تمباکو نوشی… جلد موت کی ایک اہم وجہ
اسپیشل فیچر
ایک جدید تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تمباکو نوش افراد میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر جلد مر جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے یہ جرمن سوشل سکیورٹی سسٹم کے لیے فائدہ مند ہے۔تمباکو نوشی کی وجہ سے صحت کے شعبے میں اضافی اخراجات اور متعدد تمباکو نوش افراد کے 65 برس تک کام نہ کرنے کے باوجود درحقیقت تمباکو نوش افراد جرمن سوشل سکیورٹی سسٹم کے لیے ’مفید‘ہے۔جرمنی کے کارلسروئے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کے آئی ٹی) کا کہنا ہے کہ چوں کہ اسموکرز مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس لیے ایسے افراد میں سے بہت سے نان اسموکرز افراد کی طرح زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکتے ۔ کے آئی ٹی کی فیکلٹی کے دو ممبران نے دعویٰ کیا ہے کہ اسموکرز، سگریٹ نوشی نہ کرنے والے افراد کی اوسط عمر کے مقابلے میں پانچ سال قبل ہی مر جاتے ہیں۔جرمنی کے سوشل ویلفیئر نظام کے تحت بزرگ افراد کے لیے پنشن کی ایک بڑی رقم مختص ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان بزرگ افراد کو ایسی کئی مراعات بھی حاصل ہیں جن پر ریاست لاکھوں یورو خرچ کرتی ہے۔کے آئی ٹی کے ڈپارٹمنٹ آف پبلک فنانس اینڈ پبلک مینجمنٹ کے سربراہ بیرتھ ہولڈ وَیگر کے مطابق، ’’ہم نے جرمنی میں اسموکنگ پر اٹھنے والی مجموعی لاگت کا پہلی مرتبہ تجزیہ کیا ہے۔‘‘ اس لاگت میں ایسے متغیرات کو اہمیت دی گئی ہے، جو معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس میں وہ رقوم شامل نہیں جو اسموکرز یا تمباکو ساز کمپنیاں خرچ کرتی ہیں۔ان دونوں محققین نے اپنے اس مطالعے کے لیے ایک ریاضیاتی ماڈل تیار کیا، جس کے تحت جرمنی میں اسموکرز اور نان اسموکرز سے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ یوں انہوں نے دیکھا کہ اگرچہ تمباکو نوشی کی وجہ سے صحت عامہ پر بوجھ بڑھتا ہے لیکن ساتھ ہی تمباکو نوش افراد کے اوسط عمر تک پہنچنے سے قبل ہی مر جانے کے امکانات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔اس مطالعے کے مطابق مثال کے طور پر ایک تمباکو نوش پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہو کر 70 برس کی عمر میں مر جاتا ہے تو صحت عامہ پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوں گے، اس کے مقابلے میں کہ وہ شخص کلون کیسنر میں مبتلا ہو کر 80 برس تک زندہ رہے۔جرمنی کے نیشنل ایسوسی ایشن آف ہیلتھ انشورنس فنڈز نے ’کے آئی ٹی‘ کے اس مطالے کو یکسر رد کر دیا ہے۔ اس ایسوسی ایشن کے ایک ترجمان نے اس مطالعے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے، ’’نکوٹین کی وجہ سے لوگوں کا جلد مر جانا ایک سانحہ ہے۔ اس ناگہانی ہلاکت کو اقتصادی فائدہ کے تناظر میں دیکھنا پریشان کن ہے۔‘‘