مقامی حکومتوں کا سسٹم زیادہ تر ڈکٹیٹرشپ میں پلا بڑھا
تجزیے
جمہوری حکومتوں اور اسمبلیوں کا ان اداروں سے تعلق محض سوتن کا رہا کراچی کی صورتحال پر نعمت اﷲ، فاروق ستار کے ادوار کو یاد کیا جاتا ہے
شدید بارشوں کے عمل کے نتیجہ میں ملک بھر کے اہم شہروں خصوصاً کراچی میں پیدا شدہ صورتحال اور تباہی و بربادی کے عمل نے ملک بھر میں مقامی حکومتوں کے موثر فعال اور مضبوط سسٹم کی ضرورت و اہمیت کو اور اجاگر کیا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر واقعتاً شہری حکومتیں اپنے اصل مقاصد کے حوالے سے منظم اور سرگرم عمل ہوتیں تو نہ تو نالے بند ہوتے اور نہ ہی نالوں پر قائم کی جانے والی جھونپڑیاں اور مکان تباہ و برباد ہوتے ۔ بارشوں کے نتیجہ میں پیدا شدہ حالات و واقعات اور تباہی کے عمل کے حوالے سے یہ تاثر تو عام ہوا ہے کہ یہ کام اور ذمہ داری نہ تو وفاقی حکومت ادا کر سکتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں اس سارے عمل کو کنٹرول کرنے کا باعث ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ملک بھر میں دیگر اداروں کو اس کے سدباب کی ذمہ داری مل سکتی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کا سسٹم زیادہ تر ڈکٹیٹرشپ میں پلا بڑھا اور اس کے انتخابات ممکن ہوئے جبکہ جمہوری حکومتوں اور اسمبلیوں کا ان اداروں سے تعلق محض سوتن کا رہا ہے ۔کراچی جیسے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں حالیہ بارشوں سے پیدا شدہ صورتحال نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مقامی حکومتیں موجود ہوں اور بے اختیار ہوں تو اسے مقامی حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج بھی کراچی کے عوام کراچی میں پیدا شدہ صورتحال پر نعمت اﷲ خان، عبدالستار افغانی اور فاروق ستار کے ادوار کو یاد کرتے نظر آتے ہیں مگر آج کی کراچی کی حکومت صرف نام کی حد تک ہے مگر وہ ہروقت اختیارات اور فنڈز کی عدم فراہمی کا رونا روتی نظر آتی ہے اور اس بنیاد پر وہ خود کو جوابدہ نہیں سمجھتی اور حالیہ بارشوں کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوا ہے کہ مقامی حکومتوں کے سسٹم کو فعال اور مضبوط بنائے بغیر ان مسائل کا حل ممکن نہیں اور یہ ذمہ داریاں نہ تو وفاق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں یا دیگر ادارے ، اس حوالے سے اٹھارویں ترمیم کا جائزہ لیا جائے تو اٹھارویں ترمیم میں طے پایا تھا کہ وفاق فنڈز کی فراہمی صوبوں کو اور صوبے آگے اضلاع کو منتقل کریں گے مگر عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سیاسی حکومتوں میں فنڈز کی فراہمی صوبوں کو تو کی گئی مگر صوبوں کے آگے فنڈز اضلاع میں فراہم نہیں کئے جس سے ترقیاتی عمل اور خصوصاً صحت و صفائی کا نظام عمل معطل ہو کر رہ گیا اور اسی بنیاد پر اب اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی کے حوالہ سے آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں ۔اگر اسلام آباد میں بیٹھ کر صوبوں کو نہیں چلایا جا سکتا تو پھر کراچی میں بیٹھ کر سندھ ،لاہورمیں بیٹھ کر پنجاب ، کوئٹہ میں بیٹھ کر بلوچستان اور پشاور میں بیٹھ کر پختوانخوا کو کیسے چلایا جا سکتا ہے لہٰذا یہ سارا عمل تب ہی ممکن ہوگا جب گورننس یقینی بنائی جائے گی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جن ایشوز پر ہمارے حکمران اور سیاستدان اصولاً اتفاق کرتے نظر آتے ہیں مگر عملاً وہ ان پر پیش رفت سے گریزاں نظر آتے ہیں۔دنیا بھر پر نظر دوڑا کر دیکھیں تو نیویارک، پیرس، برطانیہ،ایران اور ترکی جیسے کئی ممالک میں مسند اقتدار پر پہنچنے والے اکثر حکمران کسی نہ کسی سطح پر مقامی اور شہری حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور انہوں نے بنیادی جمہوریت کے ان اداروں کے ذریعے ہی تجربہ حاصل کر کے ملکی سطح پر کامیاب سسٹم چلایا ۔