سیاست میں بلاول کی کامیابی کافیصلہ زرداری کا کردار کریگا
تجزیے
اندرون سندھ گورننس کا بحران بلاول کیلئے موقع بھی ہے اور آزمائش بھیپارلیمنٹ میں تقریروں کے بجائے گورننس اور معیشت کا متبادل پلان دینا ہوگا
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اہم ایشوز پر سیاسی محاذ پر گرجتے برستے نظر آ رہے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ وہ کوئی سیاسی سرگرمی نہ کرتے ہوں اور میڈیا کے ذریعے اہم قومی ایشوز پر اظہار خیال کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوں، جبکہ دوسری جانب سندھ حکومت پیپلز پارٹی کے پاس ہے مگر طویل عرصہ سے سندھ میں برسراقتدار رہنے کے باوجود کیا پیپلز پارٹی سندھ میں ترقی و خوشحالی کے عمل، گورننس اور انصاف کے میدان میں ڈلیور کر پائی، بہت سے ایسے نکات ہیں جن پر پیپلزپارٹی جیسی قومی جماعت کے بارے میں جاننا ضروری ہے ، اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کون سی ایسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعت صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کو ملنے والی زبردست پذیرائی کے بعد کون سی وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر پنجاب میں اس نے سیاسی و عوامی محاذ پر بہت کچھ کھویا اور کیا اب وہ یہاں اپنی پوزیشن بحال کر پائے گی۔
بلاول کی سیاست پرجوش بھی ہے اور جرأتمندانہ بھی ، مگر ان کے مستقبل میں کامیابی کا فیصلہ پیپلز پارٹی اور اقتدار کے ایوانوں میں آصف علی زرداری کا کردار طے کرے گا، موجودہ حکومت تمام بحرانوں کے ساتھ اصل نقصان جمہوری نظام کا کر رہی ہے ،پارلیمنٹ کا کوئی بڑا کردار نہ ہونا، فیصلہ کن عہدوں پر غیرمنتخب ٹیکنو کریٹس کا براجمان ہونا، جمہوری اقدار خصوصاً آزادی اظہار رائے پر سمجھوتا اور سب سے بڑھ کر اقتدار اور اختیار کی مرکزیت جس سے جمہوری نظام کی کھلے عام نفی ہو رہی ہے ، اس سارے منظر نامے پر بلاول متحرک ہے تو صرف پریس بریفنگز یا ٹویٹ بیانات کی حد تک، مراد علی شاہ کی وزارت اعلیٰ میں پیپلز پارٹی یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہی ہے کہ اب قائم علی شاہ کا دور عملاً ختم ہو چکا ہے ،مگر دہائیوں کی بری طرز حکمرانی نے انہیں بہت پریشان کر رکھا ہے ،
اندرون سندھ گورننس کا یہ بحران بلاول کیلئے موقع بھی ہے اور آزمائش بھی،بلاول نے وفاق کی سیاست کرنی ہے اور پنجاب میں جگہ پھر سے حاصل کرنی ہے تو پھر انہیں نئے پاکستان سے پہلے نیا سندھ ضرور بنانا ہوگا، اس کیلئے رائے عامہ کے میدان میں آصف علی زرداری اور ان کے سیاسی یاروں کو بھی نظر سے غائب کرنا ہوگا،دوسرا اہم کام انہیں حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے پارلیمنٹ میں تقریروں کے بجائے گورننس اور معیشت کا متبادل پلان دینا ہوگا، ملک میں سیاسی اور معاشی بحران ہے اور لوگ عمران خان کی حکومت سے بہتری کی توقع چھوڑ چکے ہیں اس لیے ایک زبردست عوامی تحریک برپا کرنی ہوگی،اس سے تین کام ہوں گے ، پہلے مرحلے میں حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور شاید معاملات اس دباؤ کے نتیجے میں کچھ بہتری کی طرف چلے جائیں ، یوں لوگوں کا سسٹم پر کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا کیونکہ لوگ سوچیں گے کہ حکومت ناکام ہو رہی تھی تو اپوزیشن کے دباؤ پر اصلاح و احوال بھی ہوئی،یوں جمہوریت مضبوط ہوگی۔
دوسرے مرحلے میں بلاول کی قومی سیاست کی راہ ہموار ہوگی اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کو بھٹو صاحب کے زمانے والی پذیرائی نہیں تو کم از کم خاطر خواہ عوامی تائید ضرور مل سکتی ہے ،پنجاب نواز لیگ کا سیاسی گڑھ ہے اور اب اس میں تحریک انصاف بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھا چکی ہے مگر عمران خان کی حکومت اپنی کارکردگی سے اس حمایت سے محروم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس منظر نامے میں بلاول سندھ میں حکمرانی کا بہتر ماڈل متعارف کرانے میں کامیاب رہتے ہیں تو پھر پنجاب سے بھی پیپلز پارٹی کچھ نہ کچھ تائید ضرور حاصل کر لے گی اور یہی ایک زبردست آغاز ہو سکتا ہے ، کیا بلاول اس راستے پر اپنے قدم بڑھائیں گے ؟ اس کا فیصلہ بلاول بھٹو کی طرف سے اس سیاسی بحران میں ضرور آنا چاہیے ۔