بڑی تحریک کیلئے فضل الرحمن کے سوا کوئی سنجیدہ نہیں
تجزیے
پاکستان میں کبھی تحریک کے نتیجے میں کسی وزیر اعظم نے استعفیٰ نہیں دیاحکومت اپوزیشن سے ڈیڈ لاک توڑے ،چڑھائی سے دونوں کو نقصان ہوگا
لاہور اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنتا نظر آ رہا ہے ، اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں کے سربراہان کی ملاقاتوں اور مشاورت کے عمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ حکومت کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں ، وہ اب اس سے نجات میں ہی قوم و ملک کا مفاد سمجھتے ہیں، اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف کسی تحریک یا جدوجہد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے وہ آپس میں کتنی مخلص ہیں۔ کیا ان کا مطمع نظر صرف وزیراعظم عمران خان سے نجات ہے یا وہ ان ہاؤس تبدیلی کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ زمینی اور سیاسی حقائق یہی ہیں کہ حکومت عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔
گورننس کا خواب حقیقت نہیں بنا۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر دباؤ ان کا سیاسی حق ہے اور سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف مختلف نکات پر اکٹھی ہوتی رہی ہیں لیکن کسی بھی تحریک کے نتیجہ میں کسی وزیراعظم نے استعفیٰ نہیں دیا۔ جہاں تک عوامی مسائل کا سوال ہے تو اب تک تو اپوزیشن اور بڑی جماعتوں نے عوام کے بڑے مسائل خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کو بڑا ایشو نہیں بنایا اور ان کا ردعمل اور احتجاج محض ٹویٹس اور اخباری بیانات تک محدود رہا۔ فی الحال کسی بڑی احتجاجی تحریک کے حوالے سے سوائے مولانا فضل الرحمن کے اور کوئی سنجیدہ نہیں۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف کسی بڑی مہم جوئی کے خواہاں نہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا جارحانہ انداز دراصل مستقبل کی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے اور وہ اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایشوز کی بنیاد پر محاذ گرم رکھنے کے خواہاں ہیں مگر وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ اپوزیشن کی کسی تحریک یا احتجاج کے نتیجہ میں گیم ہی ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور ویسے بھی پیپلز پارٹی اس سسٹم میں سندھ حکومت ہونے کے باعث سٹیک ہولڈر بھی ہے ۔اپوزیشن کی تیاریوں کو مذاق قرار دینے والی حکومت کو اس عمل کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا اور اپوزیشن سے ڈیڈ لاک توڑنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہوتی ہے ۔ آج حکومت جو بات ماننے سے انکاری ہے ،ہو سکتا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں وہ اس کیلئے تیار ہو،لہٰذا اس مرحلہ پر جب عوامی سطح پر مایوسی، بے چینی پائی جا رہی ہے حکومت اور اپوزیشن کوسیاسی معاملات کا حل مل جل کر نکالنا چاہیے ۔ ایک دوسرے پر چڑھائی کا عمل دونوں کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔