قومی اسمبلی میں حساس معاملات پر بھی سیاست کا غلبہ
تجزیے
پاکستان نے کلبھوشن کو قونصلر رسائی دی بھارت نے سنجیدگی ظاہر نہیں کی بھارت چاہتا ہے پاکستان میں ہونے والے فیصلہ پر پیش رفت رک جائے
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے مسئلہ پر قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ہنگامہ آرائی کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اہم اور حساس ایشو پر نہ تو حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لینےکو تیار ہے اور نہ ہی اپوزیشن حکومت کیلئے کسی قسم کی رعایت کا حوصلہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ وزارت قانون کی جانب سے کلبھوشن یادیو کی اپیل سے متعلق آرڈیننس ایوان میں پیش ہوا تو اپوزیشن کا پارہ ہائی ہو گیا ۔ ملکی مفادات جیسے اہم اور حساس ایشوز پر بھی سیاست کا غلبہ ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے وہ تمام باتیں ہو رہی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ آرڈیننس کی ضرورت کیوں آئی، بھارت کلبھوشن یادیو کے ایشو پر دلچسپی کیوں نہیں دکھا رہا اور یہ کہ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے مرتکب بھارتی جاسوس کی سزا پر عمل ہو پائے گا؟ جہاں تک کلبھوشن یادیو کو اپیل کے حق کا سوال ہے تو یہ حق انہیں عالمی عدالت انصاف نے دیا ہے ۔
پاکستان نے اس حوالے سے جنیوا کنونشن کی قرارداد اور انسانی بنیادوں پر قونصلر رسائی کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے سہولت فراہم کی مگر بھارت کی جانب سے اس حوالے سے سنجیدگی ظاہر نہیں کی جا رہی، ایک ہفتہ قبل دی جانے والی دوسری مرتبہ قونصل رسائی پر بھارتی سفارتکار اس حوالے سے دلچسپی نہیں رکھتے اور چاہتے ہیں کہ ایسی کوئی صورتحال بنے جسے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی فورم پر استعمال کیا جا سکے لہٰذا پاکستان نے ایسی کسی صورتحال سے بچنے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور اب آرڈیننس کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش کی تو اپوزیشن نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کر ڈالا قانونی حوالے سے تو پاکستان اب اس امر کا پابند ہے کہ اسے قانونی معاونت دے لیکن اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہوگا کہ کیا کلبھوشن یادیو کے خلاف فوجی عدالت کے فیصلہ پر عمل ہو سکے گا؟ اور اس حوالے سے محسوس یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان پر دباؤ موجود ہے مگر پاکستان اس دباؤ سے نکلنے اور سزا پر پیش رفت کیلئے ممکنہ اقدامات پر عمل پیرا ہے اب یہ معاملہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ یہ اہم اور حساس مسئلہ حکومت اور ریاست کو مل کر طے کرنا ہے صحافتی نکتہ نظر سے مذکورہ ایشو پر توجہ دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جہاں مسئلہ ریاست کے مفادات کا ہو ایسے کسی ایشو پر سیاست کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایک بھارتی جاسوس نے پاکستان میں آ کر یہاں دہشت گردی اور تخریب کاری کا نیٹ ورک قائم کیا اور اس کے مذموم اور مکروہ ایجنڈا کے تحت بہت سے پاکستانی اپنی جان سے گئے لہٰذا ریاست پاکستان کے دشمن کے حوالے سے کوئی ایسا عمل یہاں نہیں ہونا چاہیے جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کوئی فائدہ اسے حاصل ہو لیکن یہ ہماری قومی سیاسی بد قسمتی بن گئی ہے کہ کسی بھی ایشو پر سیاست کو لازم سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی محاذ پر گندا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
بھارت کی عدم دلچسپی اور عدم سنجیدگی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی عمل چاہتا ہے جس کے نتیجے میں کلبھوشن یادیو کے حوالے سے فیصلہ کا اختیار خود عالمی عدالت کے پاس چلا جائے اور وہ اپنے جاسوس کے کیس کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کیلئے استعمال کر سکے لہٰذا پاکستان نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ممکنہ اقدامات پر پیش رفت کی ہے اور کوئی ایسا عمل نہیں چھوڑا جا رہا کہ یہ کیس واپس عالمی عدالت میں جائے اور کلبھوشن یادیو کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والے فیصلہ پر پیش رفت رک جائے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ایک دشمن ملک کے دہشت گرد کی جانب سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور تخریب کاری کے مذموم عمل پر پاکستان ہر حوالے سے یک زبان ہوگا اور یہاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے بھارتی دہشت گرد کو اس کے انجام پر پہنچانے کیلئے مؤثر آواز بلند ہو گی۔