میں پاکستانی ہوں یا پنجابی؟یہ سوال اچانک میرے نہاں خانہ سے دل سے نکلا اور میرے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔اِس نے کب جنم لیا، کیسے اتنا بڑا ہو گیا کہ آج میری راہ روکے کھڑا ہے؟
میں پوٹھوارکا رہنے والا ہوں۔راولپنڈی کے نواح میں میرا گاؤں ہے، چک امرال۔میں کب سے یہاںکا مکین ہوں ،نہیں جانتا۔چار نسلوں سے تو یقیناً ہوں۔میرا بچپن گاؤں میں گزرا۔ میں اسی زبان میں سوچتا اور خواب دیکھتا ہوں جو اس علاقے میں صدیوں سے بولی جاتی ہے۔یہ زبان اور یہ علاقہ مگر کبھی میری شناخت نہیں بنے۔میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو معلوم ہوا کہ میری شناخت پاکستانی ہے۔گھر سے یہی سیکھا اور سکول سے بھی۔میں نے صرف یہ جانا کہ پاکستان کے چار صوبے ہیں لیکن یہ محض جغرافیائی تقسیم ہے۔پنجاب ہویا سندھ۔بلوچستان ہو یا سرحد، سب علاقوں میں ایک قوم بستی ہے جسے پاکستانی کہتے ہیں اور میں بھی اسی کا ایک فرد ہوں۔یہ بھی پڑھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ میں نے دیکھا کہ میرے علاقے میں اگر کوئی پڑھ لکھ جا تا ہے تو وہ اپنے بچوں کو اردو سکھاتا اور یہ ترغیب دیتا ہے کہ وہ اردو اپنائیں۔میرے سب سے بڑے بھائی کے بچے اردو بو لتے تھے۔ میرے بچے پیداہوئے تو میں نے بھی انہیں اردو سکھائی۔ آج وہ پنجابی بو لنے پر قادر نہیں ہیں۔
ایک طرف میرا پاکستانی تشخص توا نا ہو رہا تھا تو دوسری طرف ایک اور عمل بھی جاری تھا،جو اب معلوم ہو تا ہے کہ ذہن میں جڑپکڑ رہاتھا۔میں چاروں طرف سے سنتا تھا کہ پنجاب غاصب ہے اوریہ دوسرے صوبوں کے حقوق پا ما ل کر رہاہے۔جب شعور کی عمر کو پہنچا اور کتابیں پڑھنا شروع کیں تو پتا چلا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار پنجاب ہے۔سندھ میں اگر محرومی ہے تو اس کی وجہ پنجاب ہے۔بلو چستان کے لوگوں کو اگر شکایت ہے تو پنجاب سے ۔سرحد میں اگر مسائل ہیں تو یہ سب پنجاب کی وجہ سے ہیں۔ اگر کالا باغ ڈیم کی بات ہوئی تو یہ دراصل پنجاب کو آبادکرنے اور سرحد کو ڈبو نے کا منصوبہ تھا۔
میں یہ سب کچھ سنتا رہا لیکن بظاہر متاثر نہیں ہوا۔یہ بات کہ پنجاب، سندھ، سرحد یا بلو چستان سے الگ کسی وجود کا نام ہے، کبھی میر احاطۂ خیال میں نہ آ سکی۔آج بھی سلیم صافی، حسن الامین، عامرعبداللہ اور میجر عامر کی طرح کے میرے بھائیوں جیسے دوست، سب پختون ہیں۔ ڈاکٹر فاروق خان شہید ایک دن کے لیے بھی میری یادوں سے محو نہیں ہوئے۔ پھرمیں نے یہ بھی دیکھا کہ پنجاب کے سب سے مقبول سیاسی راہنما ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔یہ توبعد میں معلوم ہوا کہ ان کا تعلق سندھ سے ہے اور سندھ پنجاب سے الگ کوئی اکائی ہے۔میں نے محسوس کیا کہ میرے چاروں طرف غربت پھیلی ہوئی ہیں۔صدیوں سے افلاس نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔اسلام آباد سے میراگاؤں ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ آج بھی یہاں کوئی ہسپتال ہے نہ ڈسپنسری۔عام آ دمی دو کلو میٹر پیدل چل کر سڑک تک پہنچتا ہے۔ میری زندگی میں تین وزیراعظم ایسے گزرے جن کا تعلق سندھ سے تھا۔حاشا وکلا، ایک دن بھی یہ خیال نہیں آیا کہ میری اس پس ماندگی کی وجہ سندھ ہے۔
میرا تجزیہ یہ رہا کہ اس ملک میں اصل تقسیم پنجابی یا پختون کی نہیں ہے۔تقسیم مراعا ت یافتہ اور غیر مراعات یافتہ طبقات کے مابین ہے۔یہ دونوں طبقات ہر صوبے میں پائے جا تے ہیں۔ سندھ کے وڈیرے،پنجاب کے جاگیر دار اور سرمایہ دار،بلوچستان کے سردار اور سرحد کے خان، یہ ایک طبقہ ہیں۔دوسرا طبقہ محرومی کا شکار عام شہری ہیں اور یہ بھی ہر صوبے میں ہیں۔یہی اسفندیار ولی کا خاندان ہے جو اقتدار کے کھیل میں سندھی وڈیروں کا حلیف ہے۔یہی ہوتی ہیں جو پنجاب کے سرمایہ دار نوازشریف کی کابینہ میں وزیر ہیں۔یہی بگتی ،مینگل اور اچکزئی سردارہیں جو اسلام آبادکے حکم سے گورنر بنتے اور مراعات اٹھاتے ہیں۔
میں اس معاملے کوایک اور زاویے سے بھی دیکھتا تھا۔سرحد، خیبر پختون خوا بنا تو یہاں اسفندیار اور امیر حیدر ہوتی کی حکومت قائم ہوئی۔کرپشن صوبے کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔کیا انہوں نے یہ کرپشن پنجاب کے کہنے پر کی؟سندھ میں برسوں سے بھٹو اور زرداری خاندان حکمران ہیں۔کیا سندھ کے عوام آج تک اس لیے محروم ہیں کہ ان کے ہاتھ پنجاب نے باندھ دیے تھے؟کیا بلوچستان اس لیے پسماندہ رہا کہ وہاں کے سرداروں کو پنجاب نے روک دیا تھا کہ وہ اپنی جاگیروں سے بلوچ عوام کو دور رکھیں؟اپنے علاقے میں کوئی سکول قائم نہ ہونے دیں؟
پاک چین اقتصادی راہداری کو جب متنازع بنا یا گیا اور ایک بارپھر پنجاب کو گالی دی گئی تو مجھے احساس ہوا کہ میرا تصورِ تاریخ اندر ہی اندر بدل رہاتھا، جوآج میرے سامنے آ کھڑا ہواہے۔میرے اندر ایک نئی شناخت انگڑائی لے رہی ہے اور یہ شناخت ایک پنجابی کی ہے۔میں نے اس منصوبے پر بہت غور کیااوراسے سمجھنے کی کوشش کی۔معلوم یہ ہوا کہ دنیا میں کوئی بندرگاہ ایسی نہیں جو صرف ایک سڑک کے ساتھ منڈی سے جڑی ہو۔یہی معاملہ گوادر کا بھی ہے۔گوادر سے فی الحال تین بڑے راستے نکلیں گے جو اسے پورے پاکستان اور پھر چین کے ساتھ جوڑ دیں گے۔ایک راستہ وہ ہے جسے مغربی راہداری کہتے ہیں۔یہ راستہ گوادر سے سُراب،قلات، کوئٹہ،قلعہ سیف اللہ ،ژوب،ڈیرہ اسماعیل خان اورپشاورسے گزرتا ہوااسلام آباد اور پھرخنجراب تک پہنچے گا۔گویا یہ بلوچستان اور خیبر پختون خواکے بڑ ے حصے کا احاطہ کرے گا۔اس پر پچھلے سال سے کام جاری ہے اور یہ سب سے پہلے دسمبر 2016ء میں مکمل ہو جائے گا۔ وسطی روٹ،گوادر، خضدار،رتوڈیرو اور بذریعہ انڈس ہائی وے، پشاوراورپھر خنجراب سے مل جائے گا۔مشرقی روٹ گوادر،خضدار، سکھر،کراچی،ملتان،لاہور، اسلام آباد اور پشاورسے گزرتا ہوا خنجراب تک پہنچے گا۔ حکومت موجود راستوں کو بھی بطور راہداری استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ جیسے موٹر وے۔لاہور سے کراچی موٹر وے ایک الگ منصوبہ ہے۔جب یہ مکمل ہو گا تویہ روٹ براستہ
کراچی ،موٹر وے سے مل جائے گا۔یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ صنعتی زونز کے قیام کا فیصلہ ایک ورکنگ گروپ کرے گا۔اس میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔یہ ورکنگ گروپ ابھی قائم ہی نہیں ہوا۔ اس لیے یہ اعتراض بے معنی ہے کہ سب صنعتیں پنجاب میں لگ رہی ہیں۔اگر سب سے پہلے مغربی راہداری مکمل ہو گی تو سب سے پہلے صنعتیں بھی اسی روٹ کے اردگرد لگیں گی۔
یہ سب باتیں اسفندیار ولی خان صاحب پر واضح ہیں۔لیکن آج پھر وہ فرمارہے ہیں کہ اس روٹ کو خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے بجائے لاہورسے گزاراجارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں ہو نے دیں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ کے پی کے ا ور بلوچستان کے ساتھ پنجاب کی ترقی کا باعث بن سکتا ہے تو انہیںاعتراض کیوں ہے؟میرے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں اسفندیار سے بڑھ کر محبِ وطن ہوں۔سوال یہ ہے کہ میں اگر خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی ترقی پر خوش ہوں تو وہ پنجاب کی ترقی پر پریشان کیوںہیں اور دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں۔اگردیگر صوبوں کو نظر انداز کر کے، صرف پنجاب کی ترقی کو پیش ِنظر رکھا جائے گا تو مجھ جیسے اہلِ پنجاب اُن سے پہلے احتجاج کریں گے۔ وہ کالاباغ ڈیم کی طرح اس منصوبے کو کیوں صوبائیت کے زہر سے آ لودہ کرنا چاہتے ہیں؟
بلاوجہ اورمسلسل گالیاں سن سن کر، مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر ایک نئی شناخت انگڑائی لے رہی ہے۔ گھراور سکول میں پڑھایا گیا سبق بھولنے لگا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟میں انجام کے بارے میں سوچتا ہوں تو لرز اٹھتا ہوں۔میں اس شناخت کو دباتا اور چاہتا ہوں کہ میری پاکستانی شناخت ہی غالب رہے۔مگر کب تک؟ آخر کب تک؟