متاثر ہوئی اور افریقہ سمیت کئی خطوں میں قحط اور بیماریوں کی شدت بڑھی۔یہی خطرہ آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے کیونکہ فضامیں جانے والی راکھ اور سلفر کے ذرات سورج کی روشنی روک کر عالمی درجہ حرارت کو گرا سکتے ہیں، بارشوں کے پیٹرن تبدیل کر سکتے ہیں اور معاشی و زرعی عدم توازن پیدا کر سکتے ہیں۔ماہرینِ ارضیات نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث جیسے جیسے گلیشیئر پگھل رہے ہیں زیرِ برف چھپے ہوئے آتش فشاں آزاد ہو رہے ہیں۔برف کی تہہ ان آتش فشانوں پر ایک قسم کا دباؤ ڈالے رکھتی ہے۔ جب یہ دباؤ کم ہوتا ہے تو میگما اوپر آنے لگتا ہے اور دھماکے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل مستقبل میں ہماری زمین کے لیے نئے خطرات جنم دے سکتا ہے۔زمین کی گہرائیوں میں چھپا ہوا عالمی خطرہ اگرچہ ہماری دنیا کو موسمیاتی تغیرات، زلزلوں، طوفانوں اور سمندری سیلابوں جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن سائنسدان متنبہ کر رہے ہیں کہ ایک بڑا آتش فشانی دھماکہ ان تمام بحرانوں کو یکجا کر کے عالمی سطح پر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔یہ دھماکے انسانوں کی پیدا کردہ مشکلات کا نتیجہ نہیں ہوتے لیکن ان کے اثرات ہمارے نظامِ زندگی، خوراک، معیشت، موسم اور فضائی سفر تک سب کچھ بدل سکتے ہیں۔دنیا میں ایسے آتش فشاں موجود ہیں جنہیں ماضی میں کبھی پھٹتے نہیں دیکھا گیا نہ ان کے بارے میں ریکارڈ موجود ہے، نہ ان پر سائنسی آلات نصب ہیں مگر یہی پہاڑ آنے والے برسوں میں سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔Hayli Gubbi کا اچانک پھٹنا ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ خطرہ ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو نظر آئے بلکہ وہ بھی ہوتا ہے جو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔زمین ایک زندہ سیارہ ہے، اس کے اندر کی حرارت، اس کے دباؤ، اس کے میگما کے چشمے ہمارے قابو میں نہیں لیکن ہم ان خطرات کو سمجھ کر، تحقیق کر کے اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے تباہی کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ دنیا کو جھنجوڑنے والی اگلی بڑی تباہی شاید کسی ایسے آتش فشاں سے آئے جس کا نام ہم نے کبھی نہ سنا ہو۔ 

آج کا دن

آج کا دن

نپولین کی تاجپوشی2 دسمبر 1804ء کو نپولین بوناپارٹ کی پیرس کے نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل میں فرانس کے پہلے شہنشاہ کے طور پر تاجپوشی کی گئی۔ یہ تقریب روایتی یورپی طرز کی بادشاہت سے مختلف تھی کیونکہ نپولین نے پاپائے روم کی موجودگی کے باوجود خود اپنے سر پر تاج رکھا جو اس بات کی علامت تھا کہ وہ اپنی قوت کا سرچشمہ مذہبی اقتدار کے بجائے عوامی طاقت اور انقلابی نظام کو سمجھتے ہیں۔ اس تاجپوشی نے نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔ نپولین کا دور جدید ریاستی نظام، عدالتی اصلاحات اور نپولینک کوڈ کی تشکیل کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ نپولین کی تاجپوشی نے یورپی سیاست کو تقریباً ایک دہائی تک ہلا کر رکھ دیا۔ مونرو ڈاکٹرائن کا اعلان2 دسمبر 1823ء کو امریکی صدر جیمز مونرو نے کانگریس کے سامنے اپنا معروف ''مونرو ڈاکٹرائن‘‘ پیش کیا۔ اس کے مطابق یورپی طاقتوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے امور میں مداخلت نہ کریں بصورتِ دیگر امریکہ اسے اپنی سلامتی کے خلاف سمجھ کر ردعمل دے گا۔ اس ڈاکٹرائن کا مقصد تھا کہ یورپ کی نوآبادیاتی توسیع پسندی کو روک کر زمین کے مغربی نصف کرے کو امریکی اثر و نفوذ کا خطہ بنادیا جائے۔ وقت کے ساتھ یہ پالیسی امریکی خارجہ حکمتِ عملی کا بنیادی ستون بن گئی۔ بیسویں صدی میں یہ نظریہ امریکی برتری کے تصور کا محرک بنا۔ مونرو ڈاکٹرائن نے امریکی سفارت کاری، معاشی اثرورسوخ اور خطے میں سیاسی حکمتِ عملی کو نئی سمت دی، جو آج بھی مختلف صورتوں میں برقرار ہے۔ فرنچ شمالی افریقہ پر قبضہ2 دسمبر 1942ء کو دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی افواج نے شمالی افریقہ خصوصاً الجزائر اور مراکش کے کئی سٹریٹجک علاقوں پر فیصلہ کن کنٹرول حاصل کیا۔ یہ پیش قدمی آپریشن ٹارچ کا حصہ تھی جسے امریکی اور برطانوی افواج نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔ اس آپریشن کا مقصد جرمن اور اطالوی افواج کو شمالی افریقہ سے پیچھے دھکیل کر یورپ کے جنوبی حصے پر حملوں کی راہ ہموار کرنا تھا۔ 2 دسمبر کو حاصل ہونے والی کامیابی نے رومیل کی زیرِ قیادت افریقی کور کو پسپائی پر مجبور کیا اور اتحادیوں کو بحیرہ روم میں بہتر رسائی ملی۔ اس فتح کے بعد اتحادی افواج کو اٹلی پر حملے کا راستہ ملا جس نے یورپ میں جنگ کی صورتحال بدل کر رکھ دی۔ متحدہ عرب امارات کی تشکیل 2 دسمبر 1971ء کو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جب سات امارات‘ابوظہبی، دبئی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ اور بعد میں 1972ء میں شامل ہونے والی راس الخیمہ نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے نام سے ایک وفاقی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔ اس تاریخی اتحاد کی قیادت شیخ زید بن سلطان النہیان نے کی جنہیں جدید یو اے ای کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے نے خلیجی خطے میں معاشی ترقی، تیل کی صنعت، انفراسٹرکچر اور بین الاقوامی سفارت کاری کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ یو اے ای کی تشکیل نے عرب دنیا میں استحکام، علاقائی تعاون اور تیز رفتار ترقی کی راہ ہموار کی۔