اقبالؒ کی ایک کرداری نظم جبریل وابلیس - مختصر جائزہ
جبریل و ابلیس اقبال کی ایک مکالماتی اور کرداری نظم ہے، جو عنوان کی مناسبت سے دو کرداروں ، جبریل اور ابلیس پر مشتمل ہے۔ جبریل کا کردار تقدیس ، تسبیح و تمجید ،عبادت واطاعت کی علامت ہے جب کہ ابلیس کا کردار سرکشی ، بغاوت ،حرکت وعمل ، نافرمانی ، خودشناسی و خودنگری کی علامت ہے ۔ جبریل صرف اتنا ہی جانتا ہے جتنا اس بتادیا گیاہے ۔ وہ مزید جاننا بھی نہیں چاہتا ۔ ابلیس منشائے خداوندی سے سب سے زیادہ آگاہی رکھتا ہے ، انسان سے بھی زیادہ جسے صحائف کے ذریعے وقتاً فو قتاً آگاہی دی جاتی رہی ہے ۔اقبال ایک ایسے شاعر تھے، جنھوں نے کائنات کی پیدا ئش ، آدم کی تخلیق ، ہبوط ِ آدم اور انسان وکائنات کی غرض وغایت پر مابعد الطبیعاتی فکر کی روشنی میں غور کیا ۔ وہ جہاں صحائف میں مذکور دانش سے آگاہ تھے ، وہاں مشرق ومغرب کے جدید و قدیم فلسفوں ، سائنس اور شوشل سائنسوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے ۔ انھیں قصۂ آدم سے خصوصی دل چسپی تھی اور اس قصہ کی فلسفیانہ جہات سے انھوں نے انسان ، کائنات اور خداکے وجود کو سمجھنے کی سعی کی اور اس نظریے تک پہنچے، جس کی مختلف تفصیلات اُن کی اردو فارسی شاعری میں بکھری ہوئی ہیں ۔ اقبال نے یہ نظم غزل کی ہئیت میں لکھی ہے ۔ اس نظم کی بحرر جز مثمن سالم ہے ،جو پر شکوہ لب و لہجے کے لیے بہترین ہے ۔ یوں تو اقبال کی پوری شاعری میں اُسلوب کا شکوہ مسلسل اپنا احساس دلاتا ہے، لیکن اس نظم میں اقبال نے دو کائناتی کرداروں کی گفتگو کو پیش کرنا تھا ، اس لیے اس کی لفظیات ، استعارات اور اصوات سے انھوںنے وہ کائناتی گونج پید ا کی ہے ،جس سے اس کی تاثیر کئی گنا بڑھ گئی ہے :ہم دم دیرینہ کیساہے جہان ِرنگ وبو؟نظم کے اس پہلے حصے میں جبریل اپنے پرانے ساتھی ابلیس سے پوچھتے ہیں کہ وہ جہان جس کے لیے تُونے فرشتوں کی پاکیزہ محفل چھوڑی ہے، کیساہے ۔ اس یک مصری مکالمے میں دوتراکیب بہت اہم ہیں ۔(۱) ہم دم دیرینہ(۲) جہانِ رنگ وبو۔پہلی ترکیب سے اس تعلق کا اظہارہوتاہے ،جو ایک پرانے دوست کے لیے چاہے و ہ دوستی ترک ہی کیوں نہ کر چکا ہو، فطری طورپردل میں موجود ہوتاہے ۔ یہ دوستی کا ایک تقاضا ہے ۔ اس میں محبت اور چاہت ہے ،لیکن ساتھ ملال اور افسوس بھی ہے ۔ا س ترکیب سے مصرعے کے مجموعی مزاج کا تعین کیاگیاہے ۔ دوسری ترکیب جہانِ رنگ بوہے ،جس سے پتا چلتا ہے کہ اختیار نہ کر سکنے کے باوجود جبریل کے دل میں بھی دنیاکی کشش ہے ۔ بنیادی طور پر جہانِ رنگ و بو حسُن کا استعارہ ہے : سوزوسازودردوداغ وجستجو وآرزو ابلیس کا جواب جامع اور اشارتی ہے ۔ یہاں ابلیس کے لب ولہجے میں ان عناصر کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے ۔ مصرعے کی ساخت بتاتی ہے کہ ابلیس ان عناصر کو کتنا اہم سمجھتا ہے ۔ا س ایک مصرعے میں اقبال نے انسانی زندگی کی کل سرگزشت بیان کر دی ہے ۔ گویاانسانی زندگی ان ہی عناصر پر مشتمل ہے ۔ انسان کے دل میں آرزو پید اہوتی ہے، وہ اس آرزو کی جستجو کر تاہے ۔اس جستجو کے دوران میں اسے درد و داغ ملتے ہیں اور آخر کار منزل یعنی سوزوساز تک رسائی حاصل ہوتی ہے ۔ اقبال کے نزدیک زندگی نہ محض سوز ہے اور نہ محض ساز بلکہ ان دونوں پر مشتمل ہے ۔یہاں سوز جلال کا اور ساز جمال کا استعارہ ہے یا سوز قوت کا اور ساز عشق کا استعارہ ہے ۔ اقبال زندگی کو ان دونوں کا مرکب یعنی دونوں کے ملاپ کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ اقبال نے اس بات کوایک اور شعرمیںیوں بیان کیا ہے :شمشیروسنان اوّل ، طاؤس و رباب آخر یہاں انسان جلال وجمال کا مرقع نظر آتا ہے ۔ اس مکالمے کواس نظم کا مرکزی خیال سمجھنا چاہیے:ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو؟جواب میںجبریل اُسے بتاتے ہیں کہ اے ابلیس اگرچہ تونے منزل افلاک چھوڑ دی ہے، لیکن تونے جو پاکباز اور سراپا نیاز زندگی افلاک پر گزاری تھی ، وہ آج بھی فرشتوں کے لیے مثال ہے ۔اس مکالمے کے پس منظر میں ابلیس کی انکار سے قبل کی تمام زندگی کی طرف اشارہ ہے جس میں وہ اپنی عبادت گزاری وفرمانبرداری کے طفیل فرشتوں میں اعلیٰ ترین مقام تک جاپہنچا تھا ۔ اس مکالمے کے دوسرے مصرعے میں جبریل اور دیگر فرشتوں کی اپنے ساتھی کی ذلت وخواری پر درمندی کا اظہار بھی ہوتاہے اور اس کو اس ذلت سے نکالنے کی آرزو کا اظہار بھی ہے ۔ جب جبریل کہتے ہیں : کیانہیں ممکن کہ تیرا چاک ِ دامن ہورفو؟تواس میں خوف بھی ہے کہ کہیں ابلیس انکار نہ کر دے اور آرزو بھی ہے کہ کاش وہ چاکِ دامن کی رفو گری پر آمادہ ہوجائے یعنی غلطی کی تلافی ہوجائے ۔ اس مصرعے کالب ولہجہ بتاتا ہے کہ بظاہردو ہم مرتبہ ایک دوسرے سے محوِ گفتگو ہیں ،لیکن ایک کے لہجے میں تیقن او راتھارٹی ہے جب کہ دوسرے کے لہجے میں منت سماجت اور رَد کیے جانے کا خوف اور ہمدردی ہے۔یہاں دامن کا چاک ہونا بہت اہم علامت ہے کیونکہ ہماری تمام کلاسیکی شاعری میں چاک دامانی عشق کااستعارہ ہے۔ بنیادی طور پر بندگی ہی مقام عشق ہے اور شانِ خداوندی مقام محبوبیت ہے ۔ اسی طرح ایک اور نظم میں اقبال نے ابلیس کو خواجۂ اہل فراق کہاہے ،جس سے پتا چلتا ہے کہ اقبال ابلیس کے کس قدر بلند مرتے کے قائل تھے کیونکہ وہ ہجر کو عشق کی سب سے اعلیٰ منزل سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ وصل آرزو کی موت اور ہجر میں طلب کی لذت ہے جو ہمہ وقت مصظرب اور متحرک رکھتی ہے :آہ اے جبریل! تُو واقف نہیں اسے راز سے کر گیا سرمست مجھ کو، ٹوٹ کر میرا سبواب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو جس کی نومیدی سے ہو سوزِ درون کائنات اس کے حق میں ’’تقنطو اچھا ہے یا لاتقنطو‘‘جبریل کے سوال کے جواب میں ابلیس کا ایک طویل مکالمہ ہے ۔ اس میں بھی دراصل اقبا ل نے اپنا نظریہ بیان کیاہے۔اس کے پہلے لفظ آہ میں افسوس اور ملال کا عنصر ہے کہ کاش تو واقف ہوتا کہ تیری ساری بزرگی ،عبادت ، رضامندی تیری ناواقفیت میں پوشدہ ہے ۔ یہاں اقبال نے لفظ واقف لکھ کر کمال کردیاہے کہ اس کے پس منظر میںپورا قصہ آدم ؑرکھ دیا ہے ۔ جہاں فرشتے خدا سے کہتے ہیں انسان تو دنیا میں خون خرابا کرے گا اور تیری عبادت ہم کرتے ہیںاوراس سے اعلیٰ ہیں، لیکن خداتعالی آدمؑ کو اسما ء سکھا کر برتر کرتے ہیں، یعنی ناواقف کو واقف کرتے ہیں ۔ یہ چھوٹا سا لفظ بڑی معنویت رکھتا ہے ۔یہاں جبریل اپنے بلند مقام اور خدا سے اپنے تقرب کے باوجود ، ابلیس سے جو واقف اسرار ہے ، کم ترمقام پر نظر آتاہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میرا سبواگرچہ ٹوٹ گیاہے لیکن ردعمل کے طورپر مجھے یہ رندی وسرمستی کی کیفیت دے گیاہے ۔ سبو کے ٹوٹنے کا نتیجہ تویہ ہونا چاہیے تھا کہ سرمستی ختم ہوجاتی لیکن یہ ایسا سبو ہے جو ٹوٹ کر بھی سر مست کر تاہے ۔ سبو کا ٹوٹنا اس کی غلطی کا استعارہ ہے ۔ سائنسی اصطلاح میںبات کریں تو ابلیس یہاںMutation کی بات کر رہا ہے، جس سے زندگی ارتقا کے مراحل طے کرتی ہے اور آگے بڑھتی ہے ۔ ابلیس کے سبو کا ٹوٹنا بھی ایک Mutational عمل ہے، جس کی وجہ سے کائنات نے نئی کروٹ لی اور نئے ڈھب سے آگے بڑھی ۔ اس لیے ابلیس جبریل کی ناواقفیت پر ملال کر تاہے اور کہتا ہے کہ میَںجس جہاں سے آشنا ہوا ہوں، تُو اس سے واقف نہیں ،ورنہ تو مجھے افلاک پر واپسی کی دعوت نہ دیتا کیونکہ تیری رضا خاموش ہے ، سوزو ساز سے خالی ہے ، بے ہنگامہ و بے رونق ہے ۔ اس جہاں میں اب میرا گذار نہیں ہوسکتا ، ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اقبال نے ایک اور کمال کیاہے کہ ’’ممکن نہیں‘‘ کی تکرار سے اسے حق الیقین کے مرتبے پرپہنچا دیا ہے ۔ یہ تکرار صرف تکرار نہیں بل کہ گہر ی مغویت کی حامل ہے ۔ ابلیس نافرمانی کی وجہ سے دنیامیں بھیجا گیا ، چنا نچہ و ہ رحمت ایزدی سے مایوس و ناامید ہوگیا لیکن اس کی وجہ سے ہی دنیا میں تلاش و جستجو کا سلسلہ جاری ہوا ،اس لیے وہ لا تقنطو کو اپنے لیے بہتر سمجھتا ہے : کھو دیے انکار سے تُو نے مقامات بلند چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو؟ابلیس کے مکالمے سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے مقام سے مطمئن ہے لیکن اس حصے میں جبریل کا سوال یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ ابلیس کے جواب سے مطمئین نہیں ۔ وہ اسے کہتا ہے کہ اے ابلیس تو خودہی راندہ ِ درگاہ نہیں ہوا بل کہ تُونے تمام فرشتوں کو اپنے عمل سے خداوند کریم کے سامنے شرمسار اورنگوں کردیا ہے ۔ جبریل کا انداز الزام عائد کرنے والا ہے ۔ اس شعر سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انکار سے پہلے ابلیس جس مقام و مرتبہ پر فائز تھا ، وہ جبریل کے لیے بھی مقام رشک ہے ۔ جبریل بھی اس مقام پر فائز نہیں ہوااور وہ مقام جبر یل کے لیے بھی مقام بلند ہے ۔ جبریل کی اس بات کے جواب میں ابلیس جو کچھ کہتاہے، اس سے پتاچلتا ہے کہ زندگی ، کائنات اور منشا ے خدا وندی تینوں کو ابلیس جبریل سے زیادہ بہتر جا نتا ہے ۔ا س شعر میں بھی اقبا ل کے ہاں ابلیس کا کردار بہت طاقتور نظر آتاہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اقبال سمجھتے ہیں کہ ابلیس کا کردار اس کارخانہ خداوندی کو چلانے کے لیے سب سے اہم ہے حتیٰ کہ نائب خدااور اشرف المخلوقات حضرت انسان کا ہر عمل ابلیس کا مرہون منت نظر آتاہے :ہے مری جرأت سے مشتِ خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تاروپو ابلیس کی آخری گفتگو پر مشتمل یہ مکالمہ مطلع سے شروع ہوتاہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ ہئیتی اعتبار سے یہ غز ل کے بجائے دو غزلہ ہے ۔ اقبال چاہتے تو غزل کی ہئیت برقرار بھی رکھ سکتے تھے، لیکن اس حصے کو مطلع سے آغاز کرکے انھوں نے اس مکالمے کی اہمیت اور مرکز یت قائم کی ہے ۔ گویا ہئیت نے اس کی معنویت میں اضافہ کیا ہے :دیکھتا ہے تُو فقط ساحل سے رزم خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، میَں کہ تُو؟اس بند کے دوسرے شعر میں ابلیس نے اپنا موازنہ جبر یل سے کیاہے ۔ یہاں بھی اقبال نے وہ استعاراتی زبان استعمال کی ہے جس کی وجہ سے اقبال کی شاعری اعلیٰ مقام پر فائز ہوجاتی ہے ۔انھوںنے اس نظم کو تخلیق کرتے وقت جو قصہ منتخب کیا ہے وہ ان کا اپنا تخلیق کردہ نہیں ہے بل کہ یہ ان تک مختلف مذاہب کے ذریعے اور خاص طورپر قرآن کے ذریعے سے پہنچا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اے جبریل تو ساحل پر کھڑے ہوکر طوفان خیروشر کو محض دور سے دیکھتا ہے ۔ تو طوفان خیر وشر نہ پیدا کرسکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے ۔ یہ میں ہی ہوں جو اس طوفان میںمردانہ وار کود پڑتاہوں ۔ اس طوفان کومیں نے ہی پیدا کیا ہے اور میں ہی اس کی سختیاں اور مصیبتیں برداشت کر رہا ہوں ۔ اس شعر میں بھی ابلیس کے لب ولہجہ میں بڑے فرشتے جبریل کے لیے حددرجہ حقارت پائی جاتی ہے ۔ یہاں بھی ابلیس کا کردار غالب نظر آتاہے : خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفان یم بہ یم، دریا بہ دریا، جوُ بہ حُویہاںابلیس نے دو پیغمبروں سے اپنا موازنہ کیاہے ۔ اقبال کے بیان سے صاف محسوس ہوتاہے کہ ابلیس کا کردار اُن دونوں سے بڑا ہے ۔ جب اقبال نے خضر ؑو الیاسؑ کے لیے بے دست وپا کا لفظ استعمال کیا ،تو اس کے سامنے پورا کائناتی منظر تھا۔ کائنات کوان دو شعروں میں اقبال نے ایسے دیکھا ہے جیسے اس کے ذرّے ذرّے میں طوفان خیروشر برپاہے ۔ جبریل اس طوفان میںپاؤں دھرنے کے قابل نہیں ۔ خضرؑ والیاسؑ اس طوفان میںکودے ضرور،لیکن تنکے کی طرح بہہ گئے اور ابلیس یہ طوفان پید ا کررہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کائنات کا کوئی گوشہ ایسانہیں، جو میرے طوفانوں سے بچا ہوا ہو۔ گویا ابلیس پوری دنیا پر اپنے چھا جانے کا ثبوت دیتا ہے : گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو اس شعر کا لب ولہجہ تباتا ہے کہ ابلیس جبر یل کو فہم سے عاری مخلوق سمجھتا ہے، جسے صرف اتنا ہی معلوم ہوتا ہے جتنا اُسے بتا یا جاتاہے ۔ ہ کہتا ہے کہ تمھیں میرے بارے میں کئی باتیں بتائی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ قصہ آدم میں رنگینی میرے ہی لہو سے پیدا کی گئی ہے ۔ گویا ابلیس یہ کہتاہے کہ میرالہو یعنی میرا انکار شامل نہ ہوتا تو قصہ آدم بے رنگ رہتا۔ اس میں حسن ، کشش اور گہرائی نہ ہوتی ، اس کے کوئی معنی نہ ہوتے ۔ اس شعرکی اس ترکیب کہ ’’گرکبھی خلوت میسر ہو ‘‘ کا ٹکڑا ظاہر کرتا ہے کہ ابلیس جبریل کو کس کم تر درجے پر فائز سمجھتا ہے کہ اُسے خدا سے خلوت میسر ہوتی ہی نہیں ، اگرچہ اُسے خدا کا مقرب سمجھا جاتاہے : میَں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تُو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو اس شعر میں بھی اقبال نے جبریل وابلیس کا موازنہ کیاہے ۔ یہاں جبریل ایک ٹیپ ریکارڈر نظرآتا ہے جس میں اللہ ہو، اللہ ہو، ریکارڈ کردیا گیا ہے اور وہ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیںکہنے کی طاقت صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس کے مقابل ابلیس وہ ہے ،جو خدا سے انکار بھی کرسکتا ہے اور حکم عدولی بھی ۔اس مقام بلند پر ابلیس کے علاوہ کوئی متمکن نہیں ۔ جب وہ کہتاہے کہ میَں دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہوں ،تواس اس سے اپنی عظمت کا اظہار مقصود ہے ۔ شعر کا لب ولہجہ طنزیہ ہے اور طنز کا ہدف جبریل ہے جسے اقبال نے عبادت ِمحض کا استعارہ بنایا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جہاں کانٹے کی طرح کھٹکنے کی بات ہے وہاں اقبال نے یزداں کا لفظ استعمال کیاہے ۔ یزداں ایرانی فکر میں خدا ئے خیر ہے ، گویا یہاں اقبال خدا وند کائنات کی با ت نہیں کررہے بل کہ خدائے خیر کی بات کر رہے ہیں ۔ اقبال نے جس جگہ ’’یزداں بہ کمند آور‘‘ لکھا ،وہاں بھی اُن کی یہی احتیاط پسند ی نظر آتی ہے ۔٭٭٭