نذیرحسین بھوجپوری فلموں کاناقابل فراموش فنکار

نذیرحسین بھوجپوری فلموں کاناقابل فراموش فنکار

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفرؔ


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

ہندوستان کے سابق صدر راجندر پرشاد سے ایک تقریب میں ہندی فلموں کے بے مثل کریکٹر ایکٹر نے ملاقات کی۔ یہ اداکار یو پی کے ضلع غازی پور سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں جب یہ علم ہوا کہ راجندر پرشاد کا تعلق بھی غازی پور سے ہے تو وہ ان سے ملنے کیلئے بے تاب ہوگئے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے سابق بھارتی صدر سے بھوجپوری سینما کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی۔ سابق بھارتی صدر نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں تلقین کی کہ وہ بھوجپوری زبان میں فلمیں بنائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے بھرپور تعاون کی بھی پیشکش کی۔ بعد میں ہندی فلموں کے اس کریکٹر ایکٹر نے بھوجپوری سینما کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ وہ ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ ایکٹر، ڈائریکٹر اور سکرین رائٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ اس ناقابل فراموش فنکار کا نام تھا، نذیر حسین۔لاجواب شخصیت اور متاثرکن آواز کے مالک نذیر حسین 15 مئی 1922ء کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع غازی پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریلوے گارڈ تھے۔ نذیر حسین کی پرورش لکھنو میں ہوئی۔ انہوں نے تھوڑے عرصے کیلئے برطانوی فوج میں کام کیا۔ پھر وہ سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوئے اور ان کی جماعت انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شامل ہوگئے۔ بالی وڈ میں داخلے کی ایک بڑی وجہ ان کی آئی این اے سے وابستگی تھی۔ نذیر حسین نے ہندوستان کے بے بدل ہدایتکار بمل رائے کے ساتھ مل کر فلم ’’پہلا آدمی‘‘ بنائی۔ یہ فلم آئی این اے کے تجربے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد نذیر حسین کو حریت پسند قرار دیا گیا۔ انہیںزندگی بھر کیلئے مفت ریلوے پاس دے دیا گیا۔ ان دنوں بمل رائے اور سبھاش چند بوس آئی این اے پر فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے وہ آئی این اے ارکان کی تلاش میں تھے تاکہ وہ ان کی معاونت کریں۔ نذیر حسین کی شخصیت اور خوبصورت آواز نے بمل رائے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ تاہم نذیر حسین فلموں میںکام کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ کیونکہ ان کا پس منظر فلمی نہیں تھا۔ ان کے دوستوں نے انہیں فلموں میں کام کرنے کیلئے قائل کیا۔’’پہلا آدمی‘‘ 1950ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ بمل رائے کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے۔ کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے شائقین فلم نے ان کی بہت پذیرائی کی۔ انہوں نے ان گنت سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔ وہ جذباتی مناظر کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور انہیں ’’آنسوئوں کا کنستر‘‘ کہا جاتا تھا۔جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے بھوجپوری سینما کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پہلی بھوجپوری فلم ’’گنگا میا تو ہے پیاری چادہائی بو‘‘ کی تکمیل میں نذیر حسین نے جو کردار ادا کیا اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ ان کی بھوجپوری فلم ’’بالم پردیسیا‘‘ بھوجپوری فلمی صنعت کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ نذیر حسین کی بھوجپوری زبان میں فلمیں سماجی مسائل کے گرد گھومتی تھیں۔ ان کی فلموں میں جہیز کا مسئلہ اور بے زمین کسانوں کی مشکلات اہم ترین موضوعات تھے۔ جوان لڑکی کے مجبور باپ کے کردار میں ان کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی فلموں میں ظالم زمینداروں اور سرمایہ داروں کی مکاریوں کو بے نقاب کیا۔ المیہ کردار نگاری میں ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ان کی مشہور ہندی فلموں میں ’’دو بیگھہ زمین، دیوداس، پاری نیتا، بمبئی کا بابو، گنگا جمنا، لیڈر، پرکھ، کشمیر کی کلی، انوراگ، میرے جیون ساتھی، رام اور شیام، جیول تھیف، امر اکبر انتھونی، پے انگ گیسٹ، کٹی پتنگ‘‘ اور کئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ نذیر حسین کو ہمیشہ اس بات کا قلق رہا کہ بھوجپوری سینما کی ترقی اور نشوونما دیکھنے سے پہلے ہی سابق بھارتی صدر راجندر پرشاد چل بسے۔یہاں اس حقیقت کا تذکرہ ضروری ہے کہ نذیر حسین نے سب سے زیادہ دیوآنند کے ساتھ کام کیا۔ ایک زمانے میں نذیر حسین، دیو آنند، مکرجی اور ایس ڈی برمن کا گروپ بہت مشہور تھا۔ اس ٹیم نے بڑا خوبصورت کام کیا۔ ان کی فلمیں آج کے شائقین بھی بہت پسند کرتے ہیں۔بمل رائے کی فلم ’’دو بیگھہ زمین‘‘ میں بلراج ساہنی نے لافانی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن ان کے علاوہ نروپارائے، رتن کمار اور نذیر حسین نے بھی اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کی دھاک جمادی تھی۔ رتن کمار ہندوستان کے مشہور ترین چائلڈ آرٹسٹ تھے اور ان کی فطری اداکاری نے ایک عالم کو متاثر کیا تھا۔ بعد میں رتن کمار پاکستان آ گئے تھے اور یہاں انہوں نے کچھ فلموں میں کام کیا۔ ان کی سب سے اہم فلم ’’ناگن‘‘ تھی جس میں انہوں نے نیلو کے ساتھ اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ نذیر حسین نے ’’دو بیگھہ زمین‘‘ میں اس رکشہ کھینچنے والے کا کردار ادا کیا تھا جو بلراج ساہنی کو یہ کام سکھاتا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر فلموں میں مثبت کردار ادا کیے۔ مرکزی کرداروں کی موجودگی میں کریکٹرایکٹر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانا کوئی آسان بات نہ تھی۔ یہ نذیر حسین تھے جنہوں نے اپنی زبردست صلاحیتوں کے بل بوتے پر شائقین فلم کے دلوں میں گھر کرلیا۔ بڑے بڑے ناقدین فلم ان کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے تھے۔ وہ جس فلم میں بھی ہوتے تھے اپنا نقش چھوڑ جاتے تھے۔نذیر حسین نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ وہ 1985ء میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ایسے لوگ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مسجد مہابت خان پشاور  تاریخی عظمت اور ثقافتی ورثے کا شاہکار

مسجد مہابت خان پشاور تاریخی عظمت اور ثقافتی ورثے کا شاہکار

خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور تاریخ اور ثقافت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہ شہر قدیم تہذیبوں، جنگی معرکوں اور تجارتی شاہراہوں کا چشم دید گواہ ہے۔ پشاور شہر کے قلب میں واقع مسجد مہابت خان اپنے ماضی کی داستانیں سناتی ہے۔17ویں صدی میں تعمیر کی گئی مسجد مہابت خان مغلیہ فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے اور پشاور کی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ مسجد مہابت خان کی بنیاد 1670ء کے لگ بھگ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں رکھی گئی۔ اس کا نام اس کے بانی مہابت خان کے نام پر رکھا گیا جو اُس وقت پشاور کا مغل گورنر تھا۔ مہابت خان نے شہنشاہ شاہجہاں اور اورنگزیب کے ادوار میں متعدد خدمات انجام دیں اور اپنی وفاداری اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت مشہور ہوا۔ اس مسجد کی تعمیر کا مقصد نہ صرف عبادت گاہ بنانا تھا بلکہ مغلیہ اقتدار کے عروج کو بھی ظاہر کرنا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق مسجد مہابت خان کی تعمیر میں مقامی کاریگروں کے ساتھ ساتھ وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بھی حصہ لیا۔ یہ مسجد مغلیہ سلطنت کی مذہبی رواداری اور فن تعمیر کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسجد مہابت خان مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے جس میں فارسی، ہندی، اور پختون تعمیراتی عناصر کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ بلند اور مقرنسوں (Muqarnas) سے مزین ہے جو آنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مسجد کے اندر ایک وسیع صحن ہے جس کے درمیان وضو کے لیے ایک حوض واقع ہے۔ مسجد کے تین گنبد ہیں جن میں مرکزی گنبد سب سے بڑا اور نمایاں ہے۔ گنبدوں پر سفید اور نیلے رنگ کی ٹائلوں سے بنے ہوئے پھولدار نقوش ہیںجو مغلیہ آرٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔ میناروں کی بلندی اور ان پر بنے ہوئے جیومیٹریکل ڈیزائن مسجد کو شہر کے دیگر قدیم ڈھانچوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ مسجد کا داخلی حصہ قرآنی آیات اور خطاطی سے آراستہ ہے۔ دیواروں پر پھول پتیوں اور عربی طرز کے نقوش دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ محراب اور ستونوں پر لکڑی کا نفیس کام اور پتھر پر کی گئی منبت کاری مغلیہ دور کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے۔ مسجد مہابت خان نے اپنے طویل دور میں کئی تاریخی کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ 19ویں صدی میں جب سکھ سلطنت نے پشاور پر قبضہ کیا تو اس مسجد کو بھی نقصان پہنچا۔ سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں مسجد کا کچھ حصہ عارضی طور پر فوجی استعمال میں آیا لیکن مقامی آبادی کی مضبوط وابستگی کی بدولت اس کی اصلیت برقرار رہی۔ انگریز دور میں بھی مسجد کو بحال کرنے کی کوششیں ہوئیںلیکن اصل بحالی کا کام 20ویں صدی میں پاکستان کی حکومت نے کیا۔ 2010ء کے عشرے میں مسجد کی مرمت کا کام دوبارہ شروع ہوا جس میں بین الاقوامی ماہرین نے بھی معاونت کی تاکہ اس کی تاریخی تفصیلات کو محفوظ کیا جا سکے۔ مسجد مہابت خان صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں پشاور کی ثقافتی شناخت کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ یہاں روزانہ ہزاروں نمازی جمع ہوتے ہیںجبکہ جمعۃالمبارک اور اور رمضان المبارک کے دوران یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ مسجد کے صحن میں علما کے دروس اور قرآنی محافل کا اہتمام بھی باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔ یہ مسجد سیاحوں کے لیے بھی ایک اہم مقام ہے۔ اس کی تاریخی عمارت سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ خاص طور پر مغلیہ دور کے فن پاروں میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے یہ جگہ ایک زندہ عجائب خانہ کی مانند ہے۔ وقت کے ساتھ اس مسجد کی ساخت کو قدرتی عوامل اور انسانی مداخلت سے نقصان پہنچا ہے۔ تاہم حکومت اور عالمی ورثہ کے لیے کام کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں سے اس کی بحالی کا کام جاری ہے۔ 2021ء میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے مسجد مہابت خان کے میناروں اور گنبدوں کی مرمت کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے تاکہ انہیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ مسجد مہابت خان تاریخ، فن تعمیر اور ثقافت کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر میں پوشیدہ محنت، اس کی دیواروں میں جڑی ہوئی داستانیں اور اس کے گنبدوں سے گونجتی ہوئی اذانیں اسے شہر کی روح بناتی ہیں۔ یہ مسجد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تہذیبی ورثے کی حفاظت صرف عمارتوں کو بچانے کا نام نہیں بلکہ ان میں موجود جذبات‘ عقائد اور تاریخ کو زندہ رکھنا ہے۔ امید ہے کہ آنے والی نسلیں اس تاریخی شاہکار کو اسی طرح سنبھال کر رکھیں گی جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے اسے ہم تک پہنچایا۔ 

رمضان کے پکوان: ڈیٹ ڈئیلائٹ

رمضان کے پکوان: ڈیٹ ڈئیلائٹ

اجزا:کھجوریں دو پیالی درمیان میں سے گھٹلی نکال کر گودا بنالیں، بسکٹ ایک پیکٹ،ناریل آدھی پیالی ،چینی آدھی پیالی ،فریش کریم ایک پیالی، مارجرین چارکھانے کے چمچ،(چاہیں تو بناسپتی گھی بھی استعمال کرسکتے ہیں)۔ ترکیب :سب سے پہلے ایک دیگچی میں مارجرین کو ہلکا سا گرم کریں، پھر اس میں کھجوروں کا گودا ڈال کر ہلکا سا بھون لیں۔ تاکہ اچھاسا پیسٹ بن جائے پھر شکر اور ناریل کی گری ڈال کر پانچ سے دس منٹ تک بھونیں بسکٹ کو توڑ کر چورا کرلیں پھر سب چیزوں کے ساتھ بسکٹ بھی ڈال دیں، دوتین منٹ بھون کر ایک تھالی میں ذرا سی چکنائی لگاکر کھجور اور بسٹ کے آمیزے کو پھیلا کر رکھ دیں۔ ٹھنڈا ہونے دیں فریش کریم کو خوب پھینٹیں، جب وہ گاڑھا ہوجائے تو اس کے اوپر ڈال دیں، چوکور ٹکڑے کاٹ کر پیش کریں۔ یہ ڈش چار سے چھ افراد کے لیے کافی ہے۔ ہاٹ چکن سلاد اجزاء : مرغی 4کپ (ابلی ہوئی چھوٹے چوکور ٹکڑوں میں کٹی ہوئی)،کریم آف چکن سوپ 2کپ ،مایونیز 4کپ ،سفید بٹن مشروم 1کپ (باریک کٹے ہوئے )،دھنیا ایک گڈی (باریک کٹا ہوا)،آلو کے چپس 1کپ (کچلے ہوئے )،چیڈرچیز 1کپ (کدوکش کی ہوئی)،کوکنگ آئلمایونیز بنانے کی ترکیب10عدد انڈوں کی زردی کو اچھی طرح پھینٹ لیں اس میں دوکھانے کے چمچ فرنچ مسٹرڈ اور سرکہ ایک کھانے کا چمچ ملادیں، اس میں 250گرام کوکنگ آئل تھوڑا تھوڑا کرکے شامل کریں اور پھینٹتی جائیں جب تک یہ مایونیز مکمل نہ بن جائے۔ کریم آف چکن سوپ بنانے کی ترکیب :ایک دیگچی میں کھانے کا ایک چمچہ کوکنگ آئل ڈالیں ساتھ ہی ایک چائے کا چمچ میدہ ڈال دیں اسے ہلکی آگ پر 2منٹ پکائیں پھر چولہے سے اتار کر اس میں ایک عدد مرغی کی یخنی ملادیں اور اس وقت تک پکائیں جب تک گاڑھا نہ ہوجائے۔ اب چولہے سے اتار کر اس میں تازہ کریم دو کپ ڈال دیں اور ملالیں کریم آف چکن سوپ تیار ہے۔ سلاد بنانے کی ترکیب :ایک پیالے میں مرغی کے ٹکڑے ، کریم آف چکن سوپ، مایونیز، سفید بٹن مشروم اور دھنیا باریک کٹا ہواسب ملا کر اچھی طرح سے یک جان کرلیں، ایک بیکنگ ڈش لے کر اس کو ہلکا سا چکنا کریں، اس مکسچر کو اس ڈش میں ڈالیں۔ ڈش میں آمیزے کو پھیلا کر اوپر سے پنیر اور چھڑک دیں۔ 20منٹ تک 350ڈگری یا بہت تیز گرم اوون میں بیک کریں اس سلاد کو 20منٹ بعد گرم گرم پیش کریں۔  

حکایت سعدیؒ :بردبار بادشاہ

حکایت سعدیؒ :بردبار بادشاہ

ملک شام کے ایک نیک دل بادشاہ کی عادت تھی کہ صبح صبح اپنے غلام کے ساتھ باہر نکلتا، عربوں کے رواج کے مطابق آدھا منہ ڈھک لیتا اور گلی کوچوں میں پھرتا۔ صاحبِ نظر بھی تھا اور فقرا سے محبت کرنے والا بھی، یہی دو صفتیں بادشاہ کو نیک بادشاہ بناتی ہیں۔ایک رات گشت کے دوران وہ مسجد کی طرف گیا دیکھا کہ سخت سردی میں کچھ درویش بغیر بستروں کے لیٹے ہوئے صبح کا سورج نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں جیسے گرگٹ سورج کے انتظار میں رہتا ہے۔ ایک نے کہا! دنیا نے تو ہمارے ساتھ بے انصافی کی ہے کہ ہم اس حال میں ہیں اور ظالم و متکبر لوگ کھیل کود میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر قیامت کے دن ان کو بھی ہمارے ساتھ جنت میں جانے کا حکم ہو گیا تو میں تو قبر سے ہی نہ اٹھوں گا کیونکہ جنت صرف انہی لوگوں کا حق ہے جو دنیا میں ظلم وستم سہنے والے ہیں۔ ظالموں کا جنت میں کیا کام۔ ان ظالموں سے دنیا میں ہمیں سوائے رسوائی کے کیا ملا جو جنت میں بھی ہم پر مسلط کر دیے جائیں ۔ بادشاہ نے اتنی بات سنی اور وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ سورج نکلا تو درویشوں کو بلالیا ۔ ان کی بہت عزت کی اور انعامات سے نوازا۔ بہترین لباس پہنائے، بستر دیے، الغرض بہت خوش کیا۔ ان میں سے ایک نے ڈرتے ہوئے عرض کیا! بڑے لوگ تو ان انعامات کے مستحق ہوئے ہم فقیروں میں آپ نے کون سی خوبی دیکھ لی؟ بادشاہ یہ سن کر ہنسنے لگا اور درویش سے کہا: میں متکبر اور رعب کی وجہ سے مسکینوں کو نظر انداز کرنے والا نہیں ہوں، تم لوگ بھی جنت میں ہماری مخالفت نہ کرنا، آج میں نے صلح کی ہے تو تم بھی صلح کر لینا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ بادشاہوں کو درویشوں کی خیرخواہی اور خبر گیری رکھنی چاہیے اور درویشوں کو ایسے بادشاہوں کیلئے دعا گو رہنا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک گروہ سے کوئی غفلت یا سستی ہو جائے تو درگذر سے کام لینا چاہیے۔

آج کا دن

آج کا دن

سکاٹ لینڈ ، سکول پر حملہ13 مارچ 1996ء کوسکاٹ لینڈ کے قصبے ڈنبلین میں ایک سکول پر ایک مسلح شخص نے دھاوا بو ل دیا اور 3 منٹ میں 16 بچوں کو ہلاک کر دیا۔ان بچوں میں5 اور 6 سال کی عمر کے بچے شامل تھے۔اس قتل عام کے بعد اس شخص نے جب یہ دیکھا کہ اب وہ یہاں سے بچ کر نہیں نکل سکے گا تو پکڑے جانے کے خوف سے اس نے خود کو گولی مار کر ہلاک کر لیا۔ سب سے طویل ٹنل کا افتتاح 1988ء میں آج کے دن جاپان میں دنیا کی سب سے طویل ریلوے ٹنل (سرنگ )کا افتتاح کیا گیا۔ٹنل کا کچھ حصہ سمندر کے اندر سے بھی گزرتا ہے۔ اس ٹنل کی لمبائی 53.85کلومیٹر ہے جبکہ سمندر میں سے گزرنے والا حصہ23.3کلومیٹر پر مشتمل ہے۔یہ جاپان کے دوجزیروں کوآپس میں ملاتی ہے۔ اسے دنیا کی دوسری سب سے گہری ٹنل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ترکی میں زلزلہ 1992ء میں آج کے دن ترکی کے مشرقی حصے میں 6.6شدت کا زلزلہ آیا جس میں498افراد جان کی بازی ہار گئے۔ تقریباً 2ہزار افراد زخمی ہوئے جبکہ ایک کروڑ 35لاکھ ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ترکی کا شمالی حصہ ایک فالٹ لائن پر واقع ہے ،اس لئے یہاں زلزلے آنا معمول کی بات ہے۔ اسے ترکی میں آنے والے تباہ کن زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس زلزلے کے نتیجے میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کا تعین آج تک نہیں کیا جا سکا۔ اردن : فضائی حادثہ 1979ء کو اردن کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے فلائٹ600نے اڑان بھری۔ اس فلائٹ نے دو حہ قطر سے ہوتے ہوئے مسقط پہنچنا تھا۔اس جہاز نے معمول کے مطابق پرواز شروع کی لیکن تکنیکی خرابی پیدا کے باعث یہ اپنی منزل پر پہنچنے کی بجائے دوحہ ائیرپورٹ پر حادثے کا شکار ہو گیا۔ جہاز میںکل63افراد سوار تھے جن میں جہاز کا عملہ بھی شامل تھا ۔ اس حادثے میں 41افراد لقمۂ اجل بنے جبکہ6مسافر شدید زخمی حالت میں نکالے گئے۔ 

سپارٹا جہاں ہر شہری کیلئے فوجی تربیت لازم تھی

سپارٹا جہاں ہر شہری کیلئے فوجی تربیت لازم تھی

پہلی یونانی تہذیب کا سراغ تاریخ کی کتابوں میں 2200قبل مسیح کے آس پاس بحیرہ روم کے جزیرہ کریٹ میں ملتا ہے۔ اس تہذیب کو ''مینو تہذیب‘‘ کے نام سے شہرت حاصل تھی ، جو مینو نامی ایک حکمران کے نام سے منسوب ہے۔ منوین افراد کاشتکاری اور ماہی گیری کے پیشوں سے وابستہ تھے جبکہ جن حکمرانوں کی یہ رعایا تھے ان کا شغل عالیشان محلات کی تعمیر اور شان و شوکت سے زندگی گزارنا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں اسی دور کے '' شاہ مینوس محل‘‘ نامی ایک محل کا ذکر ملتا ہے جو اپنے دور کے فن تعمیر کا ایک نادر شاہکار تھا۔ یہ تہذیب لگ بھگ سات سو سال تک جاری رہی، اس کے بعد اس تہذیب بارے تاریخ کی کتابیں خاموش ہیں۔ اس کے بعد 1500 قبل مسیح کے آس پاس ایک قدیم شہر'' میسینی‘‘ کے آثار ملتے ہیں۔ ''میسینیئن‘‘لوگ پچھلی تہذیب '' مینوئیوں‘‘ سے کئی گنا مالدار اور جنگجو ہو گزرے ہیں۔ ان کے سلاطین نے بھی نہ صرف عالیشان محلات تعمیر کرائے بلکہ ان کی قبروں سے سونے اور جواہرات کے آثار بھی ملے۔میسینئین پیدائشی جنگجو تھے اس لئے یہ ہر وقت ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے بلکہ دور دراز علاقوں میں جا کر جنگوں کیلئے بھی مشہور تھے۔ یونانی نسل نے اپنے اسلاف سے ملنے والے ورثے کو تعمیری سوچ میں ڈھالنے کا عزم کیا۔ایک مرتبہ پھر یونان میں شہری ریاستوں کا رواج عام ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ یہاں کی ریاستیں سکڑنا شروع ہوئیں اور 500قبل مسیح کے آس پاس یونان صرف دو بڑی ریاستوں سپارٹا اور ایتھنز تک محدود ہو گیا۔ایتھنز کے لوگ ترقی پسند اور جمہوری سوچ کے مالک تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سپارٹا کے لوگ فطرتاً جنگجوانہ فطرت کے مالک تھے ان کے پاس ایک تربیت یافتہ فوج اور خفیہ نیٹ ورک کا نظام تھا۔ سپارٹا شہر پیلوپونیس کے جنوبی ساحل سے لگ بھگ 38 کلومیٹر دورواقع ہے۔ سپارٹا ایک قدیم شہر تھا جسے ڈورین نسل کے لوگوں نے 1000 قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ اس شہر میں ڈورین نسل کے علاوہ دوسروں کا داخلہ ممنوع ہوا کرتا تھا۔سپارٹا کے لوگ قدامت پرست تھے لیکن اس کے باوجود بھی سپارٹا کا ہر شہری ریاست کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا جو ریاست کے ہر حکم کا پابند ہوتا تھا۔ہر شہری فوج کا حصہ تصور ہوتا تھا اور ہر شہری کو لازماً فوجی تربیت کے مرحلے سے گزرنا ہوتا تھا۔ ریاست کے ہر بچے کو سات سال کی عمر کے بعد ماوں سے جدا کر کے بیس سال کی عمر تک ریاستی تربیت گاہ میں گزارنے ہوتے تھے۔اس دوران انہیں ماہر فوجی انسٹرکٹر جنگی تربیت کے ساتھ ساتھ دوڑنا ، کشتی لڑنا ، تیر اندازی سمیت مختلف ورزشوں کے ذریعے سخت جان اور ایک اچھا سپاہی بننا سکھاتے تھے۔شادی کے بعد انہیں گھر پر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بلکہ تربیت گاہ میں رہ کر انہیں دوسروں کو تربیت دینا ہوتی تھی۔ لڑکیوں کوبھی شادی کے مرحلے تک ایسے ہی مراحل سے گزرنا ہوتا تھا۔ انہیں مستقبل کی ماؤں کی حیثیت سے بہادر ، نڈر اور سخت جان بنایا جاتا تھا تاکہ مستقبل میں یہ بہادر مائیں بن سکیں۔ سپارٹائی حکمرانوں کا یہ نظریہ تھا کہ اگر عورت بحیثیت ماں بہادر اور نڈر ہو گی تو اگلی نسل بھی بہادر ہو گی۔ 700 قبل مسیح سے 300 قبل مسیح کے دور میں سپارٹائی فوج کی تنظیم اور تربیت پوری دنیا میں عروج پر تھی۔یہاں کے سخت جان اور بہترین نشانے باز مسلح پیدل سپاہیوں کو ''ہوپلائیٹ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ یہ '' ہوپلون ‘‘ نامی مخصوص دھاتی ڈھال پہن کر میدان میں اترا کرتے تھے۔سپارٹا فوجیوں کی پہچان یہی بھاری بھر کم ڈھال ہوا کرتی تھی جسے دوران جنگ یہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے لے کر کلائی تک پہنا کرتے تھے۔ اس ڈھال کو زیادہ دیر تک اٹھائے رکھنا ایک مشکل کام ہوتا تھا۔اس لئے جنگ جیتنے کی صورت میں یہ اسے میدان میں خوشی سے اچھال کر پھینک دیا کرتے تھے اور شکست کی صورت میں اس کی لاش کو اس کے اوپر رکھ کر اس کے گھر بھجوایا جاتا تھا۔سپارٹا کے عسکری علاقوں میں اپنی ڈھال کو سنبھال کر رکھنے کا مطلب بہادری اور وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ تبھی تو روایات میں آیا ہے کہ سپارٹائی ماں اپنے گھر کے مردوں کو جنگ کیلئے روانہ کرنے سے پہلے ڈھال ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں ''اس ڈھال کی لاج رکھنا، ڈھال پہن کر ہی زندہ واپس آنا ورنہ واپسی پر اپنی لاش کو ہی اس ڈھال پر رکھوا کر لانا‘‘۔ تنظیمی ڈھانچہ : قدیم یونانی جب اس سرزمین پر آکر آباد ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے چھوٹی چھوٹی بستیاں بنائیں۔ جنہیں یہ ''پولیس‘‘ کہتے، یہ دراصل ان کی ریاستیں تھیں۔ان شہریوں کی زبان اگرچہ ایک تھی لیکن ان کے اندر سیاسی اتحاد اور نظم و نسق کا فقدان تھا جس کی وجہ سے یہ ہر وقت باہم دست و گریباں رہتی تھیں۔ یہاں کی ہر ریاست کے باشندے اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے تھے ۔سپارٹا کے حکومتی ڈھانچے میں بیک وقت دو حکمران اور پانچ نمائندے ہوتے تھے جنہیں ''ایفورز‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایفورز کا انتخاب باقاعدہ طور پر اسمبلی میں حق رائے دہی کے ذریعے کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ ایفورز اور حکمرانوں کے باہمی مشورے سے 28 ممبران پر مشتمل ایک کونسل ہوا کرتی تھی جو ریاستی امور کو نمٹانے میں مرکزی کردار ادا کرتی تھی۔ ایفورز چونکہ عوام کی طاقت کے نمائندے تصور ہوتے تھے اس لئے ریاست کے حکومتی فیصلوں میں ان کا کردار اہم ہوتا تھا۔ جب ان کی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی وہ کسی ایک ایفور کی سربراہی میں روانہ ہوتی تھی جسے مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ سپارٹا کا خاتمہ : طاقت کے نشے میں بدمست سپارٹا نے سب سے پہلے لیکونیا کو فتح کیا اس کے بعد 730 قبل مسیح میں میسنیا فتح کیا۔یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنایا جنہیں ''ہیلاٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ سپارٹا نے اپنے سب سے بڑے اور پرانے حریف ایتھنز کے ساتھ نوک جھونک جاری رکھی ہوئی تھی بالآخر404 قبل مسیح میں اس نے باقاعدہ چڑھائی کرکے ایتھنز کو شکست سے دوچار کیا۔ ایتھنز ، سپارٹا اور دیگر یونانی ریاستیں آپس میں ایک عرصہ تک دست و گریباں رہ کر اپنی طاقت تیزی سے کھوتی چلی گئیں۔سپارٹا کی قوت کچھ عرصہ قائم لیکن 379 قبل مسیح میں لیوکڑا کی لڑائی میں تھیبز سے شکست کے بعد بالکل ختم ہو گئی ، خود تھیبز بھی اپنی طاقت کھو بیٹھا اور یوں سپارٹا سمیت ایک ایک کرکے یونانی ریاستوں کا شیرازہ بکھر گیا۔بعد ازاں 338قبل مسیح سکندر اعظم کا باپ اور مقدونیہ کا بادشاہ فلپ بچے کھچے یونان پر قابض ہو گیا۔       

سوء ادب:واپسی

سوء ادب:واپسی

ایک سیٹھ کے ہاں ڈاکا پڑا ، جب انہیں گھر سے کچھ نہ ملا تو انہوں نے اس کی موٹی بیوی کو اٹھا کر گاڑی میں لادا اوریہ کہہ کر چلے گئے کہ اگر کل شام تک دو لاکھ روپے ادا نہ کیے گئے تو ہم تمہاری بیوی کو واپس چھوڑ جائیں گے۔پندہ ہرن دی چوکڑییہ ہمارے بہت عزیز دوست ، پنجابی اور اردو کے نام ور شاعر عامر سہیل کی صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب ہے جسے پرنٹ میڈیا پبلیکیشنز رائل سنٹر، 12 ایبٹ روڈ نے شائع کیا ہے۔''چڑھاوا‘‘ کے نام سے انتساب ہے جو شفقت اللہ مشتاق (سیکرٹری ٹیکسز ریوینیو، ڈاکٹر ہارون اشرف ، پروفیسر افضل اعوان ) (ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز اور پروفیسر سید اسد عباس زیدی کے نام ہے ) ۔پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے ساتھ عطاالحق قاسمی کی رائے درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے : ''عامر سہیل نال تعلق ہون دے ہور کئی سارے کارناں چوں اک وڈاکارن اوہدی سوہنی تے دلاں چے نقش ہو جان والی شاعری ہے۔ میں جدوں وی اوہنوں پڑھیایاں سُنیا اوہدیاں نظماں تے غزلاں دے شعراں نے مینوں سرشار کر دتا اے۔ عامر سہیل اک وڈا شاعر ہے، اوہدیاں غزلاں دے شعر باغاں چے کھڑے سجرے پھلاں طراں دور دور تک مہکاں ماردے وکھالی دیندے نیں۔ مجتیاں دے خوبصورت رنگاں چے رنگیاں اوہدایاں نظماں چے راتاں دے جگراتے عمراں دے اُچے نیویں پندھ صاف صاف وکھالی دیندے نیں۔ اردو شاعری وچ پاکستان دے گنتی دے وڈے شاعراں چے اپنی تھاں بنان والے عامر سہیل دے اندر دا درویش شاعر اوہدی ایس پنجابی شاعری دی کتاب ''پندھ ہرن دی جوکڑی‘‘ چے چڑھدے سورج دیاں لشکاں وانگر نظر آندا ہے۔ ایہدے چے کوئی دوجی رائے نہیں کہ عامر سہیل اک مہان شاعر ہے تے اوہدی ایہ کتاب پنجابی ادب چے ہمیش یاد رکھی جاوے گی۔اس کے علاوہ بھارتی پنجاب سے امرت پال سنگھ شیدا کی رائے ہے جو اندرون پسِ سرورق درج کی گئی ہے۔ دیباچہ صغیر تبسم نے لکھا ہے ۔نظموں کی کل تعداد 79 ہے تزئین و تریب اور ٹائٹل نسیم گلفام نے بنایا ہے جبکہ کتاب کی قیمت 600 روپے ہے ۔ اردو شاعری میں دھومیں مچانے کے بعد پروفیسر عامر سہیل کا یہ پہلا پنجابی مجموعہ ہے جس نے ادبی ہلکوں میں خاصی ہل چل پیدا کر رکھی ہے ۔اور اب آخر میں اسی مجموعہ میں سے یہ نظم !نظم ننکانہ صاحب جسم دا دوجا نام فقیری کیہ لالچ ، کیہ کھیڈ لانگھا جانے ، نانک جانے رت دے سو سو شیڈکنج کجل دی دھار گواچی روندے روز بلیڈ رُوحاں وچ سرطان اساڈے بُو ہے نال پریڈآج کا قطعہرے ہنیرے اُگ پئے اکھاں دے اندر ، ظفرکْھلّی گنڈھ گیان دی آئی گل اخیر تے