آئینی عدالت نہ بینچ،آئینی ڈویژن:حکومت کا آئین میں مجوزہ ترامیم کا مسودہ سامنے آگیا،فوجی عدالتوں پر اتفاق نہیں ہو سکا:رانا ثنا اللہ

آئینی عدالت نہ بینچ،آئینی ڈویژن:حکومت کا آئین میں مجوزہ ترامیم کا مسودہ سامنے آگیا،فوجی عدالتوں پر اتفاق نہیں ہو سکا:رانا ثنا اللہ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،اپنے رپورٹر سے ،نامہ نگار،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)مجوزہ 26 آئینی ترمیم میں آئینی عدالت نہ بینچ ،آئینی ڈویژن کا ذکر ،حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے ، وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ملٹری کورٹس کے معاملے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

جن ترامیم پر اتفاق رائے نہیں ہوا انہیں حتمی مسودے میں شامل نہیں کیا جائے گا،وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی سینیٹرز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا، حکومت نے نمبر ز پورے ہونیکا دعو یٰ کردیا، سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا آئینی ترمیم آج سینیٹ میں پیش ہوسکتی ہے ،ادھر الیکشن کمیشن کا بھی آج فیصلہ کن اجلاس ہوگا۔مجوزہ آئینی ترمیم کا حکومتی مسودہ 12 صفحات اور 24 نکات پر مشتمل ہے ،متن کے مطابق نئے آرٹیکل 191اے میں سپریم کورٹ میںآئینی ڈویژنکا قیام شامل ہے ، ججزکی تعداد جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا، ججز کیلئے ممکنہ حد تک تمام صوبوں  کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل اختیار سماعت، سوموٹو مقدمات کا مجاز نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کا کوئی جج آئینی اپیلوں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا۔سوموٹو، اوریجنل جورسڈکشن کی سماعت اور فیصلہآئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا، صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ بھی آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا، آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا۔

آئینی ڈویژن سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین جج تشکیل دیں گے ، سپریم کورٹ میں آئینی ڈویژن کے دائرہ اختیار میں زیرالتوا کیسز اور نظرثانی درخواستیں منتقل ہوں گی۔مسودے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس، سروسزچیفس کی دوبارہ تقرری اور توسیع کے قوانین کو آئینی تحفظ حاصل ہے ۔ اس کے لیے آئین میں نئے آٹھویں شیڈول کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے ۔ آرٹیکل 243میں نئی شق 5 کا اضافہ تجویز ہے جس میں ترمیم کے بغیر ان قوانین میں ردوبدل نہیں ہوسکے گا۔ ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے ، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار رکھے گئے ہیں،4 ارکان پارلیمنٹ شامل کیے جائیں گے ، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئرپرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کرسکتے ہیں۔ چیئرپرسن 15 روز میں اجلاس بلانے کا پابند ہوگا، اجلاس نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا۔ آرٹیکل 179 میں ترمیم کی جائے گی، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائر ہو جائیں گے ، آرٹیکل 63 میں ترمیم ہوگی اور دہری شہریت کا حامل الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار پائے گا، منتخب ہونے پر 90 روز میں غیر ملکی شہریت ترک کرنے کی پابندی ہوگی، آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ہوگی، منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو گا۔

آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیرمملکت کے الفاظ حذف کیے جائیں۔ صرف کابینہ یا وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجا سکے گا۔ آرٹیکل 81 میں ترمیم سے سپریم جوڈیشل کونسل اور انتخابات کیلئے فنڈز لازمی اخراجات میں شامل ہوں گے ۔ آرٹیکل 111 میں ترمیم سے صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا۔ آرٹیکل184 (3) کے تحت سوموٹو یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک فیصلہ جاری کر سکے گی۔ آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سے سپریم کورٹ مقدمہ،اپیل کسی اور ہائی کورٹ کو منتقل کرنے کی مجاز ہوگی۔ سپریم کورٹ مقدمہ،اپیل خود کو منتقل کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔قبل ازیں پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا،ذرائع کے مطابق اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے آئینی ترمیمی مسودوں پر اتفاقِ رائے کے قیام اور پارلیمانی جماعتوں کے مسودوں کو یکجا کرنے پر گفتگو ہوئی،اس دوران حکومت اور پیپلزپارٹی نے آئینی عدالت کے قیام سے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کردی ،جبکہ ایم کیو ایم بلدیاتی حکومت کے اختیار اور فنڈز سے متعلق آئینی ترمیم واپس لینے پر راضی ہو گئی ۔

حکومت اور جے یو آئی نے مشترکہ مسودہ پر پی ٹی آئی سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے ،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)نے آصف علی زرداری اور نواز شریف سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے اور دونوں رہنماؤں کی رضامندی کے بعد آئینی عدالت سے متعلق مسودہ باضابطہ طور پر واپس لیا جائے گا۔سید خورشید شاہ نے کہا خصوصی کمیٹی کا اجلاس آج جمعہ کو ڈیڑھ بجے ہوگا۔ لیگی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا اتفاق رائے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں بس اب ایک پھونک کی دیر ہے ، پھونک کمیٹی مارے گی، کمیٹی میں بہت اچھی گفتگو ہوئی ہے ، تقریباً سب کا اتفاق ہوگیا ہے ۔ادھرصدرمملکت آصف زرداری سے وزیراعظم شہباز شریف نے ایوان صدر میں ملاقات کرکے آئینی ترامیم اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کی۔جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو بھی صدر سے ملے اور صدر زرداری کو خصوصی کمیٹی اجلاس ،مختلف سیاسی رہنماؤں سے رابطوں پر اعتماد میں لیا۔ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کو آصف زرداری نے بلایا تھا۔

دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی سینیٹرز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سمیت مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی جے یو آئی، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، بی اے پی اور دیگر اتحادی سینیٹرز نے شرکت کی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے خطاب میں کہا قومی مفاد کیلئے ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خوشحال پاکستان کی جانب گامزن ہیں،ملکی ترقی کیلئے تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے مل کر کام کر رہے ہیں،اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور عوام نے قربانی دے کر اس ملک کو مشکلات سے نکالا، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا کامیاب انعقاد سفارتی میدان میں پاکستان کیلئے بہت بڑی کامیابی ہے ۔اس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کلیدی کردار ہے ۔وزیراعظم نے سینیٹ میں اتحادی جماعتوں کے قائدین کو پیغام میں کہا آپ سب نے سیاست کی قربانی دے کر خوب محنت کی، معاشی استحکام اور سفارتی کامیابیاں اس کا نتیجہ ہیں۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا نے اتحادی جماعتوں کو آئینی ترمیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔

حکومت نے سینیٹ میں نمبر گیم کے حوالے سے اپنے کارڈز بھی شو کر دئیے ہیں، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی نسیمہ احسان اور مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر جیتنے والے پرویز الٰہی کے حامی سینیٹر کامل علی آغا نے بھی حکومت کے ظہرانے میں شرکت کی جس سے حکومت کے پاس سینیٹ میں نمبر گیم پوری ہو گئی ۔جس وقت نسیمہ احسان حکومتی ظہرانے میں موجود تھیں اس وقت ان کی جماعت کے رہنما ڈی چوک پریس کانفرنس میں ان کے اغوا کا دعویٰ کر رہے تھے ، اس معاملے میں جب نسیمہ احسان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ اغوا ہوتیں تو اس وقت یہاں موجود نہ ہوتیں،اس سوال پر کہ کیا آپ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گی تو انہوں نے کہا کہ ‘جب آئینی ترمیم پیش ہوگی تو میں اس کے حق میں ووٹ دوں گی۔انہوں نے کہا کہ ‘میرے اغوا کے حوالے سے دعویٰ بالکل غلط ہے البتہ کچھ معاملات ہیں جن پر میں بات نہیں کرنا چاہتی۔صحافی نے پوچھا کیا پریشر ہے ؟جس پر نسیمہ احسان نے کہا کہ آپ کو بھی پتہ ہے کہ پریشر ہے ۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے آئینی ترمیم کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت اور مجوزہ آئینی شقوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔

اجلاس میں طے پایا کہ چونکہ حکمران اتحاد کے پاس سینیٹ میں نمبر گیم پوری ہے ، اس لیے آج سینیٹ اجلاس میں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا جائے گا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے میڈیا کو بتایا کہ معاملات طے پا گئے ہیں اور سب ٹھیک ہو گیا ہے ، اس لیے اب آج ترمیمی بل پیش کرنے جا رہے ہیں۔سینیٹ میں آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت 64 بنتی ہے ، حکومتی اتحاد میں مسلم لیگ ن 19، پیپلزپارٹی 24، ایم کیو ایم پاکستان 3، نیشنل پارٹی ایک، بی اے پی چار، اے این پی تین اور چار آزاد سینیٹرز حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں، یہ تعداد 58 بنتی ہے ، جبکہ کامل علی آغا اور نسیمہ احسان کو شامل کرنے سے یہ تعداد 60 ہو جاتی ہے ، جے یو آئی کے پانچ سینیٹرز کی حمایت حاصل ہونے کے بعد یہ تعداد مطلوبہ تعداد سے بڑھ جاتی ہے ، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ کا ووٹ شامل نہ ہونے کے باوجود حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے ۔ مزید برآں سینیٹ اجلاس میں سینیٹر نسیمہ احسان اظہار خیال کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں جس کے بعد خواتین سینیٹرز نے انہیں دلاسہ دیا،سینیٹر نسیمہ احسان نے ایوان میں مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کیا،چیئرمین سینیٹ نے خاتون رکن کو چیمبر میں آکر مسائل سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔

جمعیت علما اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا آئینی ترمیم کی ووٹنگ کیلئے اراکین پردباؤ ڈالا جارہا ہے ، ارکان کو دھمکانا ہے ، گالیاں دینی ہیں تو اختر مینگل کے بعد مزید پانچ سات لوگ استعفیٰ دے دیں گے ، ممکن ہے میں بھی شامل ہوں، ہاؤس میں بے عزتی کرانے کا کوئی فائدہ نہیں، آئین میں ایسے ترمیم کریں گے تو آئین نہیں رہے گا۔ عمر فاروق نے بھی آئینی ترمیم سے متعلق ووٹنگ پر دباؤ کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، اگر کوئی بھی ان کے خلاف نہ کھڑا ہوا تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ ایس سی او سمٹ کے دوران اسلام آباد میں کرفیو لگایا گیا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ لاجز کے اندر جا کر کیسے پولیس ارکان کو یرغمال بنا رہی ہے ؟دوسری جانب قومی اسمبلی نے آئینی ترمیم کو زیر بحث لانے کی تحریک منظور کر لی،پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا قومی اسمبلی کی ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں فیصلہ ہوا ہے کہ آئینی ترمیم پر ایوان میں بحث کرائی جائے گی۔

اس حوالے سے انہوں نے تحریک پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دے دی ،بحث میں حصہ لیتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے کہا ہمیں دو روز قبل آئینی ترمیم پر حکومتی مسودہ ملا ہے ، ترمیم کے حوالے سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ 18 ہویں ترمیم میں 102 آئینی ترامیم شامل تھیں، ان پر 9 سے 10 ماہ لگے تھے جبکہ موجودہ آئینی ترمیم میں آئین میں 23 ترامیم شامل ہیں، ان پر غور کیلئے قائمہ کمیٹی بھی موجود ہے ، آئین سازی میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔ قانون کی حکمرانی ہو گی تو ملک ترقی کرے گا، سرمایہ کاری آئین و قانون کی بالادستی سے آئے گی، قانون سازی آئین و قانون کے دائرہ میں رہ کر کی جانی چاہئے ۔ عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی ترمیم لائی ہے جو ہمیں قبول نہیں ہے ، خیبر بھی پختونخوا کا حصہ ہے ، ایسی ترمیم نہیں ہونی چاہئے ۔

مزید برآں الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک اور طویل ترین اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا، اجلاس کے دوران قانونی ٹیم نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے اور سپیکرز کے خطوط پر تفصیلی بریفنگ دی ۔ذرائع کے مطابق آج جمعہ کو آخری اجلاس ہوگا جس کے بعد کمیشن فیصلہ دے گا کہ مخصوص نشستیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کو دیں یا قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے بعد سپیکرز قومی وصوبائی اسمبلی کے خط کے مطابق واپس ان جماعتوں کو دی جائیں جن کے ارکان کی رکنیت معطل کی گئی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے پر اضافی مخصوص نشستوں والے اراکین کو معطل کر رکھا ہے ۔ذرائع کے مطابق حکمران اتحاد اور جے یو آئی ف کو نشستیں ملنے سے دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی، واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں