وفاقی حکومت گرانے کی طاقت ہے:وزیراعلیٰ سندھ
کراچی (سٹاف رپورٹر) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں چولستان پروجیکٹ کو روکنے کی طاقت، صلاحیت اور اختیار موجود ہے ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو یہ طاقت استعمال کی جائے گی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سندھ کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہیں تاہم اگر ہمارے خدشات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر انتہائی اقدامات کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کی آواز یا سندھ کے عوام کی آواز سنی گئی ہے اسی لیے پنجاب حکومت نے چولستان کینال کی تعمیر پر مختص کردہ 45 ارب روپے استعمال نہیں کیے ۔ مراد شاہ نے کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو ہٹانے میں کردار ادا کرے لیکن ہم ان کے ایجنڈے پر عمل نہیں کریں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت کی درخواست پر چولستان کینال پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا۔ انہوں نے ممکنہ سرمایہ کاروں کو دکھانے کے لیے ایک چھوٹا ماڈل تیار کیا ہے ، کینال منصوبے عام طور پر بالائی علاقوں سے شروع ہوتے ہیں، لیکن جب ان کی ٹیم فروری میں مقام پر گئی تو وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا تھا، میں نے ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ بھارتی سرحد کے قریب ایک کینال کا دورہ کرے ، جب وہ وہاں گئے تو انہیں پتہ چلا کہ وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ مراد شاہ نے کہا کہ پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہے ، 1999 سے 2024 تک تربیلا ڈیم صرف 17 دنوں کے لیے اپنی مکمل گنجائش تک پہنچا ہے جبکہ منگلا ڈیم صرف 4 دنوں کے لیے بھرا ہے ۔
اگر ہم اپنے ڈیمز بھرنے سے قاصر ہیں تو وفاقی حکومت کی جانب سے تجویز کردہ نئی نہریں کیسے بہائی جائیں گی؟ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت 218 ارب روپے تھی جو اب بڑھ کر 225 ارب روپے ہو چکی ہے اور مزید جائزہ لینے پر لاگت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اصل منصوبے کے مطابق چنیوٹ میں ایک ڈیم تعمیر کیا جانا تھا جو 3ارب ڈالر کا منصوبہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 218 ارب روپے کے پی سی ون میں ذکر کیا تھا کہ وہ پہلے سال 45 ارب روپے خرچ کریں گے جس کے نتیجے میں اب تک ایک پیسہ بھی استعمال نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ چولستان کینال نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے لیے خطرہ ہے ، اسی لیے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے اس کی مخالفت کی ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کچھ لوگوں کا خیال ہے چولستان کینال تعمیر ہو چکی ہے ، اسی لیے سندھ کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے ۔ حقیقتاً اس وقت کوئی کام نہیں ہو رہا،میڈیا کو چاہئے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے میں مدد کرے کہ منصوبہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ انہوں نے پنجاب کو اضافی پانی کی تقسیم کے جواز پر سوال اٹھایا اور زور دیا کہ سندھ کے وسائل پہلے ہی دباؤ میں ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے صدر زرداری کے منصوبے کی منظوری کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منصوبوں کی منظوری متعلقہ حکومتی اداروں کے دائرہ کار میں آتی ہے اور اس کیلئے صوبائی اتفاق رائے درکار ہوتا ہے ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سندھ اسمبلی نے اس منصوبے کے خلاف قرارداد منظور کی ہے جس میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتیں یکجا ہیں۔ مراد شاہ نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ اس منصوبے کو مسترد کر دیں جب تک کہ مناسب مشاورتی عمل نہ ہو۔مراد شاہ نے کہا کہ گرین پاکستان انیشیٹیو کے تحت پنجاب حکومت نے نگران حکومت کے دوران تقریباً 1.2 ملین ایکڑ زمین مختص کی۔ اس منصوبے میں زیر زمین پانی استعمال کرتے ہوئے سولر ٹیوب ویلز نصب کیے جا رہے ہیں۔ 50 سے زائد سولر ٹیوب ویلز لگائے جا چکے ہیں، کاشتکاری شروع ہو چکی ہے اور زمین کو ہموار کیا جا چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس پورے منصوبے کا پی سی ون دستیاب ہے اور کارپوریٹ فارمنگ کیلئے زمین مختص کی گئی ہے ۔ کوئی بھی بڑا سرمایہ کار 5000 ایکڑ زمین حاصل کر سکتا ہے ۔
تاہم میری معلومات کے مطابق کسی نے ابھی تک دلچسپی نہیں دکھائی۔ سندھ میں گرین منصوبوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ عمرکوٹ، دادو اور بدین میں 54000 ایکڑ زمین گرین منصوبوں کیلئے مختص کی گئی ہے ۔ اگر مختص کردہ زمین پر کوئی آبادی ہو تو اسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور آرمی چیف نے پنجاب میں گرین پاکستان انیشیٹیو کا آغاز کیا نہ کہ نئی کینال کا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ چولستان منصوبے نے تین صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام میں بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ سندھ میں عوام شدید احتجاجی موڈ میں ہیں۔میں 1991 کے معاہدے کی مخالفت کرتا ہوں، پنجاب نے کچھ نئے آبی ذرائع بنائے اور اس معاہدے کے ذریعے انہیں قانونی حیثیت دے دی گئی۔