"SQC" (space) message & send to 7575

تضاد…سوچیے گا ضرور!

آپ یقینا بہت مصروف ہیں۔ دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے پچیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ بڑے اور اہم کاموں میں آپ مصروف ہیں ۔کبھی چائنا کے ساتھ اورنج ٹرین کے معاہدے کرتے نظر آتے ہیں‘ کبھی ترکی جا رہے ہیں اور اربوں کے معاہدے کر رہے ہیں۔ میٹرو بس چلانے کو بے تاب ہیں اوراسی خواہش میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیںکہ کیسری رنگ کی ریل گاڑی لاہور شہر کے بیچوں بیچ چلا کر اس شہر کو دنیا کا ترقی یافتہ شہر بنا ڈالیں۔
آپ کے مقاصد بہت اونچے ہیں۔ آپ اپنے مشن میں بہت ثابت قدم ہیں‘ اسی لیے تو اس ترقی کی راہ میں اٹھنے والے کسی احتجاج، کسی آواز پر کان نہیں دھرتے۔ آپ بہت مصروف ہیں۔ کبھی کسی بچے کے ساتھ پنجاب کا کوئی ظالم زمیندار ظلم کر دے تو آپ خود وہاں پہنچتے ہیں۔ کبھی کسی بچی کے ساتھ زیادتی ہو جائے اور وہ انصاف نہ ملنے پر خود کو آگ لگا لے تو آپ اس ظلم کی داد رسی کے لیے بنفسِ نفیس وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
بہت ہی دلگداز منظر ہوتا ہے۔ لفظ اس کا احاطہ کیسے کریں؟ کہاں غریب، خاک بسرلوگ، خستہ حال مکان کے حسرت زدہ درو دیوار، کہاں آپ کا جاہ و جلال، صوبے کے بادشاہ کی شان و شوکت، غریب کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ بادشاہ کو کہاں بٹھائیں۔ بہت ہی دلگداز منظر ہوتا ہے۔ آپ نم آنکھوں کے ساتھ ان کے دُکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ میڈیا کے کیمرے اس منظر کو عوام تک پہنچانے کے لیے حرکت میں آتے ہیں۔ کیمروں کی چکا چوند میں آپ اعلان کرتے ہیں کہ مجرموں کو کٹہرے تک لائیں گے۔ علاقے کے انتظامی افسران آپ کے رعب اوردبدبے سے باقاعدہ تھرتھر کانپ رہے ہوتے ہیں۔ جب تک آپ وہاں رہتے ہیں‘ اٹکے سانسوں کے ساتھ وہ سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔
مگر ذرا سوچیے‘ تضحیک اور توہین پنجاب کے عوام کی ہے جن کے نام پر اربوں روپیہ ایک ایسے مہنگے ترین پروجیکٹ پر لگایا جا رہا ہے جس سے ایک مخصوص روٹ پر جانے والے لوگ ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ اس ہیوی بجٹ کے صرف تیسرے حصے سے اس مخصوص روٹ پر بہتر ویگنیں اور بسیں چلا کر ٹرانسپورٹ کی ضرورت پوری کی جا سکتی تھی۔ اس روٹ پر ریل گاڑی دوڑانے کے لیے سینکڑوں لوگوں کو بے گھر کیا‘ کاروبار تباہ ہوئے، جگہ جگہ کھدائیاں، اور اکھاڑ پچھاڑ سے متاثرہ علاقے کو اس قدر گرد آلود کر دیا گیا کہ یہاں کے لوگ مسلسل اڑنے والی گرد سے کھانسی اور سانس کے دائمی مریض بن چکے ہیں۔
یہ لاہور، جسے آپ ہر قیمت پر پیرس بنانا چاہتے ہیں، ذرا اس کے ہسپتالوں میں بھی کبھی جھانک کر دیکھ لیں‘ جہاں درد سے تڑپتے مریض سردی کے موسم میں ٹھنڈے برآمدوںمیں کراہتے دکھائی دیتے ہیں۔ جو اس آس پر سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں کہ سرکار نے مفت علاج معالجے اور دوائوں کا اعلان کر رکھا ہے مگر جب غریب اپنے مریض کو لے کر سرکاری ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں تو وہاں مفت علاج کے حصول کے لیے ذلت اور خواری کی کئی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ 
آپ چاہیں بھی تو اس اذیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے جس سے ایک غریب تیمار دار اپنے تڑپتے ہوئے مریض کے ساتھ سرکاری 
ہسپتالوں میں گزرتا ہے۔ مریض تو مریض ہوتا ہے خواہ وہ خوشحال طبقے کا ہو یا پھر خالی جیب غریب شہری، اسے دوائوں، علاج اور دیکھ بھال کی اتنی ہی ضرورت ہے‘ مگر مفت دوائوں کے دعووں اور مفت علاج معالجے کے نعروں کے باوجود حقیقت حال بہت بدتر ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو مفت دوائیں دی جاتی ہیں۔ مریضوں کا کہنا ہے کہ ریگولر علاج معالجے کے لیے آنے والے ضرورت مند مریضوں کو سستی دوائیں تو ہسپتال سے مل جاتی ہیں مگر مہنگے ٹیسٹ، ایکسرے اور انجکشن انہیں اپنی جیب سے خریدنا پڑتے ہیں‘ جس کی ظاہر ہے وہ سکت نہیں رکھتے اور یوں غریب مریض، مفت علاج کے سرکاری نعرے کے پرفریب دام میں الجھا محض اپنی تہی دامنی اور غربت کا ماتم کرتا رہ جاتا ہے۔ یہاں تو عام سے ٹیسٹ کے لیے مریضوں کو چار چار ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے مشین ایک ہے اور مریض قطاروں میں لگے ہیں۔ مشینیں موجود بھی ہیں تو خراب۔ نئی مشین خریدنے کے لیے ہسپتالوں کے پاس فنڈز نہیں، میو ہسپتال جو پنجاب کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اور جہاں روزانہ سینکڑوں مریض پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی آتے ہیں‘ اس کا حال یہ ہے کہ وینٹی لیٹر کی 40 میں سے پانچ مشینیں سالوں سے خراب پڑی ہیں مگر اس انتہائی ایمرجنسی کی ضرورت کے لیے ہسپتال کے 
پاس فنڈ نہیں۔ ایک بستر پر تین مریض سسک رہے ہیں۔ نئے وارڈز، نئے بستر، نئے کمروں کی ہر ہسپتال میں ضرورت ہے‘ مگر پنجاب حکومت اربوں روپیہ ان منصوبوں کی نذر کر رہی ہے‘ جن سے ان کی واہ واہ ہو، اور جو اگلے الیکشن میں ووٹ لینے کے لیے خوش کن نعروں میں استعمال ہو سکیں۔ ایسے پروجیکٹس جو دنیا کو نظر آئیں ‘کسی ہسپتال کے وارڈز بنوانے اور نئی مشینیں خریدنے سے دنیا کی واہ واہ تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔
آپ نے اس شہر کے بیچوں بیچ میٹرو بس بھی چلا دی، اور اب آپ اورنج ٹرین کے مہنگے ترین منصوبے کو ہر قیمت پر پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اور ہم بھی چشم تصور سے ایک ترقی یافتہ پیرس نما لاہور کو دیکھ رہے ہیں، جہاں ایک طرف میٹرو بس فراٹے بھرتی گزر رہی ہے اور دوسری جانب جدید ترین اورنج ریل گاڑی اس شہر کو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کے مقابل کھڑا کر رہی ہے‘ مگر اس شہر میں سرکاری ہسپتالوں کے ٹھنڈے برآمدے میں پڑے غریب مریض سسک سسک کر دم توڑ رہے ہوں گے۔ مفت علاج کے سرکاری نعرے کے دام میں الجھا ہوا غریب مریض اپنی غربت اور تہی دامنی کا ماتم کر رہا ہو گا۔
آپ بہت مصروف سہی مگر اس تضاد کے بارے میں ضرور سوچیے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں