نذیرحسین بھوجپوری فلموں کاناقابل فراموش فنکار

اسپیشل فیچر
ہندوستان کے سابق صدر راجندر پرشاد سے ایک تقریب میں ہندی فلموں کے بے مثل کریکٹر ایکٹر نے ملاقات کی۔ یہ اداکار یو پی کے ضلع غازی پور سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں جب یہ علم ہوا کہ راجندر پرشاد کا تعلق بھی غازی پور سے ہے تو وہ ان سے ملنے کیلئے بے تاب ہوگئے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے سابق بھارتی صدر سے بھوجپوری سینما کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی۔ سابق بھارتی صدر نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں تلقین کی کہ وہ بھوجپوری زبان میں فلمیں بنائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے بھرپور تعاون کی بھی پیشکش کی۔ بعد میں ہندی فلموں کے اس کریکٹر ایکٹر نے بھوجپوری سینما کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ وہ ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ ایکٹر، ڈائریکٹر اور سکرین رائٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ اس ناقابل فراموش فنکار کا نام تھا، نذیر حسین۔لاجواب شخصیت اور متاثرکن آواز کے مالک نذیر حسین 15 مئی 1922ء کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع غازی پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریلوے گارڈ تھے۔ نذیر حسین کی پرورش لکھنو میں ہوئی۔ انہوں نے تھوڑے عرصے کیلئے برطانوی فوج میں کام کیا۔ پھر وہ سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوئے اور ان کی جماعت انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شامل ہوگئے۔ بالی وڈ میں داخلے کی ایک بڑی وجہ ان کی آئی این اے سے وابستگی تھی۔ نذیر حسین نے ہندوستان کے بے بدل ہدایتکار بمل رائے کے ساتھ مل کر فلم ’’پہلا آدمی‘‘ بنائی۔ یہ فلم آئی این اے کے تجربے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد نذیر حسین کو حریت پسند قرار دیا گیا۔ انہیںزندگی بھر کیلئے مفت ریلوے پاس دے دیا گیا۔ ان دنوں بمل رائے اور سبھاش چند بوس آئی این اے پر فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے وہ آئی این اے ارکان کی تلاش میں تھے تاکہ وہ ان کی معاونت کریں۔ نذیر حسین کی شخصیت اور خوبصورت آواز نے بمل رائے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ تاہم نذیر حسین فلموں میںکام کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ کیونکہ ان کا پس منظر فلمی نہیں تھا۔ ان کے دوستوں نے انہیں فلموں میں کام کرنے کیلئے قائل کیا۔’’پہلا آدمی‘‘ 1950ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ بمل رائے کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے۔ کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے شائقین فلم نے ان کی بہت پذیرائی کی۔ انہوں نے ان گنت سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔ وہ جذباتی مناظر کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور انہیں ’’آنسوئوں کا کنستر‘‘ کہا جاتا تھا۔جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے بھوجپوری سینما کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پہلی بھوجپوری فلم ’’گنگا میا تو ہے پیاری چادہائی بو‘‘ کی تکمیل میں نذیر حسین نے جو کردار ادا کیا اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ ان کی بھوجپوری فلم ’’بالم پردیسیا‘‘ بھوجپوری فلمی صنعت کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ نذیر حسین کی بھوجپوری زبان میں فلمیں سماجی مسائل کے گرد گھومتی تھیں۔ ان کی فلموں میں جہیز کا مسئلہ اور بے زمین کسانوں کی مشکلات اہم ترین موضوعات تھے۔ جوان لڑکی کے مجبور باپ کے کردار میں ان کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی فلموں میں ظالم زمینداروں اور سرمایہ داروں کی مکاریوں کو بے نقاب کیا۔ المیہ کردار نگاری میں ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ان کی مشہور ہندی فلموں میں ’’دو بیگھہ زمین، دیوداس، پاری نیتا، بمبئی کا بابو، گنگا جمنا، لیڈر، پرکھ، کشمیر کی کلی، انوراگ، میرے جیون ساتھی، رام اور شیام، جیول تھیف، امر اکبر انتھونی، پے انگ گیسٹ، کٹی پتنگ‘‘ اور کئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ نذیر حسین کو ہمیشہ اس بات کا قلق رہا کہ بھوجپوری سینما کی ترقی اور نشوونما دیکھنے سے پہلے ہی سابق بھارتی صدر راجندر پرشاد چل بسے۔یہاں اس حقیقت کا تذکرہ ضروری ہے کہ نذیر حسین نے سب سے زیادہ دیوآنند کے ساتھ کام کیا۔ ایک زمانے میں نذیر حسین، دیو آنند، مکرجی اور ایس ڈی برمن کا گروپ بہت مشہور تھا۔ اس ٹیم نے بڑا خوبصورت کام کیا۔ ان کی فلمیں آج کے شائقین بھی بہت پسند کرتے ہیں۔بمل رائے کی فلم ’’دو بیگھہ زمین‘‘ میں بلراج ساہنی نے لافانی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن ان کے علاوہ نروپارائے، رتن کمار اور نذیر حسین نے بھی اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کی دھاک جمادی تھی۔ رتن کمار ہندوستان کے مشہور ترین چائلڈ آرٹسٹ تھے اور ان کی فطری اداکاری نے ایک عالم کو متاثر کیا تھا۔ بعد میں رتن کمار پاکستان آ گئے تھے اور یہاں انہوں نے کچھ فلموں میں کام کیا۔ ان کی سب سے اہم فلم ’’ناگن‘‘ تھی جس میں انہوں نے نیلو کے ساتھ اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ نذیر حسین نے ’’دو بیگھہ زمین‘‘ میں اس رکشہ کھینچنے والے کا کردار ادا کیا تھا جو بلراج ساہنی کو یہ کام سکھاتا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر فلموں میں مثبت کردار ادا کیے۔ مرکزی کرداروں کی موجودگی میں کریکٹرایکٹر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانا کوئی آسان بات نہ تھی۔ یہ نذیر حسین تھے جنہوں نے اپنی زبردست صلاحیتوں کے بل بوتے پر شائقین فلم کے دلوں میں گھر کرلیا۔ بڑے بڑے ناقدین فلم ان کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے تھے۔ وہ جس فلم میں بھی ہوتے تھے اپنا نقش چھوڑ جاتے تھے۔نذیر حسین نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ وہ 1985ء میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ایسے لوگ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔٭…٭…٭