اقدامات نہ کئے تو ستمبر، اکتوبر میں گندم بحران کا پھر خطرہ
تجزیے
پنجاب میں فلورملزکو گندم کا اجراجلد ہوا،سمگلنگ پر قابونہیں پایا جاسکاذخیرہ اندوزی کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے ،پس پردہ افراد کو دیکھا جائے
(تجزیہ: سلمان غنی) گندم کی فصل کی آمد کے چند ہفتے بعد ہی گندم اور آٹے کے بحران کے بارے میں خبریں آنا شروع ہو چکی ہیں،پنجاب نے گندم کے حوالہ سے اپنا ٹارگٹ حاصل کیا ہے لیکن آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث بحران کا ماحول پیدا ہوا، حکومت کا موقف ہے کہ اب 20کلو آٹے کا تھیلا 860 روپے میں مارکیٹ میں موجود ہے ، حکومت کی جانب سے سستے آٹے کی فراہمی کیلئے فلور ملز کو روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں ٹن گندم فراہم کی جا رہی ہے ،پنجاب کے مقابلہ میں پختوانخوا اور سندھ میں آٹے کی قیمتیں زیادہ ہیں لہٰذا گندم کی سمگلنگ کا سلسلہ شروع ہے ۔ سندھ نے اس ہفتے گندم خرید کر ذخیرہ کی ہے مگر ابھی وہ گندم کو مارکیٹ میں لانے سے گریزاں ہے جس کی وجہ سے وفاق کے تحفظات ہیں اور وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت گندم مارکیٹ میں لائے تاکہ گندم اور آٹے کا بحران پیدا نہ ہو ،ادھر پنجاب سے بھی گندم کی سمگلنگ جاری ہے ، جو گندم پنجاب حکومت ستمبر، اکتوبر میں فلور ملز کو فراہم کرتی تھی وہ جولائی، اگست سے دینا شروع کردی گئی ہے ،اس صورتحال میں منافع خور اور ذخیرہ اندوز کام دکھا رہے ہیں لہٰذا پنجاب سے کم قیمت آٹا کی دوسرے صوبوں میں سمگلنگ شروع ہو چکی ہے ، اس بنا پر وہ بحران جو ماضی میں اکتوبر، نومبر میں آتا تھا، اب یہ جولائی، اگست میں ہی شروع ہوگیا ہے ، مذکورہ عمل پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بروقت اقدامات نہ ہوئے تو ستمبر، اکتوبر میں گندم کا بحران طوفان بن سکتاہے ۔ حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس عمل میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاست کرنے کے بجائے فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں، سارا بوجھ اگر پنجاب پر ڈال دیا گیا تو سب سے زیادہ گندم فراہم کرنیوالا خود بحرانی کیفیت سے دوچار ہو سکتا ہے لہٰذا صوبوں کو اپنا اپنا وزن خود اٹھانا چاہیے جبکہ بوقت ضرورت پنجاب سے گندم کو سپلائی یقینی بنانے کا بندوبست کیا جانا چاہیے ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں گندم کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف احکامات کے بجائے اقدامات ہونے چاہئیں ، اس حوالہ سے انتظامی مشینری کو جوابدہ بنایا جائے ورنہ چینی بحران کی طرح آٹا اور گندم کا بحران حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنے گا۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں یہ سارا مسئلہ ڈائریکٹر فوڈ کی سطح پر حل ہو جاتا تھا جس کیلئے آج وزیراعظم کا آفس سرگرم ہے لہٰذا یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سارے عمل کے پیچھے کون ہے جس نے حکومت کو پریشان کر رکھا ہے ۔