آج کا ٹی۔ وی رحمت یا زحمت
اسپیشل فیچر
آج کل امریکہ کے منی سوٹاقصبہ کے تمام اسکولوں کے بچے جب اپنی دانش گاہ میں اندر جاتے ہیں تو داخلے کے دروازے پر ان کے بستوں کی میٹل ڈیٹکٹرسے پڑتال کی جاتی ہے۔ یہ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ امریکہ کے ایک اسکول میں ایک بچے نے پستول سے ایک دوسرے ساتھی بچے کا قتل کر دیا جس سے اسے کچھ رنجش تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بچہ نے اپنے گھر کے ٹیلیوژن پر ایک ایسا سیریل دیکھا تھا جس میں کسی قسم کی مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کی باتیں تھیں۔ ٹی وی کی افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ مگر اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج کے دور کا ٹی وی رحمت سے کہیں زیادہ زحمت کاباعث رہا ہے۔ ایک رومن کی کیتھولک پادری نے تو ٹی وی کو ٹی بی کا نعم البدل بتایا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے تقریباً نوّے فی صد پروگرام توایسے ہیں جن سے بچوں کی ذہنیت بجائے تعمیر کے تخریب کی طرف مرکوز ہوتی ہے۔سچائی تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کسی بھی معاشرے کے لئے مضر ثابت ہو رہاہے۔ اس کے متعدد چینلوں پر فلمی پروگرام، غلیظ قسم کی فلمیں ،بدکاری و واہیات کہانیوں سے پرسیریل اور بے تکے اشتہارات دھڑا دھڑ دکھائے جارہے ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بچے تو بچے بڑی عمر کے لوگوں کے ذہنوں کو بھی یہ پروگرام آلودہ کررہے ہیں۔اب سے تقریباً دس سال قبل کا واقعہ ہے کہ ایک مشروبات بنانے والی کمپنی نے ایک اشتہار ایسا بنایا کہ ایک آدمی پہاڑ کی چوٹی سے کود رہا ہے اور نیچے آکر اسے اس مشروب کی بوتل حاصل ہوجاتی ہے۔ایک بچہ بھی اسی طرح سے اپنے مکان کی بالائی منزل سے کودتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اشتہار والے اس ہیرو کی طرح ہی اسے بھی اس مشروب کی بوتل ملے گی۔ مگر بدلے میں اس معصوم بچے کی جان ہی چلی جاتی ہے۔ہمارے معاشرے کی بچیوں اورخواتین پر اس کے جو سنگین اثرات پڑ رہے ہیں اس کے بارے میں ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ گھروں میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بچیاں اور خواتین نہ صرف والدین کی نافرمانی کر رہی ہیں بلکہ بہت سے اہم معاملات میں اپنی من مانی بھی کر رہی ہیں۔ ٹی وی پر اس قسم کے سیریل جن کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے، بڑی بے شرمی کے ساتھ دکھائے جارہے ہیں جن میں عورت کو نسوانی حقوق کے نام پر شوہر کے ساتھ زبان درازی و ساس سسر کے ساتھ نا فرمانی جیسی باتیں کھلے عام سکھائی جارہی ہیں۔اسی قسم کی تربیت یہ عورتیں اپنے بچوں کی بھی کرتی ہیں جس سے خاندان بجائے یک جہتی کی مثال بننے کے، منتشر ہوتے جارہے ہیں۔ٹی وی کے ان پروگراموں کا غلط اثر ماں باپ پر بھی ہو رہا ہے۔ اشتہار والی چیزیں نہ صرف خود خرید رہے ہیں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو بھی موصول کرارہے ہیں۔ اور یہیں پر ہمیں نظر آتا ہے والدین کا دیوالیہ پن اور اشتہارات دینے اور بنانے والی کمپنیوں کی کامیابی۔ اس بات کا سبھی کو علم ہے کہ عام طور سے اشتہار حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں اور ان کے جال میں پھنس کر وہ اپنا نقصان کرتے ہیں۔ان کمپنیوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ایک کروڑ کا اشتہار دیتے ہیں تو فائدہ انہیں سینکڑوں کروڑ کا ہو تا ہے۔ان حالات کی روشنی میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نہ صرف عالم دین، مفّکر،تعلیم دان و دانشور سر جوڑ کر بیٹھیں بلکہ سیاست دان اور حکومت بھی کچھ مثبت اقدام اس سلسلے میں اٹھائے۔ ٹی وی کے ان مسائل کی روز بروز بڑھتی سنگینی کو دیکھ کر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر گھر اور ہر درسگاہ میں اس کی بری چیزوں کے خلاف ایک مہم چلنی چاہیے اور بچوں کو پیار یا سختی کے ساتھ اس بات کو سمجھایا جانا چاہیے کہ ٹی وی سے اتنا ہی ناتا رکھا جائے جتنا کہ ضروری اور مفید ہے۔اس سلسلے میں ان ٹی۔وی۔ چینل چلانے والے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے جو گھٹیا قسم کے پروگرام کیبل کے ذریعے گھر گھر تک پہنچارہے ہیں ۔٭…٭…٭