علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

اسپیشل فیچر

تحریر : خواجہ محمد زَکریا


شاعر ِمشرق ومفکرِ پاکستان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ایک فکرانگیز تحریراقبال چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیااقبال کا انتقال ہوا ،تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیںاقبال نے تین زبانوں میں لکھا ہے۔ اُن کی نثر اُردو اور انگریزی میں ہے جب کہ شاعری، جو اُن کی جملہ صلاحیتوں میں سے اعلیٰ ترین صلاحیت ہے، اُردو اور فارسی میں ہے۔ میرے خیال میں فلسفہ اور علم الاقتصاد پر مستقل کتابیں تصنیف کرنے اور سیاسیات اور بعض دیگر علوم و فنون پر اظہار خیال کرنے کے باوجود اُن کا اصل میدان شاعری ہے۔ نثری کتابوں میں وہ جن حقائق کو دلائل و براہین سے کہتے ہیں، انھیں کو شاعری میں جب وجدانی اور تخیلی سطح پر پرزور اور پرُکشش اُسلوب میں پیش کرتے ہیں ،تو اُن کا اثر بہت بڑھ جاتا ہے جب کہ اُن کی نثری تصنیفات کا استدلال بعض جگہ اختلافی معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے نزدیک شاعر اقبال، فلسفی اقبال سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہے۔بہرحال اقبال کی نظم و نثر کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ملت ِاسلامیہ کے دین و دنیا کو سنوارنا اور پھر ملت ِ اسلامیہ کے توسط سے دنیا بھر کی اقوام و ملل کے افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانا۔ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو مغربی اقوام دنیا کے بیشتر ممالک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابض ہو چکی تھیں۔ افریقا اور ایشیا کے بہت بڑے حصے پر متصرف ہونے کی وجہ سے انگریزی زبان اور مغربی اُن کی تہذیب محکوموں کے لیے قابلِ تقلید بن چکی تھی۔ بقول اکبر الہ آبادی:اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کاطائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کایہ درست ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں احیائی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا، مگر اُن کے اثرات محدود تھے بل کہ اُن کی وجہ سے محکوم ملکوں کے تضادات اور بھی نمایاں ہو گئے تھے۔ مسلمان ممالک ایک ایک کر کے آزادی سے محروم ہو چکے تھے. ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات یا تو حکمرانوں کے مقلد بن چکے تھے یا پدرم سلطان بود کے خواب میں مست پڑے تھے. ان حالات میں قوم کے کسی بہی خواہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ارد گرد کے حالات سے آنکھیں بند کر لے اور قوم کو ماضی کے سپنوں میں پڑا رہنے دے۔ سرسید احمد خاں، حالی، شبلی، نذیر احمد، اکبر الہ آبادی اور دوسرے بہت سے ادبا اور شعرا اپنے اپنے انداز میں ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کر رہے تھے۔ علامہ اقبال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ وہ چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ اقبال کا انتقال ہوا تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔ بہت سے مسلمان ممالک رفتہ رفتہ آزاد ہونے لگے تھے۔ اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیں۔ ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آخر ملت اسلامیہ دنیا بھر میں بدستور غیر مؤثر کیوں ہے؟ اس سوال کے ایک یا ایک سے زیادہ جوابات تلاش کرنے چاہییں۔ ان پر عام بحث ہونی چاہیے اور پھر جس بات پر اجماع ِامت ہو اسے ملتِ اسلامیہ کا مشترکہ مقصد بنا کر بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی تمام تر کوششیں اسی ایک سمت میں مرکوز کر دینی چاہییں۔علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں ملت کے زوال کے اسباب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور زوال سے اُبھرنے کا ایک واضح طریق کار متعین کیا ہے۔ یہ طریق کار ہے فرد کی اصلاح سے ملت کی اصلاح کی طرف جانا،لیکن علامہ اقبال اس بات سے واقف تھے کہ عام افراد کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کیونکہ وہ زوال آمادہ معاشرے کے شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر کسی بددیانت معاشرے میں کوئی فرد دیانت دار بننے کی کوشش کرے تو وہ معاشرے کو بہت کم درست کر سکے گا، البتہ ہو سکتا ہے کہ اس کشمکش میں وہ خود ہی مٹ جائے۔ اس لیے اقبال کا نقطۂ نظر یہی رہا ہے کہ اصلاح اوپر سے نیچے آتی ہے، نیچے سے اوپر نہیں جاتی۔ نظریۂ خودی مردان ِکامل کو پیدا کرتا ہے اور مردانِ کامل دنیا کی اصلاح کرتے ہیں۔ علامہ اقبال مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں مردِ کامل سے اُن توقعات کا اظہار کرتے ہیں:اے سوارِ اشہب دوراں بیااے فروغِ دیدۂ امکاں بیاخیز و قانونِ اخوت ساز دہجامِ صہبائے محبت باز دہباز در عالم بیار ایّامِ صلحجنگجویاں را بدہ پیغامِ صلحریخت از جورِ خزاں برگِ شجرچوں بہاراں بر ریاضِ ما گذرنوعِ انساں مزرع و تو حاصلیکاروانِ زندگی را منزلیترجمہ:(اے زمانے کے گھوڑے کے سوار اور اے امکانات کی دنیا کو روشن کرنے والے، آ اور دنیا میں اخوت اور محبت کے جذبات پھر سے پیدا کر۔ دنیا میں صلح کا زمانہ واپس لا اور جنگجوؤں کو امن کا پیغام دے۔ دنیا کے باغ میں خزاں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، تو اس میں بہار بن کر آ۔ بنی نوعِ انسان کی فصل کا حاصل اور زندگی کے کارواں کی منزل تو ہی ہے۔)جب کسی قوم میں ایسے افراد پیدا ہو جاتے ہیں ،تو اس قوم کا کارواں منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ اسی کا نام رجائیت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ٹھیک ہو جائیں ،تو دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال ہر حال میں رجائیت کے پیغامبر ہیں۔ انھوں نے بار بار ملت کے مختلف افراد اور طبقات پر شدید تنقید کی ہے۔ خود انتقادی اور خود احتسابی کو لازمہ ترقی بتایا ہے اور یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ جب تک ہم اپنی خرابیوں کو تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا۔ اس وجہ سے اقبال کے ہاں ملت کے مختلف طبقات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی خرابیوں کو طشت ازبان کر کے انھیں اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ اقبال ملتِ اسلامیہ کے رہنماؤں سے ناامید تھے۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر در حقیقت رہنمائے ملت کی علامت ہے اور پوری نظم ملت اسلامیہ کے زوال کا ایک خوفناک مرقع ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملت نے باصلاحیت رہنما پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔ اس نظم کے علاوہ بھی یہ خیال کلام اقبال میں آخر تک موجود ہے:کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سےکہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دلنوازیفلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیںخبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہےنشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کوترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیےنظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میںوہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اُللّہٰیمیرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صفآہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدفمنزلِ راہرواں دور بھی دشوار بھی ہےکوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہےنہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کیکہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھیمصطفی کمال پاشا اور رضا شاہ پہلوی نے اپنی اپنی قوم کے لیے بہت کام کیا، لیکن ان کی سعی کے وہ نتائج نہ نکلے جس کے متمنی اقبال تھے۔ یہ حضرات اور ملت اسلامیہ پر مسلط ہونے والے دیگر شہنشاہ، رہنما اور علما ان صلاحیتوں سے عاری تھے جو کسی ملت کو دنیا کی منتخب قوموں میں بدل سکتی ہیں اس وجہ سے اقبال اُن کے گلہ گزار رہے۔ جن رہنماؤں سے اقبال نے توقعات وابستہ کیں انھیں ان کی قوم نے یا مغرب کی سازشوں نے کام کرنے کا موقع نہ دیا۔ نتیجہ یہ کہ ملت فیض حاصل کرنے سے محروم رہی اور حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کا آج بھی سب سے بڑا مسئلہ رہنماؤں کی کمی کا ہے۔ اس وقت تک کسی اسلامی ملک کا کوئی رہنما اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا حقیقی قائد تسلیم نہیں کرا سکا۔ وہ ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجائے اختلافات پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ملت کو مزید تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔رہنمایان ِملت میں علمائے دین اور سجادہ نشینان خانقاہ بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، جس طرح سیاسی رہنما انحطاط پذیر ہوئے اسی طرح صوفی و ملا بھی زوال کا شکار ہوئے۔ عالمِ اسلام میں مساجد اور خانقاہیں کثرت سے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں خانقاہی سلسلہ بے حد وسیع ہے۔ کروڑوں لوگ مسجدوں اور خانقاہوں میں جاتے ہیں اور علماء و صوفیاء سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کے ائمہ اور خانقاہوں کے صوفیاء الا ماشاء اللہ ملت کے عام افراد سے بہتر نہیں ۔ اُن میں وہ تمام خرابیاں راہ پا چکی ہیں، جو عام لوگوں میں موجود ہیں۔ اُن کے ظاہر و باطن میں واضح تضادات موجود ہیں۔ مذہب اور تصوف نے اُن کے دل و دماغ کو روشن نہیں کیا۔ وہ روایتی طور پر چند رسوم و عبادات انجام دیتے ہیں اور پھر اُن تمام برائیوں میں عملی طور پر ملوث ہو جاتے ہیں، جو مذہب و تصوف کی ضد ہیں۔ پیروں نے ’نذرانوں‘ سے اپنے محل تعمیر کر لیے ہیں اور علمائے دین نے فرقوں کے اختلافات کو ابھار ابھار کر اپنی حیثیتیں بنا لیں ہیں۔ اس لیے مسجد و خانقاہ مردہ ادارے بن کر رہ گئے ہیں ،جہاں سے کوئی مرد مومن نہیں اُٹھتا۔ مسجد و خانقاہ کے وارثوں سے اختلاف رائے کرنا اپنی تکفیر کرانے کے مترادف ہے۔ فروعی مسائل میں قوم کو الجھا کر اس کی صلاحیتیں ضائع کی جا رہی ہیں۔ مختلف مسالک کے افراد ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور جو طاقت اغیار کے خلاف استعمال ہونی چاہیے، وہ آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم ہو رہی ہے۔ اقبال اپنے دَور کے علمائے دین، مفتیان شرع اور صوفیا سے بہت بیزار تھا۔ شاید اس کے کلام میں سیاسی رہنماؤں سے بھی زیادہ تنقید کا نشانہ علماء و صوفیا کو بنایا گیا ہے:واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہیبرق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہیرہ گئی رسمِ ازاں، روحِ بلالی نہ رہیفلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہیمسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہےیعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہےمجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقیاس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانییہ پیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوریصلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوریعلما و صلحا کے بعد اقبال کی تنقید کا نشانہ اہل مدرسہ بنے ہیں، جن میں اساتذہ اور طلبہ دونوں شامل ہیں۔ اقبال کو اساتذہ سے یہ گلہ ہے کہ وہ طلبہ کو نصابات پڑھاتے رہتے ہیں ،مگر اُن کے اذہان کی تربیت نہیں کرتے۔ طلبہ نصابات میں الجھے رہتے ہیں۔ مشاہیر کے اقتباسات رٹ کر امتحانات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں، مگر ’صداقت‘ کی تلاش اُن کا مطمح نظر نہیں بنتی۔ چنانچہ اقبال کبھی تو ملا، صوفی، طالب علم اور استاد کو الگ الگ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی اُن کو یکجا کر کے اُن کی خرابیوں کو واضح کرتے ہیں:اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقیخونِ دل مرداں ہو جس فقر کی دستاویزکسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنےفقیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشیمیں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیاتمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوریاٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناکنہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہمکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟خراب کوشکِ سلطان و خانقاہِ فقیرفغاں کہ تخت و مصلٰی تمام زرّاقیباقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیریاے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیریمیں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گامسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیبملا کی نظر نورِ فراست سے ہے محرومبے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مئے ناباقبال چاہتے ہیں کہ کورانہ تقلید کی بجائے ملت کے افراد سچائی کی تلاش کے لیے تحقیق و تدقیق کے راستے پر چلیں۔ یہ بڑا کٹھن راستہ ہے، پرُخار اور طویل، مگر اس کو اختیار کیے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں، لیکن حالات یہ ہیں کہ صوفی، ملا اور اُستاد کسی کو آزادی اظہار دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کیفیت ہو تو تحقیق کیسے پنپ سکتی ہے۔ یہ بات بلاوجہ نہیں کہ اقبال کے ہاںتحقیق اور صداقت کی تلاش پر اتنا زور دیا گیا ہے:شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہیرہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقیفقیہہِ شہر کی تحقیر کیا مجال مریمگر یہ بات کہ میں ڈھونڈھتا ہوں دل کی کُشادکیے ہیں فاش رموزِ قلندری میں نےکہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزادحلقۂ شوق میں وہ جرأتِ رندانہ کہاںآہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیقہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےاور ایک دعائیہ نظم میں کہتے ہیں:بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہوسینوں میں اجالا کر دل صورتِ مینا دےاحساس عنایت کر آثارِ مصیبت کاامروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دےتحقیق کے ذریعے صداقت کی تلاش پر اقبال نے جب اتنا زور کلام صرف کیا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا اقبال کو خرد دشمن کہنا درست ہے یا محض غلط فہمی ہے؟ انھوں نے عشق کی توصیف میں بہت نغمے گائے ہیں اور قوت عمل کو اُبھارنے کے لیے عقل پر تنقید بھی کر دی ہے، مگر انھیں معروف معنوں میں عقل کا مخالف قرار دینا درست نہیں، جو شخص مردِ مومن کے بارے میں یہ لکھے وہ عقل کا مخالف نہیں ہو سکتا:عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہحلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہجب وہ ہمیں بار بار تدبر اور تحقیق اور تلاش صداقت پر اکساتے ہیں تو یہ باتیں عقل کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ اگر جہان تازہ کی افکار تازہ سے نمود ہوتی ہے، تو اقبال افکار تازہ کی دعوت دیتے ہوئے عقل کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے کہ افکار کا تعلق عقل سے ہے۔ اب اقبالیات کے ماہرین کو چاہیے کہ ہماری جذباتی قوم کو نعروں پر زندہ رکھنے کی بجائے اسے غور و فکر کی دعوت دیں۔ جب کوئی قوم غور و فکر کے بعد اپنا ہدف متعین کر لیتی ہے ،تو عشق کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ آپ نے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا ہے، اس وقت ان کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کا مرحلہ آتا ہے، اور اسی کا نام عشق ہے،مگر اس کے بغیر قوم میں جذباتیت پیدا کرنے کا مقصد محض اُن کو آپس میں لڑانا اور تقسیم کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان کے فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی، اقتصادی، سیاسی مسائل پر جس قدر از سر نو غور کرنے کی آج ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی،لیکن اقبالیات کے جلسوں میں محض چند جذباتی یا روایتی باتیں کہہ کر لوگ رخصت ہو جاتے ہیں اور کسی ایک فرد کے دل میں تحقیق و اکتشاف کی ایک لہر بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال ملت ِاسلامیہ کے ایک بہت بڑے مفکر ہیں ،مگر اُن کی سوچ کو چند فرسودہ باتوں تک محدود کر دینا نہ تو اقبال کے ساتھ انصاف ہے اور نہ ہی ملت ِاسلامیہ کی خدمت ہے۔اقبال ملت کے افراد کو ذاتی اغراض سے بلند ہو کر سب کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رہنماؤں اور مقتدر طبقات کی توجہ خود احتسابی اور خود انتقادی کی طرف دلاتے ہیں، جس کے بغیر اصلاح ممکن ہی نہیں۔ خوش فہمیوں میں مبتلا قومیں اپنی کمزوریوں کو دُور نہیں کر سکتیں۔ وہی قومیں عروج کی طرف سفر کرتی ہیں، جن کے افراد اس سلسلۂ روز و شب کے حالات و واقعات کو پرکھتے ہیں اور اس غور و فکر کے نتائج کو رُو بہ عمل لانے کے لیے اُن خصوصیات کو پیدا کرتے ہیں ،جن کی تلقین خضر راہ (بانگِ درا) کے مندرجہ ذیل بند میں کی گئی ہے:ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےزندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکارتا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیداکرےخاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتابتا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرےسوئے گردوں نالۂ شبگیر کا بھیجے سفیررات کے تاروں میں اپنا راز داں پیدا کرےیہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہےپیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔