"HAC" (space) message & send to 7575

ڈرون کی آنکھیں

بغیر پائلٹ کاڈرون جس میزائل سے اپنے ہدف پر وار کرتا ہے اس کا نام ’ہیل فائر‘ ہے، یعنی جہنم کی آگ۔ پینتالیس کلو وزنی تیز رفتار یہ میزائل تباہی پہلے پھیلاتا ہے اوراس کی آواز بعد میں سنائی دیتی ہے۔ اس میں ایسا کمپیوٹر نصب ہے جو اپنا رابطہ ہدف پرموجود آلے سے رکھتا ہے جو لیزرکے ذریعے اسے سگنل دیتا رہتا ہے۔ جس جگہ یہ آلہ موجود ہو یہ میزائل عین اسی جگہ آکر ٹکراتا ہے اوراس پر نصب پانچ سے سات کلو وزنی بارودی مواد پھٹ جاتا ہے اورپچیس فٹ کے دائرے میں موجود کوئی بھی ذی روح زندہ نہیں رہ پاتا۔ اگر یہ آلہ ڈبیا کے اندرموجود نہیں تو پھر قریب موجود کسی شخص کواس آلے سے نکلنے والی لیزر شعاع کو اس ڈبیا پر مرکوز رکھنا ہوگا تاکہ میزائل اسے اپنا نشانہ بنا سکے۔ اگر لیزر سگنل دینے والا یہ آلہ موجود نہیں تو پھر اس میزائل کے نشانے پر لگنے کے امکانات زیادہ نہیں رہتے، بلکہ بعض دفاعی ماہرین کے مطابق اسے فائر کرنا پینسٹھ ہزار ڈالر ضائع کرنے کے مترادف ہے۔2008ء سے لے کر اب تک پاکستان میں تین سو انیس ڈرون حملے ہوچکے ہیں، گویا اس عرصے میں کم از کم اتنے مقامات پر میزائل کی رہنمائی کرنے والا آلہ نصب کیا گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکہ ڈرون کے ذریعے شمالی وزیرستان کی فضا پر قابض ہے تو کامیاب حملوںکے لیے اسے مناسب زمینی مدد بھی مل رہی ہے۔ حکیم اللہ محسود کو جس ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا ،اس کی کامیابی بھی ایک ایسے ہی لیزر آلے کی مرہون منت ہے جو اس کے قریب نصب کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جس ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنا یا گیا،اس کے لیے رہنمائی کرنے والا آلہ کس نے نصب کیا؟ یہ سوال ا س لیے اہم ہے کہ اس آلے کی تنصیب کے لیے ہدف کے جتنا قریب ہونا ضروری ہے، اتنا قرب باہر کا آدمی حاصل نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی ایسا شخص ہی ہوسکتا ہے جسے اتنی آزادی میسر ہو کہ وہ مطلوب شخص کی نقل و حرکت سے مسلسل آگاہ رہے اوربآسانی اس کے نزدیک جاسکے۔حکیم اللہ محسود کی موت اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی ایجنٹ طالبان کی قیادت کے اتنے قریب پہنچ چکے ہیں کہ وہ موقع ملتے ہی اپنا کام دکھا دیتے ہیں ۔ شمالی وزیرستان کے ماحول اور پھر وہاں طالبان کے اثرورسوخ کو مد نظر رکھیں تو یہ تصور بھی مشکل ہے کہ باہر کا کوئی شخص یہ خطرناک کام کرنے کی سوچ بھی سکتا ہے۔ اگر ڈرون حملوں کے لیے زمین سے مسلسل مدد مل رہی ہے تو پھر طالبان کی ’ہوشیاری‘ کی داد ہی دی جاسکتی ہے،انہیں یہ تومعلوم نہیں کہ ان کے قریبی لوگوں میں سے کون یہ کام کررہا ہے لیکن ڈرون رکوانے کا مطالبہ وہ حکومتِ پاکستان سے کرتے ہیں۔دوسری طرف حکومت کی سادگی دیکھیے کہ معصومیت سے وہ یہی مطالبہ امریکہ کے سامنے دہرا دیتی ہے۔ حکیم اللہ محسود کے واقعے سے ہی اگر ابتدا کرلی جائے تو ان لوگوں تک پہنچا جاسکتا ہے جوطالبان کومروانے کے ساتھ پاکستان کی رسوائی کا سامان بھی کررہے ہیں۔اگرچہ طالبان نے خالد خواجہ کو یہی الزام دے کر قتل کیا تھا کہ انہوںنے ایک مخصوص واقعے میں ڈرون کا مددگار آلہ نصب کیا تھا، لیکن وہ اس کا کوئی ثبوت مہیاکرسکے نہ خالد خواجہ سے ایسی کوئی اطلاع انہیں مل سکی جس پر کام کرکے وہ اپنی صفوں کو کھنگال سکیں۔ ڈرون حملوں کے لیے ضروری زمینی انٹیلی جنس کے نظام کو جڑ سے اکھاڑنا اگرطالبان کی فوری ضرورت ہے تو پاکستان کے سکیورٹی اداروں کا فرض اوّلین ہے۔ جب ہماری ایجنسیاںاپنے ماضی کے حوالے دے کر ثابت کرتی ہیں کہ وہ فاٹا اور افغانستان کے چپے چپے اور بچے بچے سے آگاہ ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ تین سو انیس حملوں میں سے کسی ایک کے بھی ’زمینی‘ ذمہ دار کا سراغ نہیں لگا سکیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں موجود امریکہ کا جاسوسی نیٹ ورک ہمارے تخمینوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ حکیم اللہ محسود کا’قتل‘اگر واقعی امن کا قتل ہے تو پھر ہمارے وزیر داخلہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ماتحت ایجنسیوں اور طالبان کی مددسے اس شخص کا سراغ بھی لگائیں جس نے ڈرون کو اس قتل کے لیے زمینی امداد فراہم کی،پھر اس کے ذریعے جاسوسی کے جال تک پہنچیں جو امریکہ اس علاقے میں بچھا چکا ہے۔ حقانی نیٹ ورک ، القاعدہ، افغان طالبان، فرقہ پرست دہشت گرد اور تحریک طالبان بے شک ایک دوسرے کے ساتھ ضرورت کے رشتے میںبندھے ہوئے ہیں لیکن ان کے تضادات کا عالم یہ ہے کہ القاعدہ اورحقانی نیٹ ورک ان لوگوں کوکسی بھی صورت میںحکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے دینا چاہتے۔ القاعدہ کا خیال ہے کہ اگر ایک دفعہ کالعدم تحریک طالبان پاکستانی سیاست کا حصہ بن گئی تو پھرکئی دوسرے ملکوں میں کام کرنے والی تنظیمیں بھی اسی راستے پرچلنے کی کوشش کریں گی اور یوں القاعدہ کا وجود ختم ہوجائے گا۔ حقانی نیٹ ورک سوچتا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی اور حکومت کے مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو امکانی طور پر حکومت اس نیٹ ورک کو شمالی وزیرستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے کے لئے دباؤ ڈالے گی، اس لیے ضروری ہے کہ ایک گروہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو الجھائے رکھے۔ فرقہ پرست گروہوں کو خوف ہے کہ مذاکرات کی صورت میںکالعدم تحریک طالبان کے پاس حکومت کو دینے کے لیے صرف یہی گروہ ہیں، لہٰذا مذاکرات کی کامیابی میں ان قوتوں کو اپنی موت نظر آرہی ہے۔ دائیں بائیں،اوپر نیچے کے ان اختلافات کی موجودگی میں یہ عین ممکن ہے کہ حکیم اللہ محسود اپنے ہی کسی حلیف کے خوف کا نشانہ بن گیا ہو۔یوں بھی اس کے سر پر امریکہ کی طرف سے پچاس لاکھ ڈالر کی انعامی رقم کونظر اندازنہیں کیاجاسکتا۔شمالی وزیرستان میںبداعتمادی کی اس ٖفضاسے امریکہ پورا پورا فائدہ اٹھارہا ہے۔ڈرون کا کنٹرول سی آئی اے اور زمین پررہنمائی کا انسانی نظام صرف اسی کو معلومات فراہم کرتاہے۔ عملی طورپرہوا میں اڑنے والے ڈرون کی آنکھیں زمین پر ہیں، ان آنکھوں کو اندھا کردیںتو ڈرون خود بخود رک جائیں گے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ بڑی اہم ہے کہ حکیم اللہ محسود افغانستان میں خوست کے امریکی بیس پر خودکش حملے کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے امریکہ کوبھی مطلوب تھااورامریکہ کو مطلوب مجرم کے ساتھ مذاکرات کرنا کم از کم آج کی دنیا میں تو ممکن نہیں۔رجزیہ دلائل دینے والوں کی حلق شگافی اپنی جگہ لیکن پاکستان ان لوگوں کے کہنے پر خود کش جیکٹ پہننے کے لیے تیار نہیں۔حکیم اللہ محسود کا نشانہ بن جانا بڑا واقعہ سہی، لیکن اس کی وجہ سے صورتحال میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں