علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

اسپیشل فیچر

تحریر : خواجہ محمد زَکریا


شاعر ِمشرق ومفکرِ پاکستان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ایک فکرانگیز تحریراقبال چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیااقبال کا انتقال ہوا ،تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیںاقبال نے تین زبانوں میں لکھا ہے۔ اُن کی نثر اُردو اور انگریزی میں ہے جب کہ شاعری، جو اُن کی جملہ صلاحیتوں میں سے اعلیٰ ترین صلاحیت ہے، اُردو اور فارسی میں ہے۔ میرے خیال میں فلسفہ اور علم الاقتصاد پر مستقل کتابیں تصنیف کرنے اور سیاسیات اور بعض دیگر علوم و فنون پر اظہار خیال کرنے کے باوجود اُن کا اصل میدان شاعری ہے۔ نثری کتابوں میں وہ جن حقائق کو دلائل و براہین سے کہتے ہیں، انھیں کو شاعری میں جب وجدانی اور تخیلی سطح پر پرزور اور پرُکشش اُسلوب میں پیش کرتے ہیں ،تو اُن کا اثر بہت بڑھ جاتا ہے جب کہ اُن کی نثری تصنیفات کا استدلال بعض جگہ اختلافی معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے نزدیک شاعر اقبال، فلسفی اقبال سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہے۔بہرحال اقبال کی نظم و نثر کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ملت ِاسلامیہ کے دین و دنیا کو سنوارنا اور پھر ملت ِ اسلامیہ کے توسط سے دنیا بھر کی اقوام و ملل کے افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانا۔ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو مغربی اقوام دنیا کے بیشتر ممالک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابض ہو چکی تھیں۔ افریقا اور ایشیا کے بہت بڑے حصے پر متصرف ہونے کی وجہ سے انگریزی زبان اور مغربی اُن کی تہذیب محکوموں کے لیے قابلِ تقلید بن چکی تھی۔ بقول اکبر الہ آبادی:اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کاطائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کایہ درست ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں احیائی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا، مگر اُن کے اثرات محدود تھے بل کہ اُن کی وجہ سے محکوم ملکوں کے تضادات اور بھی نمایاں ہو گئے تھے۔ مسلمان ممالک ایک ایک کر کے آزادی سے محروم ہو چکے تھے. ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات یا تو حکمرانوں کے مقلد بن چکے تھے یا پدرم سلطان بود کے خواب میں مست پڑے تھے. ان حالات میں قوم کے کسی بہی خواہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ارد گرد کے حالات سے آنکھیں بند کر لے اور قوم کو ماضی کے سپنوں میں پڑا رہنے دے۔ سرسید احمد خاں، حالی، شبلی، نذیر احمد، اکبر الہ آبادی اور دوسرے بہت سے ادبا اور شعرا اپنے اپنے انداز میں ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کر رہے تھے۔ علامہ اقبال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ وہ چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ اقبال کا انتقال ہوا تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔ بہت سے مسلمان ممالک رفتہ رفتہ آزاد ہونے لگے تھے۔ اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیں۔ ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آخر ملت اسلامیہ دنیا بھر میں بدستور غیر مؤثر کیوں ہے؟ اس سوال کے ایک یا ایک سے زیادہ جوابات تلاش کرنے چاہییں۔ ان پر عام بحث ہونی چاہیے اور پھر جس بات پر اجماع ِامت ہو اسے ملتِ اسلامیہ کا مشترکہ مقصد بنا کر بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی تمام تر کوششیں اسی ایک سمت میں مرکوز کر دینی چاہییں۔علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں ملت کے زوال کے اسباب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور زوال سے اُبھرنے کا ایک واضح طریق کار متعین کیا ہے۔ یہ طریق کار ہے فرد کی اصلاح سے ملت کی اصلاح کی طرف جانا،لیکن علامہ اقبال اس بات سے واقف تھے کہ عام افراد کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کیونکہ وہ زوال آمادہ معاشرے کے شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر کسی بددیانت معاشرے میں کوئی فرد دیانت دار بننے کی کوشش کرے تو وہ معاشرے کو بہت کم درست کر سکے گا، البتہ ہو سکتا ہے کہ اس کشمکش میں وہ خود ہی مٹ جائے۔ اس لیے اقبال کا نقطۂ نظر یہی رہا ہے کہ اصلاح اوپر سے نیچے آتی ہے، نیچے سے اوپر نہیں جاتی۔ نظریۂ خودی مردان ِکامل کو پیدا کرتا ہے اور مردانِ کامل دنیا کی اصلاح کرتے ہیں۔ علامہ اقبال مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں مردِ کامل سے اُن توقعات کا اظہار کرتے ہیں:اے سوارِ اشہب دوراں بیااے فروغِ دیدۂ امکاں بیاخیز و قانونِ اخوت ساز دہجامِ صہبائے محبت باز دہباز در عالم بیار ایّامِ صلحجنگجویاں را بدہ پیغامِ صلحریخت از جورِ خزاں برگِ شجرچوں بہاراں بر ریاضِ ما گذرنوعِ انساں مزرع و تو حاصلیکاروانِ زندگی را منزلیترجمہ:(اے زمانے کے گھوڑے کے سوار اور اے امکانات کی دنیا کو روشن کرنے والے، آ اور دنیا میں اخوت اور محبت کے جذبات پھر سے پیدا کر۔ دنیا میں صلح کا زمانہ واپس لا اور جنگجوؤں کو امن کا پیغام دے۔ دنیا کے باغ میں خزاں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، تو اس میں بہار بن کر آ۔ بنی نوعِ انسان کی فصل کا حاصل اور زندگی کے کارواں کی منزل تو ہی ہے۔)جب کسی قوم میں ایسے افراد پیدا ہو جاتے ہیں ،تو اس قوم کا کارواں منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ اسی کا نام رجائیت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ٹھیک ہو جائیں ،تو دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال ہر حال میں رجائیت کے پیغامبر ہیں۔ انھوں نے بار بار ملت کے مختلف افراد اور طبقات پر شدید تنقید کی ہے۔ خود انتقادی اور خود احتسابی کو لازمہ ترقی بتایا ہے اور یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ جب تک ہم اپنی خرابیوں کو تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا۔ اس وجہ سے اقبال کے ہاں ملت کے مختلف طبقات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی خرابیوں کو طشت ازبان کر کے انھیں اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ اقبال ملتِ اسلامیہ کے رہنماؤں سے ناامید تھے۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر در حقیقت رہنمائے ملت کی علامت ہے اور پوری نظم ملت اسلامیہ کے زوال کا ایک خوفناک مرقع ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملت نے باصلاحیت رہنما پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔ اس نظم کے علاوہ بھی یہ خیال کلام اقبال میں آخر تک موجود ہے:کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سےکہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دلنوازیفلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیںخبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہےنشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کوترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیےنظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میںوہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اُللّہٰیمیرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صفآہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدفمنزلِ راہرواں دور بھی دشوار بھی ہےکوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہےنہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کیکہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھیمصطفی کمال پاشا اور رضا شاہ پہلوی نے اپنی اپنی قوم کے لیے بہت کام کیا، لیکن ان کی سعی کے وہ نتائج نہ نکلے جس کے متمنی اقبال تھے۔ یہ حضرات اور ملت اسلامیہ پر مسلط ہونے والے دیگر شہنشاہ، رہنما اور علما ان صلاحیتوں سے عاری تھے جو کسی ملت کو دنیا کی منتخب قوموں میں بدل سکتی ہیں اس وجہ سے اقبال اُن کے گلہ گزار رہے۔ جن رہنماؤں سے اقبال نے توقعات وابستہ کیں انھیں ان کی قوم نے یا مغرب کی سازشوں نے کام کرنے کا موقع نہ دیا۔ نتیجہ یہ کہ ملت فیض حاصل کرنے سے محروم رہی اور حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کا آج بھی سب سے بڑا مسئلہ رہنماؤں کی کمی کا ہے۔ اس وقت تک کسی اسلامی ملک کا کوئی رہنما اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا حقیقی قائد تسلیم نہیں کرا سکا۔ وہ ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجائے اختلافات پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ملت کو مزید تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔رہنمایان ِملت میں علمائے دین اور سجادہ نشینان خانقاہ بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، جس طرح سیاسی رہنما انحطاط پذیر ہوئے اسی طرح صوفی و ملا بھی زوال کا شکار ہوئے۔ عالمِ اسلام میں مساجد اور خانقاہیں کثرت سے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں خانقاہی سلسلہ بے حد وسیع ہے۔ کروڑوں لوگ مسجدوں اور خانقاہوں میں جاتے ہیں اور علماء و صوفیاء سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کے ائمہ اور خانقاہوں کے صوفیاء الا ماشاء اللہ ملت کے عام افراد سے بہتر نہیں ۔ اُن میں وہ تمام خرابیاں راہ پا چکی ہیں، جو عام لوگوں میں موجود ہیں۔ اُن کے ظاہر و باطن میں واضح تضادات موجود ہیں۔ مذہب اور تصوف نے اُن کے دل و دماغ کو روشن نہیں کیا۔ وہ روایتی طور پر چند رسوم و عبادات انجام دیتے ہیں اور پھر اُن تمام برائیوں میں عملی طور پر ملوث ہو جاتے ہیں، جو مذہب و تصوف کی ضد ہیں۔ پیروں نے ’نذرانوں‘ سے اپنے محل تعمیر کر لیے ہیں اور علمائے دین نے فرقوں کے اختلافات کو ابھار ابھار کر اپنی حیثیتیں بنا لیں ہیں۔ اس لیے مسجد و خانقاہ مردہ ادارے بن کر رہ گئے ہیں ،جہاں سے کوئی مرد مومن نہیں اُٹھتا۔ مسجد و خانقاہ کے وارثوں سے اختلاف رائے کرنا اپنی تکفیر کرانے کے مترادف ہے۔ فروعی مسائل میں قوم کو الجھا کر اس کی صلاحیتیں ضائع کی جا رہی ہیں۔ مختلف مسالک کے افراد ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور جو طاقت اغیار کے خلاف استعمال ہونی چاہیے، وہ آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم ہو رہی ہے۔ اقبال اپنے دَور کے علمائے دین، مفتیان شرع اور صوفیا سے بہت بیزار تھا۔ شاید اس کے کلام میں سیاسی رہنماؤں سے بھی زیادہ تنقید کا نشانہ علماء و صوفیا کو بنایا گیا ہے:واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہیبرق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہیرہ گئی رسمِ ازاں، روحِ بلالی نہ رہیفلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہیمسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہےیعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہےمجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقیاس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانییہ پیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوریصلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوریعلما و صلحا کے بعد اقبال کی تنقید کا نشانہ اہل مدرسہ بنے ہیں، جن میں اساتذہ اور طلبہ دونوں شامل ہیں۔ اقبال کو اساتذہ سے یہ گلہ ہے کہ وہ طلبہ کو نصابات پڑھاتے رہتے ہیں ،مگر اُن کے اذہان کی تربیت نہیں کرتے۔ طلبہ نصابات میں الجھے رہتے ہیں۔ مشاہیر کے اقتباسات رٹ کر امتحانات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں، مگر ’صداقت‘ کی تلاش اُن کا مطمح نظر نہیں بنتی۔ چنانچہ اقبال کبھی تو ملا، صوفی، طالب علم اور استاد کو الگ الگ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی اُن کو یکجا کر کے اُن کی خرابیوں کو واضح کرتے ہیں:اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقیخونِ دل مرداں ہو جس فقر کی دستاویزکسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنےفقیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشیمیں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیاتمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوریاٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناکنہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہمکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟خراب کوشکِ سلطان و خانقاہِ فقیرفغاں کہ تخت و مصلٰی تمام زرّاقیباقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیریاے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیریمیں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گامسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیبملا کی نظر نورِ فراست سے ہے محرومبے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مئے ناباقبال چاہتے ہیں کہ کورانہ تقلید کی بجائے ملت کے افراد سچائی کی تلاش کے لیے تحقیق و تدقیق کے راستے پر چلیں۔ یہ بڑا کٹھن راستہ ہے، پرُخار اور طویل، مگر اس کو اختیار کیے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں، لیکن حالات یہ ہیں کہ صوفی، ملا اور اُستاد کسی کو آزادی اظہار دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کیفیت ہو تو تحقیق کیسے پنپ سکتی ہے۔ یہ بات بلاوجہ نہیں کہ اقبال کے ہاںتحقیق اور صداقت کی تلاش پر اتنا زور دیا گیا ہے:شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہیرہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقیفقیہہِ شہر کی تحقیر کیا مجال مریمگر یہ بات کہ میں ڈھونڈھتا ہوں دل کی کُشادکیے ہیں فاش رموزِ قلندری میں نےکہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزادحلقۂ شوق میں وہ جرأتِ رندانہ کہاںآہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیقہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےاور ایک دعائیہ نظم میں کہتے ہیں:بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہوسینوں میں اجالا کر دل صورتِ مینا دےاحساس عنایت کر آثارِ مصیبت کاامروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دےتحقیق کے ذریعے صداقت کی تلاش پر اقبال نے جب اتنا زور کلام صرف کیا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا اقبال کو خرد دشمن کہنا درست ہے یا محض غلط فہمی ہے؟ انھوں نے عشق کی توصیف میں بہت نغمے گائے ہیں اور قوت عمل کو اُبھارنے کے لیے عقل پر تنقید بھی کر دی ہے، مگر انھیں معروف معنوں میں عقل کا مخالف قرار دینا درست نہیں، جو شخص مردِ مومن کے بارے میں یہ لکھے وہ عقل کا مخالف نہیں ہو سکتا:عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہحلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہجب وہ ہمیں بار بار تدبر اور تحقیق اور تلاش صداقت پر اکساتے ہیں تو یہ باتیں عقل کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ اگر جہان تازہ کی افکار تازہ سے نمود ہوتی ہے، تو اقبال افکار تازہ کی دعوت دیتے ہوئے عقل کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے کہ افکار کا تعلق عقل سے ہے۔ اب اقبالیات کے ماہرین کو چاہیے کہ ہماری جذباتی قوم کو نعروں پر زندہ رکھنے کی بجائے اسے غور و فکر کی دعوت دیں۔ جب کوئی قوم غور و فکر کے بعد اپنا ہدف متعین کر لیتی ہے ،تو عشق کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ آپ نے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا ہے، اس وقت ان کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کا مرحلہ آتا ہے، اور اسی کا نام عشق ہے،مگر اس کے بغیر قوم میں جذباتیت پیدا کرنے کا مقصد محض اُن کو آپس میں لڑانا اور تقسیم کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان کے فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی، اقتصادی، سیاسی مسائل پر جس قدر از سر نو غور کرنے کی آج ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی،لیکن اقبالیات کے جلسوں میں محض چند جذباتی یا روایتی باتیں کہہ کر لوگ رخصت ہو جاتے ہیں اور کسی ایک فرد کے دل میں تحقیق و اکتشاف کی ایک لہر بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال ملت ِاسلامیہ کے ایک بہت بڑے مفکر ہیں ،مگر اُن کی سوچ کو چند فرسودہ باتوں تک محدود کر دینا نہ تو اقبال کے ساتھ انصاف ہے اور نہ ہی ملت ِاسلامیہ کی خدمت ہے۔اقبال ملت کے افراد کو ذاتی اغراض سے بلند ہو کر سب کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رہنماؤں اور مقتدر طبقات کی توجہ خود احتسابی اور خود انتقادی کی طرف دلاتے ہیں، جس کے بغیر اصلاح ممکن ہی نہیں۔ خوش فہمیوں میں مبتلا قومیں اپنی کمزوریوں کو دُور نہیں کر سکتیں۔ وہی قومیں عروج کی طرف سفر کرتی ہیں، جن کے افراد اس سلسلۂ روز و شب کے حالات و واقعات کو پرکھتے ہیں اور اس غور و فکر کے نتائج کو رُو بہ عمل لانے کے لیے اُن خصوصیات کو پیدا کرتے ہیں ،جن کی تلقین خضر راہ (بانگِ درا) کے مندرجہ ذیل بند میں کی گئی ہے:ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےزندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکارتا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیداکرےخاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتابتا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرےسوئے گردوں نالۂ شبگیر کا بھیجے سفیررات کے تاروں میں اپنا راز داں پیدا کرےیہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہےپیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

انیسویں صدی کے شروع میں جب برصغیر کی دھرتی ابھی جدید نقشوں سے ناواقف تھی، چند پُر عزم لوگوں نے ایک ایسا خواب دیکھا جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔زمین کو ناپنے، پہاڑوں کو اعداد کی شناخت عطا کرنے اور فاصلوں کو زاویوں کی زبان میں سمجھنے کا یہ خواب بہتوں کے لیے اجنبی تھا۔اسی خواب نے ہندوستان کے عظیم مثلثی سروے(The Great Trigonometrical Survey of India) کو عملی شکل دی ،جو نہ صرف برصغیر بلکہ انسانی تاریخ کے طویل ترین اور پیچیدہ سائنسی منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔یہ کوئی عام سروے نہیں تھا، یہ ایک ایسی مہم جوئی تھی جو دلدلوں، صحراؤں، جنگلوں اور برف پوش پہاڑوں کو ناپنے کے لیے تقریباً سات دہائیوں تک جاری رہی۔ اس سفر میں انسان نے فطرت کو للکارا نہیں بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ایک خیال، ایک آغازگریٹ سروے کاِ آغاز 1802ء میں ہوا جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے محسوس کیا کہ مؤثر حکمرانی، فوجی نقل و حرکت، ٹیکس وصولی اور وسائل کے استعمال کے لیے درست نقشوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد کرنل ولیم لیمبٹن (William Lambton) نے رکھی جو ایک برطانوی فوجی افسر اور ماہرِ فلکیات تھے۔ لیمبٹن کے لیے یہ محض ایک سرکاری ذمہ داری نہیں تھی بلکہ ایک سائنسی جنون تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ایک درست بنیاد (Baseline) قائم ہو جائے تو زاویوں کی مدد سے ہزاروں میل کے فاصلے ناپے جا سکتے ہیں۔ عظیم مثلثی سروے کا بنیادی طریقہ مثلثی پیمائش (Triangulation) تھا۔ اس طریقے میں زمین کے ایک خطے میں ایک سیدھی بنیاد (Baseline) ناپی جاتی پھر اس بنیاد سے مختلف زاویوں کے ذریعے دور دراز مقامات کے درمیان فاصلوں کا حساب لگایا جاتا۔ اس مقصد کے لیے اُس وقت کے جدید ترین آلات استعمال کیے گئے، جن میں تھیوڈو لائٹ (Theodolite)،فلکیاتی آلات،دوربینیں اور پیمائشی زنجیریںشامل تھیں۔ یہ آلات اُس دور میں خاصے جدید سمجھے جاتے تھے۔ خاص طور پر گریٹ تھیوڈولائٹ جس کا وزن سینکڑوں کلوگرام تھا نہایت دقت کے ساتھ زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال کیا گیا۔بھاری بھرکم تھیوڈولائٹ کو کندھوں پر اٹھائے سروے ٹیمیں میلوں سفر کرتیں۔ یہ آلہ اتنا وزنی تھا کہ کئی آدمی مل کر اسے حرکت دیتے۔ سورج کی تپش، بارش کی شدت اور وباؤں کو جھیلتے ہوئے یہ لوگ زاویے ناپتے، حساب لگاتے اور اعداد کو کاغذوں پر منتقل کرتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب ملیریا، ہیضہ اور کئی نامعلوم بیماریوں نے سینکڑوں جانیں لیں مگر سروے کا سفر نہ رکا۔ لیمبٹن خود بھی اسی مشقت کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو ئے، مگر اُن کا خواب زندہ رہا۔ایورسٹ اور بلندیوں کی کہانیلیمبٹن کے بعد یہ مشن سر جارج ایورسٹ کے ہاتھ آیا جن کا نام آج دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے دور میں سروے شمال کی طرف بڑھا جہاں ہمالیہ کی خاموش اور پراسرار چوٹیاں انسانی صلاحیتوں کو چیلنج کرتی تھیں۔ایورسٹ کے جانشین اینڈریو واہ (Andrew Scott Waugh)نے ان پہاڑوں کو صرف دیکھا نہیں بلکہ ناپا بھی۔ انہی کی نگرانی میں دنیا کی بلند ترین چوٹی کو پہلی بار درست طور پر ماپا گیا جو بعد میں ماؤنٹ ایورسٹ کہلائی۔گمنام ہیرواس عظیم منصوبے کی تاریخ میں چند انگریز نام نمایاں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں مقامی ہندوستانی اور پاکستان کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس مشن کا حصہ تھے۔ نقشہ نویس، حساب دان، قلی، رہنما اور مزدور ‘ جنہوں نے اس علم کی عمارت میں اپنی محنت کی اینٹیں رکھیں مگر تاریخ ان کے نام محفوظ نہ رکھ سکی۔پاکستان کیلئے گریٹ سروے کی معنویتاگر آج ہم پاکستان کے نقشے کو دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے گریٹ سروے کی خاموش موجودگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد جو سرحدیں متعین ہوئیں ان کے جغرافیائی نکات اسی سروے سے ماخوذ تھے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں کی حد بندیاں انہی پیمائشوں پر قائم ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کی جس تفصیل نے پاکستان کو ایک زرعی ریاست بنایا اس کی ابتدائی سائنسی بنیاد اسی سروے نے رکھی۔آج بھی عسکری نقشہ سازی، بلندیوں کی پیمائش اور زمینی معلومات میں وہی اصول استعمال ہوتے ہیں جو گریٹ سروے نے متعارف کروائے تھے۔ سڑکیں، ریلوے لائنیں اور شہر سب اسی جغرافیائی شعور کے مرہونِ منت ہیں جو عظیم مثلثی سروے سے جنم لے کر آج تک جاری ہے۔گریٹ سروے محض زمین ناپنے کا منصوبہ نہیں تھا یہ انسانی حوصلے، سائنسی دیانت اور وقت کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی کو مضبوط کرنا تھا مگر اس نے ایسے علمی خزانے چھوڑے جو آج بھی پاکستان جیسے ممالک کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔گریٹ سروے محض ایک نوآبادیاتی منصوبہ نہیں تھا بلکہ یہ سائنس، صبر اور انسانی محنت کی ایک عظیم مثال ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد برطانوی انتظامی مفادات تھا لیکن اس کے نتائج آج بھی پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ سروے ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ درست علم، تحقیق اور منصوبہ بندی قوموں کی جغرافیائی اور تاریخی شناخت کو کس طرح تشکیل دیتی ہے۔

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025ء کو مصنوعی ذہانت (AI) کے عالمی اثرات کے حوالے سے ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ سال وہ مرحلہ ثابت ہوا جب اے آئی محض ایک جدید ٹیکنالوجی نہیں رہی بلکہ انسانی زندگی، معیشت، تعلیم، صحت اور حکمرانی کے نظام کا لازمی حصہ بن گئی۔ جس رفتار سے اے آئی نے ترقی کی اس نے نہ صرف دنیا کو متاثر کیا بلکہ روایتی ڈھانچوں کو بھی چیلنج کر دیا۔2025ء میں عام انسان کی روزمرہ زندگی اے آئی سے گہری وابستگی اختیار کر چکی ہے۔ سمارٹ فونز، گھریلو آلات، گاڑیاں اور حتیٰ کہ ذاتی معاون (Personal Assistants) بھی مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگے۔ آواز سے چلنے والے اسسٹنٹس، خودکار نظام الاوقات، صحت کی نگرانی کرنے والی ایپس اور مالی مشورے دینے والے چیٹ بوٹس نے انسانی سہولتوں میں نمایاں اضافہ کیا۔ اے آئی نے وقت کی بچت، درست فیصلوں اور بہتر معیارِ زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔تعلیم میں انقلابی تبدیلیتعلیمی شعبے میں 2025ء کے دوران اے آئی نے انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ ذاتی نوعیت کے تعلیمی نظام (Personalized Learning) نے ہر طالب علم کی استعداد کے مطابق نصاب اور رفتار کو ممکن بنایا۔ آن لائن اساتذہ، خودکار اسائنمنٹ چیکنگ، ترجمہ اور تحقیقی معاونت نے تعلیم کو زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا طلبہ کی تخلیقی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے اور اساتذہ کا کردار محدود تو نہیں ہو رہا؟معیشت اور روزگار2025ء میں عالمی معیشت پر اے آئی کے اثرات دو دھاری تلوار ثابت ہوئے۔ ایک جانب پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا، صنعتیں زیادہ مؤثر ہوئیں اور نئے کاروباری مواقع پیدا ہوئے۔ دوسری جانب روایتی ملازمتیں، خصوصاً دفتری اور تکنیکی شعبوں میں، خطرے میں پڑ گئیں۔ ڈیٹا اینالسٹ، اے آئی ٹرینر، سائبر سیکیورٹی ماہر اور روبوٹکس انجینئر جیسے نئے پیشے ابھرے جبکہ غیر ہنر مند افراد کے لیے خدشات میں اضافہ ہوا۔صحت کے شعبے میں انقلابطبی میدان میں اے آئی نے 2025ء میں غیر معمولی پیش رفت دکھائی۔ بیماریوں کی بروقت تشخیص، کینسر اور دل کے امراض کی پیش گوئی، روبوٹک سرجری اور ذہنی صحت کے معاون ٹولز نے علاج کو مؤثر بنایا۔ دیہی اور دور دراز علاقوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے علاج ممکن ہوا۔ تاہم مریضوں کے ڈیٹا کی رازداری اور اخلاقی حدود ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئیں۔حکمرانی، دفاع اور نگرانیحکومتی سطح پر اے آئی کا استعمال نگرانی، ٹیکس نظام، ٹریفک کنٹرول اور عوامی خدمات میں بڑھا۔ دفاعی شعبے میں خودکار ہتھیاروں اور ڈرون ٹیکنالوجی نے عالمی سلامتی کے توازن کو متاثر کیا۔ کئی ممالک نے اے آئی کے فوجی استعمال کو محدود کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین پر زور دیا، مگر مکمل اتفاق رائے حاصل نہ ہو سکا۔اخلاقی اور سماجی چیلنجز2025ء میں سب سے بڑا سوال یہ رہا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے یا خطرہ؟ ڈیٹا پر اجارہ داری، انسانی ملازمتوں کا خاتمہ، تعصبات پر مبنی الگورتھمز اور پرائیویسی کی خلاف ورزیاں سنگین مسائل کے طور پر سامنے آئیں۔ دنیا بھر میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی کہ اے آئی کو کس حد تک آزادی دی جائے اور اس کی نگرانی کون کرے۔آنے والے سالوں میں ممکنہ تبدیلیاںآنے والے برسوں میں توقع ہے کہ اے آئی مزید خودمختار، تیز اور ذہین ہو جائے گی۔ انسانی اور مشینی ذہانت کا امتزاج (Human-AI collaboration) بڑھنے کا امکان ہے۔ تعلیم اورصحت میں انسان کا کردار ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی۔ حکومتیں سخت قوانین، اخلاقی فریم ورک اور شفاف نظام متعارف کرائیں گی تاکہ اے آئی کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کیا جا سکے۔2025ء میں مصنوعی ذہانت نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا مگر یہ تبدیلی ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔ اصل امتحان آنے والے سالوں میں ہوگا کہ انسان اس طاقتور ٹیکنالوجی کو کس سمت میں لے جاتا ہے۔ اگر دانشمندی، اخلاقیات اور مساوات کو مدنظر رکھا گیا تو اے آئی انسانیت کے لیے ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے، بصورت دیگر یہ نیا بحران بھی جنم دے سکتی۔

آج کا دن

آج کا دن

فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط 23 دسمبر 1913 ء کو امریکہ کے صدر ووڈرو ولسن نے فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو سسٹم قائم ہوا۔ یہ ایکٹ امریکہ کا مرکزی بینک بنانے والا قانونی فریم ورک تھا جس کا مقصد ملکی مالیاتی نظام کو مستحکم کرنا، بینکنگ بحرانوں کو روکنا، اور معیشت میں پیسے کے بہاؤ کو منظم کرنا تھا۔ فیڈرل ریزرو سسٹم کی تشکیل اس وقت کے عالمی اقتصادی منظرنامے میں ایک اہم قدم تھا۔ 1907ء کے مالیاتی بحران کے دوران امریکی مالیاتی نظام میں شدید بے قاعدگیاں سامنے آئیں جس نے قانون سازوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک مضبوط اور مرکزیت والا انتظامی نظام قائم کریں جو مالیاتی لیکویڈیٹی فراہم کرے اور بینکنگ سیکٹر پر اعتماد بحال کرے۔ وییک آئی لینڈپر سرینڈر 23 دسمبر 1941ء کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی اور جاپانی افواج کے درمیان ایک اہم معرکہ ہوا۔ جاپانی افواج نے وییک آئی لینڈ پر حملہ کیا۔ ابتدائی دنوں تک امریکی افواج نے مقابلہ کیا لیکن جاپانی افواج کے دباؤ اور تعداد میں برتری کے باعث امریکی افواج نے شکست تسلیم کرلی اور جزیرے کاقبضہ جاپانیوں کے ہاتھ آگیا۔ وییک آئی لینڈ کی لڑائی بحرالکاہل میں جاپانی پیش قدمی کا حصہ تھی۔وییک آئی لینڈ پر 11 دسمبر سے لڑائی شروع ہوئی اور 23 دسمبر کو امریکی دستے مجبور ہوئے کہ وہ روایتی فوجی اصولوں کے تحت سرینڈر کر دیں۔ ٹرانزسٹر کا مظاہرہ 23 دسمبر 1947ء کو امریکی سائنسدانوں جان بارڈین، والٹر بریٹن، اور ولیم شاکلے نے ٹرانزسٹر کا مظاہرہ کیا جو آج کے تمام الیکٹرانک آلات کا بنیادی جزو ہے۔ٹرانزسٹر ایک چھوٹا سیمی کنڈکٹر ڈیوائس ہے جو برقی سگنلز کو بڑھاتا یا سوئچ کرتا ہے جس نے الیکٹرانکس میں انقلاب برپا کر دیا۔ ٹرانزسٹر سے پہلے الیکٹرانک آلات میں ویکیوم ٹیوبز استعمال ہوتی تھیں جو بڑی، بھاری اور کم مؤثر تھیں۔ اس دریافت نے جدید الیکٹرانکس کو جنم دیا اور کمپیوٹر، موبائل فون، ٹی وی اور دیگر ہزاروں آلات کی ترقی کی راہ ہموار کی اورالیکٹرانکس کا سائز چھوٹا ہوا۔ تینوں سائنسدانوں کو 1956ء میں نوبل انعام برائے طبیعیات دیا گیا۔ نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ 23 دسمبر 2007ء کو نیپال نے بادشاہت کے نظام کو ختم کر کے وفاقی جمہوریہ کا اعلان کیا۔ نیپال کی بادشاہت نہ صرف روایتی طور پر طویل عرصے تک قائم رہی بلکہ اس نے ملک کی سیاست، سماجی ڈھانچے اور قومی شناخت پر گہرے اثرات بھی چھوڑے۔تاہم 1990ء کی دہائی میں جمہوری تحریک نے بادشاہت کے خلاف آواز بلند کی جس کے بعد 2006ء میں بھی ایک وسیع عوامی تحریک نے بادشاہت کو کمزور کر دیا۔آخر کار 2007 میں باقاعدہ طور پر اعلان ہوا کہ نیپال اب بادشاہت نہیں بلکہ ایک جمہوری ریاست کے طور پر مستقبل کی سمت طے کرے گا۔

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

حالیہ سائنسی تحقیق نے عوامی صحت سے متعلق ایک نہایت تشویشناک پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق شوگر فری مصنوعات میں استعمال ہونے والا مصنوعی میٹھا نہ صرف دل بلکہ دماغ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برسوں سے وزن کم رکھنے اور شوگر کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی یہ مٹھاس اب طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس نئی تحقیق نے اس تاثر کو چیلنج کیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس مکمل طور پر محفوظ ہے، اور یوں صارفین کیلئے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا سہولت اور ذائقے کی خاطر صحت کو خطرے میں ڈالنا دانش مندی ہے؟۔نئی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس سے تیار کردہ کاربونیٹڈ مشروبات کا باقاعدہ استعمال دل اور دماغ کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔''ایسپرٹیم‘‘(Aspartame) جو ڈائٹ مشروبات و دیگر کھانے والی اشیاء میں پایا جاتا ہے، طویل عرصے سے کینسر، بلند فشارِ خون اور فالج جیسے امراض کے خدشات سے منسلک سمجھا جاتا رہا ہے۔اب ہسپانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس مادے کی زیادہ مقدار نہ صرف دماغ بلکہ دل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسپرٹیم کی زیادہ مقدار دل کے مرض ''کارڈک ہائپر ٹرافی‘‘ کے خطرے میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں دل کے پٹھے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں میں تیز رفتاری سے کمی بھی دیکھی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ جانوروں میں جسمانی چربی تقریباً پانچویں حصے تک کم ہو گئی۔جریدے بایومیڈیسن اینڈ فارماکو تھیراپی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سان سیباسٹیان کے سنٹر فار کوآپریٹو ریسرچ اِن بایومیٹیریلز سے وابستہ محققین نے حکام پر زور دیا کہ ایسپرٹیم کے موجودہ استعمال سے متعلق رہنما اصولوں پر نظر ثانی کی جائے۔محققین کے مطابق: ''ایسپرٹیم واقعی چوہوں میں چربی کے ذخائر کو 20 فیصد تک کم کرتا ہے، مگر اس کی قیمت دل کے ہلکے بڑھاؤ اور ذہنی کارکردگی میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔اگرچہ یہ مصنوعی مٹھاس چوہوں میں وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ دل میں مرضیاتی تبدیلیاں اور ممکنہ طور پر دماغ پر منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں‘‘۔''یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ منظور شدہ مقدار میں بھی ایسپرٹیم اہم اعضا کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا انسانوں کے لیے اس کے محفوظ استعمال کی حد پر ازسرِنو غور کرنا مناسب ہوگا۔‘‘تحقیق کے دوران چوہوں کو جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 7 ملی گرام ایسپرٹیم کی خوراک دی گئی۔ یہ خوراک ہر دو ہفتے بعد مسلسل تین دن تک دی جاتی رہی۔اس کے مقابلے میں عالمی ادارہ صحت (WHO)، یورپی میڈیسن ایجنسی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق انسانوں کیلئے یومیہ محفوظ حد جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 50 ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ایک سال پر محیط مشاہدے کے دوران ایسپرٹیم استعمال کرنے والے چوہوں میں دل کی پمپنگ صلاحیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ بائیں وینٹریکل میں یہ کمی 26 فیصد جبکہ دائیں وینٹریکل میں 20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ دل کے دائیں اور بائیں وینٹریکلز کو جدا کرنے والی موٹی عضلاتی دیوار (سیپٹل کَروَیچر) میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ مطالعے کے مطابق چوہوں میں ''اعصابی و رویّاتی تبدیلیوں‘‘ کے آثار اور ''دماغ میں ممکنہ مرضیاتی تبدیلیاں‘‘ بھی دیکھی گئیں۔ تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کی چند حدود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مطالعے کا دورانیہ محدود تھا اور اس حوالے سے طویل المدتی تحقیق کی ضرورت ہے۔دوسری جانب انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) نے نتائج کی تشریح میں احتیاط برتنے پر زور دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان نتائج کو براہِ راست انسانوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) کے ڈائریکٹر جنرل لاوراں اوجرنے ڈیلی میل کو بتایا: ''انسان اور چوہوں کے درمیان اہم جسمانی فرق، جیسے کہ میٹابولزم، عمر کا دورانیہ، دل کی ساخت اور دماغ میں توانائی کا استعمال، اس تحقیق کے نتائج کی مطابقت کو محدود کرتے ہیں۔خاص طور پر، چوہوں میں جسمانی وزن اور چربی میں کمی انسانی کلینیکل ٹرائلز کے شواہد سے مطابقت نہیں رکھتی، جو ظاہر کرتے ہیں کہ ایسپرٹیم اور دیگر کم یا صفر کیلوری سویٹنرز بذاتِ خود جسمانی وزن پر اثر انداز نہیں ہوتے۔یہ زیادہ تر وزن کے انتظام میں مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں اور یوں مجموعی توانائی کی مقدار میں کمی لاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''دل اور عصبی رویّے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی عمر رسیدہ چوہوں میں دیکھی گئی، جس سے یہ علیحدہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اثرات ایسپرٹیم کی وجہ سے ہیں یا عمر رسیدگی کی معمولی علامات ہیں۔ایسپرٹیم پر بے شمار سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں اور اسے عالمی فوڈ سیفٹی حکام نے محفوظ قرار دے کر منظوری دی ہے۔ اس سے قبل بھی مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے تعلقات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ یہ خدشات 2023ء میں شدت اختیار کر گئے جب عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ایسپرٹیم کو انسانوں کیلئے ممکنہ طور پر سرطان پیدا کرنے والا قرار دیا تھا۔

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

براڈبینڈ بلیک اسپاٹ میں پھنسے ایک لاکھ 30ہزار گھرانے آن لائن دنیا سے محرومبرطانیہ کے ہزاروں گھرانے آج بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی رفتار بعض افریقی ممالک جیسے لیبیا، کیمرون اور نمیبیا سے بھی کم ہے۔ تحقیق کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار برطانوی گھروں کو ''براڈبینڈ بلیک اسپاٹ‘‘ کا سامنا ہے، جہاں آن لائن تعلیم، کام اور تفریح کے مواقع محدود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل عدم مساوات ملکی ترقی اور روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، اور یہ صورتحال شہری و دیہی علاقوں کے درمیان تکنیکی تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔برطانیہ میں ہر شخص کو قانونی حق حاصل ہے کہ اسے کم از کم 10 ایم بی پی ایس (میگابِٹس فی سیکنڈ) کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ ملے ، جو عام طور پر ٹی وی پروگرامز کو آن لائن دیکھنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔اس حد سے کم رفتار پر ویڈیو مواد بار بار رُکے گا، جبکہ زیادہ تصاویر والے ویب صفحات لوڈ ہونے میں زیادہ وقت لیں گے۔ تاہم انگلینڈ کے ایسے علاقوں کی ڈیلی میل کی تجزیاتی رپورٹ، جنہیں براڈبینڈ کے ''بلیک اسپاٹس‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ ویسٹ ڈیون کے 9 فیصد گھروں کو فکسڈ لائن کنکشن کے ذریعے یہ اسپیڈ مل ہی نہیں سکتی۔گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ لیبیا میں 10.7 ایم بی پی ایس، کیمرون میں 11.9 ایم بی پی ایس اور نمیبیا میں 15.6 ایم بی پی ایس ریکارڈ کی گئی۔ جنگ سے تباہ حال ملک شام (3.4 ایم بی پی ایس) سپیڈ ٹیسٹ کے مطابق دنیا میں سب سے آخر میں رہا۔ سنگاپور نے سب سے زیادہ 400.68 ایم بی پی ایس کی رفتار کے ساتھ پہلا مقام حاصل کیا۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ اسپیڈ کی اوسط 147.4 ایم بی پی ایس رہی۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب بھی 72 ہزار رہائشی مقامات ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار 5 میگا بِٹس فی سیکنڈ (Mbps) تک بھی دستیاب نہیں ہے۔ ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (universal service obligation) (USO) کے تحت، جسے 2020ء میں نافذ کیا گیا، صارفین کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ مناسب براڈبینڈ کنکشن کا مطالبہ کر سکیں، بشرطیکہ اس کیلئے درکار ممکنہ کام کی لاگت 3,400 پاؤنڈ سے زیادہ نہ ہو۔ اس معیار کے مطابق مناسب براڈبینڈ کی تعریف یہ ہے: ''ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 10 Mbps جبکہ اپ لوڈ اسپیڈ 1 Mbps ہو‘‘۔ہاؤس آف کامنز لائبریری کے مطابق، یہ رفتار صارفین کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں فلمیں اسٹریمنگ کر سکیں، ویڈیو کالز کر سکیں اور ویب براؤزنگ کر سکیں۔ اس رفتار کے ساتھ، ایک گھنٹے کی ہائی ڈیفینیشن (HD) ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے میں تقریباً 13 منٹ لگتے ہیں۔جب اوفکام کے اعداد و شمار کا تجزیہ مقامی انتظامیہ کی سطح پر کیا گیا تو ویسٹ ڈیون کے بعد ٹوریج (Torridge) کا نمبر آیا، جہاں 8.5 فیصد گھروں کو 10 Mbps کی رفتار دستیاب نہیں تھی۔ٹاپ فائیو میں شامل دیگر علاقے یہ تھے:مِڈ ڈیون... 6.2فیصد ایسٹ لنڈزی (لنکن شائر) ... 4فیصد ویسٹ لنڈزی (لنکن شائر)... 4فیصددوسری جانب، 39 کونسلز ایسے بھی تھے جہاں کسی بھی مقام پر انٹرنیٹ کی رفتار ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (USO) کی مقررہ حد سے کم نہیں تھی۔اوفکام کے اعداد و شمار کے مطابق براڈبینڈ سہولیات کو مزید چھوٹے علاقوں میں بھی پرکھا جا سکتا ہے، جنہیں ''مڈل سپر آئوٹ پٹ ایریاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے محلوں پر مشتمل ہوتے ہیں جہاں اوسطاً 10ہزار افراد رہتے ہیں۔ ملک کا سب سے خراب علاقہ Lympne اور Palmarsh پایا گیا، جہاں 51 میں سے 47 گھروں یعنی 92.2فیصد کو 10 Mbps ڈاؤن لوڈ اسپیڈ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ماہرین کے مطابق انگلینڈ کے براڈبینڈ مسائل کی جڑ 1992ء میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے دور میں ایک منصوبہ جاتی غلطی تھی۔

کالج کے لڑکے

کالج کے لڑکے

یوں تو ان کی کاشت ہر موسم، ہر آب و ہوا اور ہر ملک میں کی جاتی ہے۔ لیکن آپ جانئے ہر ملک کی روایات الگ الگ ہوتی ہیں اور اسی میں شان ہے۔ ہمارے ملک کی شان چونکہ سب سے الگ ہے لہٰذا دنیا بھر میں لڑکوں کی کاشت کے اعتبار سے ہمارا ملک سب سے زرخیز واقع ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بنجر مقامات پر بھی ان کی کاشت کرکے ملک کو زرخیز و مالامال کردیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے ''زیادہ غلّہ اگاؤ‘‘ کی تحریک کو جب سے ''زیادہ لڑکے پڑھاؤ‘‘ میں سمویا گیا ہے تب سے یونیورسٹیاں لڑکوں سے کھچاکھچ بھرنے لگی ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم ''حوالی طلبا‘‘ کی ہے جو اسی نام سے مشہور بھی ہے، خود ان طلبا کے بارے میں اب تک یہ طے نہیں کہ واقعی ان کا وجود ہے بھی یا صرف 'حوالے کی کتابوں‘ کی طرح حوالے ہی حوالے ہیں۔ ان طلبا کو یونیورسٹی کے ناخدا، لارڈ، منکر نکیر اور کراماً کاتبین بھی کہا جاسکتا ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے کھیل تماشے، مشاعرے، قوالی، پکے گانے، ہلے پھلکے پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ کے یہ سولہ آنے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بھر واقف ہوتی ہے۔ آس پاس کے موچی ان کے نام لے کر اپنی دکانیں سڑکوں کے کنارے جماتے ہیں۔ بات بات میں ان کی تصاویر اور بیانات اخبارات، ہینڈبلس اور لیف لیٹس میں اچھلتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ خود نظر نہیں آتے گوکہ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ تمام انتظامی امورمیں ان کا خاص و عام ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تخت رہے یا تختہ کے قائل ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دشمنوں کا شک ہے کہ یہ لوگ فاترالعقل اور بوہیمین ہوتے ہیں جبکہ ہمارا شک ہے کہ بات کچھ اور ہے اور جو شاید خود ہم بھی نہیں جانتے ورنہ آپ سے کیا پردہ تھا۔ان طلبا کی پہچان یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر وقت چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر ان کے چلنے کے راستے مقرر ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تلاش آنکھ بند کرکے کرنا مقصود ہے تو ہماری رائے میں آپ کامن روم کے سامنے چلے جائیے۔ یہی ایک پرفضا مقام ہے جہاں یہ لوگ موقع پاتے ہی تبدیل آب وہ ہوا کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ شام کو حضرت گنج میں ہوا خوری کرتے نظر آئیں گے جہاں یہ میل روز، ایروز، کوالٹی اور اسی طرح کے انگریزی ہوٹلوں میں نقرئی قہقہوں سے اپنے کھوکھلے قہقہے ملاتے ہوں گے۔ اگر آپ کو ان کی تمیز کرنا مقصود ہے تو آپ اپنی آنکھیں کھول کر ان کو بجائے تلاش کرنے کے ٹٹولئے یہ کہیں نہ کہیں زور زور سے کسی اہم مسئلے پر کسی نیم ریٹائرڈ قسم کے بزرگ سے بحث کرتے ہوں گے۔ ان کے پیچھے بہت سے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوگا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ سب ان کا نام جانتے ہوں گے اور عام بات یہ ہوگی کہ یہ خود کسی کا نام نہ جانتے ہوں گے۔ یہ آپ کو کسی نہ کسی لیڈر یا پروفیسر وغیرہ کو کسی ہونے والی میٹنگ کی صدارت کیلئے اکساتے ہوئے ملیں گے۔ ہر تقریب میں آپ بہ آسانی ان کو صدر کے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔تمام مقابلے غالباً انہی طلباء کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ امتحانات میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس شاید انہی نے جاری کروایا تھا۔ غرض یہ کہ وہ محفل محفل نہ ہوگی جہاں یہ پالا نہ مارلے جائیں۔ ہر لکھا پڑھی کے کام میں ان کا نام سب سے اوپر ہوگا یا سب سے نیچے مگر ہوگا ضرور۔ یہ تھوڑا سا فرق جو فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ ان طلبا کی ستم ظریفی نہیں بلکہ خیالات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ٹاپ اوپر سے یعنی ٹاپ سے کیا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ ٹاپ نیچے سے یعنی باٹم سے کیا جائے۔ ان کا اعتقاد اسی بات پر ہے کہ ناک ناک ہی ہوتی ہے خواہ اِدھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔ باقی جو کسر ٹاپ کرنے میں رہ جاتی ہے وہ یہ طلبا، ٹیپ ٹاپ سے پوری کرلیتے ہیں۔ ان کے ٹیپ ٹاپ کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ''اعلیٰ خیالات سادہ زندگی‘‘ جبکہ بقیہ طلبا کا قول ہے کہ نہیں نہیں ''اعلیٰ زندگی اور سادہ خیالات‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر پروفیسر اوٹ پٹانگ کا خیال ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ خیالات اور زندگی میں کس کو اعلیٰ اور کس کو سادہ ہونا چاہیے۔طلباء کا دوسرا گروہ پہلے والے گروہ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی زندگی اعلیٰ پسند کرتاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے جوتوں میں جو شیشے سے زیادہ چمک دار ہوتے ہیں بہ آسانی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے ہوتے ہیں جو ٹاٹ، چمڑے یا کینویس وغیرہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں کے بارے میں ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کو ان کے منہ پر کریم، پاؤڈر اور اسنو ملے گا مگر چہرہ نہیں ملے گا۔ مگر ہاں اگر آپ نہار منہ صبح سویرے ان کا منہ دیکھنا گوارا کریں تو ممکن ہے ان کے چہرے کا درشن ہوجائے۔ان طلبا کے بات چیت کے طریقے ان کے کھانے پینے کے طریقوں سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کریں گے بلکہ کھاجائیں گے۔ جب کسی مسئلہ پر بات چیت ہوگی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ بس ان کے جانے کی دیر ہے۔ گئے نہیں کہ مسئلہ حل ہوا۔ حالانکہ ان سے مسئلہ حل ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہوگا مگر چونکہ ان کو بات چیت کرنے اور خطاب کرنے کی لت ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیشہ صرف بڑے بڑے مسائل کوہاتھ لگاتے ہیں اور بات کرنے میں برابر ہاتھ پیر ہلانے، گھونسا دکھانے، گردن ہلانے، کندھے اچکانے اور منھ چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔