مودی سرکارکی دہشتگرد پالیسیاں بھارت کیلئے بھی خطرہ
تجزیے
ریاستی انتہاپسندی کے باعث دیگر مذاہب کے لوگ بقا کیلئے ہتھیار اٹھارہےحکومتیں مسائل کا سیاسی حل نکالنے پر تیار ہوں تو خطہ پر امن ہوسکتا ہے
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو نہایت اہمیت کا حامل اور حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے خطہ میں دہشت گردی کے رجحانات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت میں موجود دہشت گرد تمام پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ ہیں۔ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی ہوتی ہے اور کالعدم تحریک طالبان اور جماعت الاحرار پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کو دو نکات کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ایک تو افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی موجودگی اور دوسرا بھارت کی مختلف ریاستوں میں داعش کی سرگرمیاں لیکن سب سے پہلے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا جس میں کہا گیا کہ بھارت میں موجود دہشت گردی عناصر پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ ہیں کیونکہ کوئی بھی ہمسایہ ملک ایسا نہیں جس نے بھارت پر اپنے اندرونی استحکام کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ نہ کہا ہو کہ بھارت سرکار کی پالیسیاں اور اقدامات خود ان کیلئے خطرہ کا باعث ہیں اور اس کی بڑی وجہ وہاں کی انتہا پسند اور شدت پسند سرکار ہے جس نے اب ریاستی اداروں کو بھی اپنی پالیسی کا تابع بناتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل پر لگا رکھا ہے جس کی ایک بڑی مثال ہندوستان میں اقلیتوں پر زندگی اجیرن کرنے میں ان کا کردار ہے ۔
ہندوستان کے اندر شائع ہونے والی رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ انتہا پسندی کے ریاستی مظاہرے ملک میں دہشت گردی کا باعث بن سکتے ہیں اور اب یہ سلسلہ ہندوؤں تک محدودنہیں رہا اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنی بقا اور سلامتی کیلئے ہتھیار اٹھا رہے ہیں اور یہ سلسلہ آنے والے وقت میں ہندوستان کی وحدت کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے ۔ جہاں تک افغان سرزمین پر دہشت گردی کا سوال ہے تو یہ سرزمین سالہا سال سے اس آگ میں جل رہی ہے اور اس کی تپش نے پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے لہٰذا پاکستان نے اپنے علاقائی کردار اور معاشی مفادات کے تحت افغانستان میں امن کو اپنے استحکام کے ساتھ مشروط کیا اور اس حوالہ سے کوشش شروع کی اور بالآخر عالمی طاقتیں جو کبھی پاکستان کو اس حوالہ سے موردالزام ٹھہرا رہی تھیں انہیں پاکستان کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار ڈھکا چھپا نہیں جبکہ افغان سرزمین کا دہشت گردی کیلئے استعمال کے واضح شواہد موجود ہیں کہ بھارت اس میں بنیادی کردار ادا کرتا آیا ہے ۔
اس مقصد کیلئے را اور این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ تھا۔ ٹی ٹی پی اور پاکستان میں کالعدم تنظیموں کو بھی اس کی آشیرباد حاصل تھی۔ عالمی ادارہ نے اپنی رپورٹ میں بھارت اور افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کے ہاتھوں ہمسایہ ممالک میں خطرات اور خدشات کی بات کی ہے تو اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے ۔ خطہ میں امن تبھی ممکن ہوگا جب ریاستی سطح پر اس مائنڈسیٹ کا علاج کیا جائے جو انتہا پسندی اور شدت پسندی کو بروئے کار لا کر ریاستی اداروں کو دہشت گردی پر اکساتا ہے اور خصوصاً خطہ کو درپیش سلگتے مسائل خصوصاً کشمیر جیسے ایشو کے حل کیلئے عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ کسی بھی بے بس نہتی قوم کے خلاف طاقت اور قوت کا استعمال ردعمل کا باعث بنتا ہے ۔ اگر حکومتیں خود کو انتہا پسندی اور شدت پسندی سے الگ کر لیں اور مسائل کا سیاسی حل نکالنے پر تیار ہوں تو خطے کو دہشت گردی سے پاک اور پر امن کیا جا سکتا ہے ۔