علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

اسپیشل فیچر

تحریر : خواجہ محمد زَکریا


شاعر ِمشرق ومفکرِ پاکستان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ایک فکرانگیز تحریراقبال چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیااقبال کا انتقال ہوا ،تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیںاقبال نے تین زبانوں میں لکھا ہے۔ اُن کی نثر اُردو اور انگریزی میں ہے جب کہ شاعری، جو اُن کی جملہ صلاحیتوں میں سے اعلیٰ ترین صلاحیت ہے، اُردو اور فارسی میں ہے۔ میرے خیال میں فلسفہ اور علم الاقتصاد پر مستقل کتابیں تصنیف کرنے اور سیاسیات اور بعض دیگر علوم و فنون پر اظہار خیال کرنے کے باوجود اُن کا اصل میدان شاعری ہے۔ نثری کتابوں میں وہ جن حقائق کو دلائل و براہین سے کہتے ہیں، انھیں کو شاعری میں جب وجدانی اور تخیلی سطح پر پرزور اور پرُکشش اُسلوب میں پیش کرتے ہیں ،تو اُن کا اثر بہت بڑھ جاتا ہے جب کہ اُن کی نثری تصنیفات کا استدلال بعض جگہ اختلافی معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے نزدیک شاعر اقبال، فلسفی اقبال سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہے۔بہرحال اقبال کی نظم و نثر کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ملت ِاسلامیہ کے دین و دنیا کو سنوارنا اور پھر ملت ِ اسلامیہ کے توسط سے دنیا بھر کی اقوام و ملل کے افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانا۔ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو مغربی اقوام دنیا کے بیشتر ممالک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابض ہو چکی تھیں۔ افریقا اور ایشیا کے بہت بڑے حصے پر متصرف ہونے کی وجہ سے انگریزی زبان اور مغربی اُن کی تہذیب محکوموں کے لیے قابلِ تقلید بن چکی تھی۔ بقول اکبر الہ آبادی:اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کاطائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کایہ درست ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں احیائی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا، مگر اُن کے اثرات محدود تھے بل کہ اُن کی وجہ سے محکوم ملکوں کے تضادات اور بھی نمایاں ہو گئے تھے۔ مسلمان ممالک ایک ایک کر کے آزادی سے محروم ہو چکے تھے. ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات یا تو حکمرانوں کے مقلد بن چکے تھے یا پدرم سلطان بود کے خواب میں مست پڑے تھے. ان حالات میں قوم کے کسی بہی خواہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ارد گرد کے حالات سے آنکھیں بند کر لے اور قوم کو ماضی کے سپنوں میں پڑا رہنے دے۔ سرسید احمد خاں، حالی، شبلی، نذیر احمد، اکبر الہ آبادی اور دوسرے بہت سے ادبا اور شعرا اپنے اپنے انداز میں ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کر رہے تھے۔ علامہ اقبال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ وہ چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ اقبال کا انتقال ہوا تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔ بہت سے مسلمان ممالک رفتہ رفتہ آزاد ہونے لگے تھے۔ اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیں۔ ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آخر ملت اسلامیہ دنیا بھر میں بدستور غیر مؤثر کیوں ہے؟ اس سوال کے ایک یا ایک سے زیادہ جوابات تلاش کرنے چاہییں۔ ان پر عام بحث ہونی چاہیے اور پھر جس بات پر اجماع ِامت ہو اسے ملتِ اسلامیہ کا مشترکہ مقصد بنا کر بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی تمام تر کوششیں اسی ایک سمت میں مرکوز کر دینی چاہییں۔علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں ملت کے زوال کے اسباب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور زوال سے اُبھرنے کا ایک واضح طریق کار متعین کیا ہے۔ یہ طریق کار ہے فرد کی اصلاح سے ملت کی اصلاح کی طرف جانا،لیکن علامہ اقبال اس بات سے واقف تھے کہ عام افراد کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کیونکہ وہ زوال آمادہ معاشرے کے شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر کسی بددیانت معاشرے میں کوئی فرد دیانت دار بننے کی کوشش کرے تو وہ معاشرے کو بہت کم درست کر سکے گا، البتہ ہو سکتا ہے کہ اس کشمکش میں وہ خود ہی مٹ جائے۔ اس لیے اقبال کا نقطۂ نظر یہی رہا ہے کہ اصلاح اوپر سے نیچے آتی ہے، نیچے سے اوپر نہیں جاتی۔ نظریۂ خودی مردان ِکامل کو پیدا کرتا ہے اور مردانِ کامل دنیا کی اصلاح کرتے ہیں۔ علامہ اقبال مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں مردِ کامل سے اُن توقعات کا اظہار کرتے ہیں:اے سوارِ اشہب دوراں بیااے فروغِ دیدۂ امکاں بیاخیز و قانونِ اخوت ساز دہجامِ صہبائے محبت باز دہباز در عالم بیار ایّامِ صلحجنگجویاں را بدہ پیغامِ صلحریخت از جورِ خزاں برگِ شجرچوں بہاراں بر ریاضِ ما گذرنوعِ انساں مزرع و تو حاصلیکاروانِ زندگی را منزلیترجمہ:(اے زمانے کے گھوڑے کے سوار اور اے امکانات کی دنیا کو روشن کرنے والے، آ اور دنیا میں اخوت اور محبت کے جذبات پھر سے پیدا کر۔ دنیا میں صلح کا زمانہ واپس لا اور جنگجوؤں کو امن کا پیغام دے۔ دنیا کے باغ میں خزاں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، تو اس میں بہار بن کر آ۔ بنی نوعِ انسان کی فصل کا حاصل اور زندگی کے کارواں کی منزل تو ہی ہے۔)جب کسی قوم میں ایسے افراد پیدا ہو جاتے ہیں ،تو اس قوم کا کارواں منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ اسی کا نام رجائیت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ٹھیک ہو جائیں ،تو دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال ہر حال میں رجائیت کے پیغامبر ہیں۔ انھوں نے بار بار ملت کے مختلف افراد اور طبقات پر شدید تنقید کی ہے۔ خود انتقادی اور خود احتسابی کو لازمہ ترقی بتایا ہے اور یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ جب تک ہم اپنی خرابیوں کو تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا۔ اس وجہ سے اقبال کے ہاں ملت کے مختلف طبقات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی خرابیوں کو طشت ازبان کر کے انھیں اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ اقبال ملتِ اسلامیہ کے رہنماؤں سے ناامید تھے۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر در حقیقت رہنمائے ملت کی علامت ہے اور پوری نظم ملت اسلامیہ کے زوال کا ایک خوفناک مرقع ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملت نے باصلاحیت رہنما پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔ اس نظم کے علاوہ بھی یہ خیال کلام اقبال میں آخر تک موجود ہے:کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سےکہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دلنوازیفلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیںخبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہےنشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کوترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیےنظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میںوہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اُللّہٰیمیرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صفآہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدفمنزلِ راہرواں دور بھی دشوار بھی ہےکوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہےنہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کیکہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھیمصطفی کمال پاشا اور رضا شاہ پہلوی نے اپنی اپنی قوم کے لیے بہت کام کیا، لیکن ان کی سعی کے وہ نتائج نہ نکلے جس کے متمنی اقبال تھے۔ یہ حضرات اور ملت اسلامیہ پر مسلط ہونے والے دیگر شہنشاہ، رہنما اور علما ان صلاحیتوں سے عاری تھے جو کسی ملت کو دنیا کی منتخب قوموں میں بدل سکتی ہیں اس وجہ سے اقبال اُن کے گلہ گزار رہے۔ جن رہنماؤں سے اقبال نے توقعات وابستہ کیں انھیں ان کی قوم نے یا مغرب کی سازشوں نے کام کرنے کا موقع نہ دیا۔ نتیجہ یہ کہ ملت فیض حاصل کرنے سے محروم رہی اور حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کا آج بھی سب سے بڑا مسئلہ رہنماؤں کی کمی کا ہے۔ اس وقت تک کسی اسلامی ملک کا کوئی رہنما اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا حقیقی قائد تسلیم نہیں کرا سکا۔ وہ ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجائے اختلافات پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ملت کو مزید تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔رہنمایان ِملت میں علمائے دین اور سجادہ نشینان خانقاہ بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، جس طرح سیاسی رہنما انحطاط پذیر ہوئے اسی طرح صوفی و ملا بھی زوال کا شکار ہوئے۔ عالمِ اسلام میں مساجد اور خانقاہیں کثرت سے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں خانقاہی سلسلہ بے حد وسیع ہے۔ کروڑوں لوگ مسجدوں اور خانقاہوں میں جاتے ہیں اور علماء و صوفیاء سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کے ائمہ اور خانقاہوں کے صوفیاء الا ماشاء اللہ ملت کے عام افراد سے بہتر نہیں ۔ اُن میں وہ تمام خرابیاں راہ پا چکی ہیں، جو عام لوگوں میں موجود ہیں۔ اُن کے ظاہر و باطن میں واضح تضادات موجود ہیں۔ مذہب اور تصوف نے اُن کے دل و دماغ کو روشن نہیں کیا۔ وہ روایتی طور پر چند رسوم و عبادات انجام دیتے ہیں اور پھر اُن تمام برائیوں میں عملی طور پر ملوث ہو جاتے ہیں، جو مذہب و تصوف کی ضد ہیں۔ پیروں نے ’نذرانوں‘ سے اپنے محل تعمیر کر لیے ہیں اور علمائے دین نے فرقوں کے اختلافات کو ابھار ابھار کر اپنی حیثیتیں بنا لیں ہیں۔ اس لیے مسجد و خانقاہ مردہ ادارے بن کر رہ گئے ہیں ،جہاں سے کوئی مرد مومن نہیں اُٹھتا۔ مسجد و خانقاہ کے وارثوں سے اختلاف رائے کرنا اپنی تکفیر کرانے کے مترادف ہے۔ فروعی مسائل میں قوم کو الجھا کر اس کی صلاحیتیں ضائع کی جا رہی ہیں۔ مختلف مسالک کے افراد ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور جو طاقت اغیار کے خلاف استعمال ہونی چاہیے، وہ آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم ہو رہی ہے۔ اقبال اپنے دَور کے علمائے دین، مفتیان شرع اور صوفیا سے بہت بیزار تھا۔ شاید اس کے کلام میں سیاسی رہنماؤں سے بھی زیادہ تنقید کا نشانہ علماء و صوفیا کو بنایا گیا ہے:واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہیبرق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہیرہ گئی رسمِ ازاں، روحِ بلالی نہ رہیفلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہیمسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہےیعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہےمجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقیاس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانییہ پیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوریصلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوریعلما و صلحا کے بعد اقبال کی تنقید کا نشانہ اہل مدرسہ بنے ہیں، جن میں اساتذہ اور طلبہ دونوں شامل ہیں۔ اقبال کو اساتذہ سے یہ گلہ ہے کہ وہ طلبہ کو نصابات پڑھاتے رہتے ہیں ،مگر اُن کے اذہان کی تربیت نہیں کرتے۔ طلبہ نصابات میں الجھے رہتے ہیں۔ مشاہیر کے اقتباسات رٹ کر امتحانات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں، مگر ’صداقت‘ کی تلاش اُن کا مطمح نظر نہیں بنتی۔ چنانچہ اقبال کبھی تو ملا، صوفی، طالب علم اور استاد کو الگ الگ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی اُن کو یکجا کر کے اُن کی خرابیوں کو واضح کرتے ہیں:اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقیخونِ دل مرداں ہو جس فقر کی دستاویزکسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنےفقیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشیمیں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیاتمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوریاٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناکنہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہمکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟خراب کوشکِ سلطان و خانقاہِ فقیرفغاں کہ تخت و مصلٰی تمام زرّاقیباقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیریاے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیریمیں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گامسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیبملا کی نظر نورِ فراست سے ہے محرومبے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مئے ناباقبال چاہتے ہیں کہ کورانہ تقلید کی بجائے ملت کے افراد سچائی کی تلاش کے لیے تحقیق و تدقیق کے راستے پر چلیں۔ یہ بڑا کٹھن راستہ ہے، پرُخار اور طویل، مگر اس کو اختیار کیے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں، لیکن حالات یہ ہیں کہ صوفی، ملا اور اُستاد کسی کو آزادی اظہار دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کیفیت ہو تو تحقیق کیسے پنپ سکتی ہے۔ یہ بات بلاوجہ نہیں کہ اقبال کے ہاںتحقیق اور صداقت کی تلاش پر اتنا زور دیا گیا ہے:شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہیرہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقیفقیہہِ شہر کی تحقیر کیا مجال مریمگر یہ بات کہ میں ڈھونڈھتا ہوں دل کی کُشادکیے ہیں فاش رموزِ قلندری میں نےکہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزادحلقۂ شوق میں وہ جرأتِ رندانہ کہاںآہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیقہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےاور ایک دعائیہ نظم میں کہتے ہیں:بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہوسینوں میں اجالا کر دل صورتِ مینا دےاحساس عنایت کر آثارِ مصیبت کاامروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دےتحقیق کے ذریعے صداقت کی تلاش پر اقبال نے جب اتنا زور کلام صرف کیا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا اقبال کو خرد دشمن کہنا درست ہے یا محض غلط فہمی ہے؟ انھوں نے عشق کی توصیف میں بہت نغمے گائے ہیں اور قوت عمل کو اُبھارنے کے لیے عقل پر تنقید بھی کر دی ہے، مگر انھیں معروف معنوں میں عقل کا مخالف قرار دینا درست نہیں، جو شخص مردِ مومن کے بارے میں یہ لکھے وہ عقل کا مخالف نہیں ہو سکتا:عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہحلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہجب وہ ہمیں بار بار تدبر اور تحقیق اور تلاش صداقت پر اکساتے ہیں تو یہ باتیں عقل کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ اگر جہان تازہ کی افکار تازہ سے نمود ہوتی ہے، تو اقبال افکار تازہ کی دعوت دیتے ہوئے عقل کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے کہ افکار کا تعلق عقل سے ہے۔ اب اقبالیات کے ماہرین کو چاہیے کہ ہماری جذباتی قوم کو نعروں پر زندہ رکھنے کی بجائے اسے غور و فکر کی دعوت دیں۔ جب کوئی قوم غور و فکر کے بعد اپنا ہدف متعین کر لیتی ہے ،تو عشق کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ آپ نے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا ہے، اس وقت ان کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کا مرحلہ آتا ہے، اور اسی کا نام عشق ہے،مگر اس کے بغیر قوم میں جذباتیت پیدا کرنے کا مقصد محض اُن کو آپس میں لڑانا اور تقسیم کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان کے فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی، اقتصادی، سیاسی مسائل پر جس قدر از سر نو غور کرنے کی آج ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی،لیکن اقبالیات کے جلسوں میں محض چند جذباتی یا روایتی باتیں کہہ کر لوگ رخصت ہو جاتے ہیں اور کسی ایک فرد کے دل میں تحقیق و اکتشاف کی ایک لہر بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال ملت ِاسلامیہ کے ایک بہت بڑے مفکر ہیں ،مگر اُن کی سوچ کو چند فرسودہ باتوں تک محدود کر دینا نہ تو اقبال کے ساتھ انصاف ہے اور نہ ہی ملت ِاسلامیہ کی خدمت ہے۔اقبال ملت کے افراد کو ذاتی اغراض سے بلند ہو کر سب کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رہنماؤں اور مقتدر طبقات کی توجہ خود احتسابی اور خود انتقادی کی طرف دلاتے ہیں، جس کے بغیر اصلاح ممکن ہی نہیں۔ خوش فہمیوں میں مبتلا قومیں اپنی کمزوریوں کو دُور نہیں کر سکتیں۔ وہی قومیں عروج کی طرف سفر کرتی ہیں، جن کے افراد اس سلسلۂ روز و شب کے حالات و واقعات کو پرکھتے ہیں اور اس غور و فکر کے نتائج کو رُو بہ عمل لانے کے لیے اُن خصوصیات کو پیدا کرتے ہیں ،جن کی تلقین خضر راہ (بانگِ درا) کے مندرجہ ذیل بند میں کی گئی ہے:ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےزندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکارتا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیداکرےخاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتابتا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرےسوئے گردوں نالۂ شبگیر کا بھیجے سفیررات کے تاروں میں اپنا راز داں پیدا کرےیہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہےپیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

852ھ، خلیفہ عبدالرحمان دوئم کا دور تھا۔ جب خلیفہ عبدالرحمان نے اپنی سلطنت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے باصلاحیت اور ہنر مند افراد کو اپنی سلطنت میں بہترین جوہر دکھانے کی دعوت دی۔ ان گراں قدر افراد میں عباس ابن فرناس بھی شامل تھے۔ اسی مجمعے میں ایک شخص ارمن فرمن کا بڑا ذکر تھا جس نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ اس نے پرندوں کی مانند اڑنے کی صلاحیت حاصل کررکھی ہے۔ارمن نے اپنے دعوے کی تصدیق کیلئے ایک بھرے مجمعے کے سامنے اڑنے کا دعویٰ کیا اور یوں ایک دن کپڑے سے بنے چیل کے پروں سے مشابہ پروں کے ساتھ اس نے ایک بلند عمارت سے اڑنے کی کوشش کی۔ وہ بہت پراعتماد تھا لیکن پہلی ہی کوشش کے دوران وہ زمین پر آن گرا۔ابتدائی طور پر اسے زخم آئے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ کم از کم چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا۔ حاضرین محفل میں ایک شخص عباس ابن فرناس بھی تھے جو بڑے انہماک سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ان کے اندر پرندوں کی مانند اڑان بھرنے کی ایک نئی خواہش نے جنم لیا تو انہوں نے اٹھتے بیٹھتے پرندوں کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا۔کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا جب یہ پرندوں کی حرکات و سکنات پر نظریں جمائے نہ ہوتے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ عباس ابن فرناس کی یہ تحقیق 23 برس تک جاری رہی۔ اس دوران انہوں نے پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ''ایرو ڈائنا میکس‘‘ کا بغور مطالعہ کیا۔ عباس ابن فرناس کون تھے ؟عباس ابن فرناس، اندلس (مسلم سپین) کے شہر اذن رند اوندا میں 810 ء میں پیدا ہوئے۔ بنیادی طور یہ بربر نژاد تھے اور ان کا تعلق جنوبی سپین کے ضلع رونڈا سے تھاجبکہ بعدازاں یہ قرطبہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے عمر کا زیادہ حصہ بسر کیا۔ یوں تو ابن فرناس کی شناخت ایک موجد ، مہندس، طبیب، ماہر فلکیات، ماہر طبیعیات، کیمیا دان، ریاضی دان اور ایک شاعر کے طور پر ہوتی ہے لیکن یہ علم ریاضی ، طبیعیات ، پراسرار علوم اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان سے ایک واقعہ منقول ہے۔ ایک دفعہ ایک تاجر بلاد مشرق سے واپسی پر مشہور مسلمان عالم خلیل ابن احمد کی ایک کتاب ہمراہ لایا۔ یاد رہے کہ خلیل ابن احمد ، بغداد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ایک عالم ، شاعر اور ماہر لسانیات ہو گزرے ہیں جن کے کارہائے نمایاں میں عربی زبان کی پہلی لغت تیار کرنا بھی شامل تھا۔یہ کتاب سپین میں بالکل نئی تھی اور لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھی۔چنانچہ لوگوں نے اسے ابن فرناس کے سپرد کیا۔ ابن فرناس اسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئے اور چند ساعتوں میں اس کی ریاضیاتی ترکیب اور مطالب انتہائی مہارت سے حاضرین کو بیان کئے، جسے سن کر لوگ ان کی ذہانت اور قابلیت پر ششدر رہ گئے۔انہوں نے پانی کی گھڑی ایجاد کی ،کرسٹل بنانے کا فارمولا انہی کی ایجاد ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تجربہ گاہ میں شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنا ڈالا جس میں لوگ بیٹھ کر ستاروں اور بادلوں کی حرکات اوران کی گرج چمک کا مظاہرہ بھی دیکھ سکتے تھے۔علم ہئیت اور فلکیات کے حوالے سے اندلسی مسلمان سائنس دانوں میں علی بن خلاق اندلسی اور مظفر الدین طوسی کی خدمات لائق تحسین ہیں لیکن مورخین کے مطابق ان کامیابیوں میں عباس ابن فرناس کا حصہ کلیدی حیثیت یوں رکھتا ہے کہ فرناس نے اپنے گھر میں ایک کمرہ علم ہئیت اور فلکیات کی تجربہ گاہ کے طور پر وقف کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium ) کی بنیاد بنا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی سائنس کی ترویج اور ترقی کیلئے وقف کئے رکھی۔اسی لئے انہیں اپنے دور کا عظیم ترین عالم اور سائنسدان کہا جاتا تھا ۔ ا ن کی ایجادات اور اختراعات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ابن فرناس ایک ذہین اور ذرخیز ذہن کے مالک انجینئر تھے۔ اگرچہ قدیم یونانیوں اور مصریوں نے بھی بہت پہلے اڑنے والی مشین بنانے کی بارہا کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔اس لحاظ سے ابن فرناس دنیا کے وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اڑایا۔بعض ازاں البیرونی اور ازر قوئیل وغیرہ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابن فرناس کی اڑان بھرنے کی کوشش کن کن مراحل سے گزر کر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ابن فرناس نے اپنی ہر اڑان کے بعد کچھ نیا سیکھا اور ہر بار وہ اس میں تبدیلیاں کر کے اپنی غلطیاں دور کرتے رہے۔ تاریخی کتابوں میں پندھرویں صدی کے ، لیو نارڈو ڈاونچی کے طیارے کو عام طور پر دنیا کا پہلا طیارہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ابن فرناس نویں صدی عیسوی میں اپنے طیاروں کے ساتھ کامیاب پرواز کر چکے تھے۔ البتہ لیو نارڈو دا ونچی کے طیاروں کو دور جدید کے طیاروں کی ابتدائی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ہوا بازی کی شروعات عباس ابن فرناس نے اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ اڑان کا آغاز 852 عیسوی میں ایک بھرے مجمعے کے سامنے کیا تھا۔اپنی پہلی پرواز میں انہوں نے خود کو ایک لمبے کوٹ میں لپیٹ کر لکڑی سے بنائے گئے ایک تابوت نما ڈھانچے میں بند کر لیا۔ باہر کی جانب دونوں بازوں کو پھیلا کر اس نے ان سے پروں کا کام لیا کیونکہ اس کے مشاہدے کے مطابق پرندے بھی ایسے ہی اڑان بھرا کرتے ہیں۔یہ بہت پر اعتماد اور پر امید تھے۔ انہوں نے قرطبہ کی سب سے بڑی مسجد کے مینار پر چڑھ کر ہوا میں اڑنے کیلئے چھلانگ لگائی۔ اپنے پہلے تجربے میں وہ ناکام رہے لیکن خوش قسمتی سے چونکہ وہ نچلی سطح پر پرواز کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں معمولی چوٹیں آئیں ۔کچھ عرصہ بعد اپنے پہلے تجربے کی روشنی میں انہوں نے ایک نئے طیارے کی تیاری شروع کر دی۔ اس بار انہوں نے ریشم اور عقاب کے پروں کو استعمال کیا۔پرواز کیلئے اس مرتبہ ان کا انتخاب جبل العروس پہاڑ تھا جہاں ایک جم غفیر ان کی اڑان کا منظر دیکھنے کا منتظر تھا۔اس مرتبہ ابن فرناس نے اڑان بھرنے سے پہلے پروں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ نیچے کی جانب کودگئے۔ انہوں نے دس منٹ تک فضا میں رہ کر اڑنے کا مظاہرہ کیا اور باآسانی ایک کھلے میدان میں اپنے طیارے کو اتار لیا۔ لیکن اس مرتبہ نیچے اترنے کی کوشش میں وہ کمر کے بل نیچے گر گئے ، جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ کچھ عرصہ تک صاحب فراش رہے۔ اس وقت ان کی عمر ایک اندازے کے مطابق68 سال تھی اور یوں ابن فرناس اس تجربے کے بعد باقاعدہ طور پر دنیا کے پہلے ہوا باز بن گئے۔ اس مرتبہ غور و خوض کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ پرندے نیچے اترتے وقت اپنی دم کی جڑ کا سہارا لے کر اترتے ہیں اس لئے انہیں اپنے طیارے میں دم کا اضافہ کرکے اسے محفوظ بنانا ہو گا۔ ن کی اگلی کاوش اپنے گھر تیار کردہ طیارے میں دم کا اضافہ تھا جسے سالوں بعد داونچی نے من وعن نقل کر کے طیاروں میں باقاعدہ دم کو شامل کرکے مستقبل کی لینڈ نگ کو محفوظ کر لیا۔

کیلے کے حیرت انگیز فوائد

کیلے کے حیرت انگیز فوائد

صحت کیلئے کیلے کے فوائد میں موٹاپے میں کمی، پیٹ کے خلل میں بہتری اور قبض سے آرام شامل ہیں۔ کیلے کے استعمال سے خون کی کمی، ٹی بی، ارتھرائٹس، گردے اور پیشاب کے مسائل میں فائدہ ہوتا ہے۔ حیض کے مسائل میں بھی یہ مفید ہے۔ اس سے فشار خون کم ہوتا ہے اور دل صحتمند رہتا ہے۔ یہ نظام انہضام اور السر کیلئے مفید ہے۔ اس سے آنکھوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ جسم میں فاسد مادوں کو کم کرتا ہے۔کیلے کے 126گرام میں 110 حرارے اور 30 گرام کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں۔ اس میں پروٹین، پوٹاشیم اور غذائی ریشے (فائبر) کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس میں چکنائی اور کولیسٹرل نہیں ہوتا، نیز سوڈیم کی مقدار معمولی ہوتی ہے۔ اس لیے پھلوں میں یہ ایک شاندار انتخاب ہے۔ کیلے میں موجود وٹامنز میں وٹامن سی، بی 6، ریبوفلاون، فولیٹ، پینٹوتھینک ایسڈ اور نیاسین و دیگر شامل ہیں۔ کیلے میں فاسفورس، کیلشیم، میگنیز، میگنیشیم اور تانبا ہوتا ہے۔ اس کے فوائد کی تفصیل درج ذیل ہے۔فشارِ خون میں کمی:پوٹاشیم کی اچھی خاصی مقدار ہونے کے باعث اس کے استعمال سے فشار خون (بلڈپریشر) کم ہوتا ہے۔ اس سے شریانوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور پورے جسم میں خون کا بہاؤ ہموار رہتا ہے جس سے جسم کے اعضا کو آکسیجن پوری طرح میسر آتی ہے اور ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ یوں دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ کیلے میں موجود غذائی ریشہ کولیسٹرل کی مقدار کو کم کرتا ہے جس سے شریانوں اور دل کی صحت اچھی رہتی ہے۔دمہ:کیلے کے استعمال سے دمہ دور رہتا ہے۔ جو بچے روزانہ ایک کیلا کھاتے ہیں ان میں دمے کا خطرہ 34 فیصد کم ہو جاتا ہے۔قبض:غذائی ریشے کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے کھانے سے قبض نہیں ہوتی اور آنتوں کے مسائل بھی کم ہوتے ہیں۔ اس سے کولوریکٹر کینسر کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ذیابیطس: ایک کیلے میں تقریباً تین گرام غذائی ریشہ ہوتا ہے اس لیے ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو دونوں قسم کی ذیابیطس کیلئے یہ مفید ہے۔حافظے اور موڈ میں بہتری: کیلے میں پایا جانے والا امینو ایسڈ ٹرائی ٹوفان موڈ کو بہتر کرنے اور حافظہ تیز کرنے میں بہت مفید ہے۔ نیز میگنیشیم سے پٹھے کا کھچاؤ کم ہوتا ہے اور وٹامن بی 6 اچھی نیند کیلئے مفید ہے۔انیمیا: کیلے میں فولاد کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ انیمیا یا خون کی کمی میں بہت مفید ہے۔ فولاد خون کے سرخ خلیوں کا اہم حصہ ہے۔ اس میں موجود تانبا بھی سرخ خلیوں کے لیے مفید ہے۔ سرخ خلیوں میں اضافے سے جسم کے حصوں کو آکسیجن ملنے کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے جسمانی اعضا کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔وزن میں کمی: وزن کم کرنے کیلئے کیلا مفید ہے کیونکہ ایک کیلے میں صرف 90 کے قریب حرارے ہوتے ہیں۔ غذائی ریشے کی زیادتی اور چکنائی نہ ہونے کی وجہ سے موٹاپے کے شکار افراد کیلئے یہ مفید ہے۔وزن میں اضافہ:اگر کیلے کو دودھ کے ساتھ کھایا جائے تو اس سے وزن بڑھتا ہے۔ دودھ کی پروٹین اور کیلاکی شکر مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ چونکہ کیلے آسانی سے ہضم ہو جاتے ہیں اس لیے روزمرہ کے کھانے کے ساتھ پانچ چھ کیلے بآسانی کھائے جا سکتے ہیں اور یوں پانچ سے چھ سو حراروں کا اضافہ وزن بڑھا دیتا ہے۔ہڈیوں کی مضبوطی: کیلے کے استعمال سے جسم میں کیلشیم جذب کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کیلئے انتہائی اہم عنصر ہے۔نظر کی بہتری :کیلے میں اینٹی آکسیڈنٹ اور کیروٹینائیڈ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی معدنیات ہوتی ہیں جو آنکھوں کی صحت کیلئے مفید ہیں۔ یہ آنکھوں کے پٹھوں کی کمزوری، رات کا اندھا پن اور موتیا سے بچاؤ میں مدد گار ہے۔بواسیر :کیلے بواسیر کا فطری علاج سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے رفع حاجت کی تکلیف میں کمی آتی ہے۔السر : معدے کو راحت پہنچانے اور تیزابیت کم کرنے کیلئے کیلے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیلوں میں ایک ایسا عنصر پایا جاتا ہے جس سے وہ نقصان دہ بیکٹیریا جو السر کا سبب بنتے ہیں، کا خاتمہ ہوتا ہے۔گردے :کیلے میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹ اور پوٹاشیم گردوں پر دباؤ کم کرتے ہیں اور پیشاب آور ہیں۔ذیلی اثرات:کیلے کے کچھ ذیلی اثرات یا سائیڈ افیکٹ بھی ہیں۔ دل کے امراض اور بلند فشار خون کی کچھ ادویات ایسی ہیں جن سے جسم میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ایسی ادویات استعمال کرنے والوں کو کیلے خوراک کا حصہ بنانے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کر لینا چاہیے۔ جس افراد کو دردشقیقہ کی زیادہ شکایت رہتی ہے، انہیں زیادہ سے زیادہ روزانہ آدھا کیلا کھانا چاہیے۔کچھ لوگوں کو کیلوں سے الرجی بھی ہوتی ہے جس سے انہیں چبھن اور سوجن جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ غذائی ریشے کی زیادہ مقدار کے سبب یہ پیٹ کے لیے مفید ہے لیکن بہت زیادہ کھانے سے معدے میں درد اور پیٹ میں گیس وغیرہ کی شکایت ہو سکتی ہے ۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

''لڈ لو‘‘ قتل عاملڈلو قتل عام کولوراڈو کول فیلڈ جنگ کے دوران اینٹی اسٹرائیکر ملیشیا کے ذریعہ کیا گیا۔ یہ اجتماعی قتل عام تھا۔ کولوراڈو نیشنل گارڈ کے سپاہیوں اور کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے گارڈز نے 20 اپریل 1914ء کو کولوراڈو میں تقریباً 1200 سے زائد ہڑتال پر بیٹھے کوئلے کی کان میںکام کرنے والے مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی ایک خیمہ کالونی پر حملہ کر دیا۔ تقریباً 21 افراد، بشمول کان کن، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے ایک حصہ کے مالک جان ڈی راکفیلر جونیئر جو کہ حملوں کے متعلق ریاستہائے متحدہ کی کانگریس کی سماعت میں بھی پیش ہوئے تھے،ان پر بڑے پیمانے پر اس قتل عام کو منظم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔''ائیر فرانس‘‘ کوحادثہ1998ء میں آج کے دن ''ایئر فرانس‘‘ کی ''فلائٹ 422‘‘ حادثہ کا شکار ہوئی۔ یہ فلائٹ بوگوٹا، کولمبیا سے کوئٹو، ایکواڈور جانے کے لئے شیڈول پرواز تھی۔یہ جہاز ایک نجی کمپنی کے زیر انتظام چلایا جا رہا تھا۔جہاز نے بوگوٹا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے ایل ڈور اڈو سے پرواز بھری موسم خراب تھا او ر دھند کی وجہ سے حد نگاہ بھی بہت محدود تھی ۔ موسم کی وجہ سے ہوائی جہاز بوگوٹا کی مشرقی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں جہاز میں موجود53افراد ہلاک ہوئے۔اس سانحہ کو فرانس کے بدترین ہوائی حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔سیپٹنسولر جمہوریہ1800ء میں آج کے دن سیپٹنسولر جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اس وقت ہوا جب روس اور عثمانی سلطنت کے بحری بیڑے نے ان جزائر پر قبضہ کر لیا اور فرانسیسی جمہوریہ کی دو سالہ حکمرانی ختم کر دی گئی۔ اگرچہ جزیرے کے باشندوں نے امید کی تھی کہ انہیں مکمل آزادی حاصل ہو جائے گی لیکن نئی ریاست کو صرف خود مختاری دی گئی اور ساتھ ہی اسے عثمانی سر پرستی میں بھی دے دیا گیا۔ 15ویں صدی کے وسط میں عثمانیوں کی جانب سے بازنطینی سلطنت کی آخری باقیات کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب یونانیوں کو خود مختار حکومت دی گئی تھی۔ 1807 میں، اسے فرانسیسی سلطنت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جانسن اسپیس سینٹر ر فائرنگجانسن اسپیس سینٹر میں فائرنگ کا واقعہ20 اپریل 2007ء میں پیش آیا۔ یہ واقعہ ہوسٹن ٹیکساس میں موجود امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے کے جانسن اسپیس سینٹر کی کمیونیکیشن اینڈ ٹریکنگ ڈویلپمنٹ لیبارٹری کی عمارت 44 میں پیش آیا۔انجینئرنگ کا ملازم ولیم فلپس بلڈنگ نمبر44میں کام کرتا تھا۔اس نے اپنے ایک ساتھی کو گولی مار کردوسرے کو تیں گھنٹے سے زائد یرغمال بنائے رکھا۔اس کے بعدولیم نے خودکشی کر لی۔ پولیس کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں سامنے آیا کہ ولیم کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ادارہ اس سے خوش نہیں تھا اور اسے نوکری سے نکالے جانے کا ڈر تھا۔  

گیدڑ سنگھی

گیدڑ سنگھی

آخر وہ کون سی 'گیدڑ سنگھی‘ تھی جس کی بدولت کوئٹہ جیت گیا؟یہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کی سرخی ہے جومارچ 2021ء کے پاکستان سپر لیگ کے ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے اپنا پہلا میچ جیت لیا، اور وہ بھی ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے۔ اس واقعے کی حیرت کو دو آتشہ کرنے کے لیے ویب سائٹ نے ''گیدڑ سنگھی‘‘ کی اصطلاح کا تڑکا لگایا۔مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ یہ گیدڑ سنگھی کس بلا کا نام ہے اور اس کی طلسماتی خوبیوں کا کیا راز ہے؟ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ لوک داستانوں کے مطابق گیدڑ سنگھی یا ''جیکال ہارن‘‘ ایک پراسرار شے ہے اور جنوبی ایشیا میں لوگ اس کے بارے بہت سے ا نوکھے تصورات رکھتے ہیںمثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال جو سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے، یہ ہے کہ گیدڑ جب سو سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے سر پر سامنے کی طرف بالوں میں ایک دائرہ سا نمودار ہو جاتا ہے جسے گیدڑ سنگھی کا نام دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد سندور میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مگرگیدڑ کی سو سالہ زندگی کے اس تصور ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گیدڑ سنگھی کی حقیقت کیا ہو گی، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ہمارے جیسے معاشروں میں اس قسم کے تصورات موجود رہتے ہیں اور لوگوں کے ذہن سے ان کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچنا چاہیے کہ گیدڑ سنگھی میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ یہ ہمارے ہاں کا عام محاورہ بن چکا ہے جو طلسماتی اور کرشماتی قوت کے ہم معنی ہے؟آپ جب کسی کی خلاف توقع کامیابی کو دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ''اس کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟‘‘ہمارا ماننا ہے کہ حقیقت میں گیدڑ سنگھی کی ایسی طلسمی صلاحیت کا کوئی وجود نہیں ، مگر سماجی تصور اور محاورے نے اسے باقی رکھا ہے اور لوگ واقعی گیدڑ سنگھی کو کوئی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی کسی شے کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو پھر اس کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے ، یہیں سے شعبدے بازوں کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔چونکہ گیدڑ سنگھی کے ساتھ ایسا طلسماتی تصور باندھ دیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ یہ آ جائے اسے پھر کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں،جو چاہے گا بیٹھے بٹھائے حاصل کر لے گا؛چنانچہ کام چوراور راتوں رات چھپڑ پھاڑ دولت کے خواہاں گیدڑ سنگھی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اس لالچ میں اکثر لوگ ایسے شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انہیں بھاری قیمت پر ''گیدڑ سنگھی ‘‘فروخت کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان شاطروں نے گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی میں نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے اور لالچی نظروں کو گیڈر سنگھی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے۔اگر کسی نے اصلی گیدڑ سنگھی دیکھی ہو تو چلو اس سے مقابلہ کر کے اصل نقل کی پہچان کر لے، جب ایک تصور ہے ہی بے بنیاد اور کوئی اس کے اصل سے واقف نہیں تو پہچان کیسے ہو؟ اس لئے لالچی لوگ با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جوگی اور سپیروں نے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس'' گیدڑ سنگھی‘‘ ہوتی تو وہ خود ہی خوشحال نہ ہوجاتے؟اس طرح عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اسے سرکے بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں، کچھ جوگی اس کو گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے گھنے بال اُگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں یہ جعل سازی ہے۔مگرگیدڑ سنگھی اور اس جیسی دیگر طلسمی چیزوں کو عقلِ سلیم نہیں مانتی اور اسلام میں بھی ایسی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذاعلما ء کرام کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اختراعی عقائد رکھنا یعنی رزق میں برکت اور اپنی خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف العقیدہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ 

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئر مین اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ان کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ بل گیٹس 1955ء میں واشنگٹن،امریکہ کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس دور میں آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا۔ محض 13برس کی عمر میں وہ پروگرامنگ کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ آج بل گیٹس کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں سننا لوگ پسند کرتے ہیں اور جن کی کہی باتیں دنیا پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین انسان ہونے کا اعزاز مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے پاس ہے۔ عام طور پر انہیں بہت ذہین، زیرک اور دانشمند سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اربوں ڈالرز بھی آپ کی بات کو غلط ثابت کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آپ نے گیٹس کے اقوال زریں تو بہت پڑھے ہوں گے، آئیے آپ کو ان کی وہ باتیں بھی بتاتے ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں اور ظاہر کیا کہ دنیا کا امیر ترین شخص بھی غلط بات کر سکتا ہے۔بل گیٹس نے 1994ء میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر ایک بات کہی تھی کہ ''مجھے اگلے 10 سالوں تک انٹرنیٹ میں کوئی کمرشل صلاحیت نظر نہیں آتی‘‘۔ اس کا ذکر 2005ء کی ایک کتاب میں کیا گیا ہے۔آج دیکھ لیں انٹرنیٹ کیا اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کمرشل کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔''جدید سافٹ ویئر میکنٹوش پر آئیں گے، آئی بی ایم پی سی پر نہیں‘‘ بل گیٹس نے یہ بات 1984ء میں بزنس ویک کیلئے ایک مضمون میں لکھی تھی۔اس وقت بل گیٹس اور ایپل کے اسٹیو جابز کے درمیان بڑی یاری تھی، لیکن جیسے ہی مائیکروسافٹ نے آئی بی ایم پی سی کیلئے ونڈوز جاری کی، اس تعلق کا خاتمہ ہو گیا۔ونڈوز کے مشہور ہونے سے پہلے مائیکرو سافٹ نے آئی بی ایم کے ساتھ مل کر ایک آپریٹنگ سسٹم او ایس2 تخلیق کیا تھا۔ اس وقت، یعنی 1987ء میں، گیٹس نے کہا تھا کہ ‘‘میرے خیال میں او ایس2 سب سے اہم آپریٹنگ سسٹم ہوگا اور تاریخ کا سب سے شاندار پروگرام بھی‘‘۔لیکن یہ آپریٹنگ سسٹم نہ چلا۔ جب 1990ء میں ونڈوز 3.0 نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تو مائیکروسافٹ کو آئی بی ایم کی ضرورت بھی نہیں رہی اور وہ او ایس2 کو یتیم چھوڑ گیا۔ آئی بی ایم اس آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ 2006ء میں اس کی باضابطہ ''موت‘‘ کا اعلان کردیا گیا۔''ہمارے جاری کردہ سافٹ ویئر میں کوئی بگز نہیں، کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد کو انہیں فکس کرنے کی ضرورت پڑے‘‘۔ گیٹس نے یہ بات 1995ء میں فوکس میگزین میں کہی تھی۔اپنی 1995ء کی کتاب ''دی روڈ اہیڈ‘‘ میں بل گیٹس نے اپنی سب سے مشہور غلطیاں کیں: انہوں نے لکھا انٹرنیٹ ایک انوکھی چیز تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ بہتر سے بہترین کی جانب ہماری رہنمائی کرے گا ''آج کا انٹرنیٹ میرے تصور والی انفارمیشن ہائی وے نہیں ہے، البتہ آپ اسے کسی ہائی وے کا آغاز سمجھتے رہیں‘‘۔ کچھ ہی عرصے میں گیٹس کواندازہ ہوگیا کہ یہ بات غلط ثابت ہو رہی ہے، اس لیے انہوں نے مائیکرو سافٹ کی مشہور ''دی انٹرنیٹ ٹائیڈل ویو‘‘ یادداشت جاری کیے اور ادارے کو اس سمت میں چلایا۔ 1996ء میں انہوں نے اپنی کتاب کا نظرثانی شدہ ایڈیشن جاری کیا جس میں انٹرنیٹ کے بارے میں کافی باتیں شامل کی گئیں۔2004ء میں گیٹس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ای میل سپیم دو سالوں میں ماضی کی چیز بن جائے گی‘‘۔آج 20 سال بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ سکیورٹی کمپنی سیمنٹیک کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بھیجی گئی تمام ای میلز کی نصف سپیم پر مشتمل تھی۔گیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1981ء میں کہا تھاکہ ''640 کے کمپیوٹر میموری کسی بھی شخص کیلئے کافی ہوگی‘‘۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر یہ بات واقعی وہ چھپانا چاہتے ہوں گے کیونکہ اب عام صارف سینکڑوں گیگابائٹس تک پہنچ گیا ہے۔ 1996ء میں ایک انٹرویو میں گیٹس نے کہا تھا کہ میں نے بہت ساری بے وقوفانہ اور غلط باتیں کی ہوں گی لیکن یہ بات مکمل طور پر غلط منسوب کی گئی ہے، کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ کبھی کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا کہ ایک مخصوص میموری مقدار ہمیشہ کیلئے کافی ہوگی‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

فرٹیلائزر کمپنی میں دھماکہ17 اپریل، 2013 کو امریکہ کی ریاست ویسٹ، ٹیکساس میں ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کے اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن کی سہولت میں ایک امونیم نائٹریٹ دھماکہ ہوا ۔دھماکے کے فوراً بعدریسکیو کیلئے اقدامات شروع کر دئیے گے لیکن اسی دوران پندرہ افراد ہلاک، 160 سے زائد زخمی اور 150 سے زائد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔حادثے کے بعد تحقیقاتی ٹیموں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکہ اسٹوریج میں موجود امونیم نائٹریٹ کہ وجہ سے ہی ہوا۔ اس کے بعد 11 مئی 2016 کو، بیورو آف الکحل، ٹوبیکو، آتشیں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد نے کہا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔کمبوڈیا میں خانہ جنگیکمبوڈیا کی خانہ جنگی کمیونسٹ اور حمیر روج کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔اس جنگ کو محققین نے کمبوڈین قتل عام بھی کہا ہے،اکثر مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہٹلر کے کئے گئے قتل عام سے زیادہ بھیانک اور خطرناک تھا۔ خمیر روج کو شمالی ویتنام اور ویت کانگ کی بھی حمایت حاصل تھی۔یہ جنگ دونوں گروہوں کے درمیان لڑی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ اکتوبر 1970ء کے بعد اس میں شدت آتی گئی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد آخر کا ر آ ج کے دن 1975ء میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔لینا قتل عاملینا قتل عام یا لینا پھانسی سے مراد 17 اپریل 1912ء میں شمالی سائبیریا میں دریائے لینا کے قریب ہڑتال پر بیٹھے گولڈ فیلڈ کے کارکنوں پر فائرنگ ہے۔گولڈ فیلڈ کے کارکنان اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج تھے جب حکومتی حکام کی جانب سے ان پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔اس کے قبل ہڑتالی کارکنان کو کہا گیا کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں لیکن ہڑتالی کمیٹی نے حکام کی بات ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ہڑتالی کمیٹی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی وجہ سے بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا،حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر امپیریل روسی فوج کے سپاہیوں نے ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیکٹروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقع نے روس میں انقلابی آگ کو بہت ہوا دی۔فرانسیسی افواج کاشام سے انخلاء17اپریل کو شام میں بطور قومی دن منایا جاتا ہے۔اسے انخلا کا دن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 1941ء میں شام کی مکمل آزادی کے بعد17اپریل1946ء کو شام سے آخری فرانسیسی فوجی کے انخلاء اور فرانسیسی مینڈیت کے خاتمے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ کو کئی نئی قوموں میں تقسیم کیا گیا، جس سے جدید عرب دنیا اور جمہوریہ ترکی وجود میں آئے۔ 1916 میں فرانس، برطانیہ اور روس کے درمیان سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد، لیگ آف نیشنز نے 1923 میں فرانس کو موجودہ شام اور لبنان پر مینڈیٹ دیا۔