سیلز ٹیکس میں فراڈ700ارب سے زیاد ہ ،مکمل ختم نہیں کرسکتے :چیئرمین ایف بی آر
اسلام آباد (مدثرعلی رانا) چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت سیلز ٹیکس فراڈ سب سے زیادہ ہے ، دیگر ممالک میں ٹیکس فراڈ کم جبکہ پاکستان میں ٹیکس فراڈ کا لیول بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے واضح کر دیا کہ سیلز ٹیکس فراڈ کو کچھ کنٹرول کرنے میں کامیابی ہو سکتی لیکن ٹیکس فراڈ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتا۔ سید نوید قمر کی زیرصدارت پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہو ا جس میں ایف بی آر کے آڈٹ پیرا کا جائزہ لیا گیا۔ راشد لنگڑیال نے بتایا کہ سیلز ٹیکس فراڈ کا حجم تقریبا ً7 سو ارب روپے سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے ، فیک انوائسز روکنے کیلئے پوسٹ آڈٹ کو مزید بہتر بنانے اور سخت سزاؤں کی ضرورت ہے ۔ٹیکس فراڈ کرنے والوں کو ضمانت پر رہائی ملنے سے ٹیکس فراڈ نہیں رُکے گا ،کمیٹی کو بتایا کہ مختلف عدالتوں میں 4 ہزار ارب روپے میں سے صرف 1 ہزار ارب روپے کی ریکوری ہو سکتی ہے ،گزشتہ مالی سال عدالتوں میں ٹیکس کیسز کلیئر ہونے سے 2 سو ارب ریکور کیے گئے ، مختلف عدالتوں میں ایف بی آر کی جانب سے زیادہ ٹیکس کیسز کیلئے درخواستیں دی گئی ہیں جہاں پر ریکوری کا چانس کم ہے ۔
کنوینر کمیٹی نوید قمر نے ریمارکس دئیے کہ ریکوریاں کرنے کیلئے سخت قوانین بنانے کے باوجود کارکردگی غیرتسلی بخش ہے ، راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ ٹیکس فراڈ کنٹرول اور فراڈ کیسز میں ریکوریاں کرنے کیلئے اختیارات حاصل کیے ، ٹیکس فراڈ میں گرفتاری ہونے پر رہائی ملنے سے ٹیکس فراڈ نہیں رُک سکے گا، آڈیٹر جنرل نے ذیلی کمیٹی میں انکشاف کیا کہ مالی سال 2012 سے 2023 تک سینکڑوں کیسز میں سیلز ٹیکس، ڈائریکٹ ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی کے 253 ارب روپے ٹیکس فراڈ اور کم ریکوری کے باعث جمع نہ ہو سکے ، گزشتہ 11 برسوں میں 253 ارب روپے کے آڈٹ پیراز اے جی نے پی اے سی کی ذیلی کمیٹی میں پیش کیے ، آڈیٹر جنرل رپورٹ کے مطابق سیلز ٹیکس کی مد میں گزشتہ 11 برسوں میں 97 ارب روپے کے متعدد ٹیکس فراڈ ہوئے ، ایف بی آر اس عرصے کے دوران سیلز ٹیکس کی مد میں فراڈ کی رقم ریکور کرنے میں ناکام رہا ۔ مالی سال 2012 سے 2023 تک ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں 114 ارب روپے سے زائد کم ریکوریاں ہوئیں، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ایف بی آر گزشتہ 11 برسوں میں 42 ارب کی متعدد ریکوریاں نہ کر سکا، اے جی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 11 برسوں سے ایف بی آر بھٹہ مالکان سے مکمل ٹیکس ریکوریاں کرنے میں ناکام رہا، ملک بھر میں تمام اینٹوں کے بھٹوں کی رجسٹریشن مکمل ہوئی اور نہ ہی ٹیکس وصولیاں ہوئیں، آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے پاس 2150 اینٹوں کے بھٹوں کے ٹیکس کا مکمل ڈیٹا بھی نہیں ، کنوینر کمیٹی نے اظہار ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تو صرف 10 فیصد آڈٹ ہو رہا ہے اگر سو فیصد آڈٹ ہو تو ایف بی آر کا حال بُرا ہے ، کنوینر کمیٹی نے کہا کہ ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔
ایک مہینے میں محکمانہ میٹنگز کر کے رپورٹ کریں، 18 ارب روپے سیلز ٹیکس کی کم وصولی کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیتے ہوئے حکام نے کمیٹی کو بتایا ایف بی آر بھی 11 ارب کی وصولی مان رہا ہے لیکن ریکوری نہ ہوئی۔ کنوینر کمیٹی نے کہا کہ ایف بی آر کے اپنے لوگ بھی ملوث ہیں، رپورٹ کے مطابق 16 ایف بی آر فیلڈ آفسز اس میں ملوث تھے ، چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ یہ فراڈ کے کیسز ہیں ان کیسز کو کریمنل سائیڈ پر حل ہونا ہے لیکن ایف بی آر افسران ملوث ہونے کے شواہد نہیں ۔پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی نے سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث ایف بی آر افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے ۔ 41 ارب سے زیادہ کے بقایاجات کی ریکوری نہ ہونے سے متعلق آڈٹ اعتراض پر آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے کوئی انکوائری رپورٹ ہم سے شیئر نہیں کی، چیئرمین ایف بی آر نے ذیلی کمیٹی اجلاس میں ایکشن لینے کی یقین دہانی کرائی دیگر آڈٹ پیراز پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی نے آڈٹ پیراز کو ڈی اے سی سطح پر حل کرنے اور محکمانہ ایکشن لینے کیلئے 1 ماہ کا وقت دے کر دوبارہ رپورٹ طلب کر لی، اجلاس کے دوران چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ اٹارنی جنرل سے ملاقات کے دوران سیکرٹری فنانس بھی شامل تھے اور اٹارنی جنرل کیساتھ آزادانہ پینل بنانے پر بات ہوئی جو ایف بی آر کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے پر تجاویز دے گا اور آزادانہ پینل کو خود بھی ریفرنس دائر کرنے کا اختیار ہو گا۔