"MABC" (space) message & send to 7575

شہیدوں کے نام

روزنامہ دنیا کی ایک خبر کے مطابق شجاعت کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے سوار محمد حسین شہید اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے نام پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے جماعت نہم کی کتاب سے خارج کر دیے ہیں ۔یہ خبر افسوسناک اور قابل توجہ ہے ۔ کہیں یہ ہمارے جوانوں کے میدان جنگ میں دشمن کے خلاف داد شجاعت دینے کی حوصلہ شکنی کا کوئی منصوبہ تو نہیں ؟ ارض پاک کی حفاظت کیلئے جان قربان کرنے والے شہیدوں کے نام نصاب سے تو خارج کیے جاسکتے ہیں لیکن عوام کے دلوں سے ان کی قربانی کے نقش محو کرنا ممکن نہیں ۔شہیدوں کی عظمت کے بارے میں ایک ایمان افروز واقعہ سنیے :1965ء کی جنگ ستمبر کے چند ماہ بعد مدینہ منورہ میں ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاموش بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے روضہ رسولﷺ کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔یہ پاکستانی 11ستمبر 1965ء کو سیالکوٹ پھلورا محاذ پرشہید ہونے والے کوئٹہ انفنٹری سکول کے انسٹرکٹر میجر زیڈ یو عباسی ستارہ جرأت کے والد گرامی تھے ۔میجر ضیا عباسی کے ٹینک کو دشمن کی توپ کا گولہ لگا جس سے وہ شہید ہو گئے ۔جب صدر ایوب خان کی طرف سے میجر عباسی شہید کے والد اپنے شہید بیٹے کو بعد از شہادت ملنے والا ستارہ جرأت وصول کر رہے تھے تو ایوب خان نے ان سے ان کی کوئی خواہش پوچھی تو انہوں نے عمرہ کی خواہش کا اظہار کیا جسے ایوب خان نے فورا ًقبول کر لیا۔ شہید میجر ضیاء الدین عبا سی ستارہ جرأت کے والد جب روضہ رسولﷺ کے سامنے بیٹھے آنسو بہا رہے تھے تو خادم مسجد نبوی وہاں آئے اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ آپ میں سے کوئی پاکستان سے تعلق رکھتا ہے ؟میجر عباسی شہید کے والد نے خادم مسجد نبوی کے استفسار پر کہا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں۔خادم مسجد نبویﷺ نے ان سے پوچھا کہ پاکستانی فوج کے میجر ضیا ء الدین عباسی شہید کا نام آپ نے سنا ہے ،ان کو آپ جانتے ہیں ؟اس پرشہید کے والد نے حیرت سے کہا کہ وہ ہی اس شہید کے والد ہیں ۔یہ سنتے ہی خوشی اور مسرت سے لبریز خادم خاص نے آگے بڑھ کر زور سے انہیں گلے لگالیا اوران کے بوسے لیتے ہوئے کہا کہ آپ یہیں رکیں ،میں کچھ دیر بعد آتا ہوں ۔شہید میجر عباسی کے والد کو حیران چھوڑ کر روضہ رسول ؐکی طرف چل دیے۔ چند منٹ بعد نمازعشاہوئی جس کے بعد وہ تشریف لائے اور عباسی شہید کے والد کو اپنے گھر لے گئے جہاں انہیں بڑی عزت و احترام کے ساتھ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھانا کھلایا۔ سب گھر والے انہیں بڑی عزت و احترام سے پیش آ رہے تھے ۔میجر عباسی شہید کے والد بہت حیران تھے کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ میں تو انہیں جانتا تک نہیں بلکہ زندگی میںپہلی بار میرا سعودی عرب آنا ہوا ہے ۔ اسی شش و پنج میں تھے کہ خادم خاص روضہ رسول اﷲ ﷺنے ان کے ہاتھوں کے ایک بار پھر بوسے لیے اور شہید عباسی کے والد کی حیرانگی دور کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہو رہی تھی تو 11 ستمبر کی رات میں نے خواب میں رسول اﷲﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنے جلیل القدر صحابہ ؓکے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کچھ لمحوں بعد حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اپنے ہاتھوں میں ایک لاشہ اٹھائے وہاں تشریف لاتے ہیں ۔ رسول اﷲ ﷺسمیت سب کی نظریں ان کی طرف اٹھتی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ میجر عباسی ہیں۔رسول اﷲﷺ نے صحابہ کرام ؓسے فرمایا کہ شہید عباسی اسی طرح بہادری سے کفار کے خلاف جنگ لڑے ہیں جیسے آپ میرے ساتھ غزوات میں کفار کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ خادم مسجد نبوی کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺسمیت سب نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور حکم دیا کہ انہیں جنت بقیع میں دفن کر دیا جائے۔ عین اسی دن ریڈیوپاکستان پر ایک نیا جنگی ترانہ گونج رہا تھا…چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم…رسول پاکﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہوگا…علی ؓ تمہاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے …حسین ؓپاک نے ارشاد یہ کیا ہو گا…اے راہ حق کے شہیدو تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں۔ 1971ء کی ہندو ستان اور پاکستان کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر شہیدہونے والے سوار محمد حسین کو امانتا ًدفنایا گیا تھا۔جنگ ختم ہونے کے بعد انہیں بعد از شہادت بہادری اور جرأت کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا گیا تو نشان حیدر پانے والوں کے معیار کے مطا بق ان کی قبر تیار کرنے کیلئے ان کا تابوت قبر سے نکالنے سے پہلے تمام شرکاء نے وضو کیا اور سب کے لبوں پر درود شریفﷺ کا ورد تھا۔ شہید کے ایک بھائی جو جنگ میں کسی اور محاذپر مصروف تھے ،ان کی درخواست پر جب تابوت کا شیشہ اتار کر انہیں شہید کا چہرہ دکھایا گیا تو یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ دفناتے ہوئے شہید کے بغیر داڑھی چہرے پر ایک مناسب اور صاف ستھری داڑھی کے ساتھ ایک شفیق قسم کی مسکراہٹ اور قبر سے نکلنے والی خوش کن بھینی بھینی خوشبو چاروں طرف پھیل رہی تھی۔یہ ایمان افروز اور روح پرور نظارہ ایک دو نہیں بلکہ وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔نارووال کے گجگال محاذ پر جب دشمن کی مشین گن کا برسٹ سوار محمد حسین کے سینے پرلگا تو ٹینک رجمنٹ کے نائب رسالدار علی نواب اور عبدالرحمان کیانی جب اسے اٹھانے لگے تو شہید محمد حسین نے ان سے پوچھا :دشمن کہاں ہے؟ کہیں آگے تو نہیں آ گیا؟یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی جان اس ملک پر قربان کر دی۔ کچھ لوگوں کے خواب میں شہید آج بھی یہی پوچھ رہا ہے کہ دیکھنا کہیں دشمن آگے تو نہیںآ گیا؟ سیا چن کے بلند ترین محاذ پر15 مئی 1995 کو شہید ہونے والے کیپٹن معظم علی شہید کے والد ڈاکٹر میجر(ر) یوسف اختر کہتے ہیں کہ شہید کی پیدائش سے پہلے ان کی تائی اماں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی بزرگ انہیں بشارت دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یوسف کو بتا دو کہ اس کے ہاں بیٹا ہو گا، اس کا نام معظم علی رکھیںاور اسے فوج میں بھیجیں۔ میں خودمیجر یوسف سے تصدیق کرنے کیلئے ان سے جہلم جا کر ملا ۔وہ بتاتے ہیں کہ دمشق میں ہم حضرت یحییٰ علیہ السلام اور صلاح الدین ایوبی ؒکے مزار پر گئے ۔ دعا کے بعد اس کی والدہ معظم کے سر پر بار بار ہاتھ پھیر رہی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہا کہ اس کی پیدائش سے پہلے میں نے دعا کی تھی کہ اﷲ اگر مجھے بیٹا دے گا تو میں اسے آپ کی نذر کر دوں گی۔ میرے اس بیٹے کو اسلام کے لیے ،پاکستان کیلئے قبول کر ! ماں کی طرف سے صلاح الدین ایوبی اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مزار پر بائیس سال اور سات ماہ بعد مانگی ہوئی دعا سیا چن کے برف زار محاذ پر قبول ہو گئی اور کیپٹن معظم وطن کی حر مت پر قربان ہو گیا۔جنازے میں معظم علی شہید کے تابوت پر کھڑا ایک بوڑھااجنبی اہل جہلم کو اب بھی یاد آتا ہے جسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔اس نے شہید کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا :’’ بیٹے جب رسول پاک ﷺ کے سامنے جائو تو ان سے میرا بھی سلام کہنا!میرا بھی سلام کہنا!اس اجنبی بوڑھے کو شہید کے جنازے میں شریک ہزاروں لوگوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن چند لمحوں بعد وہ کہاں گیا ؟آج تک کسی کو پتہ نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں