قومی چیف سلیکٹر کے ’’طرز انتخاب‘‘ پر انگلیاں اٹھنے لگیں
یاسر شاہ کی فٹنس رپورٹ کے انتظار سے گریز،کامیاب ترین ڈومیسٹک بیٹسمین کامران غلام کو نظر انداز کر کے عبداللہ شفیق پر دست شفقت برقرار ، شرجیل خان کی واپسی ممکن بنانے کیلئے کارکردگی کو اولین ترجیح بنا لیا گیا،تین فرسٹ کلاس میچوں کے تجربہ کار حارث رؤف پر غیر ضروری اعتماد کیا گیا
کراچی(سپورٹس ڈیسک)جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دورے کیلئے پاکستان کی ٹیسٹ،ون ڈے اور ٹی ٹونٹی ٹیموں کے اعلان کے بعد قومی چیف سلیکٹر کے طرز انتخاب پر انگلیاں اٹھنے لگیں جنہوں نے لیگ سپنر یاسر شاہ کی فٹنس رپورٹ کے انتظار سے گریز کرنے کے ساتھ کامیاب ترین ڈومیسٹک بیٹسمین کامران غلام کو نظر انداز کر کے عبداللہ شفیق پر دست شفقت برقرار رکھا جبکہ شرجیل خان کی واپسی ممکن بنانے کیلئے کارکردگی کو اولین ترجیح بنا لیا اور تین فرسٹ کلاس میچوں کے تجربہ کار فاسٹ باؤلر حارث رؤف پر ٹیسٹ میچز کیلئے غیر ضروری اعتماد کرلیا۔قومی چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ’’افریقن سفاری‘‘ کیلئے تینوں فارمیٹس کی قومی ٹیموں کا اعلان کرتے ہوئے اوپننگ کیلئے تجربہ کار اوپنر شان مسعود کو دوبارہ قابل غور نہ سمجھا اور ہوم سیریز میں جنوبی افریقہ کیخلاف ناکامی سے دوچار اوپنرز عمران بٹ اور عابد علی برقرار رکھے گئے، عبداللہ شفیق پر ٹیسٹ ٹیم کیلئے بھی دست شفقت برقرار رہا۔ حیران کن طور پر ایک فرسٹ کلاس سیزن میں ریکارڈ مجموعہ تراش کر ڈومیسٹک کرکٹ میں سال کے بہترین بیٹسمین کا ایوارڈ لینے والے کامران غلام گھر بیٹھے رہ گئے جن کو جنوبی افریقہ کیخلاف ہوم سیریز میں بھی موقع نہیں مل سکا تھا اور اب انہیں دوسرے کرکٹرز کے ساتھ مزید محنت کا مشورہ دے دیا گیا ہے ۔ یہ پہلو سمجھ سے بالاتر ہے کہ چند میچوں کے تجربہ کار حسن علی اور فہیم اشرف کے ساتھ تین فرسٹ کلاس میچز کھیلنے والے حارث رؤف،نوجوان شاہنواز اور برسوں سے چانس کے منتظر تابش خان سے کیا توقعات وابستہ کی گئی ہیں جن میں سے دو کو جنوبی افریقہ کیخلاف ہوم سیریز میں بھی موقع نہیں مل سکا تھا۔تینوں فارمیٹس کیلئے منتخب آٹھ کھلاڑیوں میں سے ایک محمد نواز کی خاطر مختصر فارمیٹ کے سپن باؤلنگ آل راؤنڈر عماد وسیم کو’’لمیٹڈ کرکٹر‘‘کا لیبل لگا کر کھڈے لائن لگا دیا گیا جو پاورپلے میں باؤلنگ کا غیر معمولی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ محمد وسیم کا یہ مؤقف ناکام ہوچکا کہ پرفارم کر کے ہر کھلاڑی ٹیم میں جگہ بنا سکتا ہے کیونکہ ملکی کرکٹ میں بہترین کارکردگی کے حامل کئی کرکٹرز منہ دیکھتے رہ گئے ہیں۔